encyclopedia

بے سایہ پیکرِ انور

Published on: 11-Oct-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ محمد حسیب احمد،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 10، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 257-277)

اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بے شمار خصوصی صفات بخشی ہیں ،انہی کے سر پر اولیت کا تاج رکھا اور انہی کی پیشانی پر آخرت کا سہرا باندھا،انہی کو آخری نبی بنا کر بھیجا اور انہی کو معراج کی رات میں تمام انبیاء کرامAlaihmus Salamکا امام بنایا۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو جہاں صدہا معجزے بخشے وہاں یہ معجزہ بھی عطا فرمایا کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسم شریف کو بے سایہ بنایا۔ دھوپ چاندنی چراغ وغیرہ کی روشنی میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسم اطہر کا بالکل سایہ نہ ہوتا تھا بلکہ جو لباس حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پہنے ہوتے تھے وہ لباس بھی بے سایہ ہو جاتا تھا۔

اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بشری جسم اقدس کو ایسا لطیف ونظیف اور پاکیزہ ومطہر کردیا تھا کہ اس میں کسی قسم کی عنصری اور مادی کثافت باقی نہ رہی تھی۔ اس لیے چاند، سورج، چراغ وغیرہ کی روشنی میں جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تشریف فرما ہوتے تو جسم اقدس اس روشنی کے لیے حائل نہ ہوتا تھا اور دیگر اجسام کثیفہ کی طرح حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسم پاک کا کوئی تاریک سایہ نہ پڑتا تھا۔کیونکہ سایہ اس جگہ کی تاریکی کو کہتے ہیں جہاں جسم کثیف کے حائل وحاجب ہوجانے کی وجہ سے چاند سورج وغیرہ کی روشنی نہ پہنچ سکےجبکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسمِ مبارک میں کثافت ہی نہ تھی ۔وہ تو نورانی جسم انور تھا جوکسی روشن چیز کی روشنی کے لیے حائل نہیں ہوتاتھا اور اسی لیے تاریک سایہ سے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا جسم اطہر پاک تھا۔

رسول ِ اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا بحیثیتِ نور قرآن مجید میں ذکر

اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسم اطہر کو کائنات کی ہر شے سے زیادہ لطیف و نظیف بنایا اور اسے مادی اور عنصری کثافت سے مبرّا رکھا۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو سراپا نور قرار دیاہے۔چنانچہ اﷲ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

قَدْ جَاۗءَكمْ مِّنَ اللّٰه نُوْرٌ وَّكتٰبٌ مُّبِینٌ151
بیشک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید) ۔

اس آیت مبارکہ میں نور سے مراد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ذات اقدس ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے امام علی بن احمد الواحدیRehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

قد جاء كم من اللّٰه نور یعنى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم.2
تحقیق تمہارے پاس نور آیا یعنی نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam آئے۔

امام عبدالرحمن ثعلبی Rehmatullah Alaihنے بھی اسی طرح تحریر فرمایا ہے ۔3 اسی طرح امام بغوی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

قد جاء كم من اللّٰه نور یعنى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم.4
تحقیق تمہارے پاس نور آیا یعنی نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam آئے۔

اسی حوالہ سے امام ابن جوزی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

قوله تعالى قد جاء كم من اللّٰه نور قال قتادة: یعنى بالنور النبى محمد صلى اللّٰه علیه وسلم.5
باری تعالیٰ کا ارشاد مقدس قدجاء کم من اللہ نور کے بارے میں حضرت قتادۃ Radi Allah Anhoنے فرمایا کہ:نور سے مراد (سیّدنا)محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہیں۔

اسی طرح ایک اور مقا م پر قرآن ِمجیدنے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ذات اقدس کو فقط نور ہی قرار نہیں دیا بلکہ اسے سراجامنیرا بھی فرمایا۔چنانچہ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد مقدس ہے:

یاَيُّھا النَّبِى اِنَّآ اَرْسَلْنٰك شَاھدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیرًا45وَّدَاعِیا اِلى اللّٰه بِـاِذْنِه وَسِرَاجًا مُّنِیرًا466
اے نبیِ (مکرّم!) بیشک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے، اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)۔

قرآن مجید نے چاند کو بھی دوسری جگہ منیرا فرمایا ہے۔چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

تَبٰرَك الَّذِى جَعَلَ فِى السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیھا سِرٰجًا وَّقَمَـــرًا مُّنِیرًا61. 7
وہی بڑی برکت و عظمت والا ہے جس نے آسمانی کائنات میں (کہکشاؤں کی شکل میں) سماوی کرّوں کی وسیع منزلیں بنائیں اور اس میں (سورج کو روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور (اس نظامِ شمسی کے اندر) چمکنے والا چاند بنایا۔

کیونکہ وہ خود چمکنے کےساتھ ساتھ مکمل روئے زمین چمکاتا بھی ہے ۔ اسی طرح حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بھی مذکورہ بالا آیت میں سراجامنیر افرمایاگیا ہے کہ حضور اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خود بھی چمک رہے ہیں اور صحابہ کرامRadi Allah Anhum و اولیاء اﷲ کو نور بھی بنارہے ہیں کہ یہ سب کے سب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہی کے طفیل و وسیلہ سے جگمگارہے ہیں۔

جب قرآن کریم نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسمِ اطہر کو سراپا سراج منیر قرار دیا ہے تو اس کے بعد اس میں مادی کثافت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ قرآن کی بیان کردہ اس مقدس نورانیت کو ائمہ اسلام نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسم اطہر کے سایہ نہ ہونے پر دلیل بنایا ہے۔

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور دعائے نور

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جوجو اپنے رب تبارک وتعالیٰ سے چاہا تو ربُّ العزّت نے وہ سب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کوعطا فرمایا۔اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی دعاؤں میں سے ایک دعائے نور بھی ہے۔جس کے حوالہ سےحضرت عبداﷲ بن عباس Radi Allah Anhumaسے مروی ہے کہ حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دعا فرمائی:

اللّٰھم اجعل لى نورا فى قلبى ونورا فى قبرى ونورا من بین یدى ونورا من خلفى ونورا عن یمینى ونورا عن شمالى ونورا من فوقى ونورا من تحتى ونورافى سمعى ونورا فى بصرى ونورا فى شعرى ونورا فى بشرى ونورا فى لحمى و نورا فى دمى ونورا فى عظامى اللّٰھم اعظم لى نورا واعطنى نورا واجعل لى نورا.8
اے اﷲ میرے لیے میرے دل میں نور کردے، اور میری قبر میں نور اور میرے آگے نور اور میرے پیچھے نور اور میرے دائیں نور اور میرے بائیں نور اور میری سماعت میں نور اور میری بصارت میں نور اور میرے بالوں میں نور اور میری جلد میں نور میرے گوشت میں نور اور میرے خون میں نور اور میری ہڈیوں میں نور اے اﷲ تعالیٰ میرے لیے بہت ہی زیادہ نور کردے اور مجھ کو نور عطا کردے اور میرے لیےنوربنا۔

اس حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ آپ کے جسم اطہر کا ہر عضو نور ہے۔ جب آپ کے جسم اطہر کا ہر ہر عضو نور اور پھر اس کے بھی دائیں بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے اندر باہر نور ہی نور ہے تو پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا سایہ کیسے ہوسکتا تھا؟ امام زرقانی Rehmatullah Alaihاسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

