encyclopedia

غزوہ مؤتہ

Published on: 08-Oct-2024
تاریخ:8 ہجری/629 عیسویمہینہ:جمادع الاول/ اگست یا ستمبرمسلمان سپہ سالار:۱۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ۲۔ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ۳۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ۴۔ حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہکفارسپہ سالار:۱۔ شرحبیل بن عمروغسانی۲۔ ہرقلمسلمان مجاہدین:300 صحابہ کرام رضی اللہ عنہملشکرِ کفار:200000 (دو لاکھ)مقام غزوہ:مؤتہدورانیہ:7 دنشہداء:12 صحابہ کرام رضی اللہ عنہممقتولینِ کفار:نا معلومنتیجہ:کوئی نتیجہ نہیں ہوا۔

غزوہ مؤتہ جس کوغزوہ جیش الامراء بھی کہا جاتا ہے 1 سن 8 ہجری کو مؤتہ کے مقام پر مسلمانوں اور رومی لشکر کے درمیان لڑی گئی۔ 2 اس غزوہ میں مسلمانوں کی تعداد تین ہزار3 اور رومی فوج تقریباً دولاکھ سپاہیوں پر مشتمل تھی۔4 اس جنگ میں مسلمانوں کی قیادت حضرت زید بن حارثہ Radi Allah Anho کر رہےتھے جبکہ ان کی شہادت کے بعد بالترتیب حضرت جعفر بن ابی طالبRadi Allah Anho ، حضرت عبد اللہ بن رواحہ Radi Allah Anho5 اور حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho6 نے کمان سنبھالی۔ کفّار کے لشکر کے ایک حصہ کی کمان شرحبیل بن عمروغسانی کے پاس تھی اور دوسرے حصہ کی قیادت ہرقل خود کر رہا تھا۔7 مسلمان جمعہ کے دن مدینہ منوّرہ سے روانہ ہوئے 8اور شام کے علاقے معان پہنچے۔ وہاں لشکر اسلام نے دو دن قیام کیا اور صورت حال کا جائزہ لیا، 9 پھر مؤتہ کے مقام پر جاکر کفّار کا مقابلہ کیا۔ یہ جنگ سات دن تک جاری رہی 10 اور بغیر کسی واضح نتیجہ کے ختم ہوئی۔11 تاہم تین ہزار مُسلمانوں کادو لاکھ کفّار کے مقابلے میں نہ صرف ثابت قدم رہنا بلکہ خاطر خواہ نقصان پہنچا کر سلامتی کے ساتھ لوٹ آنا کسی فتح سے کم نہیں تھا۔اس معرکہ میں مسلمانوں کی طرف سے12 مسلمان شہید ہوئے۔12

غزوہ یا سریہ

علامہ واقدی Rehmatullah Alaih، 13 ابن ہشام Rehmatullah Alaih، 14 بیہقی Rehmatullah Alaih،15 ابن حزم Rehmatullah Alaih16 ودیگر سیرت نگاروں نے اس معرکہ کا شمار غزوات میں کیا ہے اگرچہ کہ اس معرکہ میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بنفس نفیس شریک نہیں تھے۔ اس معرکہ میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو جنگ کے احوال کی خبر معجزاتی طورپر لمحہ بہ لمحہ ملتی رہی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam منبر پر تشریف فرماتھے اور اللہ کے فضل سے معجزاتی طور پر معرکہ کارزار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہےتھے۔ اس معجزے کی بنیاد پر اس معرکہ کو غزوہ کہا جاتا ہے گویا کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خود اس میں شریک تھے۔17 تاہم علّامہ زرقانی Rehmatullah Alaih، 18 ابن کثیر Rehmatullah Alaih19 اور ابراہیم حلبی Rehmatullah Alaih20 نے اس کوغزوہ کے ساتھ سرایا کے طور پر بھی شمار کیا ہے۔

