encyclopedia

غزوہ بدر

Published on: 30-Oct-2024
غزوہ بدر (۲ ہجری)اسماءِ غزوہ بدر:بدر العظمی/بدر القتال اور بدر الفرقانتاریخ وقوع:17 رمضان المبارك سن 2 ہجری بمطابق مارچ 624 عیسویمد مقابل:مسلمان مقابل مشرکین مکہمسلمان مجاہدین:313 صحابہ کرام رضی اللہ عنھم3 اونٹ اور 70 گھوڑےلشکرِ کفار:1000 جنگجولشکرِ کفار:700 اونٹ اور 100 گھوڑےمسلم سپہ سالار:خاتم النبیین حضرت محمد ﷺکافر سپہ سالار:عمرو ابن ھشام (ابو جہل)مقام غزوہ:بدر/حجاز (موجودہ سعودی عرب)مسلمان شہداء:14 صحابہ کرام رضى الله عنهممشرکین مقتولین:70 واصل جھنم اور 70 قیدینتیجہ:مسلمان فتح یاب
LanguagesEnglishPortugueseGerman

غزوہ بدر اسلام کا پہلا عظیم معرکہ ہے جس سے اسلام کی شان وعظمت میں بے حد اضافہ ہوا،اور کفر کا غرور خاک میں ملا۔ یہ معرکہ 17 رمضان المبارک، 2 ہجری بروز جمعہ کو وقوع پذیر ہوا۔ 1 اسلام میں اس معرکہ کی بہت اہمیت ہے کیوں کہ اس میں مسلمانوں نے عظیم قربانیوں کوپیش کیا اور اللہ کے فضل سے سرخرو ہوئے۔ غزوہ بدرمیں مسلمانوں کو کئی طرح کی آزمائشوں کا سامنا بیک وقت کرنا پڑا۔ پہلی آزمائش یہ تھی کہ مدینہ منورہ سے نکلتے وقت مقصد صرف ایک قافلہ پر قابو پاکر اس کے مال ومتاع کو حاصل کرنا تھا لیکن جب اپنے گھروں سے دور ہوئے تومقصد یکسر بدل چکا تھا۔ اب لشکر قریش سے جنگ کرنی تھی جس میں جانوں کے جانےکا احتمال تھا ۔ دوسرا کڑا امتحان یہ تھا کہ لشکر اسلام تعداد میں بھی کم تھا اور اسلحہ کے لحاظ سے بھی کمزور تھاجبکہ سامنے کا لشکر تین گنا بڑا اور بھرپور سامان سے لیس تھا ۔ فرق دونوں لشکروں میں یہ تھا کہ لشکر کفار محض دنیاوی اغراض اور دنیاوی جاہ وجلال کو بڑھانے کے مقصد سے آگے بڑھ رہا تھا ۔ ان کے جسم ایک دوسرے کے ساتھ تھے لیکن ان کےدلوں میں ایک دوسرے سے اختلاف تھا ۔جبکہ مسلمانوں میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اعلان کے بعد خیالات وجذبات مکمل طور پر بدل چکے تھے ۔ اب ان کا مطمح نظر اللہ اور اس کے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اطاعت اور اسلام کی عظمت وبقا تھی اور وہ مکمل طور پر ایمانی جذبات سے بھرپور تھے ۔

غزوہ بدر کے اسباب

غزوہ بدر کے 2اسباب تھے۔پہلا سبب اقتصادی طور پر دشمن کو کمزور کرنا جس کو سرد جنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ 2 دوسرا سبب عسکری کاروائیاں تھیں جن کے ذریعہ سے یہودِ مدینہ ومشرکینِ مکہ کے سامنے اہل اسلام کی عسکری قوت کا اظہار کرنا تھا ۔ 3 اقتصادی جنگ کی طرف حضرت سعد بن معاذ Radi Allah Anho کا واقعہ بھی نشاندہی کرتا ہے جس میں طواف کرتے ہوئے ان کو ابو جہل نے روکا اور دھمکی دی تھی کہ اگر تم صفوان بن امیہ کے ساتھ نہ ہوتے تو یہاں سے زندہ نہ جاتے ۔ جواب میں حضرت سعد Radi Allah Anho نے اس سےفرمایا کہ اگر تم کچھ کرتے تو ہم اس سے بڑا اقدام کرتے وہ یہ کہ تمہارا شام جانے کا راستہ روک دیتے جس کی وجہ سے سب اہل مکہ کی معیشت زندہ ہے۔ 4 دوسرا سبب یعنی عسکری کاروائی کی بنیادی وجہ مسلمانوں کی شان وشوکت کو بڑھانا اور اس کا پرچار کرنا تھا ۔

پورے مکی دور میں اورہجرت کے بعد ابتدائی 2 سالوں تک مسلمانوں کو دفاعی قتال کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اس کے بعد جب اللہ تعالی نے مسلمانوں پر فضل فرمایا تو باقائدہ انہیں اجازت دی گئی کہ جو تم سے لڑے تم بھی ان سے لڑو۔ 5 اس اجازت کے ملنے کے بعدرسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے سرایہ وغزوات کا آغازفرمایا جس میں یکے بعد دیگرے کئی سرایہ ہوئے جس میں سے سریہ حمزہ Radi Allah Anho،سریہ عبیدہ بن حارث Radi Allah Anho،سریہ سعد بن مالک Radi Allah Anho اور غزوہ بواط شامل تھے ۔ غزوہ ودان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس میں قریش کے تجارتی قافلے پر رعب داری کے علاوہ ایک مقصد یہ بھی شامل تھا کہ قبیلہ بنو ضمرہ کو اعتماد میں لیا جائے۔ جمادی الاولی کے آخر یا جمادی الآخر کے شروع میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو قریش کے قافلے کے بارے میں معلوم ہوا کہ شام کی طرف تجارت کی غرض سے جانے والا ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam 150 صحابہ کرام Radi Allah Anhum کے ساتھ اس کے تعاقب میں نکلے اور جب عشیرہ کے مقام پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ قافلہ نکل چکا ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے وہاں تقریبا ایک ماہ قیام کیا اور وہاں کے آس پاس کے قبائل بنو مدلج اور بنی ضمرہ سے تعلقات استوار فرمائے۔ 6 اس طرح کے تمام غزوات کا مقصد قریش مکہ کو پیغام دینا تھا کہ مسلمان اب اپنی عسکری قوت مضبوط کرچکے ہیں۔

قافلہ کی واپسی اورحضور ﷺکا مشورہ کرنا

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس قافلےکی اہمیت کے پیش نظر اس سے متعلقہ معلومات لانے کےلیے حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور سعید بن زید Radi Allah Anhuma کو شمالی جانب بھیجا ہوا تھاتا کہ وہ قافلہ کی واپسی آمد کی بر وقت خبر دے سکیں۔ وہ دونوں صحابہ کرام Radi Allah Anhuma ”حوراء“پہنچ کر جو رستے میں موجود ایک اہم جگہ تھی، ٹھہرگئے۔ جب قافلہ وہاں سے گذرا تو انہوں نے جلدی سے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اسکے حوالے سے آگا ہ کیا ۔ 7 یہ ایک عظیم قافلہ تھا جس میں ایک اندازے کے مطابق 50 ہزار دینارکی مالیت سے زیادہ کا مال موجود تھا جس کی قیمت آج کروڑوں میں بنتی ہے اور اس کی حفاظت کے لیے 70 مرد الگ سے قافلے کے ساتھ تھے ۔ 8 جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو قافلے کی واپسی کی خبر ملی توآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے سب مسلمانوں کو جمع کیا اور ان کو قافلہ کے بارے میں بتایا اور فرمایا :

هذه عير لقريش فيها أموال فأخرجوا إليها، لعل اللّٰه أن ينفلكموها. 9
یہ قریش کاقافلہ ہے جس میں ان کا مال وزر ہے۔ اس کے تعاقب میں نکلو۔ شاید اللہ تعالی اس کے ذریعے تمہیں مال غنیمت عطا فرمائے۔

ابو سفیان کا قافلہ کو بچا کر لےجانا

ابو سفیان جو تجارتی قافلہ کا سربراہ تھا وہ بھی حالات و واقعات پر برابر نظر رکھے ہوئے تھا۔ بدر کے قریب پہنچ کر اس نے قافلہ وہیں روکا اورپہلے خود اکیلےآگے گیا تاکہ معلومات حاصل کر سکے۔ بدر کے پاس اس کو مجدی بن عمرو ملا۔ ابو سفیان نے اس سے پوچھا کہ تم نے یہاں کوئی مشکوک لوگ دیکھے ہیں؟ وہ کہنے لگا ایسا تو کچھ نہیں دیکھا البتہ دو آدمی یہاں آئے تھے، انہوں نےیہاں سے پانی بھر ااور واپس چلے گئے ۔ ابو سفیان جو نہایت ذیرک تھا، فوراً اٹھا اور ان کے اونٹوں کے بٹھانے کی جگہ پر گیا۔ وہاں اسنےاونٹوں کے لیدنوں کواٹھا کر ان کو پھوڑا جس میں سے کھجوروں کی گٹھلیاں نکلیں۔ ان کو دیکھتے ہی اس نے کہا کہ یہ تو مدینہ کا چارہ ہے۔یقینا یہ مدینہ والوں کے جاسوس ہوں گے۔ یہ کہ کر وہ فوراً واپس ہوا اور قافلہ کو لیکر ساحل سمندر کی طرف نکل گیا۔ 10 اس نے فوراً ہی ضمضم بن عمرو غفاری کو 20 مثقال اجرت دےکر مکہ مکرمہ روانہ کیا اور تاکید کی کہ وہ وہاں جاکر حسب رواج اپنی قمیص پھاڑ کر دہشت زدہ انداز میں مکہ میں اعلان کرے کہ تم محمد (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) سے اپنے اموال بچاؤ ۔ 11