قال غیرہ ویشھد له قوله صلى اللّٰه علیه وسلم فى دعائه لما سال للّٰه تعالى ان یجعل فى جمیع اعضائه وجھاته نوراً ختم بقوله واجعلنى نوراً اى والنور لاظل له وبه یتم الاستشھاد.9
اور ان کے علاوہ دوسرے علماء محدثین Rehmatullah Alaih نے فرمایا : حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سایہ نہ ہونے پر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا وہ قولِ مبارک جو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی دعا میں( گواہی دیتا )ہےکہ جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اﷲ تعالیٰ سے سوال کیا کہ اﷲ تعالیٰ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے تمام اعضاء میں اور جمیع جہات میں نور کردے تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی اس دعا کو اس قول پر ختم فرمایا ’’واجعلنی نوراً‘‘ یعنی مجھے بالکل نور کردے۔ یہ جملہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سایہ نہ ہونے پر اس لیے شہادت دیتا ہے کہ نور کا سایہ نہیں ہوتا اور اسی کے ساتھ یہ استشہاد تمام اور پورا ہوجاتا ہے۔

ان روایات سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا جسم اطہر انتہائی لطافت کی بناء پر بے سایہ تھا اور کسی بھی قسم کی روشنی میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے مقدس و لطیف جسد مبارک کا سایہ نہیں ہوتا تھا۔

عدمِ سایہ پر دال حدیث ِ متصل ومرفوع

بعض لوگ حدیث ذکوان Radi Allah Anhoکو مرسل قرار دیتے ہوئے اسے قابل استدلال نہیں سمجھتے جبکہ اس کے بارے میں فقط حدیث ذکوان ہی نہیں بلکہ دیگر روایات بھی منقول ہیں۔ان میں سے ایک حضرت عبداﷲ بن عباسRadi Allah Anhuma سے مروی ہے جو متصل بھی ہے۔ امام زرقانی Rehmatullah Alaihنے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

فھو مرسل لكن روى ابن مبارك وابن جوزى عن ابن عباس رضى للّٰه عنھما لم یكن للنبى صلى اللّٰه علیه وسلم ظل.10
حدیث ذکوان بے شک مرسل ہے مگر امام عبداﷲ بن مبارک اور امام ابن جوزی Rehmatullah Alaihنے سیّدنا عبداﷲ بن عباس Radi Allah Anhumaسے متصلا ًذکر کیا ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا سایہ مبارک نہیں تھا۔

عدم سایہ کے بارے میں حضرت عثمان Radi Allah Anho کا قول بھی مروی ہے ۔مدارک التنزیل میں امام نسفی"لولا اذ سمعتموہ" کی تفسیر کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں کہ جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت عائشہ Radi Allah Anhaکے بارے میں حضرت عثمان Radi Allah Anhoسے پوچھا تو انہوں نے عرض کیا:

انماللّٰه اوقع ظلك على الارض لئلا یضع انسان قدمه على ذلك الظل.11
بےشک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا سایہ اﷲ تعالیٰ نے زمین پر واقع نہیں کیا تاکہ کہیں کوئی شخص آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سایہ اقدس پر اپنا قدم نہ رکھ دے۔

آپ Radi Allah Anhoکا یہ ارشاد حدیث تقریری کے درجے پر فائز ہے کیونکہ آپ Radi Allah Anho نے عدم سایہ کا ذکر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں کیا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس پر خاموشی اختیار فرمائی۔ اگر سایہ نہ ہونا غلط ہوتا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرت عثمان Radi Allah Anho کا رد فرمادیتے۔ا ب گویا کہ یہ قول براہ راست آقائے دو جہاں Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا اقرار پایا جسے اصطلاح محدثین میں حکماً مرفوع کہا جاتا ہے۔

جسمِ رسولِ اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور حسّی نور

علم وہدایت کی نورانیت تو حسب مراتب ودرجات ہر اہل علم اور ہدایت یافتہ شخص کو حاصل ہے۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی شانِ اقدس تمام عالم سے بلند و بالا اور افضل و اعلیٰ ہے۔ اس لیے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ذاتِ مقدسہ اور کمالاتِ مبارکہ کو عوام کی ذات وصفات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو جو صفت ملی ہے وہ دوسروں کی نسبت اکمل واتم وارفع و اعلی ہے۔

بعض اشیاء ذات ہوتی ہیں اور بعض صفات ہوتی ہیں اور نور ذات بھی ہے جیسے چاند وسورج اور صفات بھی جیسے ایمان و ہدایت۔جو چیزیں ذات وعین نہیں بلکہ محض معنی و صفت ہیں جب ان کے لیے لفظ ِنور بولا جائے گا تو اس کے معنی اس چیز کے حسب حال ہوں گے۔ یعنی وصفی اور معنوی نورانیت اور جو چیزیں ذات اور صفت سب کی جامع ہوں گی ان کے لیے جب لفظ نور کا اطلاق ہوگا تو اس سے وہی نورانیت مراد ہوگی جو ان چیزوں کے حسب حال اور شایانِ شان ہے۔یعنی عین و معنی دونوں قسم کی جامع نورانیت۔ لہٰذا قرآن و تورات، اسلام وایمان اور علم وہدایت ان سب چیزوں کے لیے جو لفظ نور قرآن و حدیث میں وارد ہوا ہے اس سے وصفی اور معنوی نورانیت کے معنی مراد ہوں گے کیونکہ یہ سب چیزیں از قبیل اوصاف ومعانی ہیں اور ظاہر ہے کہ معنی کا عین اور وصف کا ذات ہونا محال ہے۔ ہاں! ایسی چیز جو ’’ذات ووصف‘‘ دونوں کی حامل اور ’’عین ومعنی‘‘ دونوں کی جامع ہواس کی نورانیت بھی ہر دو قسم کی نورانیت کی جامع ہوگی۔

چونکہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ذات اور صفت دونوں کے جامع ہیں اس لیے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے جو لفظ قرآن و حدیث میں وارد ہوا ہے اس سے مراد وہی نور ہوسکتا ہے جو عین ومعنوی اورذاتی ووصفی ہر قسم کی نورانیت کا جامع ہو۔ جس کا ماحصل یہ ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اسلام وایمان، ہدایت وقرآن، علم و عرفان تمام انوارِ معانی واوصاف کے حامل ہیں اور اس کے علاوہ جملہ انوارو اعیان یعنی ذات وعین کے قبیل سے جس قدر نور ہیں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ان سب کے بھی جامع ہیں۔12

صحابہ کرام Radi Allah Anhum جب رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے چہرہ انور کا تذکرہ کرتے تو کئی صحابہ کرام یہ جملہ ضرور ارشاد فرماتے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا چہرہ اس طرح چمکتا تھا جس طرح چودھویں کا چاند۔اس روایت میں یہ جملہ بھی نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نورانیت کو ظاہر کرتا ہے۔چنانچہ یہ جملہ کئی روایات میں منقول ہوا ہے۔ حضرت حسن مجتبیٰ Radi Allah Anhoنے اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ہالہ سے عرض کی کہ حضور نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا حلیہ مبارک مجھے بتائیے آپ نے جواب دیا:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فخما مفخما یتلا لاوجھه تلالو القمر لیلة البدر… الخ.13
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam لوگوں کی نگاہوں میں بڑے جلیل القدر اور عظیم الشان دکھائی دیتے تھے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا چہرہ اس طرح چمکتا تھا جس طرح چودھویں کا چاند۔

