Encyclopedia of Muhammad

غزوہ بنو لحیان

Published on: 30-Jun-2025

غزوہ بنو لحیان سن 6 ہجری، ماہ ربیع الاول، میں پیش آیا۔ 1یہ ایک انتقامی مہم تھی جو نبی اکرم sym-1 نے بنولحیان کے قبیلے کے خلاف مرتب کی کیونکہ انہوں نے ماضی میں مسلمانوں کے خلاف دھوکہ دہی سے کام لیا تھا اور کئی صحابہ کرام sym-7 کو بے دردی سے شہید کردیا تھا۔2

غزوہ بنو لحیان کا سبب

غزوہ بنو لحیان کے پیچھے ایک نہایت دردناک واقعہ تھا جسے رجیع کا سانحہ کہا جاتا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب بعض عرب قبائل نے نبی اکرم sym-1 کے پاس آکر عرض کی کہ ان کے علاقے میں کچھ صحابہ کرام sym-7 کو تعلیم و تبلیغ کے لیے بھیجا جائے تاکہ وہ دین کا علم حاصل کر سکیں۔چنانچہ ان کے مطالبہ پر رسول کریم sym-1 نے6صحابہ کرام sym-7 کو ان کے ساتھ روانہ فرمایا۔جب یہ قافلہ رجیع نامی مقام پر پہنچا، تو بنو لحیان قبیلہ کے لوگوں نے دھوکہ سے اچانک ان صحابہ کرام sym-7 کو گھیر لیا اور دو صحابہ کرام sym-7 کے علاوہ باقی سب کو شہید کردیا۔ مزید یہ کہ ان دو بچ جانے والے صحابیوں کو قریش مکہ کے ہاتھوں فروخت کردیا گیا۔3

یہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا جس نے مسلمانوں کے دلوں کو غمزدہ کر دیا۔ نبی اکرم sym-1 کو بھی اس واقعے پر بہت دکھ پہنچا مگر اس وقت حالات ایسے نہ تھے کہ فوری انتقام لیا جا سکے کیونکہ اس وقت آپ sym-1 کو یہود کی طرف سے داخلی انتشار کا سامنا تھا اور خارجی خطرات بھی مد نظر تھے جس میں بڑ ا خطرہ قریش مکہ تھے۔ 4

غزوہ بنو لحیان کی تیاری

جب 6 ہجری میں حالات کچھ سازگار ہوئے تو نبی اکرم sym-1 نے بنو لحیان کے خلاف ایک مہم روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔5 بنو لحیان کا علاقہ مدینہ منورہ سے 200 میل سے بھی زیادہ فاصلہ پر واقع تھا لیکن آپ sym-1 کے سامنے اپنے عظیم صحابہ کرام sym-7 کا قصاص پیش نظر تھا اس لیے آپ sym-1 نے اس دور دراز اور کٹھن سفر کی پرواہ کیے بغیر بنو لحیان کی طرف جانے کا قصدفرمایا۔6 200 صحابہ کرام sym-7 کو لے کر آپ sym-1 مدینہ منورہ سے نکلے جن میں 20 گھڑ سوار بھی شامل تھے۔

آپ sym-1 نےمدینہ منورہ میں حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم sym-5 کو اپنا نائب بنایا۔ اس سفر میں نبی اکرم sym-1 نے ایک منفرد جنگی حکمت عملی اختیار فرمائی۔ آپ sym-1 نےدشمن کو غافل رکھنے کے لیے ایسا راستہ اختیار کیا کہ ان کو یہ تاثر ملے کہ مسلمان شام کی طرف جا رہے ہیں تاکہ بنو لحیان کو ان کے جاسوسوں کے ذریعہ اس مہم کی خبر نہ ہو سکے۔ 7 اس حکمت عملی کی وجہ سے بنولحیان مسلمانوں کی آمد سے غافل رہے اور انہیں حملے کو روکنے کےلیے پہلے سے کوئی تیاری کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔آپ sym-1 نے مدینہ منورہ سے نکل کر مقام ”جرف “کا راستہ اختیار کیا پھر وہاں سے مقام ”بین“سےہوتے ہوئےمقام ”صخیرات الثمام“ پہنچے اور وہاں سے یکدم راستہ بدل کر بنو لحیان کے علاقہ کے قریب وادی ”غران“ پہنچ گئے۔8