قریش کی جنگی تیاری

اس خبر کے ملتے ہی قریش نے زور و شور سے تیاریاں شروع کردیں اور کہنے لگے کہ محمد(Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)یہ سمجھتا ہے کہ یہ قافلہ بھی ابن حضرمی کے قافلے جیسا ہوگا جس کو انہوں نے پا لیا تھا۔ عنقریب ان کو پتہ چل جائے گا کہ یہ اس طرح کا قافلہ نہیں ہے۔تین دن میں انہوں نے تیاری مکمل کر لی۔ مکہ میں جو کوئی بھی تھا یا تو وہ خود نکلا یا اپنی جگہ کسی کو تیار کیا۔ اشعار پڑھ کر لوگوں کو جنگ پر ابھارا گیا اور سرداروں نے جنگ کے لئےخوب مال جمع کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے گانے والی باندیاں اور ڈھول وغیرہ بھی ساتھ لیے تاکہ دوران جنگ وہ اپنے گیتوں سے جنگ کے شعلوں کو مزید بھڑکا تی رہیں۔نکلتے وقت انہوں نے اپنے مخالف قبیلہ بنو بکر سے خطرہ محسوس کیا کہ کہیں وہ ہمارے پیچھے ہمارے گھروں پر حملہ نہ کردیں لیکن شیطان ان کے پاس سراقہ بن مالک کی صورت میں آیا اور کہنے لگا کہ اس چیز سے تم بے فکر ہو جاؤ کہ وہ لوگ تم پر حملہ کریں گے۔ قرآن میں اس کا جھوٹ ان الفاظ میں واضح کیاگیا ہے:

وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَكُمْ فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَى عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِنْكُمْ إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ 4812
اور جب شیطان نے ان (کافروں) کے لئے ان کے اَعمال خوش نما کر دکھائے اور اس نے (ان سے) کہا: آج لوگوں میں سے کوئی تم پر غالب نہیں (ہو سکتا) اور بیشک میں تمہیں پناہ دینے والا (مددگار) ہوں۔ پھر جب دونوں فوجوں نے ایک دوسرے کو (مقابل) دیکھ لیا تو وہ الٹے پاؤں بھاگ گیا اور کہنے لگا: بیشک میں تم سے بے زار ہوں، یقیناً میں وہ (کچھ) دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے، بیشک میں اللہ سے ڈرتا ہوں، اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔

ابلیس کی تسلی سن کر انہیں حوصلہ ملااور وہ جلدی سے اپنا لشکر لے کرنکلے۔ جب یہ لشکر "مرالظہران" پہنچا تو ابو جہل نے لشکر کےلیے 10 اونٹ ذبح کیے۔ اگلے دن امیہ بن خلف نے ”عسفان“ میں9 اونٹ ذبح کئے۔ ”قدید“پہنچ کر سہیل بن عمرو نے 10 اونٹ ذبح کیے۔ وہاں سے کوچ کر کے ساحل سمند ر پہنچے تو وہاں منبہ نے10 اونٹ ذبح کیے اور ”جحفہ“ کے مقام پر رات کے وقت پڑاؤ کیا۔ 13

رسول اللہ ﷺ کا کوچ فرمانا

رمضان المبارک کی 8 تاریخ کو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے لوگوں کو جمع کیا اور انکوقافلہ کے متعلق آگاہ فرمایا۔ مدینہ منورہ کے دینی امور کے انجام دہی کےلیے عبداللہ ابن ام مکتوم Radi Allah Anho کو نائب بنایا اور باقی انتظامی امور پر ابو لبابہ Radi Allah Anho کو ذمہ دار بنایا۔ 14 دیگر افراد جن کی تعداد 313 سے 319 کے درمیان تھی، ان کو لیکرآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam قافلہ کے تعاقب میں مدینہ منورہ سے نکلنےاور نقب المدینہ، عقیق، ذوالحلیفہ، ذات الجیش، تربان، ملل، عمیس الحمائم، صخیرات الیمام، سیالہ، روحاء اور شنوکہ سے ہوتے ہوئے عراق الظبیۃ پہنچے۔ ایک دیہاتی سے قافلہ کے بارے میں پوچھا اس نےآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو کچھ نہیں بتایا۔ 15 وہاں سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دو خبر رساں بسبس بن عمرو Radi Allah Anho اور عدی بن ابو زغباء Radi Allah Anho کو روانہ کیا۔ یہ دونوں بدر کے مقام پر پہنچے اور وہاں دو باندیوں سے قافلہ کے بارے میں سنا اور واپس رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف چل دیے۔ 16 اور وادی دفران پہنچ کر قیام کیا۔ اسی جگہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو قافلہ ءِابو سفیان اور اہل مکہ کے نکلنے کی اطلاع ملی۔ مکہ سے آنے والے لشکر کی خبر سن کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے تمام صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو جمع کیا اورمشورہ لیاکہ ہمیں کیا کرنا چاہیے ۔ 17 قرآن اس صورت حال کا تذکرہ ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے :

وَإِذْ يَعِدُكُمُ اللَّهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ 718
اور (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ نے تم سے (کفارِ مکہ کے) دو گروہوں میں سے ایک پر غلبہ و فتح کا وعدہ فرمایا تھا کہ وہ یقیناً تمہارے لئے ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ غیر مسلح (کمزور گروہ) تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام سے حق کو حق ثابت فرما دے اور (دشمنوں کے بڑے مسلح لشکر پر مسلمانوں کی فتح یابی کی صورت میں) کافروں کی (قوت اور شان و شوکت کی) جڑ کاٹ دے۔

سب سے پہلے حضرت صدیق اکبر Radi Allah Anho اُٹھے اور ایمان افروزگفتگوفرمائی۔ پھر حضرت عمر Radi Allah Anho اُٹھےاور اپنے جذبہ جاں نثاری کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ پھر مقداد بن عمرو Radi Allah Anho اُٹھے، انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! تشریف لے چلیے جدھر اللہ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کوحکم دیا ہے، ہم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ ہیں۔ بخدا! ہم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو وہ جواب نہیں دیں گے جو جواب بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ Alaihis Salam کو دیا تھا کہ:

اذهب أنت وربك فقاتلا إنا ها هنا قاعدون، ولكن اذهب أنت وربك فقاتلا إنا معكما مقاتلون، فو الذى بعثك بالحق لو سرت بنا إلى برك الغماد لجالدنا معك من دونه حتى تبلغه. 19
جائیے آپ Alaihis Salam اور آپ Alaihis Salam کا خدا اور ان سے جنگ کیجیے! ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ بلکہ ہم یہ کہیں گے: تشریف لے چلیے اور جنگ کیجیے ! ہم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ مل کر جنگ کریں گے۔ اس ذات پاک کی قسم جس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! اگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہمیں برک الغماد تک بھی لے جائیں تو ہم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ چلیں گے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی معیت میں دشمن کے ساتھ جنگ کرتے جائیں گے یہاں تک کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam وہاں پہنچ جائیں گے۔

انکے بعد حضرت سعد بن معاذ Radi Allah Anho کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا: یا رسول اللہ! آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تشریف لے چلیے جدھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ارادہ ہے، ہم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ ہیں۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے! اگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہمیں سمندر کے سامنے لے جائیں اور خوداس میں داخل ہوجائیں تو ہم بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ سمندر میں چھلانگ لگادیں گے، ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ ہم اس بات کو ناپسند نہیں کرتے اگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کل ہی دشمن کا مقابلہ کریں۔ ہم جنگ کے گھمسان میں صبر کرنے والے ہیں اور دشمن سے مقابلہ کے وقت سچے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ہم سے وہ کارنامے دکھلائے گا جس سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی چشم مبارک ٹھنڈ ی ہوجائے گی۔ پس اللہ کے حکم سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam روانہ ہوجایے۔

جب صحابہ کرام Radi Allah Anhum نے ان اصحاب Radi Allah Anhum کی آراء سنیں تو تمام صحابہ کرام Radi Allah Anhum کی رائے بھی وہی بن گئی جو ان کی رائے تھی۔ 20 پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: تمہیں خوشخبری ہو، اللہ تعالیٰ نے مجھے دو گروہوں میں سے ایک گروہ پر غلبہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ بخدا! میں قوم کے مقتولوں کی قتل گاہوں کو دیکھ رہا ہوں۔ 21

مسلمانوں کا محدودسامان جنگ

مسلمانوں کے لشکر کا عَلَم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت مصعب بن عمیر Radi Allah Anho کو دیا جس کا رنگ سفید تھا۔ اس کے علاوہ دو کالے جھنڈے تھے۔ ایک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت علی Radi Allah Anhoکو دوسرا ایک انصاری صحابی Radi Allah Anho کو دیا ۔سامانِ جنگ میں 70 اونٹ تھے جن پر تین یا چار لوگ باری باری سواری کرتے تھے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ حضرت علی Radi Allah Anho اور مرثدبن ابی مرثد غنوی Radi Allah Anhuma ایک اونٹ میں شریک تھے 22جس پر وہ بھی باری باری سفر فرماتے تھے۔ اس کے علاوہ 2گھوڑے تھے جن میں سے ایک مقداد بن اسود Radi Allah Anho کے پاس تھا اور دوسرا حضرت زبیر بن عوام Radi Allah Anho کے پاس تھا ۔23 اس بے سروسامانی کے عالم میں صحابہ کرام نے جو اپنے ایمانی جذبات کا اظہار فرمایا وہ قابل دید تھا۔