اس کا معنی بیان کرتے ہوئےحضرت ابراہیم بن محمد بیجوری Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

ومعنى یتلالؤ یضىء ویشرق كاللؤلؤ وقوله تلالؤ القمر لیلة البدر اى مثل تلالؤ القمر لیلة البدر.14
یتلالؤ کے معنی روشن ہونے اور چمکنے کے ہیں جیسے موتی چمکتا ہے اور تلالؤالقمر لیلۃ البدر کے معنی یہ ہیں کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا چہرۂ انور اس طرح چمکتا تھا جیسے چودہویں رات میں چاند چمکتا ہے۔

حضرت جابر بن سمرہ Radi Allah Anhoفرماتے ہیں :

رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى لیلة اضحیان و علیه حلة حمرآء فجعلت انظر الیه والى القمر فلھو عندى احسن من القمر.15
میں نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو چودہویں رات میں دھاری دار سرخ یمنی جوڑا پہنے ہوئے دیکھا میں (کبھی) آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف دیکھتا اور کبھی چاندی کی طرف تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میرے نزدیک چاند سے یقینا زیادہ حسین تھے۔

حضرت ابراہیم بن محمد بیجوری Rehmatullah Alaihاس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:

وفى روایة فى عینى بدل عندى والتقیید بالعندیة فى الروایة الاولى لیس للتخصیص فان ذلك عند كل احد راه كذالك .16
ایک اور روایت میں "عندی" کی بجائے "فی عینی" آیا ہے اور روایت اولیٰ میں "عندی" کی قید تخصیص کے لیے نہیں ہے، یعنی یہ مطلب نہیں کہ میرے ہی نزدیک حضور چاند سے زیادہ حسین تھے بلکہ فی الواقع ہر دیکھنے والے کے نزدیک حضور ﷺچاند سے زیادہ حسین تھے۔

اس کے بعدحضرت ابراہیم بن محمد بیجوریRehmatullah Alaih اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:

وانما كان صلى اللّٰه علیه وسلم احسن لان ضوء ہ یغلب على ضوء القمر، بل وعلى ضوء الشمس ففى روایة لابن المبارك وابن الجوزى لم یكن له ظل، ولم یقم مع شمس قط الاغلب ضوءہ على ضوء الشمس ولم یقم مع سراج قط الاغلب وضوءہ على ضوء السراج.17
اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam چاند سے زیادہ حسین اس لیے تھے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی روشنی چاند کی روشنی بلکہ سورج کی روشنی پر غالب رہتی تھی۔ کیونکہ سیّدناابن مبارک اور علامہ ابن جوزی محدث کی روایت میں آیا ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا سایہ نہ تھااور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کبھی سورج کے سامنے کبھی کھڑے ہوئےتو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی روشنی سورج کی روشنی پر غالب ہوجاتی تھی۔اسی طرح کبھی حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam چراغ کے سامنے بھی کھڑے ہوتے توچراغ کی روشنی پر بھی حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی روشنی غالب رہتی تھی۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جس طرح معنوی و صفتی نور کا پیکرِ انور ہیں بالکل اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حسّی نور کا بھی پیکر ہیں کہ جس کا سایہ اس لیے نہ تھا کہ آپ کی روشنی سورج و چاندو دیگر نورانی چیزوں پر غالب آجایا کرتی تھی۔

صحابہ کرام Radi Allah Anhumاور نورِ حسّی

حضرت عبداﷲ بن عباس Radi Allah Anhuma سے مروی ایک روایت میں اس طرف واضح اشارہ بھی ملتا ہےجس سے مذکورہ بات کی تصدیق بھی ہوجائے گی۔چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عباس Radi Allah Anhaفرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلج الثنیتین اذا تكلم روى كالنور یخرج من بین ثنایاہ.18
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سامنے دانتوں کے درمیان موزوں فاصلہ تھا جب گفتگو فرماتے تو ان ریخوں سے نور کی شعائیں پھوٹتی دکھائی دیتیں ۔

اسی طرح آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمسکراتے تو ایسا لگتا جیسے موتیوں کی لڑیاں فضا میں بکھر جاتیں اور چہرہ انور گلاب کے پھول کی طرح کھل اُٹھتا۔چنانچہ قاضی عیاض مالکی اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

إذا افتر ضاحكا افتر عن مثل سنا البرق وعن مثل حب الغمام، إذا تكلم رى كالنور یخرج من ثنایاه.19
جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamتبسم فرماتے تو دندان مبارک بجلی اور بارش کے اولوں کی طرح چمکتے جب گفتگو فرماتے تو ایسے دکھائی دیتا جیسے دندان مبارک سے نور نکل رہا ہے۔

حضرت ابراہیم بن محمد بیجوریRehmatullah Alaih اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:

اى راى شىء له صفاء یلمع كالنور یخرج من بین ثنایاه ویحتمل ان یكون الكاف زائدة للتفخیم ویكون الخارج حینئذ نوراً حسیا معجزة له صلى اللّٰه علیه وسلم.20
حدیث کے معنی یہ ہیں کہ نور کی طرح صاف شفاف چیز چمکتی ہوئی دیکھی جاتی جو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے نورانی دانتوں کے درمیان سے نکلتی تھی۔ یہاں یہ احتمال بھی ہے کہ "کالنور"میں کاف زائدہ ہواورتفخیم کے لیے بڑھادیا گیا ہو۔ اس تقریرپر نور حسی تھا جو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دندان مبارک کے درمیان سے بطور ظہور معجزہ چمکتا تھا۔

اسی طرح اس حوالہ سےامام طبرانیRehmatullah Alaih روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو قرصافہRadi Allah Anho فرماتے ہیں کہ جب میں اورمیری والدہ اور میری خالہ حضور نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بیعت کرکے واپس آئے تو میری والدہ اور میری خالہ نے کہا:

ما راینا مثل ھذا الرجل احسن منه وجھا ولا انقى ثوبا ولا الین كلاما وراینا كالنور یخرج من فیه.21
ہم نے اس شخص کی مثل خوبصورت چہرے والا، پاکیزہ لباس والا، نرم اور میٹھے کلام والا کوئی نہیں دیکھا اور ہم نے دیکھا کہ گفتگو کے وقت ان کے منہ سے نور نکلتا ہے۔

اسی طرح سیّدناکعب بن مالک Radi Allah Anho فرماتے ہیں :

وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اذا سر استنار وجھه حتى كانه قطعة قمر وكنا نعرف ذلك منه.22
جب حبیب مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ انور چمک اٹھتا گویا کہ آپ کا چہرہ انور چاند کا ٹکڑا ہے اور ہم لوگ دیکھ کر پہچان جاتے تھے۔

ا ن مذکورہ روایات میں رسو ل اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا تذکرہ صحابہ کرام Radi Allah Anhumنے اس انداز سے کیا ہے کہ علامہ بیجوری کے اصول کے تحت عین ممکن ہے کہ ان روایات میں نورِ حسّی مراد لیاجائے۔اسی حوالہ سے ایک روایت کو بیان کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر روایت کرتے ہیں:

