فتح مکہ کا معرکہ ماہ رمضان المبارک، سن 8 ہجری میں پیش آیا 1 جس میں نبی کریم کی نہایت منظم اور جامع حکمت عملی کی وجہ سے مسلمانوں نے بغیر جنگ کئے مکہ مکرمہ کو فتح کرلیا تھا۔ 2 مسلمانوں کی فوج میں اُس وقت تمام انصار و مہاجرین شامل تھے 3 جن کی تعداد لگ بھگ 10 ہزارکے قریب تھی۔ 4 یہ فتح ”فتح عظیم“ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے کیونکہ اس کامیابی کے بعد اسلام پورے عرب میں پھیلا اور لوگ پہلے کے مقابلہ میں بہت بڑی تعداد میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ 5
صلح حدیبیہ کے معاہدہ میں طے کیا گیا تھا کہ مسلمان اور قریش ایک دوسرے کے ساتھ 10 برس تک امن وامان کے ساتھ رہیں گے اور عرب قبائل کو اس بات کا اختیار ہوگا کہ وہ قریش یا مسلمانوں میں سے جس کے حلیف بننا چاہیں بن کر رہ سکتے ہیں۔ 6 معاہدہ کی اس شق کی رو سے مزید اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ حلیف بننے والے قبائل جس بھی گروہ کے ساتھ معاہدہ کریں گے وہ اس گروہ کا باقاعدہ حصہ بن جائیں گے۔ 7 اس معاہدہ کے پختہ ہونے کے بعد بنوخزاعہ مسلمانوں کے اور بنو بکر قریش کے حلیف بن گئے جس کی وجہ سے ان کے درمیان لمبے عرصہ پر محیط جنگ وجدال ختم ہوا اور مکمل امن ومان قائم ہوگیا۔ 89 اس امن وامان کے قیام کے تقریباً دوسال بعد 10 قبیلہ بنو بکر نے قریش کے تعاون سے مسلمانوں کے حلیف قبیلے بنو خزاعہ پر حملہ کر ڈالا اور معاہدے کو توڑ دیا۔ 11
بنو خزاعہ پر قبیلہ بنو بکر کے حملے کا سبب دونوں قبیلوں کے درمیان ایک پرانہ تنازعہ تھا جو اس معاہدہ پر دستخط کرنے سے قبل پیش آیا تھا۔ 12 بنو بکر قبیلہ سے تعلق رکھنے والے نوفل بن معاویہ نے اپنے قبیلہ اور قریش کے چند افراد مثلاً صفوان بن امیہ، شیبہ بن عثمان، سہیل بن عمرو اور عکرمہ بن ابو جہل کے ساتھ مل کر بنو خزاعہ قبیلہ کے بے سرو سامان اور غیر مسلح افراد جو ”الوتیر“ نامی کنویں کے قریب قیا م پذیر تھے، ان پر حملہ کر ڈالا۔ بنو خزاعہ کے لوگ اس وقت یہ قوت اور طاقت نہیں رکھتے تھے کہ وہ ان کے مقابلہ میں اپنی حفاظت کریں چنانچہ بنو خزاعہ کے کئی افراد اس حملہ میں قتل ہوگئے 13 جبکہ باقی لوگوں نے جان بچا کر حرم کی حدود میں پناہ لی۔ 14 بنو بکر کے حملہ آوروں نے جب یہ دیکھا کہ بنو خزاعہ کے بچے ہوئے لوگوں نے حرم کی حدود میں پناہ لے لی ہے تو انہوں نے اپنے سردار نوفل کو یہ کہہ کر روکنے کی کوشش کی کہ حدود حرم کے تقدس و احترام کے باعث خزاعہ کے بچے ہوئے لوگوں کا پیچھا کرنے سے گریز کیا جائے۔ نوفل نے یہ سن کر کہا:
لا إله لي اليوم، يا بني بكر، لعمري إنكم لتسرقون الحاج في الحرم، أفلا تدركون ثأركم من عدوكم، ولا يتأخر أحد منكم بعد يومه عن ثأره؟! 15
اے بنو بکر! آج میرا کوئی خدا نہیں ہے! میں اپنی قسم کھا کر کہتا ہوں! تم تو وہ لوگ ہو جو حدود حرم کے اندر حاجیوں کو لوٹا کرتے ہو! کیا تمہیں احساس نہیں کہ آج تم اپنے دشمن سے بدلہ لے سکتے ہو، اور آج کے بعد تم میں سے کوئی بھی اپنا انتقام مؤخر نہ کرے!
نوفل کی اس اشتعال انگیز گفتگو نے اس کے قبیلہ کے لوگوں میں انتقام کی آگ کو بھڑکا ڈالا چنانچہ انہوں نے حرم کی حدود کے اندر بنو خزاعہ کے غیر مسلح لوگوں کا تعاقب کیا۔ جب بنو خزاعہ کے ان باقی ماندہ لوگوں نے بھاگ کر بنو خزاعہ کے سردار بدیل خزاعی کے یہاں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ اس میں ناکام رہے کیونکہ قبل اس کے کہ وہ اپنے سردار کی پناہ میں آتے بنو بکر کے حملہ آوروں نے انہیں جا لیا اور اسی مقام پر قتل کرڈالا۔ اگلی صبح جب قریش کے عمائدین کو اس پورے واقعہ کی اطلاع ہوئی تو انہیں اپنے حلیف بنو بکر قبیلہ کے اس ظالمانہ اور سفاکانہ رویے پر شدید شرم وندامت کا احساس ہوا اور انہوں نے کھل کر بنو بکر قبیلہ کی مخالفت کی کیوں کہ اس قبیلہ نے عرب روایات کا پاس ولحاظ رکھنے کے بجائے پورے معاہدہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ اپنے قدموں تلے روند ڈالا تھا۔ 16
قبیلہ خزاعہ کے سردار عمرو بن سلیم کو جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو وہ 40 لوگوں کوساتھ لے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ آپ کو اس خون خرابہ کے بارے میں آگاہ کر سکیں۔ مدینہ منورہ پہنچ کر عمرو نے آپ
کو پوری صورتحال سےآگاہ کیا اور آپ
سے مدد کی درخواست کی۔ آپ
اس پورے واقعے کو جاننے کے بعد اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور فرمایا:
لا نصرت إن لم أنصركم بما أنصر منه نفسى. 17
میری مدد نہ کی جائے اگر میں تمہاری ایسی ہی مدد نہ کروں جیسے اپنی کرتا ہوں۔
عمرو بن سلیم کے بعد قبیلہ خزاعہ کے سردار بدیل ابن ورقہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورقریش کے حلیفوں کے کردار کے بارے میں آپ