رسول اللہ ﷺ کا خبر گیری کرنا

ذفران کے علاقےسے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam لشکر کے ساتھ چلے اور بدر کے قریب پڑاؤ کیا۔باقی قافلہ کو وہاں چھوڑ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت ابوبکر Radi Allah Anho کو ساتھ لیا اورقافلہ کے بارے میں معلومات لینے نکلے۔ وہاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ملاقات ایک عمر رسیدہ شخص سےہوئی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس سے ابو سفیان کے قافلہ کے بارے میں اوراس کو جانچنے کےلیے خودمحمد (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں پوچھا ۔ اسنے کہا کہ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ محمد(Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) اور ان کے ساتھی فلاں دن نکلے ہیں، اگر یہ بات درست ہےتو آج وہ فلاں مقام پر ہوں گے۔ اس نے وہی جگہ بتائی جس جگہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے پڑاؤ کیا ہوا تھا ۔ پھر اس نے قریش کے بارے میں کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ وہ فلاں دن نکلے ہیں اگر یہ خبر درست ہے تو آج وہ فلاں مقام پر ہوں گے، اور اس نے وہی جگہ بتائی جس جگہ قریش ٹھہرے ہوئے تھے ۔

شام کے وقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت علی Radi Allah Anho، زبیر بن عوام Radi Allah Anho، سعد بن ابی وقاص Radi Allah Anhoاور مزید کچھ صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو بدرکی طرف خبر لانے کےلیے بھیجا۔ وہاں ان کو دو غلام ملے۔ یہ حضرات ان کو پکڑ کر لے آئے ۔ اس وقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نماز ادا فرما رہے تھے۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نماز سے فارغ ہوئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان سے قریش کے پڑاؤ کے متعلق پوچھا کہ وہ لوگ کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا: وہ اس ٹیلے کے پیچھے ہیں۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے پوچھا کہ وہ کتنےاونٹ روز انہ ذبح کرتے ہیں؟ کہنے لگے ایک دن 9 اور ایک دن10۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے یہ سن کر اندازہ لگایا کہ وہ 950 سے 1000کے درمیان ہیں۔ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس سے قریش کے سرداروں کے متعلق پوچھا کہ کون کون ساتھ آیا ہے؟ انہوں نےان سرداروں کے نام گنوائے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان سرداروں کے نام سن کر فرمایا کہ مکہ والوں نے اپنے چنیدہ اور شرف والے لوگ تمہاری طرف بھیجے ہیں ۔ 24

قریش کا سامان جنگ اور اندرونی اختلاف

قریش نے سب سرداروں کو نکلنے پر غیرت دلائی اور اس کے علاوہ جو تیاری ان سے تین دن میں ہوسکی انہوں نے کی۔امیہ بن ابی صلت نے اشعار کےذریعہ سے لوگوں کو ابھارا۔ عبدللہ بن ابی ربیعہ نے 500 دینار کا اعلان کیا اور اسلحہ بھی دیا،طعیمہ نے 20اونٹ دیے ۔ 25 جب لشکر تیار ہوا تو وہ ساز وسامان اور افرادی قوت کے اعتبار سے ایک بڑا لشکر تھا جس میں 950 سے 1000 کے درمیان افراد شامل تھے۔ 100 گھوڑے تھے، 70اونٹ تھےاور 600 کے قریب جنگی لباس تھے ۔26 اس قدر جنگی ساز وسامان کے باوجود بھی کفار کے لشکر میں ٹوٹ پھوٹ تھی اور حوصلے پست تھے۔ اسکی 3 بڑی وجوہات تھیں:

  1. پہلی وجہ اختلاف کی یہ بنی کہ جحفہ کے مقام پر رات کو کفار کے لشکر میں سے ایک شخص جہیم بن صلت نے ایک خواب دیکھا۔ اس نے ابو جہل کوبتایا کہ میں نے دیکھا ہےکہ ایک شخص اونٹ پر آیا اور وہ یہ کہ رہا تھا کہ عتبہ، شیبہ، ابوالحکم بن ہشام، امیہ بن خلف اور فلاں فلاں کو قتل کیا جائے گا۔ اس کے بعد اس نے اونٹ کو زخمی کیا اور لشکر میں چھوڑ دیا ۔ابو جہل یہ خواب سن کر کہنے لگا : لو یہ بھی بنو عبدالمطب کا ایک نبی ہے، کل پتہ چلے گا کہ کون قتل کیا جائے گا۔ 27 لیکن اس خواب کو سن کر لشکر میں خوف پھیل گیا تھا۔
  2. دوسری وجہ اختلاف کی یہ بنی کہ ابو سفیان جب قافلہ کو مدینہ سے نکال کر بحفاظت مکہ پہنچ گیا تو اس نےقریش کو پیغام بھیجا کہ تم لوگ قافلہ کو اور اپنے مال کو بچانے نکلے تھے، اللہ تعالی نے اس کو بچا لیا لہذا واپس لوٹ آؤ۔ ابو جہل کہنے لگا: واللہ ہم تو واپس نہیں ہوں گے جب تک بدر نہ پہنچ جائیں۔ وہاں تین دن قیام ہوگا، کھائیں گے پیئیں گے، محفل موسیقی ہوگی،تانکہ عرب کو ہمارے بارے میں پتہ چل جائے اور وہ ہم سے دبے رہیں۔ لیکن اخنس بن شریق نے اپنی قوم بنو زہرہ سے کہا : اے بنو زہرہ! اللہ تعالی نے تمہارا مال بچا لیا لہٰذا ا پنے آپ کو ضائع نہ کرو اور واپس ہوجاؤ ۔ بنوزہرہ قبیلہ والے یہ سن کر واپس ہوگئے ۔ 28
  3. تیسری وجہ اختلاف کی یہ بنی کہ قریش نے اپنا ایک ماہر تجزیہ کار عمیر بن وہب جمحی حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجا تانکہ وہ لشکر کا اندازہ لگا کرآئے کہ مسلمانوں کی کیا تیار ی ہے؟ اس نے خفیہ طور پر لشکرکے گرد ایک چکر لگایا اور آس پاس بھی اچھی طرح سے دیکھ بھال کی۔ جب وہ واپس آیا تو قریش سے ان الفاظ کے ساتھ مخاطب ہوا: اے قریش! میں نے دیکھا کہ وہ مصیبتیں موت کواٹھائے ہوئے ہیں۔ یثرب کے ایسے اونٹ ہیں جو حتمی موت کو اپنے اوپرسوار کیے ہوئے ہیں۔ میں ایک ایسی قوم کو دیکھ کر آیا ہوں جن کے پاس دفاع کےلیے تلواروں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ وہ گونگوں کی طرح خاموش اور سانپ کی طرح (شکار کےلیے)لپٹے ہوئے ہیں۔ واللہ میں نہیں دیکھتا کہ تم ان کا کوئی آدمی بھی قتل کرسکوگےجب تک کہ وہ تمہارا آدمی بھی مقتول نہ کردیں۔جب تم میں سے بہت سےقتل ہوجائیں گے تو اس کے بعد زندگی کا کیا فائدہ؟

یہ وہ اندرونی اختلافات تھے جنہوں نے لشکرِ کفار کے قدم جمنے سے روک دیے تھے۔ اسی وجہ سے وہ قتل ہوئے اور بھاگنے پر مجبور ہوئے ۔ یہی وجہ تھی کہ کفار کی لشکر میں سے کچھ لوگ اس بات پر متفق ہوئے کہ ہم جنگ کیے بغیر ہی واپس چلتے ہیں کیوں کہ ہمیں سراسر اس جنگ میں نقصان ہی کا اندیشہ ہے ،یہی قرار داد لے کر وہ ابو جہل کے پاس گئے اور اس سے اس سلسلے میں بات کی تو ابو جہل نے ان کو سخت بزدلی کے طعنے دیے اور عامر بن حضرمی ( جس کا بھائی غزوہ عشیرہ میں مارا گیا تھا) اس کے پاس جاکر اس کو غیرت دلائی کہ تمہارے بھائی کا بدلہ نہیں لیا جارہا ،وہ یہ سن کر چلانے لگا اور لشکر میں دوبارہ سے جنگ کی آگ بھڑک گئی۔ 29

رسول اللہ ﷺ کی جنگ سے قبل کی حکمت عملی

رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جب صحابہ کرام Radi Allah Anhum سے مشورہ کرچکے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بدر کے قریب ایک اونچی جگہ پانی کے قریب پڑاؤ کیا ،جہاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس ایک صحابی حباب بن منذر Radi Allah Anho تشریف لائے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے با ادب استفسار فرمایا کہ: اے اللہ کے رسولSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! اس جگہ پر ٹھہرنے کا حکم اللہ تعالی کی طرف سے ہے یا یہ جنگی چال ہے جو تبدیل کی جا سکتی ہے؟ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ یہ جنگی چال ہے جو تبدیل کی جا سکتی ہے ۔ یہ سن کر وہ فرمانے لگے، یارسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! اگر ہم جنگی حکمت عملی کے طور پر اس سے آگے پیچھے ہوسکتے ہیں تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam یہاں سے تشریف لے چلیے۔ ہم آگے بڑھ کر وہاں تک جا پہنچتے ہیں کہ یہاں کے سارے کنویں ہمارے عقب میں چلے جائیں۔ ہم باقی کنوؤں کو بند کرکے صرف ایک کنؤاں کھولے رکھیں گے اور اسکا پانی نیچے کی جانب ایک حوض میں جمع کرلیں گےتاکہ پانی سے ہم ہی مستفید ہوسکیں اور دشمن پانی کی سہولت سے محروم رہے ۔ یہ سن کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی رائے کی تعریف کی اور اسی کے مطابق عمل کیا ۔ 30 اس کے بعد تمام کنوؤں کو پاٹ دیا گیا اور ایک کنوئیں کو حوض بنالیا گیا۔ اسی طرح جنگی حکمت عملی کو اپناتے ہوئے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اونٹوں کے گلوں سے گھنٹیاں بھی اتروا دیں تاکہ لشکر کی نقل وحرکت سے کفار بے خبر رہیں۔ 31