عن عائشة قالت:كنت قاعدة اغزل وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یخصف نعله، قالت: فنظرت الیه فجعل جبینه یعرق وجعل عرقه یتولد نورا، قالت: فبھت قالت: فنظر الى فقال: ما لک یا عائشة؟ قالت فقلت: یا رسول اللّٰه! نظرت الیك فجعل جبینك یعرق وجعل عرقك یتولد نورا ولو راك ابو كبیر الھذلى لعلم انك احق بشعره. قال: وما یقول
ابوكبیر؟ فقلت: یقول:
ومبرأ من كل غبر حيضة
وفساد مرضعة وداء مغيل
وإذا نظرت إلى أسرة وجهه
برقت كبرق العارض المتهل.23

اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ Radi Allah Anhaبیان کرتی ہیں: میں چرخا کات رہی تھی اور حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میرے سامنے بیٹھے ہوئے اپنے جوتے کو پیوند لگارہے تھے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی پیشانی مبارک پر پسینے کے قطرے تھے جن سے نور کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔ اس حسین منظر نے مجھ کو چرخا کاتنے سے روک دیا۔پس میں آپ ﷺکو دیکھ رہی تھی کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: کیا ہواعائشہ؟ میں نے عرض کیا: آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی پیشانی مبارک پہ پسینے کے قطرے ہیں جو نور کے ستارے معلوم ہوتے ہیں۔اگر ابو کبیر ہذلی (عرب کا مشہور شاعر) آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اس حالت میں دیکھ لیتا تو یقین کرلیتا کہ اس کے شعر کا مصداق آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہی ہیں: حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےفرمایا:وہ کیا شعر کہتاہے؟میں نےکہا:وہ کہتا ہے: وہ ہرناپاک خون اور موذی دودھ پلانےوالی دایہ سے محفوظ ہے۔جب میں اس کے روئے مبارک کو دیکھتا ہوں تو اس کی پیشانی کی لکیریں ایسےچمکتی ہیں جیسےآسمان پربجلی کی لکیریں چمکتی ہیں۔

مزید ایک روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ Radi Allah Anhaہی بیان کرتی ہیں :

كنت اخیط فى السحر فسقطت منى الابرة فطلبتھا فلم اقدر علیھا فدخل رسول اللّٰه افتبینت الابرة بشعاع نوروجھه فاخبرته فقال: یا حمیراء! الویل ثم الویل ثلاثا لمن حرم النظر الى وجھى.24
میں سحری کے وقت (کپڑا)سی رہی تھی مجھ سے سوئی گرگئی تومیں نے اس کو ڈھونڈا لیکن وہ مجھے نہیں ملی۔رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تشریف لے آئےتو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے چہرہ کے نور کی شعاع سے وہ سوئی مل گئی۔ میں نے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو یہ بتایا توآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا :اے حمیرا! افسوس ہو پھر تین بار فرمایا: اس شخص کے لیے افسوس ہو جو میرا چہرہ دیکھنے سے محروم رہا۔

سیّدناابوہریرہ Radi Allah Anho آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے مسکرانے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اذا ضحك كادیتلالا فى الجدار لم ارقبله ولا بعده مثله صلى اللّٰه علیه وسلم.25
جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مسکراتے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے نورِ مسکراہٹ کی شعاعیں دیواروں پر پڑنےکوہوجاتیں۔ میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مثل حسین آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے قبل اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بعد نہیں دیکھا۔

حضرت عبداﷲ بن عمر Radi Allah Anhumaآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خوشی کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یعرف رضاء ہ وغضبه بوجھه كان اذا رضى فكانما ملاحك الجدر وجھه واذا غضب خسف لونه واسود.قال ابوبكر سمعت ابا الحكم اللیثى یقول ھى المرآة توضع فى الشمس فیرى ضوءھا على الجدار یعنى قوله ملاحك الجدر ویروى یلاحك الجدر وجھه والملاحكة یرید یرى الجدر فى وجھه.26
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی رضا (خوشی) اور غصہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے چہرۂ انور سے جانا جاسکتا تھا۔ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam راضی ہوتے تو گویا دیواروں کا عکس آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے چہرۂ انور میں دکھائی دیتا اور جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam غصے ہوتے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا رنگ مبارک گہناجاتا۔ ابوبکر Rehmatullah Alaihکہتے ہیں: میں نے ابو الحکم لیثی Rehmatullah Alaihکو یہ کہتے ہوئے سنا کہ"ملاحک الجدر" سے مراد یہ ہے کہ ایک آئینہ دھوپ میں رکھا جائے تو اس کی روشنی دیوار پر دکھائی دیتی ہے اور اسے "یلاحک الجدر وجھہ" بھی روایت کیا گیا ہے اور "ملاحکۃ" سے مراد یہ ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے چہرے میں دیواریں دکھائی دیتی تھیں۔

جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے تبسم مبارک کا یہ عالم ہے کہ اس میں گویا دیواروں کا عکس نظر آتا ہے اور گمشدہ سوئیں تک مل جاتی ہے27 تو اندازہ لگائیے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نورانیت کا عالم کس درجہ عظیم ورفیع ہوگا۔اسی حوالہ سے ابن سبع نے روایت کیا ہے:

كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یضىء الیت المظلم من نوره.28
تاریک گھر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے نور سے روشن ہوجاتا تھا۔

ان احادیث میں ایسے الفاظ موجود ہیں جو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حسین نور انیت کو وضاحت کے ساتھ متعین کررہے ہیں۔چنانچہ احادیث مذکورہ سے درجِ ذیل امور معلوم ہورہے ہیں:

(1) دندان ہائے مبارک کے درمیان سے نور نکلتا ہوا دیکھا جاتا۔(2) بینی اقدس کے نور کا بینی مبارک پر غالب ہونا اور معلوم ہونا۔(3) پیشانی کے خطوط کی چمک کا مشاہدہ۔(4) نور اقدس سے دیواروں کا روشن ہوجانا ایسے امور ہیں جو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی اس چمک اور نور کے حسین اور جسمانی ہونے کو وضاحت کے ساتھ متعین کررہے ہیں۔اسی طرح اس حوالہ سے حضرت ذکوان Radi Allah Anho فرماتے ہیں:

ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم لم یكن یراله ظل فى شمس ولا قمر.29
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سایہ دھوپ میں نظر آتا تھا نہ چاند میں۔

اسی حوالہ سے مزید روشنی ڈالتے ہوئےامام جلال الدین سیوطیRehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

قال ابن سبع: من خصائصه ان ظله كان لایقع على الارض وانه كان نورا فكان اذا مشى فى الشمس او القمر لاینظر له ظل .قال بعضھم: ویشھد له حدیث قوله صلى اللّٰه علیه وسلم فى دعائه واجعلنى نورا.30
امام ابن سبع Rehmatullah Alaih نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خصوصیات کے بیان میں کہا : آپ کا سایہ دھوپ اور چاند دونوں میں اس وجہ سے نہ ہوتا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سرتا پا نور تھے۔بعض علماء نے کہا :اس کی شاہد یہ حدیث ہے جس میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی اس دعا کا ذکر ہے ‘‘یعنی اے رب مجھ کو سراپا نور بنادے۔

