غزوہ مُریسیع جس کو غزوہ بنو مصطلق بھی کہا جاتا ہے سن 5 ہجری میں مسلمانوں اور بنی المصطلق کے درمیان لڑا گیا۔ 1 یہ صرف دشمن کے خلاف ایک جنگی معرکہ نہیں تھا بلکہ دورِ رسالت مآب میں اس کے کئی سماجی، سیاسی اور اخلاقی اثرات بھی مرتب ہوئے۔ 2 اس غزوہ کے دوران کئی اہم واقعات پیش آئے جن میں واقعہ افک اور منافقین کی سازشیں شامل تھیں۔ 3
اس غزوہ کو دو ناموں یعنی غزوہ مریسیع اورغزوہ بنوالمصطلق سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کو غزوہ مریسیع اس لئے کہا گیا کیونکہ یہ معرکہ مریسیع کے مقام پر لڑا گیا جو پانی کے ایک ذخیرہ کا نام تھا جو مدینہ منورہ سے تقریبا 170 میل کے فاصلہ پر واقع مقام قدید کے قریب تھا۔ 4 اس غزوہ کا دوسرا نام غزوہ بنو المصطلق ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ غزوہ قبیلہ بنو مصطلق کے خلاف لڑا گیا جو کہ قبیلہ بنو خزاعہ کی ایک شاخ تھی۔ مصطلق ان کے اجداد میں سے ایک شخص کا لقب تھا جس پر اس قبیلہ کی شاخ کا نام رکھا گیا تھا۔ 5
بنومصطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار تھا۔ اسے اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے خطرہ محسوس ہونے لگا تو اس نے مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی جنگ کی تیاری شروع کردی۔ 6 حارث بن ابی ضرار نے مختلف قبائل کو اکٹھا کرکے مدینہ پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ حضرت محمد کو جب بنو مصطلق کی اس سازش کی خبر ملی تو آپ
نے دشمن کے حملے سے پہلے ہی ان پر حملہ کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ 7
حضرت محمد مصطفٰی نے صحابہ کرام کو جنگ کی تیاری کا حکم دیا اور ایک لشکر ترتیب دیا جس میں مہاجرین و انصار دونوں شامل تھے۔ آپ
نے مدینہ میں حضرت زید بن حارثہ
کو نگران مقرر کیا اور خود لشکر کے ساتھ مقام مُریسیع کی طرف روانہ ہوئے۔ اس غزوہ میں منافقین کی ایک بڑی جماعت آپ
کے ساتھ شریک سفر تھی۔ 8 راستہ میں ایک مشکوک شخص کی سرگرمی نظر آئی جسے فوراًگرفتار کرکے رسول اللہ
کے سامنے پیش کردیا گیا۔ اس سے تفتیش کی گئی لیکن اس نے کوئی بات بتانے اور معلومات دینے سے انکار کردیا۔ رسول اللہ
نے اسے اسلام کی دعوت دی جسے اس نے نہیں مانا۔ اس پر آپ
نے حضرت عمر
کو اس کا سر قلم کرنے کا حکم دیا۔ بنو مصطلق کو جب اپنے جاسوس کے قتل کی خبر پہنچی تو ان کی دہشت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ 9
جب مسلمان مقام مُریسیع پہنچے تو وہاں بنی المصطلق پہلے سے موجود تھے۔ مہاجرین کا جھنڈا حضرت ابو بکر صدیق کے ہاتھ میں اور انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہ
کے پاس تھا۔ 10 رسول اللہ
نے حضرت عمر
کو حکم دیا کہ ان کو اسلام اور امن کی دعوت دیں لیکن بنو مصطلق نےاس دعوت کو پس پشت ڈالتے ہوئے جنگ کی ابتدا کردی اور تیر پھینکنا شروع کردیے۔ 11 رسول اللہ