بنو لحیان کے علاقے میں مسلمانوں کی آمد

قبیلہ بنو لحیان کو جب مسلمانوں کی آمد کی اطلاع ملی تو وہ پہلے ہی پہاڑوں میں چھپ گئے اور مقابلے کے لیے سامنے نہ آئے۔ اس موقع پر نبی کریم sym-1 نے رجیع کے مقام پر قیام فرمایا جہاں مسلمانوں کے شہید صحابہ کرام sym-7 کا خون بہایا گیا تھا۔ وہاں پہنچ کر نبی اکرم sym-1 شہداء کے لیے دعا فرمائی ،دو دن وہاں قیام کیا اور آس پاس کئی دوسری مہمات بھی سر فرمائیں۔9

آپ sym-1 کا مدینہ واپسی کا سفر

جب بنولحیان پہاڑوں میں پناہ لےکر کھلے میدان میں جنگ کرنے پر آمادہ نہ ہوئے توآپ sym-1 نے مزید آگے بڑھنے کا فیصلہ فرمایا۔ آپ sym-1 عسفان تک تشریف لے گئے جو مکہ کے قریب ایک مقام تھا۔یہاں نبی اکرم sym-1 نے قریشِ مکہ پر دھاک بٹھانے کے لیے قیام فرمایا تاکہ وہ جان لیں کہ مسلمان مکہ کے قریب تک پہنچنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ 10اس کے بعد نبی اکرم sym-1 مدینہ واپس لوٹ آئے۔اس غزوہ میں رسول اللہ sym-1 مدینہ منورہ سے 14 دن باہر رہے۔11

غزوہ بنو لحیان کے نتائج

بنی لحیان جو خود مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تھے، اب مسلمانوں سے اتنے خوفزدہ ہوگئے تھے کہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔12 ان کا پسپا ہونا اس بات کا ثبوت تھا کہ مسلمان اب پہلے کی طرح کمزور نہیں رہے تھےبلکہ طاقتور ہو چکےتھے اور اب اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر خاموش رہنے والے نہیں تھے۔ وہ پہاڑوں میں چھپ کر مسلمان فوج کی واپسی کا انتظار کرنے لگے تاکہ ان کی مسلمانوں کے ساتھ مڈبھیڑ کا خطرہ ختم ہوجائے۔13 مکہ کے قریب عسفان تک پہنچ کر مسلمانوں نے قریش کو بھی یہ پیغام دے دیا تھاکہ وہ جب چاہیں مکہ کے قریب پہنچ سکتے ہیں14اور ان پر بھی حملہ آور ہو سکتے ہیں۔


  • 1  ابو الفتح محمد بن محمدابن سید الناس اليعمري، عیون الأثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-2، مطبوعۃ: دارالقلم، بیروت، لبنان، 1993 م، ص: 119
  • 2  ابو محمد علي بن أحمد الاندلسی القرطبی، جوامع السیرۃ، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (بدون تاریخ الطبع)، ص: 159
  • 3  محمود شیت خطاب، الرسول القائد، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1422ھ، ص: 248
  • 4  محمد بن احمد باشميل، من معارک الاسلام الفاصلۃ، ج-5، مطبوعۃ: المکتبۃ السلفیۃ، القاھرۃ، مصر، 1988م، ص: 30
  • 5  موسى بن راشد العازمي، اللؤلؤ المكنون في سيرة النبي المأمون، ج-3، مطبوعۃ: المكتبة العامرية للإعلان والطباعة والنشر والتوزيع، الکویت، 2011م، ص: 231
  • 6  محمد بن احمد باشميل، من معارک الاسلام الفاصلۃ، ج-5، مطبوعۃ: المکتبۃ السلفیۃ، القاھرۃ، مصر، 1988م، ص: 31
  • 7  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 30
  • 8  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 535- 536
  • 9  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، بدون تاریخ الطبع، ص: 4
  • 10  موسى بن راشد العازمي، اللؤلؤ المكنون في سيرة النبي المأمون، ج-3، مطبوعۃ: المكتبة العامرية للإعلان والطباعة والنشر والتوزيع، الکویت، 2011م، ص: 232
  • 11  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، بدون تاریخ الطبع، ص: 4
  • 12  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 280
  • 13  محمد بن احمد باشميل، من معارک الاسلام الفاصلۃ، ج-5، مطبوعۃ: المکتبۃ السلفیۃ، القاھرۃ، مصر، 1988م، ص: 33
  • 14  ابو العباس احمد بن علی الحسینی المقریزی،امتاع الاسماع بما للنبیﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص: 258

Powered by Netsol Online