سیّدناعبداﷲ ابن مبارک اور حافظ علامہ ابن جوزی حضرت عبداﷲ بن عباس Radi Allah Anhuma سے روایت کرتے ہیں:

قال: لم یكن لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ظل، ولم یقم مع شمس قط الا غلب ضوءه ضوء الشمس، ولم یقم مع سراج قط الا غلب ضوءہ على ضوء السراج.31
فرمایا: نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سایہ نہ تھا اور جب بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamآفتاب کے سامنے کھڑے ہوتے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا نور آفتاب کے نور پر غالب آجاتا۔ اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamچراغ کے سامنے کھڑے ہوتےتو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا نور چراغ کے نور کو مدھم کر دیتا۔

اسی طرح کی ایک اور روایت امام عبدالرزاق Rehmatullah Alaihنقل کرتے ہیں:

ابن عباس قال لم یكن لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ظل ولم یقم مع شمس قط الاغلب وضوء ہ الشمس ولم یقم مع سراج قط الاغلب ضوء ہ ضوء السراج.32
حضرت ابن عباس Radi Allah Anhumaنے بیان فرمایا : نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سایہ نہ تھا اور جب بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamآفتاب کے سامنے کھڑے ہوتے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا نور آفتاب کے نور پر غالب آجاتا۔ اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamچراغ کے سامنے کھڑے ہوتےتو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا نور چراغ کے نور کو مدھم کر دیتا۔

ان متذکرہ بالا روایات سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سایہ نہ سورج کی روشنی میں تھا اور نہ ہی چاند یا دیگر روشنیوں میں۔جو اس بات پر واضح دلالت کرتا ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا جسدِ اقدس بے انتہاء لطیف تھا۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےبےسایہ ہونے پر ائمہ کے اقوال

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسدِ اقدس کے لطیف ہونے کی وجہ سے بے سایہ ہونے پر کئی ایک علماء امت متفق ہیں۔چناچہ امام المحدثین امام قاضی عیاضRehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

وما ذكر من انه كان لاظل لشخصه فى شمس و لاقمر لانه كان نورا وان الذباب كان لایقع على جسده ولا ثیابه.33
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دلائل نبوت ورسالت میں سے یہ بات بھی مذکور ہوئی ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسم اقدس کا سایہ اس لیے نہیں تھا کہ آپ سراپا نور تھے اور مکھی آپ کے جسم اطہر اور لباس مبارک پر نہ بیٹھتی تھی۔

امام شہاب الدین خفاجی Rehmatullah Alaih محدث ابن سبع Rehmatullah Alaihکے قول "لاظل لشخصہ فی شمس ولا قمر لانہ کان نورا" کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

(لا ظل لشخصه) أى لجسده الشریف اللطیف إذا كان( فى شمس ولا قمر) مما ترى فیه الظلال لحجب الأجسام ضوء النیرین ونحوھما، وعلل ذلك ابن سبع بقوله (لأنه) صلى اللّٰه علیه وسلم ( كان نوراً) والأنوار شفافة لطیفة لا تحجب غیرھا من الأنوار، فلا ظل لھا كما ھومشاھد فى الأنوار الحقیقیة...وقد نطق اللقرآن بأنه النور المبین وكونه بشراً لا ینافیه كما توھم، فإن فھمت فھو نورعلى نور، فإن النور ھو بنفسه المظھر لغیره.34
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مقدس اور لطیف جسم کا سایہ دھوپ اور چاندنی میں نہیں ہوا کرتا تھا۔ کیونکہ سایہ اس وجہ سے دکھائی دیتا ہے کہ اجسام کثیفہ چاند سورج کی روشنی کے لیے حاجب ورکاوٹ ہوتے ہیں (جبکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا جسم اطہر کثیف نہیں بلکہ لطیف ہے)۔ امام ابن سبع Rehmatullah Alaihنے عدم سایہ پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سراپا نور ہونے کو دلیل بنایا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ انوار لطیف اور شفاف ہونے کی وجہ سے دوسرے کے لیے رکاوٹ وحاجب نہیں ہوتے۔ اس لیے انوار کا سایہ نہیں ہوتا جس طرح کہ انوار حقیقت میں مشاہدہ کیا جاتا ہے۔۔۔ قرآن مجید آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے نور مبین ہونے پر ناطق ہے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا بشر ہونا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے نور ہونے کے ہرگز منافی نہیں۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamایسے نور ہیں جو دوسروں پر غالب ہے کیونکہ نور کہتے ہی اسے ہیں جو خود ظاہر ہو اور غیر کو ظاہر کرنے والا ہو۔

اسی طرح امام راغب اصفہانی Rehmatullah Alaihاس حوالہ سے ایک روایت نقل کرتے ہوئےلکھتے ہیں:

وروى ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان اذا مشى لم یكن له ظل.35
مروی ہے کہ جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamچلتے تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا سایہ نہ ہوتا۔

علامہ حسین محمد دیار بکریRehmatullah Alaih نے اس بات کو تحریر کیا ہے۔36 اسی طرح امام قسطلانی Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

لم یكن له صلى اللّٰه علیه وسلم ظل فى شمس ولا قمر.37
سورج اورچاندکی روشنی میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سایہ قطعاً نہیں تھا۔

امام سلیمان جمل Rehmatullah Alaih نے بھی اسی طرح تحریر کیا ہے۔ 38 اسی حوالہ سےعلامہ محمد طاہر پٹنی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

من اسمائه صلى اللّٰه علیه وسلم النور قیل من خصائصه صلى اللّٰه علیه وسلم: اذا مشى فى الارض فى الشمس والقمر لایظھر له ظل.39
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے اسمائے مبارکہ میں سے ایک "نور" بھی ہے (اسی لیے) آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے خصائص میں سے بیان کیا گیا ہے کہ دھوپ اور چاندنی میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سایہ نہ ہوتا تھا۔

امام حلبی Rehmatullah Alaihآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے نور ہونے کی تصریح بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

وانه صلى اللّٰه علیه وسلم اذا مشى فى الشمس او فى القمر لایكون له ظل لانه كان نورا.40
بے شک حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجب سورج یا چاند کی روشنی میں چلتے تھے تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سایہ نہ ہوتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنور تھے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا۔

اس کی مزید تشریح و توضیح کرتے ہوئےامام ابن حجر مکی Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

ومما یؤید انه صلى اللّٰه علیه وسلم صار نورا انه كان اذا مشى فى الشمس والقمر لایظھر له ظل لانه لایظھر الا للكثیف وھو صلى اللّٰه علیه وسلم قد خلصه للّٰه من سائر الكثافات الجسمانیة وصیره نورا صرفا لایظھر له ظل اصلا.41
اور جو چیز اس بات کی تائید کرتی ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنور خالص ہوگئے یہ ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجب سورج یا چاند کی روشنی میں چلتے تھے تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سایہ ظاہر نہ ہوتا تھا کیونکہ سایہ صرف جسم کثیف کا ظاہر ہوتا ہے، اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو اﷲ تعالیٰ نے تمام جسمانی کثافتوں سے خالص کرکے ایسا نور محض بنالیا تھا جس کا سایہ اصلا ً ظاہر نہ ہوتا تھا۔

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

وسایه ایشاں بر زمین نمى افتاد.42
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا۔