کو آگاہ فرمایا۔ 18ان دونوں کی پوری بات کو سماعت فرمانے کے بعد نبی کریم
نے ان کو مشورہ دیا کہ ایک ساتھ واپس جانے کے بجائے وہ واپسی کا سفر الگ طے کریں تاکہ قریش کو اس بات کا علم نہ ہونے پائے کہ وہ مدینہ منورہ کسی قسم کی امداد حاصل کرنے کے لیے گئے تھے۔ چنانچہ عمرو بن سلیم نے واپسی کے لیے اپنے ساتھیوں سمیت ساحلی علاقے کا انتخاب کیا 19 جبکہ بدیل سیدھے راستے سے واپس مکہ چلے گئے۔ 20 اس واقعے نے رسول اللہ
کو شدید رنج اور غصے میں مبتلا کر دیا، تاہم آپ
نے خونریزی سے بچنے کے لیے صبر و حکمت کا مظاہرہ فرمایا۔ آپ
نے حضرت ضمرہ
کو قریش کے پاس بھیجا اور ان کے سامنے تین میں سے کسی ایک شرط کے انتخاب کی پیشکش کی، جو درج ذیل تھیں:
قریش تک جب یہ پیغام پہنچا تو قرضہ بن عبد عمر بن نفیل نے مذکورہ بالا دو شرائط کو مسترد کردیا اور حضرت ضمرہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ انہیں صرف تیسری ہی شرط منظور ہے کہ معاہدہ اور صلح حدیبیہ کو ختم سمجھا جائے۔
واقدی کے مطابق آپ
نے اس قتل و غارت کے واقعہ کے بعد قریش کو کسی بھی بات کا اختیار نہیں دیا بلکہ اہل مکہ نے اس واقعے کے فوری بعد خود اپنے سردار ابو سفیان کو آپ
کی خدمت میں بھیج کر یہ کوشش کی کہ کسی طریقے سے صلح حدیبیہ کو ٹوٹنے سے بچایا جا سکے۔ 22 البتہ امام ابن حجر عسقلانی
فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آپ
نے اپنا ایک نمائندہ قریش کی طرف بھیج کر مندرجہ بالا شرائط ان کے سامنے رکھیں 23 جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ
نے قریش کے سامنے عملی طور پر قابل قبول حل پیش کیے اور اچانک جنگ کو مسلط نہیں فرمایا کیونکہ آپ
کی بھی بھرپور خواہش اور کوشش یہی تھی کہ وہ صلح حدیبیہ کو جسے بنو بکر اور قریش کی ظالمانہ خونریزی نے مل کر تار تار کردیا تھا اس کو توڑنے کے بجائے باقی رکھا جائے۔ دوسری طرف قریش بھی یہ بات بخوبی جان چکے تھے کہ انہوں نے صلح حدیبیہ توڑ کر جنگ کا اعلان کر دیا ہے جس کے نتائج ان کے حق میں انتہائی ہولناک ثابت ہو سکتے ہیں چنانچہ وقت ضائع کیے بغیر انہوں نے بھی اپنا مشاورتی اجلاس بلوایا اور اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی۔ نتیجتاً انہوں نے ابو سفیان کو آپ
کی خدمت میں اس لیے روانہ کیا کہ وہ اس معاہدے اور صلح نامے کی ازسر نو تجدید کر سکیں۔ 24
ابو سفیان جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے فوراً ہی مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن عسفان کے علاقے میں ان کی ملاقات بدیل سے ہوئی۔ ابو سفیان نے ان سے پوچھا کہ وہ مدینہ منورہ سے و اپس آرہے ہیں یا کسی اور جگہ سے تو بدیل نے ابو سفیان کو کہا کہ وہ اس وادی کے درمیان خزاعہ قبیلے کہ کچھ لوگوں سے ملنے گئے تھے اور اب وہاں سے واپس آرہے تھے۔ بدیل جب دور چلے گئے تو ابو سفیان نے بدیل کی اس بات کو جاننے کے لیے ان کے اونٹ کی مینگنیوں کو اٹھا کردیکھا اور ان کی کیفیت سے فورا سمجھ گئے کہ وہ مدینہ منورہ سے ہی و اپس آرہےتھے۔ 25
ابو سفیان جب مدینہ منورہ پہنچے تو وہ سیدھے اپنی صاحبزادی اور زوجہ رسول ، ام المؤمنین سیدہ امّ حبیبہ
کے گھر میں داخل ہوئے۔ آپ کے گھر میں داخل ہونے کے بعد قریب تھا کہ وہ آپ
کے گدّے پر بیٹھ جاتے لیکن حضرت امّ حبیبہ نے ان کے وہاں پر بیٹھنے سے پہلے ہی اس گدّے کو لپیٹ کر اسے دور رکھ دیا۔ ابو سفیان نے یہ دیکھ کر اپنی صاحبزادی سے پوچھا کہ یہ گدّا ان کے بیٹھنے کے قابل نہیں یا وہ اس گدّے پر بیٹھنے کے قابل نہیں۔اس پر حضرت امّ حبیبہ
نے انہیں نہایت ایمان افروز جواب دیا اور فرمانے لگیں کہ وہ اس قابل نہیں کہ اس گدّے پر بیٹھ سکیں کیونکہ وہ رسول اللہ
کا خاص گدّا تھا اور وہ (ابوسفیان) ابھی تک مشرک تھے اور مشرک نجس یعنی باطنی طور پر گندا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ نہیں چاہتی تھیں کہ وہ اس پر بیٹھیں۔ 2627 یہ سن کر ابو سفیان حیران و پریشان ہو کر رہ گئے کیونکہ کوئی بھی باپ اپنی بیٹی سے اس جواب کی توقع نہیں کرسکتا تھا اس لئے عالم گھبراہٹ میں وہ کہنے لگے کہ امّ حبیبہ پر جنات یا شیطان کا اثر ہوگیا ہے۔ حضرت امّ حبیبہ
نے اپنے والد کی گفتگو کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں اسلام کی دعوت دی جس پر وہ کہنے لگے کہ وہ اپنے آبا و اجداد کا دین کسی بھی صورت میں ترک نہیں کر سکتے اور یہ کہہ کر اپنی صاحبزادی کے گھر سے روانہ ہوگئے۔ 28
ابو سفیان اب براہ راست آپ کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہوئے تاکہ صلح حدیبیہ کی شرائط پر گفتگو کرکے آپ
کو دوبارہ صلح کی تجدید پر آمادہ کرسکیں۔ آپ
نے ان کی گفتگو سن کر نہ تو ان سے بات چیت کی اور نہ ہی ان کی درخواست پر کوئی رد عمل ظاہر کیا۔ ابو سفیان وہاں سےاٹھ کر حضرت ابوبکر صدیق