نے صحابہ کرام کو بھرپور جواب دینے کا حکم فرمایا۔ مسلمانوں کے حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے مخالف لشکر کے پاؤں اکھڑنے لگے اور ان کے 10 لوگ مارے گئے جبکہ مسلمانوں کی جانب سے ایک صحابی شہید ہوئے۔ 12
بنو مصطلق کے 10 لوگ مارے گئے اور باقی ماندہ لشکر کو قیدی بنالیا گیا۔ ان قیدیوں میں قبیلے کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی حضرت جویریہ اور 200 کے قریب دیگر مرد و زن بھی شامل تھے۔ قیدیوں کے علاوہ مسلمانوں کو مال غنیمت کے طور پر 2000 اونٹ اور لگ بھگ 5000 بکریاں بھی حاصل ہوئیں۔ رسول اللہ
نے حضرت ابو نضلہ طائی
کو مدینہ منورہ فتح کی خوشخبری دینے کے لیے روانہ فرمایا اور خود لشکر اور مال غنیمت کے ساتھ بعد میں مدینہ منورہ پہنچے۔ 13
جب حضرت محمد مدینہ منورہ پہنچنے اور مال غنیمت تقسیم کیا گیا تو حضرت جویریہ
حضرت ثابت بن قیس بن شماس
کے حصہ میں آئیں جن سے انہوں نے عقد کتابت کرلیا۔ حضرت جویریہ
نبی کریم
کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنی آزادی کے لیے مدد طلب کی۔ نبی کریم
نے ان کا مالِ کتابت ادا کیا اور ان کو نکاح کی پیشکش فرمائی جسے انہوں نے بخوشی قبول کرتے ہوئے آپ
سے نکاح فرمالیا۔ اسلام لانے سے قبل آپ
کا نام ''برّہ'' تھا آپ
نے ان کا نام بدل کر جویریہ رکھ دیا۔ 14 جب صحابہ کرام کو معلوم ہوا کہ حضرت جویریہ
اب امّ المؤمنین بن چکی ہیں اور جو قیدی ان کے پاس ہیں وہ رسول اللہ
کے سسرالی بن چکے ہیں تو اس احترام میں انہوں نے تمام قیدیوں کو آزاد کردیا۔ 15
حضرت جویریہ کے والد کو جب اپنی بیٹی کے قید ہونے کا علم ہوا تو وہ اپنی بیٹی کو چھڑانے کے لیے اپنے ساتھ کئی اونٹ بطور فدیہ لے کر مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔ مدینہ منورہ کے قریب وادی عقیق میں دو قیمتی اونٹ چھپا کر باقی ماندہ اونٹوں کے ساتھ دربار نبوی
میں پیش ہوئے اور اپنی صاحبزادی کوچھڑانے کے موضوع پر آپ
سے بات کی۔ آپ
نے ان کی بات سن کر ان سے دریافت فرمایا کہ وہ دو قیمتی اونٹ کہاں ہیں جووہ ساتھ لائے تھے۔ یہ سن کر حارث بن ابی ضرار سکتے میں آگئے اور فوراً کلمہ پڑھ لیا کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کا نبی ہی پوچھ سکتا ہے جس کو خدا نے اس کا علم دیا ہو۔ ان کے کلمہ پڑھنے سے ان کی پوری قوم نے بھی کلمہ پڑھ لیا اور مسلمان ہوگئے۔ 16
غزوہ بنو مصطلق کے سفر میں کئی اہم واقعات پیش آئے جنہوں نے امت کے لیے قیمتی دینی رہنمائی فراہم کی۔ حضرت عائشہ کے طفیل تیمم جیسی عظیم سہولت نازل ہوئی، واقعہ افک کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان کی پاکدامنی ظاہر کی، اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کا نفاق بے نقاب ہوا۔ صحابہ کرام کا جذبۂ ایمان، نبی کریم
کی حکمت، اور قرآن کی رہنمائی اس غزوے کی نمایاں جھلکیاں ہیں۔
حضرت محمد کی عادت مبارکہ تھی کہ جب سفر پرتشریف لے جاتے تو ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی کرتے اور ان میں سے کسی کو اپنے ہمراہ لے جاتے تھے۔ غزوہ مریسیع کے لیے جاتے ہوئے حضرت ام ّسلمہ