اسی حوالہ سے مزید تشریح کرتے ہوئے حضرت مجدد الف ثانی Rehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

وبكشف صریح معلوم گشته است كه خلقت آں سرور علیه و على آله الصلوٰة والتسلیمات ناشى ازیں امكان است كه بصفات اضافیه تعلق دارد، نه امكانیكه درسائر ممكنات عالم كائن است، ھر چند بدقت نظر صحیفه ممكنات عالم رامطالعه نموده مى آید، وجود آں سرور آنجا مشھود نمى گردد، بلكه منشاء خلقت وامكان او علیه و على آله الصلوٰةوالسلام درعالم ممكنات نباشد بلكه فوق ایں عالم باشد ناچار اور اسایه نبود، ونیز درعالم شھادت سایه ھر شخص لطیف ترست وچوں لطیف ترازوى درعالم نباشد اور اسایه چه صورت دارد، علیه و على آله الصلوٰة والتسلیمات.43
اور کشف صریح سے معلوم ہوا کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خلقت اس امکان سے ناشی ہے جو صفات اضافیہ سے تعلق رکھتا ہے، نہ اس امکان سے جو تمام عالم ممکنات میں ہے۔جس قدر بھی دقت نظر سے صحیفہ ممکنات عالم کا مطالعہ کیا جائے توآں سرور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا وجود مبارک وہاں (امکان ممکنات سے متصف ہوکر) ظاہر نہیں ہوتا(حتیٰ کہ) حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خلقت وامکان کا منشا عالم ممکنات میں بالکل نہیں پایا جاتا بلکہ منشا خلقت محمدی اس عالم امکان سے بالاتر ہے لہٰذا ناچار حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سایہ نہ تھا۔نیز عالم شہادت میں ہر شخص کا سایہ اس سے لطیف تر ہوتا ہے۔ جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے لطیف ترعالم میں کوئی چیز ہو نہیں سکتی تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سایہ کیونکر ہوسکتا ہے۔

ایک اور مقام پر حضرت مجدد الف ثانیRehmatullah Alaih اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئےفرماتے ہیں:

ممكن چه بود كه ظل واجب باشد واجب را تعالى چرا ظل بود موھم تولید مثل است ومبنى برشائبه عدم كمال لطافت اصل ھرگاہ محمد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم را از لطافت ظل نبود خدائے محمد راچگونه ظل باشد.44
کیسے ممکن ہے کہ واجب کا سایہ ہو؟واجب تعالیٰ کے لیے تو سایہ کا ہونا ممکن ہی نہیں کہ اس سے تولید مثل کا وہم پیداہوتا ہے اور عدم ِلطافتِ اصل کا مظہر ہے۔ جب کمالِ لطافت کی وجہ سے محمد رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سایہ نہ تھا تو خدائے محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سایہ کیونکر ہوسکتا ہے؟

یعنی کہ جب اللہ تبارک وتعالی واجب الوجود ہے اور اس کا سایہ نہیں ہے کیونکہ اس سے یہ وہم پیدا ہوتا کہ جب سایہ ہے تو مثل بھی ممکن ہے اسی لیے واجب الوجود کا سایہ نہیں ہے۔اسی طرح حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی اصل بھی نور الہیہ کی تجلی ہے تبھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا بھی سایہ نہیں ہے۔

عدم سایہ تواتر سے ثابت ہے

بعض علماء نے اس بات کی تصریح کردی ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا جسم اطہر کا سایہ نہ ہونا تواتر سے ثابت ہے۔رشید احمد گنگوہی "امداد السلوک" میں اس مسئلہ پر یوں رقمطراز ہیں:

وازیں جا است كه حق تعالى در شان حبیب خود صلى اللّٰه علیه وسلم فرمود كه البته نز وشما از طرف حق تعالى نور وكتاب مبین ومراد از نور ذاتِ پاك حبیب خداصلى اللّٰه علیه وسلم ھست ونیز او تعالى فرماید كه اے نبى صلى اللّٰه علیه وسلم ترا شاھد ومبشر ونذیر وداعى الى اللّٰه وسراج منیر فرستاده ایم ومنیر روشن كنند ونور دهنده راگویند پس اگر كسے را روشن كردن از انساناں محال یودے آں ذات پاك صلى اللّٰه علیه وسلم راھم ایں امر میسر نیامدے كه آں ذات پاك صلى اللّٰه علیه وسلم ھم از جمله اولاد آدم اند مگر آنحضرت صلى اللّٰه علیه وسلم ذات خود را چناں مطھر فرمود كه نور خالص گشتند و حق تعالى آنجناب سلامه‘ علیه را نور فرمود وبتواتر ثابت شدكه آنحضرت عالى سایه نداشتند وظاھراست كه بجز نور همه اجسام ظل مى دارند.45
اور اسی جگہ سے یہ بات ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے حبیب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی شان میں فرمایا کہ تمہارے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نور آیا اور کتاب مبین آئی اور نور سے مراد حبیب خدا Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ذات پاک ہے، نیز اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہم نے آپ کو شاہد ومبشر اور نذیر اور داعی الی اﷲ تعالیٰ اور سراج منیر بناکر بھیجا ہے اور "منیر" روشن کرنے والے اور نور دینے والے کو کہتے ہیں، پس اگر انسانوں میں سے کسی کو روشن کرنا محال ہوتا تو آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ذات پاک کے لیے یہ امر میسر نہ ہوتا، کیونکہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ذات پاک بھی جملہ اولاد آدم Alaihis Salamسے ہے، مگر آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنی ذات پاک کو ایسا مطہر فرمالیا کہ نور خالص ہوگئے اور حق تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نور فرمایا اور تواتر سے ثابت ہے کہ آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسایہ نہیں رکھتے تھے اور ظاہر ہے کہ نور کے سوا تمام اجسام کا سایہ ہوتا ہے۔

غلبہ نور کی وجہ سے بشریت بھی بے سایہ تھی

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ذاتِ اقدس سراپا نور تھی اس لیے سایہ نہ ہونا کوئی عجیب بات نہ تھی کیونکہ نور کا سایہ واقعتا نہیں ہوتا۔ مگر جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاس عالم شہادت و دنیا میں انسانیت کی بھلائی کے لیے لباسِ بشریت میں تشریف لائے تو اس لباس کے باوجود اﷲ پاک نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سایہ پیدا نہ فرمایا۔ اس کی واضح وجہ تو یہ ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مبارک بشریت بھی نور سے مغلوب تھی اس لیے قرآن مجید نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی دونوں شانیں بیان فرمائیں ہیں۔چنانچہ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد مبارک ہے:

وَلَلْاٰخِرَة خَیرٌ لَّك مِنَ الْاُوْلٰى446
اور بیشک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلے سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے۔

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی Rehmatullah Alaihاس آیت مبارکہ کی تفسیر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے درجات میں جو بلندی عطاء فرمائے گا ان میں سے ایک یہ ہے :

اول تاآنكه بشریت ترا اصلا وجود نماند وغلبه نور حق پر تو على سبیل الدوام حاصل شود.47
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں بشریت کا وجود بالکل نہ رہے گا اور نور حق کا غلبہ دائمی طور پر حاصل ہوجائے گا۔