مقام و سن

یہ معرکہ جمادی الاولیٰ، سن 8 ہجری21 بمطابق اگست یا ستمبر، 629 عیسوی 22 کو مؤتہ کے مقام پر وقوع پذیر ہوا۔ مؤتہ ملکِ شام کی حدود میں واقع بلقاء نامی جگہ کی ایک بستی تھی23 جو بیت المقدس سے دو دن کی مسافت پر واقع تھی۔ 24

غزوہ مؤتہ کا سبب

حضورنبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حارث بن عمیر ازدی Radi Allah Anho کو خط دےکر بصریٰ کے امیر حارث بن ابی شمر غسانی کے پاس پہنچانے کے لیے بطور قاصد روانہ کیا۔ 25 جب حارث بن عمیر Radi Allah Anho مؤتہ کے مقام پر پہنچےتو وہاں ان کا سامنا شرحبیل بن عمرو غسانی سے ہواجو شاہ روم قیصر کی طرف سے شام کے امراء میں سےتھا۔ 26 جب اسے حضرت حارث بن عمیر ازدی Radi Allah Anho کے شام جانے اور امیرِ بصریٰ کو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا خط پہنچانے کی خبر ہوئی تو اس نے حضرت حارث بن عمیر ازدی Radi Allah Anho کو گرفتار کیا اور انہیں بے دردی سے شہید کردیا۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے یہ واحد قاصد تھے جنہیں شہید کیا گیا۔ جب یہ اطلاع رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو پہنچی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو شدید دکھ ہوا کیونکہ حضرت حارث بن عمیر ازدی Radi Allah Anho حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قاصد تھے اور قاصد کا قتل دنیا کے کسی بھی قانون میں روا نہیں تھا چنانچہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو اس واقعہ سے مطلع فرمایااور قصاص لینے کے لیے غزوہ کی تیاری کاحکم دیا۔ 27

امراء کی تعیین

صحابہ کرام Radi Allah Anhum روانگی سے قبل مقام جرف میں جمع ہوئے۔ جرف مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک مقام تھا۔ ظہر کے وقت حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تشریف لائے۔ صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تشریف فرما ہوئے اور ارشاد فرمایا:

زيد بن حارثة أمير الناس، فإن قتل زيد بن حارثة فجعفر بن أبي طالب، فإن أصيب جعفر فعبد اللّٰه بن رواحة، فإن أصيب عبد اللّٰه بن رواحة فليرتض المسلمون بينهم رجلا فليجعلوه عليهم. 28
زید بن حارثہ Radi Allah Anho لوگوں کے امیر ہوں گے، اگر وہ جام شہادت نوش کرلیں تو جعفربن ابی طالب Radi Allah Anho اور اگر وہ بھی تمغہ شہادت سے سرفراز ہوں ، تب عبد اللہ بن رواحہ Radi Allah Anho لشکر کے امیر ہوں گےاور اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو پھر مسلمان آپس میں سے جس پر راضی ہوں ان کو امیر بنا لیں ۔

اس موقع پر وہاں ایک یہودی نعمان بن فنحص بھی یہ باتیں سن رہا تھا۔ وہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ان کی کنیت ابا القاسم سے مخاطب کر کے عرض گزار ہوا کہ اگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam واقعی اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں تو امارت کے سلسلے میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جن حضرات کا نام لیکر تقرر فرمایاہے وہ سب اللہ کی راہ میں شہید ہوں گے،کیونکہ بنی اسرائیل کے انبیاء Alaihmus Salam جب کسی کو لشکر کا امیر بناتے اور پھر ساتھ یہ کہہ دیتے کہ "اگر یہ شہید ہوجائیں" خواہ وہ سو حضرات ہی کیوں نہ ہوں وہ سب شہادت کا درجہ پا لیتے تھے۔پھر اس یہودی نے زید بن حارثہ Radi Allah Anho سے کہا کہ اگر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اللہ کے سچے نبی ہے تو تم کبھی واپس نہیں لوٹو گےجس پر حضرت زید بن حارثہ Radi Allah Anho نےجم کر جواب دیا کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اللہ تعالیٰ کے سچے اورپکے نبی ہیں۔ 29