قرآن کریم میں اس نقشہ کو یوں بیان کیا گیا ہے :

إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَى وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَلَوْ تَوَاعَدْتُمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ وَلَكِنْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيَى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ 4232
جب تم (مدینہ کی جانب) وادی کے قریبی کنارے پر تھے اور وہ (کفّار دوسری جانب) دور والے کنارے پر تھے اور (تجارتی) قافلہ تم سے نیچے تھا، اور اگر تم آپس میں (جنگ کے لئے) کوئی وعدہ کر لیتے تو ضرور (اپنے) وعدہ سے مختلف (وقتوں میں) پہنچتے لیکن (اللہ نے تمہیں بغیر وعدہ ایک ہی وقت پر جمع فرما دیا) یہ اس لئے (ہوا) کہ اللہ اس کام کو پورا فرما دے جو ہو کر رہنے والا تھا تاکہ جس شخص کو مرنا ہے وہ حجت (تمام ہونے) سے مرے اور جسے جینا ہے وہ حجت (تمام ہونے) سے جئے (یعنی ہر کسی کے سامنے اسلام اور رسول برحق Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی صداقت پر حجت قائم ہو جائے)، اور بیشک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔

اسی طرح جو نیچے کی طرف کا حصہ تھا اس کی زمین ہموار تھی اور اللہ تعالی کی مدد ونصرت سے وہاں بارش بھی ہوئی جس سے مسلمانوں کے قد م اور مضبوط ہوگئے جب کہ کفار جس جانب تھے وہاں ان کے قدم کیچڑ کی وجہ سے دھنسنے لگے جس کی وجہ سے ان کو شدید مشکلات اور تھکاوٹ کا سامناکرنا پڑا۔ 33 اسی طرح میدان جنگ کی ایک حکمت عملی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے یہ بھی اپنائی کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے لشکر کا رخ مغرب کی طرف اور سورج کو پیٹھ کی طرف رکھاتاکہ جب سورج طلوع ہو تو شعاوؤں سے مسلمان لشکر متاثر نہ ہو ۔ جبکہ کفار کے لشکر کا رخ مشرق کی جانب تھا 34 جہاں سے سورج براہ راست ان کی آنکھوں پر پڑ رہا تھا۔

نزول سکینہ اور شیطان کی چال

اسی طرح جنگ شروع ہونے سے قبل مسلمانوں پر اللہ تعالی کی طرف سے اس قدر سکینہ نازل ہوا کہ ان کو نیند کے جھونکے آنے لگے ،اور کفار کی حالت یہ تھی کہ گھوڑے کی ہنہناہٹ پر بھی وہ ایک دم کانپ جاتے تھے ۔مسلمان رات کو اس قدر اطمینان سے سوئے کہ صبح کو اکثر کو غسل کی حاجت پیش آئی۔ مسلمانوں پر یہ حالت شاق گزری تو اللہ تعالی نے ان پر آسمان سے بارش اتاری جس سے انہوں نے غسل بھی کیا، برتن بھی بھرے اور زمین بھی ان کےلیے نرم ہوگئی ۔ 35 قرآن کریم میں اللہ تعالی نے سکون کی اس کیفیت اور شیطان کے مکر کا تذکرہ یوں فرمایا ہے:

إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ 1136
جب اس نے اپنی طرف سے (تمہیں) راحت و سکون (فراہم کرنے) کے لئے تم پر غنودگی طاری فرما دی اور تم پر آسمان سے پانی اتارا تاکہ اس کے ذریعے تمہیں (ظاہری و باطنی) طہارت عطا فرما دے اور تم سے شیطان (کے باطل وسوسوں) کی نجاست کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو (قوتِ یقین) سے مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے قدم (خوب) جما دے۔

بدر کے میدان میں اللہ تعالی نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو کفار کی تعداد کم دکھائی ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :

وَإِذْ يُرِيكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ 4437
(وہ واقعہ یاد دلائیے) جب آپ کو اللہ نے آپ کے خواب میں ان کافروں (کے لشکر) کو تھوڑ ا کر کے دکھایا تھا اور اگر (اللہ) آپ کو وہ زیادہ کر کے دکھاتا تو (اے مسلمانو!) تم ہمت ہار جاتے اور تم یقیناً اس (جنگ کے) معاملے میں باہم جھگڑنے لگتے لیکن اللہ نے (مسلمانوں کو بزدلی اور باہمی نزاع سے) بچا لیا۔ بیشک وہ سینوں کی (چھپی) باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔

رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صحابہ کرام Radi Allah Anhum کواللہ تعالی کی اس مدد کے بارے میں بتایا تھا جس سے ان کے حوصلے بلند ہوگئے تھے۔

رسول اللہ ﷺ کےلیے چھاؤنی کا قیام

مسلمان جب بدر کے مقام پر اپنی جگہ کا انتخاب کر چکے تو حضرت سعد بن معاذ Radi Allah Anho نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے فرمایا کہ کیوں نہ ہم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے ایک چھاؤنی بنائیں جس میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam قیام فرمائیں اور وہاں سے لشکر کی قیادت کریں ۔ اگر اللہ تعالی نے ہمیں غلبہ عطا فرمایا تو بہت اچھا اور اگر (خدانہ خواستہ ) ہم مغلوب ہوئے تو جو ہمارے پیچھے (مدینہ میں ) لوگ ہیں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ان سے جاملیں۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےیہ سن کر ان کی تعریف فرمائی اور ان کے لئے دعائے خیر فرمائی۔ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے وہ چھاؤنی بنادی گئی جسے عریش بھی کہا گیا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس میں تشریف فرما ہوئے جہاں سے پورے میدان جنگ کا مشاہدہ کیا جاسکتا تھا۔ 38

لشکروں کابالمقابل قیام

مسلمان ایک دن قبل ہی میدان بدر میں آ پہنچے تھے۔ اس رات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صحابہ کرام Radi Allah Anhum کے ساتھ میدان کا چکر لگایا اوران کو بشارت دی کہ یہ فلاں سردار کے قتل کی جگہ ہے اور یہ فلاں کی اور یہاں قریش کا فلاں سردار مارا جائے گا۔ راوی فرماتے ہیں اللہ کی قسم جس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، جو جو نشان آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بتائے تھے ٹھیک اسی جگہ وہ کافر قتل ہوئے ۔ 39

اگلی صبح کو لشکر کفار جب میدان میں اترا تورسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کے ساز وسامان اور لاؤ لشکر کو دیکھ کر دعا فرمائی:

اللّٰهم هذه قريش قد أقبلت بخيلائها وفخرها تحادك وتكذب رسولك، اللّٰهم فأحنهم الغداة.
اے اللہ! یہ قریش اپنے تکبر اور فخر کے ساتھ آئے ہیں۔ یہ تیرے رسول کو جھٹلاتے ہیں اور اس کے ساتھ جنگ کرتے ہیں ۔اے اللہ اپنی وہ مدد بھیج جسکا تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے،اے اللہ کل ان کو ہلاک فرما۔

جب لشکر قریش اپنے جگہ سنبھال چکا تو قریش کے کچھ لوگ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حوض پر پانی پینے آئے۔ ان میں حکیم بن حزام بھی تھے جو بدر کے دن بچ گئے تھے اور بعد میں اسلام لےآئے تھے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان لوگوں کو دیکھ کر فرمایا کہ انہیں پانی پینے دو، جو جو آج یہاں سےپانی پئے گا، کل مارا جائے گا سوائے حکیم بن حزام کے۔ 40

میدان جنگ کی ہدایات

رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے لشکر کو جمع کیا اور سب کو اس معرکہ کی اہمیت بتائی اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا :

أما بعد فإني أحثّكم على ما حثّكم اللّٰه عز وجل عليه وأنهاكم عمّا نهاكم اللّٰه عز وجل عنه، فإن اللّٰه عز وجل عظيم شأنه، يأمر بالحقّ، ويحبّ الصّدق، ويعطي على الخير أهله على منازلهم عنده، به يذكرون، وبه يتفاضلون، وإنكم قد أصبحتم بمنزل من منازل الحق... 41
میں تم سب کو اس چیز کی ترغیب دیتا ہوں جس کی ترغیب اللہ تعالی نے دی ہے۔اور اس چیز سے منع کرتا ہوں جس چیز سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے۔اللہ تعالی کی شان بلند وبرتر ہے، جو حق کا حکم دیتا ہے اور سچ کو پسند کرتا ہے، اور نیکی پر اپنے پاس سے درجات عطا فرماتا ہے۔ انہی مقامات کے ذریعہ سے تم یاد کیے جاؤ گے اور انہی کے ذریعہ سے تمہیں برتری ملے گی، اور اس وقت تم اللہ کے ہاں ایسے مقام پر ہو جو حق کا مقام ہے۔ یہ مقام اللہ تعالی صرف اسی سےقبول فرماتا ہے جو اللہ کی رضا کا طالب ہوتا ہے،اور بے شک صبر جنگ کے موقعہ پرہی ہوتا ہے جس میں اللہ تعالی غم کو دور فرماتا ہےاور پریشانی سے نجات عطا فرماتا ہے۔اورتم اسی صبر پرآخرت میں بھی اجر کے مستحق بنو گے۔ تم میں اللہ کا نبی موجود ہے جو تمہیں (غلط بات سے) منع بھی کرتا ہے اور (نیک بات کا) حکم بھی دیتا ہے، لہذا آج کے دن بچو کہ کہیں اللہ تعالی تم سے ایسا کام نہ دیکھے جو اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بنے ۔

اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے چند جنگی اقدامات کیے جوآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی جنگی حکمت عملی پر مکمل دلالت کرتے ہیں ۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مسلمانوں کے لشکر کی صف بندی کی 42 جوکہ عربوں کےلیے ایک نئی چیز تھی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے سب سے پہلےتیر اندازوں کو رکھا تاکہ گھڑ سواروں کے حملوں کو روک سکیں۔اس کے بعد نیزہ بردار صف رکھی اور اس کے بعد تلوار برداروں کی۔ 43 حملہ کو روکنے اور ہتھیاروں کو احتیاط سے استعمال کرنےکے حوالے سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے لشکر سے فرمایا:

إذا أكثبوكم فارموهم، واستبقوا نبلكم. 44
جب کفار کا لشکر تمہارے قریب ہو تو ان پر تیر برساؤ، (کیونکہ دور سے تیر چلانے سے تیر لگے گا نہیں اور ضائع ہوگا )اور اپنے تیر بچا کر رکھو۔

تلوار بردار دستہ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا :

ولا تسلوا السيوف حتى يغشوكم. 45
اپنی تلواروں کو نہ سونتے رکھو (تاکہ ہاتھ نہ تھک جائیں ) جب تک دشمن تمہارے قریب نہ آجائیں۔

سواد بن غزیہ Radi Allah Anho کا ایمان افروز واقعہ

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جب صفیں درست فرما رہے تھے تو ایک صحابی حضرت سواد بن غزیہ Radi Allah Anho صف سے تھوڑا آگےکی طرف نکلے ہوئے تھے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam صحابہ کرام Radi Allah Anhum کی صفحیں درست کروارہے تھے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جب ان کو صف سے آگے نکلے ہوئے دیکھا تو پیٹ میں ہلکا سا کچوکا لگاکر فرمایا:

استو يا سواد، فقال يا رسول اللّٰه !أوجعتني وقد بعثك اللّٰه بالحق والعدل قال "فأقدني" فكشف رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم عن بطنه وقال استقد قال فاعتنقه فقبل بطنه فقال "ما حملك على هذا يا سواد "؟ قال يا رسول اللّٰه !حضر ما ترى، فأردت أن يكون آخر العهد بك أن يمس جلدي جلدك فدعا له رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بخير . 46
اے سواد صف درست کرو۔ وہ فرمانے لگے یارسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam آپ نے مجھے تکلیف دی ہے ۔جبکہ اللہ تعالی نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حق اور عدل کے ساتھ مبعوث فرمایا ۔ مجھے اس کا بدلہ چاہیے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے (فورا) پیٹ سے کپڑا ہٹا کر فرمایا :بدلہ لے لو۔ وہ فورا لپک کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے چمٹ گئے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے(بدن مبارک کے) بوسے لینے لگے ۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان سے پوچھا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا ؟ تووہ کہنے لگے، یارسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! جنگ کی حالت ہے۔ میں نے یہ چاہا کہ میرا آخری کام یہ ہوکہ میرا جسم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسم مبارک کو چھو لے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کےلیے خیر کی دعا فرمائی ۔

یہ وہ جانثاری تھی جو مسلمانوں کے صف میں موجود ہر جانثار کے دل میں موجود تھی جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر اپنی جان قربان کرنے کو تیار تھے ۔

اسو دمخزومی کا قتل اور جنگ کی ابتداء

ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی کہ کفار کے لشکر سے ایک شخص اسود بن عبد الاسد مخزومی نکلا جو انتہائی بد اخلاق اور شریر تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے قسم کھائی ہے کہ میں مسلمانوں کے حوض سے پانی پیئوں گا یا اس کو خراب کروں گا ورنہ اس کوشش میں مارا جاؤں گا ۔ جب وہ نکلا تو مسلمانوں کے لشکر سے حضرت حمزہ بن عبدالمطلب Radi Allah Anho نکلے۔ دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو حضرت حمزہ Radi Allah Anho نے اس کے پاؤں پر حملہ کر کے اس کی نصف پنڈلی کاٹ دی جس سے خون کا فوارہ نکل کر کفار کے لشکر کی طرف بہہ پڑا۔ پھر بھی وہ حوض کی طرف مڑا اور اس کے قریب ہوگیا تانکہ اپنا ارادہ اور قسم پوری کرسکے۔ حضرت حمزہ Radi Allah Anho نے دوسرا وار کرکے اس کو واصل بجہنم کردیا ۔ 47

اسود مخزومی کے قتل ہونے کے بعد کفار کے لشکر سے عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ نکلے اور مسلمانوں کو مقابلہ کےلیے للکارا۔ ان کے مقابلہ کےلیے انصار کے تین لوگ نکلے، حضرت عوف Radi Allah Anho،حضرت معاذ Radi Allah Anho اور حضرت عبداللہ بن رواحہ Radi Allah Anho۔ ان سے پوچھا گیا کہ تم کون لوگ ہو؟ یہ حضرات کہنے لگے، ہم انصار میں سے ہیں۔ اس کے جواب میں عتبہ وغیرہ کہنے لگے کہ ہمارا تم سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ ہمارے مقابلے میں ہمارے برابر کے لوگ جو ہماری قوم سے ہیں وہ آئیں ۔تو ان کے مقابلہ میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت ابو عبیدہ بن حارثRadi Allah Anho،حضرت حمزہ Radi Allah Anhoاور حضرت علی Radi Allah Anhoکو روانہ فرمایا۔ جب یہ تینوں آگے بڑہے تو وہ دور سے دیکھ کر کہنے لگےکہ تم کون لوگ ہو؟ کیونکہ انہوں نے زرہیں پہنی ہوئی تھیں اسلئے وہ ان کو پہچان نہ سکے۔جب انہوں نے اپنے نام بتائے تو وہ کہنے لگے کہ اب ہمارا برابر کے لوگوں سے واسطہ پڑاہے۔پھر مقابلہ شروع ہوا تو حضرت عبیدہ Radi Allah Anho نے عتبہ پر،حضرت حمزہ Radi Allah Anho نے شیبہ پر اور حضرت علی Radi Allah Anho نے ولید پر حملہ کیا ۔ حضرت حمزہ Radi Allah Anho اور حضرت علی Radi Allah Anho نے اپنے مقابل کو جلد انجام تک پہنچا دیا البتہ حضر ت عبیدہ Radi Allah Anho اور عتبہ میں لڑائی چلتی رہی۔ دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیے، جس سے حضرت عبیدہ Radi Allah Anho کی ٹانگ کٹ گئی ۔یہ دیکھ کر حضرت علی وحمزہ Radi Allah Anhuma نے ولید پر حملہ کیا اور اس کا کام تمام کردیا ۔حضرت عبیدہ Radi Allah Anho کا زخم کافی گہرا تھا جس سے ان کی شہادت ہو گئی۔ 48

رسول اللہﷺ کی مناجات

ابھی یہ دو مقابلے ہوئے تھے اور عام حملہ نہیں ہوا تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam صفوں کو درست کرنے کے بعد عریش پر آگئے جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے بنایا گیا تھا۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کےپاس اس وقت صرف حضرت ابو بکرصدیق Radi Allah Anho تھے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگنے لگے:

اللهم إن تهلك هذه العصابة الیوم لا تعبد في الأرض أبدا.
اےاللہ! آج اگر یہ جماعت ختم ہوگئی تو زمین پر پھر کبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔

حضرت ابو بکر صدیق Radi Allah Anho نے جب اس طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو دعا فرماتے دیکھا تو عرض کی: یارسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی یہ مناجات اللہ پاک نے سن لی۔ اللہ پاک اپنا وعدہ پورا فرمائیں گے ان شاءاللہ۔ 49 اسی مناجات سے متعلق آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر یہ آیت نازل ہوئی:

إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ 950
(وہ وقت یاد کرو) جب تم اپنے رب سے (مدد کے لئے) فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد قبول فرمالی (اور فرمایا) کہ میں ایک ہزار پے در پے آنے والے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد کرنے والا ہوں۔

پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے چند گھڑیاں آنکھیں بند فرمائیں اور پھر ابو بکر صدیق Radi Allah Anho کو خوشخبری دی کہ میں جبرئیل Alaihis Salam کو دیکھ رہا ہوں جو زرد عمامہ ٹکائے گھوڑے کی لگام تھامے ہماری مدد کو اتر رہے ہیں۔ 51

صحابہ کرام Radi Allah Anhum کاشوق شہادت

جب فرشتوں کے اتارے جانےکی خوشخبری آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ملی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی چھاؤنی سے باہر تشریف لائے۔ اس وقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے زِرہ پہن رکھی تھی۔ اس وقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے پھر سے صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو جہاد کی ترغیب دی اور انہیں جنت کی خوشخبری دی۔ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے یہ فرمایا:

قوموا إلى جنة عرضها السموات والأرض.
چلو اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان وزمیں کی طرح ہے۔

تو اس وقت عمیر بن حمام Radi Allah Anho کے ہاتھ میں کھجوریں تھیں اور وہ ان کو کھا رہے تھے۔ یہ بشارت سن کر آپ Radi Allah Anho کہنے لگے: واہ واہ یارسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! اتنی بڑی جنت۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: ہاں ۔ عمیر بن حمام Radi Allah Anho نے یہ جواب سنا تو فرمایا: میرے اور جنت کے درمیان یہ زندگی حائل ہے، اگر کھجور کھاتا رہا تو کافی وقت ضائع ہو جائےگا۔ یہ کہہ کر آپ نےکھجور یں پھینکیں اور تلوار اٹھا لی یہاں تک کے دشمن سے لڑتےلڑتے جام شہادت نوش فرمالیا ۔ 52

ایک اور صحابی حضرت عوف بن حارث Radi Allah Anho کے بارے میں آتا ہے کہ آپ Radi Allah Anho نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے پوچھا کہ اللہ تعالی کب اپنے بندے پر مسکراتا ہے؟ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:

غمسه يده في العدو حاسرا.
جب بندہ بغیر جنگی لباس کےدشمن پر ہاتھ ڈال دے ۔

انہوں نے یہ سن کر اپنی زِرہ اتاری اور میدان میں اتر گئے یہاں تک کے دشمن سے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ 53

کفار کے سرغنوں کا قتل

ابو جہل جو کہ اس امت کا فرعون تھا ، اس کو اللہ تعالی نے دو کمسن بچوں معاذ ابن عمرو Radi Allah Anho اور معوذ ابن عفرا Radi Allah Anho کے ہاتھوں قتل کرایا۔ یہ دونوں سگے بھائی تھے لیکن ایک کی نسبت انکے والد اور دوسرے کی انکی والدہ کی طرف کی جاتی تھی۔ ان دونوں نے ابو جہل پر حملہ کیا اور گھوڑے سے گراکر ادہ مواہ کردیا ،اس کےعبداللہ بن مسعود Radi Allah Anho نے اس کا سر کاٹ کر اس کا قصہ تمام کیا۔ 54 رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کفار کی لاشوں کے پاس کھڑے تھے اور ابو جہل کی لاش کو تلاش کررہے تھے۔ جب اسکی لاش آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو نظرنہیں آئی توآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دعا فرمائی کہ: اے اللہ! مجھے اس امت کے فرعون کے بارے میں کمزور نہ فرما نا۔ اس کے بعد لوگ اس کو تلاش کرنے لگے تو عبد اللہ بن مسعود Radi Allah Anhoنے اس کو پالیا ۔اور اس کا سر کاٹ کر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس لے آئے اور فرمانے لگے یارسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! یہ اللہ کے دشمن ابو جہل کا سر ہے ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس قدر خوش ہوئے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے 5 سجدے شکر کے کیے ،اور اس کے بعد فرمایا :

اللّٰه أكبر، الحمد للّٰه الذي صدق وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده. 55
اللہ اکبر ،تمام تعریفیں اس ذات کےلیے جس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور لشکروں کو اکیلے شکست دی۔

امیہ بن خلف بھی سرداران قریش میں سے تھا اوراس کی عبدالرحمن بن عوف Radi Allah Anho کے ساتھ اسلام سے پہلے کی دوستی تھی۔ بدر کے دن امیہ بن خلف نے عبدالرحمن بن عوف کو آواز لگائی اور کہا کہ ہمیں اپنے ساتھ لے جاؤ۔ عبدالرحمن بن عوف Radi Allah Anho نے امیہ اور اس کے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور انہیں جلدی جلدی میدان جنگ سے دور لے جانے لگے۔ اس اثنا میں حضرت بلال Radi Allah Anho نےامیہ بن خلف کو دیکھ لیا۔ یہی امیہ بن خلف تھا جو حضرت بلال Radi Allah Anho کو اسلام لانے پر سزائیں دیا کرتا تھا۔ حضرت بلال Radi Allah Anho نے اسکو جاتے دیکھا تو زور سے آواز لگائی کہ یہ تو کفرکا سرغنہ امیہ بن خلف ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے مدد کے لئےانصار کو آواز لگائی اور سب نے مل کر امیہ بن خلف کو قتل کردیا ۔ 56

اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کفار کو ایک گڑھے میں ڈال کر اس پر مٹی ڈالنے کا حکم فرمایا۔پھر تیسرےدن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس گڑھے کے پاس تشریف لائے اور ان سرداروں کے نام لے لے کر فرمایا : کیا تم نے وہ دیکھ لیا جو اللہ اور اس کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے وعدہ فرمایا تھا؟ حضرت عمر Radi Allah Anho نے عرض کی : یارسول اللہSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam !آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بلا روح کے جسموں سے کیسے کلام فرما رہے ہیں؟ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا :

والذي نفس محمد بيده، ما أنتم بأسمع لما أقول منهم. 57
قسم اس ذات كی جس كے دست قدرت میں محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam كی جان ہے! جو کچھ میں ان سے کہہ رہا ہوں تم اس کو ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔

فرشتوں کا قتال کرنا اور شیطان کا فرار ہونا

قبیلہ بنو غفار کے دونوجوان، جنہوں نے کفار کے ساتھ جنگ میں شرکت نہیں کی تھی صرف جنگ دیکھنے کی غرض سے وہاں ایک پہاڑ پر موجودتھے، انہوں نے میدان بدر میں فرشتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پہاڑ پر بیٹھے تھے کہ پہاڑ کے قریب ایک بادل کا ٹکڑاآیا جس میں ایک قسم کی گرج تھی۔ اس میں سے ہم نے ایک گھڑسوار کی آواز سنی جو کہ رہا تھا ، اے حیزوم آگے بڑھ۔ جب میر ے ساتھی نے یہ آواز سنی تو خوف کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ قریب تھا کہ میں بھی مر جاتا پر میں بے ہوش ہوگیا ۔ 58 جنگ کی کیفیت یہ تھی کہ اس میں مسلمان کسی کافر کا پیچھا کرتا تو وہ ایک کوڑے کی آواز سنتا اور جب اس کے قریب جاتا تو اس کی ناک کو پھٹا ہواپاتا اور چہرے کونیلا پاتا۔ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اس کیفیت کا بتایا گیا تو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا! ہاں یہ اللہ کی مدد ہے ۔مسلمان اپنی تلوار کافر کے لیے اٹھاتے تو اس سےپہلے ہی اس کا سر الگ پڑا ہوتا تھا ۔فرشتوں کی مار کا اثر کفار کے چہرے اور جوڑوں پر پایا گیا ۔ 59 شیطان بدر کے میدان میں کفار کے ساتھ سراقہ بن مالک کی صورت میں آیا تھا اور مشرکین سے کہتا پھرتا تھا کہ آج کہ دن تم ہی غالب رہو گے، میں تمہارے ساتھ ہوں۔ لیکن جب حضرت جبرئیل Alaihis Salam کو دیکھا تو فورا بھاگ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: میں جو دیکھ رہا ہوں تم نہیں دیکھ سکتے، اس لیے ان سے لڑنا میرے بس کی بات نہیں ۔ 60

حضرت عکاشہ Radi Allah Anho کی تلوار

بدر کے میدان میں صحابہ کرام Radi Allah Anhumنے بہادری وجانثاری کی ایک تاریخ رقم کی ۔حضرت عکاشہ بن محصن Radi Allah Anho اس قدر زور سےدشمن پر وار کیے جارہے تھے کہ ان کی تلوار ہی ٹوٹ گئی۔ وہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس آئے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے اپنی تلوار کے ٹوٹ جانے کی عرض کی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی بات سنی تو ان کو ایک ٹہنی دی اورارشادفرمایا:

قاتل بهذا يا عكاشة.
اے عکاشہRadi Allah Anho! اس سے دشمن کے ساتھ جنگ کرو۔

جب حضرت عکاشہ Radi Allah Anho نے اس ٹہنی کو پکڑ کر ہوا میں لہرایا تو وہ تلوار بن گئی۔ آپ Radi Allah Anho نے پورا معرکہ اس تلوار سے لڑا ۔اس تلوار کا نام آپ Radi Allah Anho نے ''عون'' (مدد) رکھا۔پھر آپ Radi Allah Anho شہادت تک ہر غزوہ میں اسی تلوار سےلڑتے رہے 61 جس پر کئی صحابہ کرام Radi Allah Anhum گواہ بنے۔

کفار کے مقتولین اور شہداء بدرکی تعداد

معرکہ بدر میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو عظیم فتح عطا فرمائی۔ مسلمانوں کا جانی ومالی نقصان کفارکے مقابلہ میں کم ہوا اور شان وشوکت میں بھی اضافہ ہوا۔ جبکہ کفار نے اس غزوہ میں اپنی عزت گنوانے کے ساتھ زبردست شکست اٹھائی اور کافی بھاری جانی ومالی نقصان کاسامنا کیا ۔ بدر کے میدان میں 70 کفار مقتول ہوئے اور 70 ہی قید ہوئے ۔ 62 اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کے شہداء کی تعداد صرف 14 تھی ۔جن میں6 انصار اور8 مہاجرین Radi Allah Anhum تھے۔ 63

بدر میں تین دن قیام

لڑائی کے ختم ہونے پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فورا واپسی نہیں کی بلکہ تین دن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے وہاں قیام فرمایا ۔تیسرے دن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کوچ کرنے کا حکم فرمایا اور تمام لشکر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پیچھے روانہ ہوا۔ 64