رسولِ اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے عدمِ سایہ کی حکمت

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا جسداقدس و اطہر چونکہ انتہائی لطیف تھا جس کا مشاہدہ صحابہ کرام Radi Allah Anhumاپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی کیاکرتے تھے۔ جب منافقین حضرت ام المومنین عائشۃالصدیقۃ Radi Allah Anha پر معاذ اللہ افتراء پردازی کرہے تھے تو اگرچہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنی رفیقہ حیات کی معصومیت کے بارے میں باخبر تھے جس کا ذکر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنے جاں نثار صحابہ Radi Allah Anhumکے سامنے ان الفاظ میں فرما بھی دیا تھا:

واللّٰه ما علمت على اھلى الا خیرا.48
خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ میری اہلیہ کا دامن اس تہمت سے پاک ہے۔

حقیقت حال سے باخبر ہونے کے باوجود آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس مسئلہ میں مصلحتاً سکوت اختیار فرمایا اور بایں خیال کچھ کہنا گوارا نہ کیا کہ یہ بدبخت میری کہی ہوئی بات کب مانیں گے؟ چنانچہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamحضرت عائشہ صدیقہ Radi Allah Anha کی برأت کے بارے میں وحی الٰہی کے منتظر رہے اور پھراس کی براءت کا اعلان خود رب کائنات نے قرآنِ مجید کی کئی آیات مبارکہ نازل فرماکر کیا۔ 49آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے بعض صحابہ کرامRadi Allah Anhum سے اس معاملہ پر فرداً فرداً رائے طلب کی تو انہوں نے اپنی اپنی محبت کا اظہار بڑے ہی احسن پیرائے میں کیا۔

سیّدنافاروق اعظم Radi Allah Anhoنے عرض کی یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam! میں اس بات پر یقین کامل رکھتا ہوں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور منافقین کی شرارت ہے ۔50 حضرت علی نے بھی اسی مفھوم کے مثل کلام کیا۔51 اسی طرح ایک روایت میں منقول ہےکہ اس موقع پر حضرت ذوالنورین عثمان ابن عفان نے بارگاہ عالیہ میں یوں عرض کیا:

قال عثمان: ان للّٰه ما اوقع ظلك على الارض لئلا یضع انسان قدمه على ذالك الظل فلما لم یكن احداً من وضع القدم على ظلك كیف یمکن احدا من تلوكث عرض زوجتک.52
جناب عثمان Radi Allah Anho نے عرض کیا : یارسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamرب نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سایہ زمین پر نہ ڈالا تاکہ کوئی شخص اس سایہ پر قدم نہ رکھ سکے تو جب رب تعالیٰ نے کسی کوآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سایہ پر قدم رکھنے کا موقع نہ دیا تو کسی کو یہ قدرت کیسے دے گا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی پاک زوجہ کی عصمت پر داغ لگائے۔

عظیم محدث امام رزین Rehmatullah Alaihحضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسد اطہر کا سایہ نہ ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:

لغلبة انواره.53
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے انوار کےغلبہ کی وجہ (سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسم اطہر کا سایہ نہیں تھا) ۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی Rehmatullah Alaihاپنے ذوق کے مطابق توجیہ پیش کرتے ہیں کہ اگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا مبارک سایہ ہوتا تو ممکن تھا کہ زمین کے کسی ناپاک حصے پر واقع ہوجاتا اور اﷲ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں۔چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

نمى افتد حضرت را سایه بر زمین كه محل نجاست است.54
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سایہ اقدس اس لیے نہیں پڑتا تھا کہ زمین محل نجاست ہے۔

اسی طرح امام زرقانی Rehmatullah Alaihسایہ نہ ہونے کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وحكمة ذلك صیانته عن ان یطاء كافر على ظله.55
یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تکریم کی وجہ سے تھا کہ کہیں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سایہ پر کسی کافر کا قدم نہ آجائے۔

امام ترمذی Rehmatullah Alaihنے بھی حضرت ذکوان سے مروی حدیث کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھا کہ سایہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے:

لئلا یطاعلیه كافر فیكون مذلة له.56
تاکہ کوئی کافر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سایہ پر قدم نہ رکھ سکے ورنہ یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تکریم کے خلاف ہوتا۔

یعنی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سایہ نہ ہونے کی وجہ فی الحقیقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا عظیم الشان مرتبہ ہے جو اللہ تبارک وتعالی نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو عطا فرمایا تھا۔اس کے علاوہ متذکرہ بالا تمام روایات سے درجِ ذیل فوائد معلوم و ثابت ہوئے۔

  1. آیت کریمہ قَدْ جَاۗءَكمْ مِّنَ اللّٰه نُوْرٌ وَّكتٰبٌ مُّبِین57میں نور سے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ذات پاک مراد ہے۔
  2. حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسراج منیر ہیں اور منیر روشن کرنے والے اور نور دینے والے کو کہتے ہیں۔
  3. بشری جسم سے عنصری اور مادی کثافتوں کا دور ہوجانا محال نہیں بلکہ واقع ہے۔
  4. حضور ﷺ نے اپنی ذات پاک کو ایسا مطہر فرمایا کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنور خالص ہوگئے اور اﷲ تعالیٰ نے حضور کو نور فرمایا۔
  5. بشریت اور نورانیت کا جمع ہونا ممکن ہے۔
  6. حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسم پاک کا سایہ نہ تھا۔
  7. حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسم اطہر کا سایہ نہ ہونا تواتر سے ثابت ہے۔
  8. نور کے سوا تمام اجسام سایہ رکھتے ہیں۔

حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے نور ہونے پر شرعی و نقلی دلائل پیش کیے گئے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسانی مشاہدات و تجربات اور روئے زمین پر پھیلی ہوئی مختلف النوع مخلوقات کا اگر جائزہ لیا جائے تو صرف مچھلیوں میں نو سے زائد اقسام وہ ہیں جن کے جسم باقاعدہ روشنی دیتے ہیں، درختوں میں کئی درخت ایسے ہیں جن میں سے روشنی نکلتی ہے، اسی طرح پرندوں میں کئی پرندے ایسے ہیں جن کے جسم سے باقاعدہ رات کے وقت خارج ہونے والی روشنی کو ہر بینا شخص دیکھ سکتا ہے اور اجرام فلکی کی رات و دن نکلنے والی روشیوں (Lights) سے اگر ہم مستفید نہ ہوں تو شاید، انسانوں کے لیے زمین پر زندہ رہنا ہی محال (Impossible) ہوجائے۔ چاند، سورج، تارے اور دوسرے سیارات کی روشنی (Light) پر کبھی کوئی شخص معترض نہیں ہوسکتا ورنہ خود اس شخص کی ذہنی حیثیت بھی مشکوک ہوسکتی ہے۔

مذکورہ بالا تمام مخلوقات اپنی خِلْقَتْ میں مادی ہونے کے باوجود نورانیت کے (Aspect) سے غالب ہیں اور یہ غلبہ اتنا زیادہ ہے کہ ہر کس و ناکس ان مخلوقات کے مادی وجود کے بجائے نورانی وصف سے پہچانتا ہے۔ سورج ، چاند اور ستارے اگر اپنی شناخت رکھتے ہیں تو وہ روشنی ہے۔