لشکر کی روانگی

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ایک سفید جھنڈا باندھ کر حضرت زید بن حارثہ Radi Allah Anho کے حوالہ کیا اور وصیت فرمائی کہ مؤتہ کے مقام پر جائیں جہاں حضرت حارث بن عمیر Radi Allah Anho (قاصد) کو شہید کیا گیا تھا اور وہاں کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں ۔اگر وہ قبول کرلیں تو انہیں امن میں رہنے دیں اور اگر قبول نہ کریں تو اللہ تعالیٰ سے مدد و نصرت طلب کر کے ان سے جہاد کریں۔ 30 پھر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بنفس نفیس لشکر کو رخصت کرنے کے لیے”ثنیۃ الوداع“ تک تشریف لائے اور وہاں پر کھڑے ہوکر خطبہ دیا جسے تاریخ کے اوراق نے سنہری حروف میں اس طور پر محفوظ کیا کہ اس خطبہ کا ایک ایک لفظ اسلامی نظریہ جہاد کا زریں اصول ہے۔ علّامہ واقدی Rehmatullah Alaih نے مذکورہ خطبہ کو ان الفاظ میں روایت کیا ہے:

...فقال: اغزوا بسم اللّٰه، فقاتلوا عدو اللّٰه وعدوكم بالشام، وستجدون فيها رجالا في الصوامع معتزلين للناس، فلا تعرضوا لهم، وستجدون آخرين للشيطان، في رءوسهم مفاحص فاقلعوها بالسيوف، ولا تقتلن امرأة ولا صغيرا مرضعا ولا كبيرا فانيا، لا تغرقن نخلا ولا تقطعن شجرا، ولا تهدموا بيتا. 31
۔۔۔ پس (حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے) فرمایا: اللہ کا نام لیکر جہاد کرو، پس اللہ اور اپنے دشمنوں سے (ملک) شام میں قتال کرو، تم وہاں پر کچھ ایسے لوگوں کو پاؤ گے جو دنیا سے الگ تھلگ اپنی خانقاہوں میں گوشہ نشیں ہوں گے (تم) ان سے اعراض برتنا، البتہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے سر شیطانوں کے گھونسلے ہوں گے، ان کا قلع قمع کردینا۔ تاہم کسی عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا، کھجور کے درخت کو مت کاٹنا ،نہ ہی کسی اور درخت کو کاٹنا اور نہ ہی کوئی گھر گرانا۔

حضرت عبد اللہ بن رواحہ Radi Allah Anho کا لشکر سے پیچھے رہ جانا

لشکر اِسلام غزوہ مؤتہ کے لیے جمعہ کے دن روانہ ہونا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہ Radi Allah Anho لشکر کے ساتھ نہیں نکلے کیونکہ ان کا ارادہ تھا کہ جمعہ کی نماز حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اقتداء میں ادا کرنے کے بعد وہ نکلیں گے اور لشکر سے جا ملیں گے چنانچہ اُنہوں نے جمعہ کی نماز مدینہ طیبہ میں ادا کی۔ اس واقعہ کوامام ترمذی Rehmatullah Alaih روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فقال له: «ما منعك أن تغدو مع أصحابك؟»، فقال: أردت أن أصلي معك ثم ألحقهم، فقال: لو أنفقت ما في الأرض ما أدركت فضل غدوتهم. 32
تو (رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے) ان (عبد اللہ بن رواحہ Radi Allah Anho ) سے فرمایا: تمہیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ جانے سے کس چیز نے روکا؟ انہوں نے کہا: میں چاہتا تھا کہ میں آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ) کے ساتھ نماز پڑھوں پھر انہیں جا ملوں۔ تو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: اب اگر تم زمین میں جو کچھ ہےوہ سب کچھ بھی خرچ کر دو، تب بھی ان کے صبح کے عمل کا ثواب نہیں پا سکو گے۔