اور حضرت عائشہ
کے نام قرعہ نکلا۔ غزوہ سے واپسی پر حضرت عائشہ
کا ہار کہیں گم گیا۔ اس کی تلاش میں پورا لشکر رُکا رہا۔ کچھ لوگوں نے جب شکایت کی کہ حضرت عائشہ
کی وجہ سے تاخیر ہورہی ہے تو اس بات پر حضرت ابو بکر
حضرت عائشہ
کو ڈانٹنے لگے 17 اور زور سے ان کے پہلو میں کچوکا لگا یا۔ لشکر جس جگہ رکا ہوا تھا وہاں دور تک پانی نہیں تھا اس لیے لشکر وضو کے لیے فکر مند تھا۔ اسی اثنا میں رسول اللہ
پر تیمم کی آیات نازل ہوئیں اور یوں حضرت عائشہ
کے طفیل امت کو تیمم جیسی نعمت اور عظیم رخصت نصیب ہوئی۔ تیمم کا حکم ملنے کے بعد حضرت اسید بن حضیر
آل ابو بکر کے بارے میں فرمانے لگے:
ما هي بأول بركتكم يا آل أبي بكر. 18
اے ابو بکر () کے خاندان والوں یہ تمہاری (وجہ سے امت کو ملنے والی) پہلی برکت نہیں ہے۔
غزوہ سے واپسی پرآپ نے ایک ہموار جگہ پر حضرت عائشہ
سےدوڑ کا مقابلہ کیا جس میں آپ
ان سے سبقت لے گئے۔ 19 اسی غزوہ سے واپسی میں ایک مقام پر آپ
نے اونٹوں کی دوڑ کرائی جس میں آپ
کی اونٹنی ''قصواء'' نے حصہ لیا اور مقابلہ جیت لیا جس کو حضرت بلال
چلا رہے تھے۔ اسی طرح گھڑ سواری کا مقابلہ بھی ہوا اور آپ
کے ''لزاز'' اور ''ظرب'' نامی گھوڑے دوڑائے گئے۔ آپ
کے ظرب گھوڑے کو ابو اسید
چلا رہے تھے اور وہ یہ مقابلہ جیت گئے۔ 20
غزوہ بنو مصطلق کے اسی سفر میں ایک مقام پر پانی حاصل کرتے ہوئے ایک انصاری اور مہاجر صحابی کے درمیان تکرار ہو گئی۔ معاملہ بڑھا تو عبد اللہ بن ابی بن سلول کہنے لگا کہ جن لوگوں نے مہاجرین کو کھلا پلا کر پالا پوسا ہے یہ ان پر ہی جرّی ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کے درمیان افتراق اور تفرقہ پیدا کرنے کے لیے اس نے مزید زہر گھولتے ہوئے کہا:
...لئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الأعز منها الأذل!... 21
اگر ہم مدینہ واپس لوٹے تو عزت والے کمتر لوگوں کو وہاں سے باہر نکال دیں گے۔
پھر انصار کی طرف متوجہ ہو کرمزید شر انگیز گفتگو کی۔ اس کی یہ ساری گفتگو حضرت زیدبن ارقم نے سن لی اور ساری بات رسول اللہ
کو بتائی۔ حضرت عمر
تک یہ بات پہنچی تو آپ
نے رسول اللہ
سے عرض کی کہ وہ عباد بن بشر
کو حکم دیں کہ وہ عبد اللہ بن ابی بن سلول کا سر قلم کردیں۔ نبی کریم
نے حضرت عمر
کو یہ فرماتے ہوئے اس فعل سے منع کیا کہ لوگ کہیں گے کہ محمد (
) اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کروارہے ہیں۔ عبد اللہ بن ابی کو اس بات کا پتہ چلا تو وہ قسمیں کھانے لگا کہ اس نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ یہ سن کر کچھ لوگ حضرت زید بن ارقم
کے متعلق فرمانے لگے کہ شاید اس نوجوان کو گفتگو سننے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالی نے سورۃ المنٰفقون نازل فرما کر اس رئیس المنافقین کا چہرہ بے نقاب کردیا۔ 22