ذاتِ رسالت مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمعنوی و حسی ہر دوجہتوں سے نورٌمن نور اللہ تعالیٰ تھے۔ اور یہ آپ کا وصف بالکل اسی طرح عام انسانوں سے منفرد تھا جس طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنے دوسرے اوصاف حمیدہ میں عام انسانوں سے باالکل جداگانہ تھے۔ اگر آپ سے ہزاروں معجزات کا صدور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے نبوت کے لیے دلیل ہونے کی حیثیت سے بغیر کسی تردد کے قبول کرنا مسلمان ضروری سمجھتا ہے تو آخر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نورانیت کے امتیاز کا وصف کو قبول کرنے میں کیا امر مانع ہے۔ اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے اوصاف جسمانی کی طہارت و نظافت اور پھر اس کی لطافت اگر تمام انسانوں سے جدا ہے تو پھر آخر اس کے نورانی ہونے میں ایسا کون سا مسئلہ ہے جس کے لیے عقل و فکر کے میدان میں قلمِ سپ نازی پر سوار ہونے کے باوجود حیران و سرگرداں رہا جائے؟۔


  • 1  القرآن، سورۃ المائدہ5: 15
  • 2  علی بن احمد الواحدی،الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز، ج-1 ، مطبوعۃ: الدار الشامیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:313
  • 3  عبدالرحمن بن محمد مخلوف ثعلبی،الجواھر الحسان فی تفسیر القرآن، ج-1، مطبوعۃ: موسسۃ العلمی للمطبوعات، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 453
  • 4  حسین بن مسعود بغوی، تفسیر بغوی، ج-2، مطبوعۃ: دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:22
  • 5  ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمد جوزی، زادالمسیر، ج -2، مطبوعۃ: مکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:316
  • 6  القرآن، الاحزاب33: 46-45
  • 7  القرآن، سورۃ الفرقان61:25
  • 8  محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 3419، ج -5، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:357
  • 9  ابو عبداﷲ محمد بن عبد الباقی زرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب، ج- 5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان 1996ء، ص:525
  • 10  ایضاً
  • 11  ابو البرکات عبداﷲ بن احمد نسفی، تفسیر مدارک، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکلم الطیب، بیروت، لبنان 1998ء، ص:492
  • 12  سیّد احمد سعید کاظمی، مقالات کاظمی، ج -4،مطبوعہ: کاظمی پبلی کیشنز ،ملتان، پاکستان، 2012ء،ص :68-69
  • 13  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث: 414، ج-22، مطبوعۃ:مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر، ص:155-156
  • 14  ابراہیم بن محمد بیجوری، المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، 1956ء، ص:23
  • 15  محمد بن عیسیٰ الترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 9، مطبوعۃ : دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988 ، ص: 14
  • 16  ابراہیم بن محمد بیجوری، المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، 1956ء، ص:30
  • 17  ایضًا
  • 18  محمد بن عیسیٰ الترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث :14، مطبوعۃ : دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع بیروت، لبنان، 1988، ص:16
  • 19  قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ، ج -1،مطبوعۃ: عبد التوا ب اکیڈمی، ملتان، پاکستان، ص:39
  • 20  ابراہیم بن محمد بیجوری،المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، 1956ء، ص:34
  • 21  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث :2518، ج -3، مطبوعۃ: مکتبۃابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر، 1984ء، ص:18
  • 22  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3556، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر،2003ء، ص:744
  • 23  ابوالفداءاسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-8، مطبوعۃ: دارھجر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1997ء، ص:401
  • 24  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 107
  • 25  عبد الرزاق بن ہمام صنعانی، مصنف عبد الرزاق، حدیث: 20490، ج-11، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1403ھ، ص:259
  • 26  حسین بن مسعود بغوی، الانوار فی شمائل النبی المختارﷺ، حدیث: 298، ج -1، مطبوعۃ: دار المکتبی، دمشق، 1995ء، ص:245-246
  • 27  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 107
  • 28  محمد مہدی الفاسی، مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات، مطبوعۃ:دار ابن رجب، مصر، 1289ھ، ص:345
  • 29  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:116
  • 30  ایضًا
  • 31  ابو الفرج عبد الرحمن ابن جوزی، الوفاء باحوال المصطفی ﷺ، ج -2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 47
  • 32  عبدالرزاق بن ہمام صنعانی، الجزء المفقود من المصنف لعبدالرزاق، مطبوعۃ: مکتبۃ نو، لاہور، پاکستان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:56
  • 33  قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج-1 ، مطبوعۃ: دار القیحاء عمان،1407 ھ، ص:731-732
  • 34  شہاب الدین احمد خفاجی مصری، نسیم الریاض، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1421ھ، ص:335
  • 35  ابو القاسم حسین بن محمد راغب الاصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، مطبوعۃ: دار القلم، بیروت، لبنان، 1412ھ، ص:536
  • 36  حسین بن محمد الدیار بکری، تاریخ الخمیس فی احوال انفس النفیس ﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دارصادر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:219
  • 37  احمد بن محمد قسطلانی، المواھب اللدنیۃ ،ج -2، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 85
  • 38  سلیمان جمل، فتوحات احمدیہ شرح ہمزیہ، مطبوعۃ: دار ابن رجب، مصر،1303 ھ، ص:5
  • 39  محمدطاہر پٹنی، مجمع بحار الانوار، ج-3، مطبوعۃ: نول کشور، لکھنؤ، انڈیا، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:402
  • 40  علی بن ابراہیم حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 423
  • 41  احمد ابن حجر المکی، المنح المکیہ فی شرح الھمزیۃ، مطبوعۃ: دار المنہاج، جدۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا) ص:87
  • 42  شاہ عبد العزیز بن شاہ ولی اﷲ، تفسیر فتح العزیز،مطبوعہ: مجتبائی، دہلی، انڈیا، (سن اشاعت ندارد)، ص:219
  • 43  شیخ احمد سرہندی، مکتوبات امام ربانی، ج-3 ،مطبوعہ: نول کشور، لکھنؤ، ہند، ص:187
  • 44  ایضًا
  • 45  رشید احمد گنگوہی، امداد السلوک، مطبوعہ: بلالی دخانی پریس، ساڈھورہ ،ہند، ص :85-86
  • 46  القرآن، سورۃ الضحٰی4:93
  • 47  شاہ عبد العزیز بن شاہ ولی اﷲ، تفسیر فتح العزیز،مطبوعہ: مجتبائی، دہلی،انڈیا، ص:217
  • 48  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث : 2637، ج -3، مطبوعۃ: دمشق، السوریۃ، 1422ھ، ص:167-168
  • 49  القرآن، سورۃ النور11:24-26
  • 50  ابو البرکات عبداﷲ بن احمد نسفی، تفسیر مدارک، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکلم الطیب، بیروت، لبنان ، 1998ء، ص:492
  • 51  ایضاً
  • 52  ایضاً
  • 53  ابو عبداﷲ محمد بن عبد الباقی زرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب، ج-7 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص: 199
  • 54  الشیخ عبد الحق محدث دہلوی، مدارج النبوۃ ،ج -1،مطبوعہ: نؤل کشور ، ہند، ص:146
  • 55  ابو عبداﷲ محمد بن عبد الباقی زرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب، ج -7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء،ص:199
  • 56  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان ،1993ء، ص:90
  • 57  القرآن، سورۃالمائدۃ5: 15

Powered by Netsol Online