کے پاس گئے، پھرحضرت عمر بن خطاب
کے پاس پہنچے، پھر حضرت عثمان غنی
کے پاس اور پھرحضرت علی بن ابی طالب
کے پاس گئے اور اس مسئلے میں ان سے سفارش کی درخواست کی لیکن ان سب نے ہی ان کی اس درخواست کو مسترد کر دیا۔ابو سفیان یہ سب کچھ دیکھ کر انتہائی مایوسی میں مبتلا ہوئے اور بالآخر حضرت فاطمہ
کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ حضرت حسن
جو اس وقت صحیح طور پر چل بھی نہیں پاتے تھے ان سے اس معاملے میں مداخلت اور سفارش کروائیں تاکہ آپ
اپنے فیصلے پر نظر ثانی فرمائیں۔ حضرت فاطمہ
نے انہیں پہلے تو اسی طرح جواب دیا جس طرح حضرت علی
نے انہیں دیا تھا اور اس کے بعد آپ
نے فرمایا کہ حضرت حسن
اپنی عمر کے لحاظ سے اتنے چھوٹے ہیں کہ وہ کوئی بھی بات یا سفارش کسی کے لیے نہیں کر سکتے۔ 2930 چنانچہ آپ
کے قریب ترین صحابہ کرام
کی طرف سے اپنی سفارش اور مدد کے لیے انکار سن کر ابو سفیان دوبارہ حضرت علی
کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے ان حالات میں نصیحت اور مشورہ کی درخواست کی۔ 31 حضرت علی بن ابی طالب
نے ابو سفیان کو مشورہ دیا کہ چونکہ وہ بنی کنانہ کے سردار ہیں، اس لیے وہ مسلمانوں کے درمیان کھڑے ہوکر ان کے لیے امن کا اعلان کریں اور پھر مکہ واپس چلے جائیں۔ جب ابو سفیان نے دریافت کیا کہ کیا یہ طریقہ کارگر ہوگا، تو حضرت علی
نے صاف الفاظ میں فرمایا کہ ممکن ہے یہ کارگر نہ ہو، لیکن اس کے سوا ابو سفیان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ چنانچہ ابو سفیان مسجد نبوی
گئے، لوگوں کے درمیان امن کا اعلان کیا اور پھر مکہ کی طرف روانہ ہوگئے ۔ 32
ابو سفیان جب مکہ پہنچےتو انہوں نےتمام سرداروں کو بتایا کہ انہوں نے آپ کے ساتھ اس موضوع پر بات کی لیکن آپ
نے ان کی بات نہ تو قبول کی اور نہ ہی اپنافیصلہ تبدیل فرمایا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ان سرداروں کو یہ بھی بتایا کہ کس طرح وہ آپ
کے قریب ترین ساتھیوں اور صحابہ کرام
کو اس معاملے میں اپنی سفارش کے لیے تیار کرنے پر ناکام رہے۔ آخر میں جب ابو سفیان نے مکہ کے سرداروں کو حضرت علی
کی نصیحت کے بارے میں بتایا جس پر انہوں نے عمل بھی کیا تھا تو انہوں نے اس کے جواب میں ابو سفیان سے یہ بات پوچھی کہ کیا آپ
نے ان کے اس اعلان کو قبول فرمایا تو ابو سفیان نے اس کا جواب بھی نفی میں ہی دیا۔ 33
جب ابو سفیان کی مکہ روانگی کے بعد آپ اپنے گھر کے باہر تشریف فرما ہوئے، حضرت ابوبکر صدیق
کو بلوایا اور پھر ان کے ساتھ نہایت رازدارانہ طریقے پر مشاورت شروع فرمائی۔ یہ گفتگو کافی دیر جاری رہی جس کے بعد آپ
نے حضرت عمر بن خطاب
کو طلب فرمایا اور ان سے بھی اس مسئلے میں مشاورت فرمائی۔ اس کے بعد آپ
نے پہلے اپنے قریبی صحابہ کرام
سے مشاورت فرمائی 34 اور اس کے بعد آپ
نے تمام صحابہ کرام
کو جمع فرمایا اور ان کے سامنے قریش کے خلاف اعلان جنگ فرما دیا اور صحابہ کرام
کو اس جنگ کی تیاری کے لیے حکم دے دیا۔ 35 قریش پر کامیاب حملہ کرنے کے لیے اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ اس پورے منصوبے کو مخفی رکھا جائے۔ اعلان جنگ کے بعدآپ
نے اللہ کی بارگاہ میں اس طرح دعا فرمائی:
اللهم خذ العيون والأخبار عن قريش حتى نبغتها في بلادها.36
اے اللہ !قریش سےبصارت اور سماعت کو دور کردے یہاں تک کہ ہم ان کو ان کے شہر میں جا لیں۔
آپ نے اپنی جنگی منصوبہ بندی کو مزید خفیہ رکھنے اور دشمن کو اچانک جا لینے کے لیے 8 صحابہ کرام
پر مشتمل ایک دستہ حضرت ابو قتادہ
کی سرکردگی میں” اضم“کی طرف روانہ فرمایا۔ یہ جگہ مدینہ سے تھوڑے سے فاصلے پر تھی اور اس گروہ کی روانگی کا مقصد ان لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کرنا تھا جو کسی نہ کسی صورت قریش کو مسلمانوں کی نقل وحرکت اور منصوبہ بندی کے بارے میں آگاہ کرنے والے تھے۔ 37
مسلمان فوج ابھی مکہ کی سمت روانہ ہونے ہی والی تھی کہ حاطب بن ابی بلتعہ جنہوں نے جنگ بدر میں بھی شرکت کی تھی، 38 انہوں نےایک خط قریش کے نام لکھا اور اسے ایک خاتون کے حوالے کیا کہ وہ قریش کو مسلمان فوج کی مکہ کی طرف روانگی کے بارے میں اطلاع دے دے۔ 39 اللہ تعالی نے اپنے حبیب
کو وحی کے ذریعے حضرت حاطب
کی اس غلطی پر آگاہ فرمادیا چنانچہ آپ
نے فوری طور پر حضرت علی
اور زبیر بن عوام
کو حضرت حاطب
کی بھیجی ہوئی خاتون کے پیچھے بھیجا کہ وہ انہیں روک کر اس سے وہ خط برآمد کر سکیں۔ حضرت علی
اور حضرت زبیر
اس خاتون کے پیچھے روانہ ہوئے اور اسے ”روضہ خاخ“ کے مقام پر جا لیا۔ دونوں صحابہ کرام
نے اس خاتون سے اس کے سامان کے بارے میں تفتیش فرمائی اور اس کے سامان کی تلاشی بھی لی لیکن اس میں سے کوئی خط برآمد نہ ہوا لیکن دونوں صحابہ کرام
کا اس بات پر غیر متزلزل ایمان تھا کہ جو کچھ انہیں اللہ کے رسول