مال غنیمت کی تقسیم اور قیدیوں کے بارے میں رائے

رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بدرسے لوٹے تو مقام صفراء پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مال غنیمت تقسیم کرنے کا اعلان فرمایا ۔ مال غنیمت میں 150 اونٹ ، 10 گھوڑے، اسلحہ،کپڑے،چمڑے کے قالین اور کافی سامان تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ لگا ۔ چونکہ یہ پہلا بڑا غزوہ تھا جس میں اس قدر مال غنیمت ملا تھا اس لئے اس کی تقسیم کا طریقہ کار صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو معلوم نہیں تھا ۔ اس موقع پر اللہ تعالی نے تقسیم غنیمت سے متعلق یہ آیت نازل فرمائی:

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ 165
(اے نبئ مکرّم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam!) آپ سے اَموالِ غنیمت کی نسبت سوال کرتے ہیں۔ فرما دیجئے: اَموالِ غنیمت کے مالک اللہ اور رسول (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) ہیں۔ سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی معاملات کو درست رکھا کرو اور اللہ اور اس کے رسول (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) کی اطاعت کیا کرو اگر تم ایمان والے ہو۔

اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مال غنیمت تقسیم فرمایا۔66 اسی مقام پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے نضر بن حارث کو قتل کرنے کاحکم فرمایا اور جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam عرق الظبیہ پہنچے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے عقبہ بن ابی معیط کو قتل کرنے کا حکم فرمایا۔67 وہاں سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مدینہ منورہ کی طرف چلے اور قیدیوں سے پہلے مدینہ منورہ پہنچے۔جاتے ہوئے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے قیدیوں کے بارےمیں فرمایا :

استوصوا بالأسرى خيرا.
قیدیوں کے بارے میں بہتری سے کام لینا۔

اور پھر قیدیوں نے خود اس بات کی گواہی دی کہ صحابہ کرام Radi Allah Anhum نے کیسے ان کا خیال رکھا۔ وہ خود بھوکے رہتے تھے اور قیدیوں کو کھانا کھلاتےتھے ۔68

تمام لوگ جب قیدیوں سمیت مدینہ منورہ پہنچ چکے تو چند دن بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے قیدیوں کے بارے میں مشورہ طلب فرمایا کہ ان کے ساتھ کیا کیا جائے؟ سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق Radi Allah Anho نے رائے دی:

يا رسول الله قومك وأهلك فاستبقهم واستأن بهم... 69
یارسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam: یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی قوم اور خاندان والے ہیں، ان کو باقی رکھیں اور ان کے ساتھ نرمی کریں ۔

آپ Radi Allah Anho نے مزید فرمایا کہ ان سے فدیہ لیں تاکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مالی طور پر کفارکے خلاف مضبوط ہوجائیں اور ممکن ہے کہ اللہ تعالی ان کو اسلام لانے کی بھی توفیق عطا فرمادیں ۔پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت عمر Radi Allah Anho سے پوچھا کہ آپ Radi Allah Anho کی کیا رائے ہے؟ حضرت عمر Radi Allah Anho فرمانے لگے : یارسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! میری رائے وہ نہیں جو ابو بکر Radi Allah Anho کی رائےہے بلکہ میری رائے یہ ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ان کو ہمارے حوالے کریں ہم ان کی گردنیں اتار دیں۔ عقیل کو علی Radi Allah Anho کے حوالہ کریں وہ اس کی گردن ماریں، مجھے میرا فلاں رشتہ دار حوالہ کریں میں اس کی گردن ماروں ۔یہ سارے کفر کے سرغنے اور ان کے بہادر لوگ ہیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے دونوں کی رائےسنی تو قلبی نرمی اور گداز کے باعث حضرت ابو بکرصدیق Radi Allah Anhoکی رائے کے مطابق فیصلہ فرمایا۔ حضرت عمر Radi Allah Anho فرماتے ہیں کہ اگلے دن میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس گیا تو رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور ابو بکر Radi Allah Anho رو رہے تھے ۔ میں نے ان سے وجہ پوچھی تو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam فرمانے لگے :

أبكي للذي عرض علي أصحابك من أخذهم الفداء، لقد عرض علي عذابهم أدنى من هذه الشجرة - شجرة قريبة من نبي اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم - وأنزل اللّٰه عز وجل: ما كان لنبي أن يكون له أسرى حتى يثخن في الأرض. 70
میں اس مشورہ کی وجہ سے رو رہا ہوں جو تمہارے ساتھیوں نے فدیہ لینے کا دیا تھا (اس فیصلہ کی وجہ سے) عذاب مجھے دکھایا گیا جو کہ اس درخت سے زیادہ قریب تھا ۔(جو درخت) رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قریب تھا ۔ اور اللہ تعالی نےمجھ پر یہ آیت نازل فرمائی کہ: کسی نبی کو یہ سزاوار نہیں کہ اس کے لئے (کافر) قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں ان (حربی کافروں) کا اچھی طرح خون نہ بہا لے۔

فدیہ کی مقدار

بدر کے معرکہ میں جو70لوگ قید ہوئےوہ مالی حیثیت کے اعتبار سےمختلف تھے اس لیے فدیہ لیتے وقت کوئی ایک عدد مقرر نہیں کیا گیا بلکہ تعداد اور ادائیگی کے مختلف طریقوں کو اختیار کیا گیا۔ کچھ لوگ وہ تھےجن کے پاس مال نہیں تھا لیکن ہنر موجود تھا تو ان کا فدیہ وہ ہنر سکھانا ہی طے کیا گیا ۔جوقیدی پڑھنا لکھنا جانتے تھے ان کا فدیہ دس دس بچوں کو مکمل لکھنا پڑھنا سکھاناطے کیا گیا۔ 71 کچھ وہ لوگ تھے جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا، نہ فن، نہ مال، ان کو بلا فدیہ ہی چھوڑا گیا جیسا کہ مطلب بن حنطب،ابو عزہ جمحی اورصیفی بن عابد کے ساتھ کیا گیا یعنی ان تینوں کو بلا مال کے چھوڑا گیا ۔ 72 اس کے علاوہ جن لوگوں کے پاس مال تھا ان سے اچھی مقدار میں فدیہ لیا گیاجیسا کہ حضرت عباس سے تین افراد کا 1200 دینار فدیہ لیا گیا۔ اس کے علاوہ نوفل سے 1000 نیزے فدیہ میں لیے گئے۔ ابو وداعہ نے اپنے والدکا4000 درہم فدیہ دیا۔ 73

مکہ میں شکست کی خبراور اس کا اثر

مشرکین کو بدر میں اس بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ بھاگتے ہوئے وہ اپنے سرداروں کی میتیں بھی ساتھ نہ لے جاسکے اور وہیں مسلمانوں نے ایک گڑھے میں ان کو ڈال دیا۔مشرکین میں سے سب سے پہلے جو مکہ مکرمہ پہنچا وہ حیسان بن عبداللہ خزاعی تھا۔ جب وہ پہنچا تو وہاں موجود لوگوں نے اس سے پوچھا کہ کیا حالات ہیں؟ وہ کہنے لگا: عتبہ مارا گیا ، شیبہ مارا گیا، ابو الحکم مارا گیا، ابوالبختری مارا گیا ، امیہ بن خلف مارا گیا، زمعہ بن اسود مارا گیا، نبیہ اور منبہ مارے گئے، ابو البختری بن ہشام مارا گیا ۔ جب وہ قریش کے مقتولین گِن رہا تھا تو صفوان بن امیہ سمجھا کہ شایدصدمہ سے اس کی عقل چلی گئی ہے اس لیے اس نے کہا کہ اگر اس کی عقل سلامت ہے تو اس سے میرے بارے میں پوچھو۔ اس سے پوچھا گیاتو کہنے لگا: یہ سامنے بیٹھا ہوا ہے ،میں نے اس کے باپ اور بھائی کو قتل ہوتے دیکھا ہے۔اس کے بعد سفیان بن مغیرہ سے پوچھا گیا کہ تم بتاؤ وہاں کیا ہوا؟ وہ کہنے لگا: باخدا ہم ایسے لوگوں سے ملے جن کو ہم نےاپنے کندھوں پر سوار پایا۔ وہ ہمیں جہاں چاہتے موڑتے تھے، جیسے چاہتے تھے ہمیں قیدی بناتے تھے،اللہ کی قسم ایسے لوگ میں نے پہلے نہیں دیکھے۔ 74

جب مکہ میں کفار کی شکست کی خبرپھیلی تو عورتوں نے نوحے شروع کردئیے اور تقریبا ایک ماہ تک ان کی یہ کیفیت رہی۔ وہ اپنے بال نوچتیں اور جب بھی کسی مقتول کی سواری آتی تو اس کو دیکھ کر نوحہ کرنے لگتیں۔75 الأسود بن المطلب کے گھر کے تین لوگ زمعہ بن الأسود، عقيل بن الأسود، اور الحارث بن زمعہ مارے گئے تھے، اس کا رونے کا بہت زیادہ دل کر رہا تھالیکن وہ اجتماعی نوحے کا انتظار کررہا تھا۔ ایک رات اس کو کسی کےرونے کی آواز آئی۔ وہ خود تو نابینا ہوچکا تھا اسلئے اپنے خادم سے کہنے لگا ذرا سن کر بتاؤ یہ آواز کیسی ہے؟ کیا یہ نوحے والے ہیں ؟ کیا قریش اپنے مرنے والوں پر رو رہے ہیں؟ تاکہ میں بھی زمعہ پر روؤں۔ میرا پیٹ (شدت غم سے)جل رہا ہے ۔غلام نے جھوٹ سے کام لیاا ورواپس آکر اس سےکہا کہ ایک عورت اپنے اونٹ کے گم ہونے پر رو رہی ہے 76 تانکہ یہ مزید ہلکان نہ ہو۔