عبداللہ بن ابی بن سلول کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ جو کہ مخلص مسلمان تھے اس موقع پر اللہ کے رسول
کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آپ
عبداللہ بن ابی بن سلول کے قتل کی ذمہ داری خود انہیں سونپ دیں تاکہ ان کے دل میں اس بارے میں کوئی خلش نہ رہے کہ ان کے باپ کو کسی اور نے قتل کیا ہے۔ رسول اللہ
نے ان کا یہ ایمانی جذبہ دیکھتے ہوئے انہیں تسلی دی اور عبداللہ بن ابی بن سلول کے ساتھ بہتری والا معاملہ کرنے کا یقین دلایا۔ 23 واپسی میں حضرت عبداللہ
مدینہ منورہ سے باہر اپنے والد عبداللہ بن ابی بن سلول کے راستہ میں کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ آج عزت والے ذلت والوں کو نکالیں گے یعنی عبداللہ بن ابی بن سلول مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔ جب رسول اللہ
کواس بات کا علم ہوا تو آپ
نے حضرت عبداللہ
کو اپنے والد کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنے سے منع فرمایا۔ 24
اس غزوے سے واپسی پر ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جسے واقعہ افک کہا جاتا ہے۔ واپسی کے دوران سیدہ عائشہ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئیں اور وہاں ان سے ان کا ہار گم ہوگیا جس کی تلاش میں انہیں کافی وقت لگ گیا۔ ان کے ہودج کو اٹھانے پر معمور صحابہ کرام نے پالان اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا کیونکہ وہ دبلی پتلی تھیں اس لیے ان لوگوں کو پتہ ہی نہ چلا کہ وہ ہودج میں نہیں ہیں۔ جب حضرت عائشہ
واپس آئیں تو قافلہ جاچکا تھا۔ وہ وہیں ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئیں۔ 25 حضرت صفوان بن معطل
کی ذمہ داری تھی کہ وہ لشکر کے آخر میں رہیں۔ انہوں نے جب حضرت عائشہ
کو درخت کے نیچے تشریف فرما دیکھا تو احترام کے ساتھ انہیں اپنی سواری پر بیٹھایا اور خود پیدل چل کر آپ
کو لشکر تک لے آئے۔
اس واقعہ کی بنیاد پر منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی نے حضرت عائشہ پر بہتان لگایا، جس سے مدینہ میں فتنہ برپا ہو گیا۔ حضرت عائشہ
کو شروع میں اس بات کا علم نہیں تھا۔ جب ان کو پتہ چلا تو وہ بہت روئیں اور اپنے والدین کے گھر چلی گئیں۔ نبی کریم
پر یہ وقت بہت سخت تھا۔ جب اس بات کو كافی دن گزر گئے تو اللہ تعالیٰ نے سورہ النور کی آیات نازل فرما کر حضرت عائشہ
کی پاکدامنی ثابت فرمائی اور ان کی برأت کا اعلان فرمایا۔ 26
غزوہ مصطلق کے بعد مسلمانوں کی طاقت میں مزید اضافہ ہوا کیونکہ رسول اللہ کی بروقت حکمت عملی نے فتنہ کو سر اٹھانے سے پہلے ہی ختم کردیا۔ 27 ثانیاً مسلمانوں نے قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آکر اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا، جس کے نتیجے میں پورا قبیلہ اسلام لے آیا۔ 28 اس کے ساتھ ہی منافقین کے بارے میں واضح احکامات نازل ہوئے، جنہوں نے اسلامی معاشرے میں ان کے کردار کو بے نقاب کردیا۔