نے حکم دیا ہے اس میں رتی برابر غلطی کا احتمال نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ انہوں نے اس خاتون سے کہا کہ اللہ کے رسول
نے کبھی کوئی بات غلط نہیں کہی لہذا بہتر یہ ہے کہ وہ خط جو اس کے پاس ہے وہ ان کے حوالے کر دے ورنہ پھر وہ شدید قسم کےنتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے۔ دونوں صحابہ کرام
کی اس دھمکی نے اس خاتون کو ڈرا دیا چنانچہ اس نے اپنے سر کے بالوں کو کھولا اور وہ خط جو ان بالوں میں چھپا ہوا تھا اسے نکال کر ان دونوں کے حوالے کردیا۔ 40 جب وہ خط آپ
کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو آپ
نے حضرت حاطب
کو اپنے پاس بلوایا اور ان کے اس عمل کی ان سے وضاحت طلب فرمائی۔ حضرت حاطب
نے اپنے اس فعل پر انتہائی ندامت اور شرمندگی کا اظہار کیا اور احساس جرم کے ساتھ اپنی غلطی اور کوتاہی کو بھی قبول فرمالیا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے آپ
کو اس بات کا یقین دلایا کہ وہ کسی منافقت یا سازش کا شکار نہیں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے اسلام کو ترک کیا ہےبلکہ وہ اس خط کے ذریعے قریش کے شکریہ کا مستحق بن کر اپنے اہل خانہ جو اس وقت مکہ مکرمہ میں مقیم تھے انہیں مکہ میں مشرکین کے ہاتھوں تحفظ فراہم کرانا اور ان کے ظلم و تشدد سے بچانا چاہتے تھے۔ آپ
نے حضرت حاطب
کی یہ وضاحت سننے کے بعد نہایت باوقار اور مثبت طریقے سے ان کے پیش کردہ عذر کو قبول فرمایا اور ان کی اس غلطی کو بغیر کسی غیض وغضب کے معاف فرما دیا۔ 41
10 رمضان المبارک سن 8 ہجری کو آپ 10 ہزار افراد پر مشتمل لشکر لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئےاور نکلنے سے پہلے اپنی غیر موجودگی میں حضرت ابو ذر غفاری
کو عارضی طور پر مدینہ منورہ کا والی مقرر فرمایا۔ 42 اس فوج میں مہاجرین کی تعداد 700 تھی جن کے پاس 300 گھوڑے تھے جبکہ انصاری مسلمانوں کی تعداد 4000 پر مشتمل تھی جن کے پاس 500 گھوڑے تھے۔ مجموعی طور پر اِرد گرد کے قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد اور آس پاس کے علاقوں کے مسلمان مجاہدین نے اس تعداد کو 10000 تک پہنچا دیا۔ یہ 10000 کا لشکر مدینہ منورہ سے نکل کر کسی بھی طرف مہم جوئی کے لیے جانے والا اس وقت تک کا سب سے بڑا لشکر تھا۔ 43 مسلمانوں کے پورے لشکر نے اس دن روزہ رکھا ہوا تھا لیکن آپ
کے حکم پر مقامِ ”قدید/کدید“ پہنچ کر انہوں نے اپنا یہ روزہ افطار کر ڈالا۔ 44 اس روزے کو افطار کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان بھرپور طاقت و توانائی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔ 45
اہل مکہ بھی اس بات کے لیے نہایت متجسس تھے کہ وہ جان سکیں کہ مسلمان کیا منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ اس لیے ابو سفیان، حکیم ابن حزام اور بدیل بن ورقہ مکہ سے نکل پڑے تاکہ مسلمانوں کی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات کو جمع کیا جا سکے کیونکہ انہیں اب تک آپ کے ارادے سے مکمل لا علمی تھی اور مسلمان فوج کے بارے میں بھی ان کی آگاہی اور معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ 46
مسلمانوں کا لشکر جب مدینۃ منورہ سے نکل کر مکہ مکرمہ روانہ ہوا تو مقام ِ”عرج“ کے پاس کسی جگہ پر آپ نے ایک کتیا کو راستے کے درمیان لیٹے اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہوئے دیکھا۔ آپ
نے کتیا اور اس کے بچوں کو کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے اور بچانے کے لیے پورے قافلے کو روک دیا اور ایک صحابی حضرت جمیل
ابن سراقہ کو وہاں ان کی حفاظت کی غرض سے کھڑا کردیا 47 تاکہ وہ آنے والے مسلمان لشکر کی زد میں آکر اس کتیا اور اس کے بچوں کو کچلے جانے سے بچا سکیں۔ 48 یوں وہ کتیا اور اس کے بچے بھی بچ گئے اور مسلمانوں کا لشکر اس کے برابر سے گذر گیا۔
مسلمانوں کا لشکر جب مقامِ ”ابواء“ پر پہنچا تو انہوں نے دیکھا کہ سفیان بن الحارثہ اور عبداللہ بن ابی امیہ وہاں پر مسلمانوں کا انتظار کر رہے تھے تاکہ ان کی آمد پر وہ اسلام قبول کر لیں۔ سفیان بن الحارثہ اور عبداللہ بن امیہ دونوں اپنی سابقہ دشمنی اور جارحانہ رویوں کے باعث نہایت شرمندہ تھے اور وہ یہ بات نہیں جانتے تھے کہ وہ کس طرح آپ کا سامنا کریں چنانچہ انہوں نے حضرت علی
سے اس مسئلے میں مشورہ فرمایا۔ حضرت علی
نے دونوں کو یہ نصیحت کی کہ انہیں اس موقع پر وہی کرنا چاہیے جو برادران یوسف نے حضرت یوسف
کو دکھ اور تکالیف سے دوچار کرنے کے بعد طلبِ معافی کے لئے کیا تھا۔ چنانچہ سفیان بن الحارثہ اور عبداللہ بن امیہ نے بالکل اسی طرح وہی کچھ کیا جس طرح حضرت علی
نے انہیں ہدایت دی تھی۔ 4950 وہ آپ