غزوہ بدر کے نتائج

غزوہ بدر اسلام کا فیصلہ کن معرکہ تھا جس کےذریعے سے اللہ تعالی نے مسلمانوں کی شان وشوکت اور سطوت میں بے پناہ اضافہ فرمایا۔قرآن کریم نے غزوہ بدر کو ”یوم الفرقان“ 77 کا نام دیا اس کے علاوہ بدر کے دن کو قرآن کریم نے بطشۃ الکبری78 سے بھی تعبیر فرمایا۔ اس معرکہ سے مسلمانوں کو کئی پہلوؤں سے فیصلہ کن نتائج حاصل ہوئے جن میں سے چند ایک یہ ہیں :

  1. مسلمانوں کو تجارتی راستے پر جو راستہ اہل مکہ شام کی تجارت کے لیے استعمال کیا کرتے تھے مکمل کنٹرول حاصل ہوگیا ۔ 79
  2. اس معرکہ نے عصبیت کی جڑوں کو بالکل ختم کردیا ۔ یہاں تک کے ابو بکر صدیق Radi Allah Anho نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ اگر تومیری تلوار کی زد میں آتا تو میں تجھے نہ چھوڑتا ۔ اسی طرح ابو عبیدہ بن جراح Radi Allah Anho نے میدان بدر میں اپنے باپ کا سامناکیا اور اس کا سر تن سے جدا کر دیا ۔80
  3. سب سے بڑا فائدہ مسلمانوں کو ایمان وعقیدہ کے اعتبار سے ہوا۔ جو بشارات انہوں نے رسول اللہSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبانی سنی تھیں وہ غزوہ بدر میں مکمل طور پرظاہر ہوئیں۔ اللہ تعالی نے اتنے کم اسباب و وسائل کے ساتھ صرف ایمان کی طاقت کے بل بوتے پر ان کو اتنی عظیم فتح عطا فرمائی۔
  4. اہل ایمان کو کھلی آنکھوں سے فرشتوں کا لڑنا دکھا کر ان کے حوصلے، ایمان اور عقیدہ کوغیرمعمولی تقویت عطا فرمائی۔
  5. حق اور باطل کا فرق مکمل طور پر واضح ہوگیا۔
  6. فتح کی وجہ سے مسلمان اندورنی اور بیرونی خطرات سے جو کہ ان کو یہود اور دیگر کی طرف سے لاحق تھے ان سے محفوظ ہوگئے ۔

  • 1  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996 م، ص: 288
  • 2  محمود شیت خطاب، الرسول القائد، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1422ھ، ص:165
  • 3  ایضاً، ص: 85
  • 4  أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2008م، ص:27-26
  • 5  ایضاً، ص:172
  • 6  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009 م، ص:172- 173
  • 7  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم للطباعۃ واللنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 2010 م، ص:224
  • 8  ایضا، ص:18
  • 9  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009 م، ص:179
  • 10  ا بو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-1، مطبوعۃ: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده بمصر، القاھرۃ، مصر ، 1955م، ص: 618
  • 11  ابو عبداللہ محمد بن ابی بکرالدمشقی المعروف بابن قيم الجوزية، سیرۃ خیرالعباد، مطبوعۃ:المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 2000م، ص:108
  • 12  القرآن، سورۃالانفال 8 :48
  • 13  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013 م ، ص: 291
  • 14  ابو عبد اللہ محمد بن أحمد الذہبی، السیرۃ النبویۃمن کتاب تاریخ الاسلام، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 307-308
  • 15  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009 م، ص: 95-93
  • 16  أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2008 م، ص: 33
  • 17  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، 2000م، ص:327
  • 18  القرآن، سورۃالانفال8 :7
  • 19  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج- 2، مطبوعۃ: دارالمعرفة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، 1976م، ص: 392
  • 20  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان، 2000م، ص:327
  • 21  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013 م ، ص:206
  • 22  ٔبو عبد اللہ محمد بن أحمد الذہبی، السیرۃ النبویۃمن کتاب تاریخ الاسلام، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص:307
  • 23  ابو عبداللہ محمد بن ابی بکرالدمشقی المعروف بابن قيم الجوزية، سیرۃ خیرالعباد، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 2000م، ص:107
  • 24  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی،المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 50-51
  • 25  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص:21
  • 26  محمد بن احمد باشميل، من معارک الاسلام الفاصلۃ، ج-1، مطبوعۃ: المکتبۃ السلفیۃ، القاھرۃ، مصر، 1408ھ، ص:130
  • 27  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، 2000م، ص:329
  • 28  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009 م ، ص: 100-99
  • 29  أبو عبد اللہ محمد بن أحمد الذہبی، السیرۃ النبویۃمن کتاب تاریخ الاسلام، مطبوعۃ:دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 310
  • 30  أبو محمد علي بن أحمد الاندلسی القرطبی، جوامع السیرۃ، مطبوعۃ: دارالمعارف القاہرہ، مصر، 1900م، ص: 112
  • 31  محمد بن احمد باشميل، من معارک الاسلام الفاصلۃ، ج-1، مطبوعۃ: المکتبۃالسلفیۃ، القاھرۃ، مصر، 1408ھ، ص:125
  • 32  القرآن، سورۃ الانفال 8 :42
  • 33  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، 2000م، ص:330
  • 34  ابو عبداللہ،محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص:52
  • 35  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009 م ، ص:101
  • 36  القرآن، سورۃ الانفال 11:8
  • 37  القرآن، سورۃ الانفال 44:8
  • 38  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، 2000م، ص:331
  • 39  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013 م ، ص:214
  • 40  ٔبو عبد اللہ محمد بن أحمد الذہبی، السیرۃ النبویۃمن کتاب تاریخ الاسلام، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 310-309
  • 41  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م ، ص:34
  • 42  أبو عبد اللہ محمد بن أحمد الذہبی، السیرۃ النبویۃمن کتاب تاریخ الاسلام، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، 1956م، ص: 310
  • 43  محمود شیت خطاب، الرسول القائد، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1422ھ، ص: 116
  • 44  أبو عبد اﷲ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:3984 ، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:672
  • 45  ابوداؤد سلیمان بن الاشعث السجستانی، سنن ابی داؤد، حدیث: 2664، ج-3، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص:52
  • 46  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009 م، ص:67 -68
  • 47  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:66
  • 48  ابو عبداللہ محمد بن ابی بکرالدمشقی المعروف بابن قيم الجوزية، سیرۃ خیرالعباد، مطبوعۃ:المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 2000م، ص:113
  • 49  ابو حاتم محمد بن حبان البستی الدارمی، السیرۃ النبویۃ وأخبار الخلفاء، ج-1، مطبوعۃ: الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، 1417ھ، ص:172
  • 50  القرآان، سورۃ الانفال 9:8
  • 51  أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2008 م ، ص: 54
  • 52  ابو عوانۃ یعقوب بن اسحاق النیسابوری الاسفرائیینی، مستخرج ابی عوانۃ، ج4-، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1998م، ص: 459
  • 53  أبو بكر محمد بن أبي إسحاق الکلاباذی البخاری، بحرالفوائد المشہور بمعانی الاخبار، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص:195
  • 54  ابو عبداللہ محمد بن ابی بکرالدمشقی المعروف بابن قيم الجوزية، سیرۃخیرالعباد، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 2000م، ص:117
  • 55  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص:236
  • 56  ابو عبد اللہ محمد بن أحمد الذہبی، السیرۃ النبویۃمن کتاب تاریخ الاسلام، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص:312
  • 57  أبو عبد اﷲ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3976 ، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:681
  • 58  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی،المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص:77
  • 59  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009 م، ص: 186
  • 60  ایضاً، ص:185
  • 61  شیخ احمد بن محمدالقسطلانی، المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:188
  • 62  ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-2، مطبوعۃ: شركة الطباعة الفنية المتحدة، القاہرہ، مصر، لیس التاریخ موجوداً، ص:814
  • 63  أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2008م، ص:122
  • 64  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص:
  • 65  القرآن، سورۃ الانفال 8: 1
  • 66  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013 م ، ص:252
  • 67  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009 م، ص:93
  • 68  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009 م، ص: 123
  • 69  ابوعبداللہ احمدبن محمد بن حنبل الشیبانی، مسندالامام احمد بن حنبل، حدیث: 3632، ج-6، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:138
  • 70  ابوالحسین مسلم بن الحجاج القشیری، صحیح المسلم، حدیث:1763، مطبوعة: دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، السعودية، 2000م، ص:782
  • 71  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص: 69
  • 72  ابو بكر احمد بن الحسین البیھقی، السنن الکبریٰ، حدیث:12840، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1424ھ، ص:520
  • 73  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009 م، ص:194
  • 74  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009 م، ص:97-96
  • 75  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص:67
  • 76  ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-1، مطبوعۃ: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده بمصر، القاھرۃ، مصر ، 1955م، ص: 648
  • 77  القرآن، سورۃ الانفال 8: 41
  • 78  القرآن، سورۃ الدخّان 44 :16
  • 79  محمود شیت خطاب، الرسول القائد، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1422ھ، ص:153
  • 80  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص:232-231

Powered by Netsol Online