غزوہ بنو لحیان سن 6 ہجری، ماہ ربیع الاول، میں پیش آیا۔ 1یہ ایک انتقامی مہم تھی جو نبی اکرم نے بنولحیان کے قبیلے کے خلاف مرتب کی کیونکہ انہوں نے ماضی میں مسلمانوں کے خلاف دھوکہ دہی سے کام لیا تھا اور کئی صحابہ کرام
کو بے دردی سے شہید کردیا تھا۔2
غزوہ بنو لحیان کے پیچھے ایک نہایت دردناک واقعہ تھا جسے رجیع کا سانحہ کہا جاتا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب بعض عرب قبائل نے نبی اکرم کے پاس آکر عرض کی کہ ان کے علاقے میں کچھ صحابہ کرام
کو تعلیم و تبلیغ کے لیے بھیجا جائے تاکہ وہ دین کا علم حاصل کر سکیں۔چنانچہ ان کے مطالبہ پر رسول کریم
نے6صحابہ کرام
کو ان کے ساتھ روانہ فرمایا۔جب یہ قافلہ رجیع نامی مقام پر پہنچا، تو بنو لحیان قبیلہ کے لوگوں نے دھوکہ سے اچانک ان صحابہ کرام
کو گھیر لیا اور دو صحابہ کرام
کے علاوہ باقی سب کو شہید کردیا۔ مزید یہ کہ ان دو بچ جانے والے صحابیوں کو قریش مکہ کے ہاتھوں فروخت کردیا گیا۔3
یہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا جس نے مسلمانوں کے دلوں کو غمزدہ کر دیا۔ نبی اکرم کو بھی اس واقعے پر بہت دکھ پہنچا مگر اس وقت حالات ایسے نہ تھے کہ فوری انتقام لیا جا سکے کیونکہ اس وقت آپ
کو یہود کی طرف سے داخلی انتشار کا سامنا تھا اور خارجی خطرات بھی مد نظر تھے جس میں بڑ ا خطرہ قریش مکہ تھے۔ 4
جب 6 ہجری میں حالات کچھ سازگار ہوئے تو نبی اکرم نے بنو لحیان کے خلاف ایک مہم روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔5 بنو لحیان کا علاقہ مدینہ منورہ سے 200 میل سے بھی زیادہ فاصلہ پر واقع تھا لیکن آپ
کے سامنے اپنے عظیم صحابہ کرام
کا قصاص پیش نظر تھا اس لیے آپ
نے اس دور دراز اور کٹھن سفر کی پرواہ کیے بغیر بنو لحیان کی طرف جانے کا قصدفرمایا۔6 200 صحابہ کرام
کو لے کر آپ
مدینہ منورہ سے نکلے جن میں 20 گھڑ سوار بھی شامل تھے۔
آپ نےمدینہ منورہ میں حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم
کو اپنا نائب بنایا۔ اس سفر میں نبی اکرم
نے ایک منفرد جنگی حکمت عملی اختیار فرمائی۔ آپ
نےدشمن کو غافل رکھنے کے لیے ایسا راستہ اختیار کیا کہ ان کو یہ تاثر ملے کہ مسلمان شام کی طرف جا رہے ہیں تاکہ بنو لحیان کو ان کے جاسوسوں کے ذریعہ اس مہم کی خبر نہ ہو سکے۔ 7 اس حکمت عملی کی وجہ سے بنولحیان مسلمانوں کی آمد سے غافل رہے اور انہیں حملے کو روکنے کےلیے پہلے سے کوئی تیاری کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔آپ
نے مدینہ منورہ سے نکل کر مقام ”جرف “کا راستہ اختیار کیا پھر وہاں سے مقام ”بین“سےہوتے ہوئےمقام ”صخیرات الثمام“ پہنچے اور وہاں سے یکدم راستہ بدل کر بنو لحیان کے علاقہ کے قریب وادی ”غران“ پہنچ گئے۔8
قبیلہ بنو لحیان کو جب مسلمانوں کی آمد کی اطلاع ملی تو وہ پہلے ہی پہاڑوں میں چھپ گئے اور مقابلے کے لیے سامنے نہ آئے۔ اس موقع پر نبی کریم نے رجیع کے مقام پر قیام فرمایا جہاں مسلمانوں کے شہید صحابہ کرام
کا خون بہایا گیا تھا۔ وہاں پہنچ کر نبی اکرم
شہداء کے لیے دعا فرمائی ،دو دن وہاں قیام کیا اور آس پاس کئی دوسری مہمات بھی سر فرمائیں۔9
جب بنولحیان پہاڑوں میں پناہ لےکر کھلے میدان میں جنگ کرنے پر آمادہ نہ ہوئے توآپ نے مزید آگے بڑھنے کا فیصلہ فرمایا۔ آپ
عسفان تک تشریف لے گئے جو مکہ کے قریب ایک مقام تھا۔یہاں نبی اکرم
نے قریشِ مکہ پر دھاک بٹھانے کے لیے قیام فرمایا تاکہ وہ جان لیں کہ مسلمان مکہ کے قریب تک پہنچنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ 10اس کے بعد نبی اکرم
مدینہ واپس لوٹ آئے۔اس غزوہ میں رسول اللہ
مدینہ منورہ سے 14 دن باہر رہے۔11
بنی لحیان جو خود مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تھے، اب مسلمانوں سے اتنے خوفزدہ ہوگئے تھے کہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔12 ان کا پسپا ہونا اس بات کا ثبوت تھا کہ مسلمان اب پہلے کی طرح کمزور نہیں رہے تھےبلکہ طاقتور ہو چکےتھے اور اب اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر خاموش رہنے والے نہیں تھے۔ وہ پہاڑوں میں چھپ کر مسلمان فوج کی واپسی کا انتظار کرنے لگے تاکہ ان کی مسلمانوں کے ساتھ مڈبھیڑ کا خطرہ ختم ہوجائے۔13 مکہ کے قریب عسفان تک پہنچ کر مسلمانوں نے قریش کو بھی یہ پیغام دے دیا تھاکہ وہ جب چاہیں مکہ کے قریب پہنچ سکتے ہیں14اور ان پر بھی حملہ آور ہو سکتے ہیں۔