کے پاس جا پہنچے اور مندرجہ ذیل قرآن کریم کی آیت مبارکہ پڑھ کر آپ
کو سنائی:
قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَإِنْ كُنَّا لَخَاطِئِينَ9151
وہ بول اٹھے: اﷲ کی قسم! بیشک اﷲ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی ہے اور یقیناً ہم ہی خطاکار تھے۔
قرآن کریم کی اس آیت کو سننے کے بعد آپ نے بالکل وہی جواب ان دونوں کو دیا جو حضرت یوسف
نے اپنے بھائیوں کو دیا تھا۔ آپ
نے ان دونوں کی معذرت کو قبول کرتے ہوئے دونوں کو ان کی سابقہ غلطیوں اور کوتاہیوں پر معاف فرما دیا۔ 52
اس حوالے سے سے ابن اسحاق اور امام زرقانی
بیان کرتے ہیں کہ سفیان بن الحارثہ نے اس وقت اس بات کی قسم اٹھا لی تھی کہ یا تو آپ
انہیں ملاقات کی اجازت دیں گے یا پھر وہ کسی صحرا کی طرف نکل جائیں گے جہاں بھوک و پیاس سے ان کا خاتمہ ہو جائے گا۔چنانچہ آپ
کو جب سفیان بن الحارثہ کی اس قسم کے بارے میں پتا چلا تو آپ
نے ان کے سابقہ جرائم سے صرفِ نظر فرماتے ہوئے انہیں ملاقات کی اجازت دی۔ اس طرح سفیان بن الحارثہ اور عبداللہ بن ابی امیہ نے آپ
کے دست اقدس پر اسلام قبول فرمالیا۔ 5354
حضرت عباس بن عبدالمطلب فتح مکہ سے پہلے ہی اسلام قبول کر چکے تھے لیکن اپنے اہل خانہ اور اپنی جائیداد اور مال و دولت کی حفاظت کی خاطر انہوں نے اپنے اسلام لانے کا اعلان نہیں فرمایا تھا۔ جب آپ
مکہ پر مسلمانوں کی لشکر کشی کے بارے میں آگاہ ہوئے تو اپنے خاندان کے ساتھ مدینہ منورہ روانہ ہوگئے۔ ان کی ملاقات آپ
کے ساتھ مقام ”جحفہ“ میں ہوئی۔ 55 سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت عباس بن عبدالمطلب
نے آپ
سے اس بات کی اجازت طلب کی کہ انہیں فتح مکہ سے پہلے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اجازت اور سعادت سے نوازا جائے لیکن آپ
نے انہیں اس بات کی اجازت دینے سے انکار فرما دیا اور ارشاد فرمایا:
يا عم، أقم مكانك الذي أنت فيه، فإن اللّٰه يختم بك الهجرة، كما ختم بي النبوة. 56
اے چچا جان! آپ اپنے مقام پر ٹھہرے رہیں اللہ تعالی نے آپ پر ایسے ہی ہجر ت ختم فرمادی جیسا کہ مجھ پر نبوت ختم فرمائی ہے۔
لشکر اسلام نے مکہ پہنچنے سے پہلے ”مرّالظہران“ کے علاقے میں قیام کیا۔ آپ نے اپنے تمام صحابہ کرام
کو حکم دیا کہ وہ اس میدان میں پھیل جائیں اور جہاں وہ قیام پذیر ہوئے ہیں وہاں ہر آدمی اپنے سامنے آگ کو روشن کر دے۔ 57 اس طرح اس پورے میدان میں 10 ہزار افراد میں سے ہر ایک شخص کے انفرادی طور پر آگ روشن کیے جانے کا اثر یہ ہوا کہ اس آگ کی وجہ سے مسلمانوں کی تعداد ان کی اصل تعداد سے کہیں زیادہ نظر آنے لگی۔ آپ
کے بتائے ہوئے اس جنگی طریقہ کار کا نہایت مثبت نتیجہ مسلمانوں کے حق میں یہ نکلا کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد کی موجودگی کے اس تاثر نے اہل مکہ کو خوفزدہ کر دیا۔ 58
حضرت عباس بن عبدالمطلب بہت نرم دل ہونے کی وجہ سے چاہتے تھے کہ اہل مکہ کو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے خطرناک نتائج سے آگاہ کریں۔ آپ
حضور
کے سفید خچر کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے تو دیکھا کہ راستے میں ابو سفیان اور حکیم رات کی تاریکی میں پریشان حال گھوم رہے تھے۔حضرت عباس
جب ان کے قریب پہنچے تو انہیں اس حقیقت پر آگاہ فرمایا کہ وہ اس وقت مسلمانوں کی خیمہ گا ہوں کے ارد گرد جو آگ دیکھ رہے ہیں وہ مسلمان فوج کی قوت اور شان و شوکت کے اظہار کے لیے کافی ہے لہذا اگر ابو سفیان اس وقت سر تسلیم خم نہیں کرتے تو انہیں موت کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اہل مکہ کے اندر اس وقت اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کے اس بڑے لشکر کے ساتھ لڑ سکیں۔ چنانچہ ابو سفیان اور حکیم حضرت عباس
کے ساتھ اس خچر پر سوار ہو کر اسلامی لشکر گاہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ مسلمان فوج نے جب دیکھا کہ یہ خچر تو رسول اللہ
کا ہےتو کسی نے بھی اس سے تعرض نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے اسے روکنے کی جرات کی لیکن حضرت عمر
جو اس وقت نہایت چوکس تھے انہوں فوراً جان لیا کہ حضرت عباس
کے پیچھے کون بیٹھا ہوا ہے۔ چنانچہ وہ ان کا پیچھا کرتے ہوئے سیدھا آپ
کے خیمے تک پہنچ گئے۔ حضرت عمر
اس وقت شدید غصے میں تھے لیکن قبل اس کے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا حضرت عباس
نے بآ واز بلند اعلان کر ڈالا کہ وہ ابو سفیان کو اپنی پناہ دے چکے ہیں۔اس بات پر حضرت عمر
مزید ناراض ہوئے اور حضرت عباس
سے تلخ کلامی فرمائی جس کے نتیجے میں دونوں شخصیات کی آواز بلند ہو گئی۔ آپ
نے جب یہ معاملہ دیکھا تو حضرت عباس
کو اس بات کا حکم دیا کہ وہ ابو سفیان کو اس وقت اپنے خیمے میں لے جائیں اور انہیں صبح لے کر آئیں۔ 59
صبح فجر کی نماز کے وقت ابو سفیان نے نماز کے لیے اذان کو سنا اور دیکھا کہ پوری مسلمان فوج ایک جگہ جمع ہو کر باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے مستعد ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو اہتمام کے ساتھ وضو کرتے اور صف بندی کرتے بھی دیکھا تو کہنے لگے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی قوم کو اتنے نظم و ضبط کے ساتھ اپنے امام کی اطاعت کرتےنہیں دیکھا خواہ وہ ایرانی مجوسی ہوں یا رومی عیسائی۔ مسلمان جو اس وقت تقریبا 10 ہزار کی تعداد میں تھے انہوں نے جس نظم و ضبط اور درستگی کے ساتھ آپ کی امامت میں نماز کو ادا کیا اس بات نے ابو سفیان کے دل پر بہت گہرا اثر ڈالا چنانچہ نماز ختم ہونے کے بعد وہ حضرت عباس
کے ساتھ آپ
کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دینِ اسلام کو قبول فرمالیا۔ 60
حضرت ابو سفیان کے اسلام قبول کر لینے کے بعد حضرت عباس بن عبدالمطلب
نے آپ
کی خدمت میں یہ بات عرض کی کہ ابو سفیان
عرب میں ایک قابل عزت و تکریم شخصیت رہے ہیں جس کا مطلب سمجھتے ہوئے آپ
نے یہ اعلان فرمایا کہ ہر وہ شخص جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا وہ قتل و غارت گری سے محفوظ ہوگا اسی طرح جو شخص مسجد میں پناہ لے گا اس کی جان، مال ، عزت و آبرو بھی محفوظ رہیں گے اور وہ شخص جو اپنے گھر کے دروازوں کو بند کر دے گا اسے بھی امان حاصل ہوگی۔ 61 آپ
نے اس موقع پہ حضرت عباس کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ ابو سفیان کو لے کر اونچے پہاڑی مقام پر چلے جائیں اور وہاں سے انہیں مسلمانوں کے لشکر کا بغور معائنہ اور مشاہدہ کروائیں تاکہ وہ مسلمانوں کی قوت و حشمت اور طاقت و صلاحیت کو دیکھ کر اہل مکہ کو آگاہ کر سکیں۔ 62 ابوسفیان نے اونچے مقام پر جا کر دیکھا کہ مسلمان لشکر مختلف دستوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر چھوٹے بڑے دستے کا باقاعدہ ایک سربراہ ہے۔ 63 اس کے بعد میں انہوں نے دیکھا کہ آپ
کو صحابہ کرام نے اپنے مکمل حصار میں لیا ہوا ہے جس پرابو سفیان حضرت عباس سے کہنے لگے کہ آپ
تو اب بادشاہ بن گئے ہیں جس پر حضرت عباس نے فرمایا کہ یہ بادشاہت نہیں بلکہ یہ آپ
کے سچے نبی ہونے کا ثبوت ہے۔ 64
اسلامی لشکر کی اس قوت و طاقت کا مشاہدہ کرنے کے بعد ابو سفیان تیزی سے مکہ مکرمہ پہنچے اور وہاں کے لوگوں کو مسلمان لشکر کی قوت اور طاقت کے بارے میں بتایا۔ پھر آپ نے اس بات کا اعلان کیا کہ ہر وہ شخص جو ان کے گھر میں آ کر پناہ لےگا، مسجدالحرام میں داخل ہو کر پناہ لے گا یا پھر اپنے گھر کے دروازوں کو بند کر کے اندر رہے گا تو ان تمام افراد کے جان مال اور ان کی عزت و آبرو محفوظ رہے گی اور کوئی ان سے تعرض نہیں کرے گا۔ 65 ابو سفیان سے یہ اعلان سننے کے بعد اہل مکہ مختلف مقامات کی طرف منتشر ہو گئے اور جن جن جگہوں کا ابو سفیان نے اپنے اعلان میں بطور امان ذکر کیا تھا وہاں جا کر انہوں نے پناہ حاصل کر لی۔ 66
آپ نے فوج کومختلف مقامات کی حساسیت کے لحاظ سے تقسیم کر رکھا تھا۔آپ
نے حضرت خالد بن ولید اور ان کے لشکر کو مکہ کے جنوب کی طرف سے داخل ہو کر بیت اللہ کے قریب مسلمانوں کے عَلَم نصب کرنے کی ہدایت کی تھی۔ یہ رخ شہر مکہ کا وہ حصّہ تھا جہاں اس وقت زیادہ تر اہل مکہ رہائش پذیر تھے۔ 67 حضرت خالد بن ولید کو اس کے ساتھ دوسرا حکم یہ دیا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کی باقی ماندہ فوج کے ساتھ مقامِ صفا پَر ا ٓکر مل جائیں۔ 68 حضرت زبیر بن عوام کو آپ
نے حکم دیا تھا کہ وہ شہر مکہ یا شمال کی طرف سے مسلمانوں کا عَلَم لے کر داخل ہوں اور مقام حجون پر اس وقت تک رکے رہیں جب تک آپ
وہاں پر نہ پہنچ جائیں۔ حضرت سعد ابن عبادہ کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ آپ
کے آگے آگے چلتے رہیں چنانچہ اسی طرح دوسرے لشکری حصوں اوردستوں کو بھی مختلف ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ ممکن حد تک اس بات کی کوشش کریں کہ جنگ و جدل کی نوبت نہ آئے الّا یہ کہ ان پر کسی طرف سے حملہ ہو جائے یا پھر انہیں اپنے دفاع کے لیے لڑنا پڑے۔ 69
صفوان بن امیہ بن ابی جہل اور قریش و بنو بکر قبیلے کے مشرکین پر مشتمل بعض گروہوں نے اس بات پر حلف اٹھا رکھا تھا کہ وہ کسی بھی صورت میں مسلمانوں کو شہر مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے بلکہ وہ اس مقصدکے لیے مسلمانوں سے لڑنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے چنانچہ وہ اس کے لیے مقام خندمہ میں جمع ہو گئے۔ 70 یہ بنیادی طور پر ایک پہاڑی جگہ تھی جو اس وقت مکہ کے جنوبی طرف واقع تھی۔ 71 مسلمانوں کی فوج کا وہ حصہ جو اس راستے سے گزر رہا تھا وہ حضرت خالد بن ولید کی ماتحتی میں تھا چنانچہ وہ جیسے ہی خندمہ پہنچے تو مشرکین کا ایک گروہ ان پر حملہ آور ہو کر تیر اندازی کرنے لگا۔ حضرت خالد بن ولید آگے چلتے رہے اور حملہ کرنے والوں کے ساتھ لڑتے رہے۔ حملہ آور مشرکین کچھ ہی دیر کے بعد پسپا ہو کر مختلف علاقوں کی طرف شکست خوردہ ہو کربھاگ گئے۔ ابو سفیان اور حکیم ابن حزام کو جب اس بے مقصد مدافعت اور لڑائی کے بارے میں پتہ چلاتو انہوں نے تمام اہل مکہ کو اس بات کی تاکید کی کہ اگر وہ اپنی حفاظت چاہتے ہیں تو اپنے گھروں کے اندر پُرسکون طریقے سے دروازے بند کر کے رہیں۔ چنانچہ باقی ماندہ لوگ جو کسی بھی وجہ سے لڑنے مرنے پر آمادہ ہو چکے تھے انہوں نے اپنے ہتھیار پھینک کر اپنے اپنے گھروں کے اندر دروازے بند کر کے پناہ حاصل کرلی۔ 72 مسلمانوں کے ساتھ مشرکین کی ان جھڑپوں میں 23 یا 24 مشرکین مارے گئے 73 جبکہ مسلمانوں میں سےحضرت خنیس بن خالد اور کرزبن جابر نے جام شہادت نوش فرمایا۔74
آپ جب صَفا پہنچے تو حضرت خالد نے اپنے لشکر کے ہمراہ حجون کی طرف پیش قدمی شروع کی جہاں حضرت زبیر بن عوّام آپ
کی آمد کے منتظر تھے۔ حضرت زبیر نے اس جگہ آپ
کے لیے ایک خیمہ بھی لگا دیا تھا۔اب مسلمانوں کی تمام فوج اور پورا لشکر آپ
کے اِرد گِرد اس جگہ پر جمع تھا۔ یہاں سے آپ
کے زیر قیادت پورے لشکر نے شہر مکہ کی طرف پیش قدمی شروع فرمائی۔ 75 آپ
جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ
حرم کے صحن میں تشریف لے گئے جہاں آپ
نے بیت اللہ شریف گرد اپنے اونٹ پر طواف (7 چکر) ادا فرمایا۔ اس کے بعد آپ
نے حضرت عثمان بن طلحہ کو طلب فرمایا اور ان سے چابیاں لے کر بیت اللہ کا دروازہ کھول کر اس میں داخل ہو گئے۔ 76 یہ وہ وقت تھا جب بیت اللہ 360 بتوں سے اَٹا پڑا تھا۔ 77 ابن ہشام
بیان کرتے ہیں کہ آپ
جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اندر داخل ہو کر آپ
اپنے عصا مبارک کے ساتھ بتوں کی طرف اشارہ فرماتے چلے گئے۔ جس جس بت کی طرف آپ
اشارہ فرماتے وہ وہ بت اوندھے منہ زمین پر گِر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔ 78 ایک دوسری روایت کے مطابق آپ
نے اپنی کمان کے ساتھ ان بتوں کو توڑ ڈالا 79 اور بت توڑتے ہوئے آپ
قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ پڑھتے چلے جا رہے تھے:
وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا8180
اور فرما دیجئے: حق آگیا اور باطل چلا گیا، بیشک باطل نے زائل و نابود ہی ہو جانا ہے۔
تمام بتوں کو توڑ ڈالنے کی بعد آپ نے وہاں نماز ادا فرمائی۔ 81 اس کے بعد آپ
نے وہاں سے اسلامی لشکر کےکئی دستوں کو بیت اللہ کے قرب و جوار میں اس غرض سے روانہ فرمایا کہ وہ جہاں جہاں بت یا بت کدے پائیں تو انہیں ختم کر کے شہر مکہ کو بتوں اور بت پرستی سےپاک و صاف کر دیں۔ 82 ہشام بن العاص تقریباً 200 افراد کے ساتھ یلملم روانہ کیے گئے جبکہ حضرت خالد بن سعید کو 300 افراد کے ساتھ عرنہ کی طرف بھیجا گیا۔ 83 حضرت خالد بن ولید کو "عُزّىٰ" کو گرانے کے لیے بھیجا گیا، جو مشرکین کے نزدیک سب سے بڑا اور اہم بت سمجھا جاتا تھا۔ خالد بن ولید تیس سواروں کے دستے کے ساتھ مقامِ عُزّىٰ پہنچے اور اس بت کو توڑ دیا۔ 84 جب آپ وہاں سے واپس لوٹ کر آئے تو آپ
نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ عزیٰ بت کو توڑ چکے ہیں تو حضرت خالد بن ولید نے آپ
کواثبات میں جواب دیا۔ آپ
نے ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے وہاں کوئی خاص بات دیکھی تھی جس پر خالد بن ولید نے نفی میں جواب دیا۔ خالد بن ولید کا نفی میں جواب سن کر آپ
نے انہیں دوبارہ اسے توڑنے کے لیے بھیجا۔ جب حضرت خالد بن ولید واپس وہاں پہنچےاور اس جگہ کا معائنہ کیا تو انہیں احساس ہوا کہ جس جگہ وہ بڑا بت نصب تھا اس کا نچلا حصہ اور بنیادیں ابھی تک صحیح و سالم انداز میں وہاں موجود تھیں چنانچہ حضرت خالد بن ولید نے اس کی بنیاد کو بھی توڑ ڈالا۔ اچانک آپ نے دیکھا کہ وہاں سے ایک عورت جس کا رنگ نہایت سیاہ تھا اور وہ غلاظت میں لتھڑی ہوئی اور سر کے بال پراگندہ تھے، نکل کر بھاگی۔ حضرت خالد بن ولید نے تلوار کا وار کر کے اس عورت کابھی خاتمہ کر ڈالا اور پھر آپ
کو اس واقعے کے بارے میں آگاہ فرمایا۔ آپ
نے یہ پورا واقعہ سن کر فرمایا کہ وہی عُزّی تھی جس کا اب تم نے خاتمہ کیا ہے۔ 85
اس کے بعد آپ بیت اللہ کے دروازے پہ کھڑے ہو ئے اور اہل مکہ سے مخاطب ہو کر 86 ارشاد فرما یا:
لا اله الا اللّٰه صدق اللّٰه وعده ونصر عبده وهزم الاحزاب وحده ألاكل مأثرة أو دم أو مال يدعى فهو تحت قدمىّ هاتين الاسدانة البيت وسقاية الحاج۔ 87
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اللہ تعالی نے اپنا کیا ہوا وعدہ سچا کردکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی، اکیلے (دشمن کے) لشکروں کو شکست دی ،جان لو کہ ہر قسم کے تفاخر، یا خون یا مال جس کا دعوی کیا جاتا ہے وہ میرے ان دونوں قدموں تلے ہے،سوائے بیت اللہ کی حفاظت پر مامور خادم خاندان کے اور حاجیوں کو پانی پلانے والے خاندان کی خدمت کے (باقی سب افراد و خاندانوں کے تمام فخریہ دعوے ختم کرتا ہوں)۔
اس کے بعد قریش کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
يا معشر قريش ان اللّٰه قد أذهب عنكم نخوة الجاهلية وتعظمها بالاباء الناس لادم وآدم خلق من تراب.88
اے قریشیوں! اللہ تعالی نے تم سے جاہلیت کے تکبر کو، اور اپنے آباءواجداد پر فخرکرنے کو ختم کردیا ہے۔ تمام انسان حضرت آدم کی اولاد ہیں اور حضرت آدم مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں۔
اس کے بعد آپ نے سورہ حجرات کی یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:
يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ1389
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا فرمایا اور پھر ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے۔
پھر آپ نے ان سے ان کی سابقہ نافرمانیوں اور مسلمانوں کے ساتھ کی جانے والی بدسلوکیوں کے متوقع انجام کے متعلق پوچھا جو وہ آپ
سے توقع کر رہے تھے۔ اس پران سب نے مل کر جواب دیا کہ انہوں نے کبھی بھی آپ
کی ذات اقدس میں شفقت، رحمت اور مودت کے ماسوا کچھ نہیں دیکھا۔ آپ
نے اس کے بعد اعلان فرمایا کہ تمام اہل مکہ کو آج معافی دی جاتی ہے اور وہ تمام آزاد ہیں۔ 90 صفوان بن امیہ جیسے شخص کو بھی معاف کر دیا گیا جس نے حضرت خالد بن ولید کے دستے کو مکہ میں داخلے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ 91 پھر آپ
نے عثمان بن طلحہ کو بلایا اور انہیں کعبۃ اللہ کی چابیاں عطا فرما کر از سر نو اعزاز و اکرام سے نوازا۔اس کے بعد حضرت بلال کو حکم دیا کہ وہ کعبۃ اللہ کی چھت پر تشریف لے جائیں اور باآواز بلند اذان دیں۔ 92
فتح مکہ کے موقع پر تمام اہل مکہ اور مشرکین کو معاف کردیا گیا سوائے ان چند افراد کے جو آپ کے سخت جانی دشمن اور عادی مجرم تھے اور اب تک اسلام قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ان لوگوں میں عبداللہ بن خطل اور مقیس بن صبابہ شامل تھے جنہیں آپ
کے حکم پر قتل کیا گیا۔ 93 مقیس ابن صبابہ کو سزا ئے موت دینے کی وجہ اس کا ایک انصاری صحابی کو شہید کرنا تھا جو اُس کی مدد اس وقت کررہا تھا جب وہ اپنے بھائی کے خون بہا کا مطالبہ ان لوگوں سے کر رہا تھا جنہوں نے غلطی سے اس کے بھائی کو قتل کر ڈالا تھا۔ مزید یہ کہ مقیس بن صبابہ ارتداد یعنی ترک اسلام کا بھی مرتکب تھا 94 جس کی سزا اسلامی ریاست میں سزائے موت ہے۔ 9596 عبداللہ بن خطل کو بھی موت کی سزا اس کے ارتداد، قصاص اور گستاخی کی وجہ سے دی گئی تھی۔ اس نے ایک معصوم صحابی کو اس لئے قتل کردیا تھا کیونکہ انہوں نے اس کے لئے کھانہ بنانے سے انکار کردیا تھا جب یہ دونوں مسلمانوں سے زکوۃ کی رقم کو جمع کرنے کے لیے جا رہے تھے۔ اس کے بعد عبد اللہ ابن خطل نے اسلام کو ترک کر کے مرتد ہوگئے۔ 97 خواتین میں عبداللہ بن خطل کی دو باندیوں فرتنَی اورقریبہ کو ان کے جرائم کی پاداش میں سزا دے کر حراست میں لیا گیا تھا۔ اس کے بعد ان میں سے ایک باندی فرتنی نے اسلام قبول کر لیا جسے پھر آزاد کردیا گیا جبکہ قریبہ کو قتل کر دیا گیا۔ 98 اس کا جرم یہ تھا کہ وہ آپ
کی ہجو اورگستاخی کی مرتکبہ تھی۔ 99
ابو جہل کا بیٹا عکرمہ جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمانوں کے لشکر کے خلاف مقام خندمہ میں اہل مکہ کو اکسانے میں ملوث تھا 100 پہلے تو جان سے مار ڈالے جانے کے خوف سے بھاگ نکلا لیکن جب اس نے نبی کے اخلاقِ کریمانہ کا خود مشاہدہ کیا اور اس کی بیوی ام حکیم نےآپ
کےمشفقانہ رویہ کو اس کے سامنے بیان کیاتووہ آپ
کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ
کے دست اقدس پر اسلام کو قبول کر لیا۔ 101 اگرچہ کہ وہ اسلام کے جانی دشمن کا بیٹا تھا لیکن پھر بھی آپ
نے اسے صلح رحمی کرتے ہوئے معاف فرما دیا۔اس کےبعد ہبّار بن اسود کو بھی آپ
نے معاف کردیا جو آپ
کی صاحبزادی حضرت زینب کے حمل کو ضائع کرنے کا سبب تھا اور اسے موت کی سزاسنادی جا چکی تھی۔ 102
قریش آپ کی اس پُر خلوص رحم دلی اور دریا دلی کو دیکھ کر حیران تھے۔ آپ
کی اس محبت و شفقت پر مبنی رویے کی وجہ سے ہر عمر کے افراد جن میں مرد اور عورتیں دونوں شامل تھے وہ اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے چلے گئے۔ 103 آپ
فتح مکہ کے بعد مکہ مکرمہ میں 15 دن تک قیام پذیر رہے 104 جس میں آپ
نے اہل مکہ اور نئے مسلمان ہونے والے افراد کو اسلام کی اساسی و بنیادی تعلیمات اور ایمان و عقائد سے متعلق تعلیم دینے کا بندوبست فرمایا 105 اس کے بعد آپ
مدینہ منورہ واپس تشریف لے گئے۔