پس حضرت عبداللہ بن رواحہ Radi Allah Anhoجنگ کے لیے نکل پڑے یہاں تک کے وہ لشکر سے جاملے۔

مسلمانوں اور کافروں کے لشکر کی تعداد

غزوہ مؤتہ کے لیے جانے والا لشکر اس وقت تک کے تمام غزوات میں مسلمانوں کا سب سے بڑا لشکر تھا جو تین ہزار نفوس پر مشتمل تھا۔ 33 جب مسلمانوں کا لشکر جہاد کے لیے روانہ ہوا تو دشمن تک اس کی خبر پہنچ گئی چنانچہ شرحبیل بن عمرو غسانی نے مقابلہ کے لیے لشکر ترتیب دینا شروع کیا اور آس پاس کے قبائل کو جنگ میں شرکت کی دعوت دی ۔ شامی عرب قبائل جو عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے ان میں قبیلہ لخم، جُذام، قَیس،34 بَہراء اور بَلِیّ نے اپنے جنگجو بھیجے۔ ان کا سپہ سالار مالک بن زافلہ نامی شخص تھا جس کا تعلق قبیلہ اراشہ سے تھا۔ شرحبیل نے ان سب کو جمع کر کے لشکر ترتیب دیا جس کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔35 مسلمان جب شام کے علاقہ معان میں پہنچے تو انہیں خبر ملی کہ ہرقل بھی ایک لاکھ فوج کے ساتھ شرحبیل کی مدد کے لیے بلقاء کے قریب پڑاؤڈالے ہوئے ہے۔36 لہٰذا کفّار کے لشکر کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ گئی۔

معان میں پڑاؤ اور باہمی مشورہ

جب مسلمانوں کو لشکر کفّار کی اصل تعداد معلوم ہوئی جو دو لاکھ سے زائد تھی اور ان کے مقابلے میں مسلمان صرف تین ہزار تھے تو اُنہوں نے صورت حال کا جائزہ لینے اور جنگی حکمت عملی بنانے کے لیے معان نامی جگہ میں پڑاؤ ڈالا اور دو دن وہاں قیام کیا۔ مسلمانوں میں سے بعض حضرات نے رائے دی کہ ہم رسول اللہﷺ کو دشمن کی تعداد کے بارے میں خبر کر دیتے ہیں جس کی بنا پر حضورﷺ یا تو مزید افرادی قوت بھیج دیں گے یا کوئی اور مناسب حال فیصلہ فرمادیں گے۔حضرت عبد اللہ بن رواحہ اس رائے سے متفق نہ ہوئے اور لوگوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا:

يا قوم، واللّٰه إن التي تكرهون، للتي خرجتم تطلبون الشهادة، وما نقاتل الناس بعدد ولا قوة ولا كثرة، ما نقاتلهم إلا بهذا الدين الذي أكرمنا اللّٰه به، فانطلقوا فإنما هي إحدى الحسنيين إما ظهور وإما شهادة. قال: فقال الناس: قد واللّٰه صدق ابن رواحة. فمضى الناس فقال عبد اللّٰه بن رواحة. 37
اے لوگو! جس بات کو تم اس وقت ناپسند کر رہے ہو اسی شہادت کی طلب میں تو تم نکلے ہو، ہم دشمنوں سے عدد، قوت یا کثرت دیکھ کر نہیں لڑتے بلکہ ہم تو اس دین کی خاطر لڑتے ہیں جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عزت بخشی ہے، لہٰذا اٹھو اور چلو! دو بھلائیوں میں سے ایک ضرور حاصل ہوگی، یا تو دشمن پر غلبہ ملے گا یا شہادت نصیب ہوگی۔ (یہ سننا تھا کہ) لوگ پکار اٹھے : اللہ کی قسم ابن رواحہ نے سچ کہا!

چنانچہ مسلمانوں نے معان سے پڑاؤ ختم کیا اوربلقاء کی طرف روانہ ہوئے۔

معرکہ مؤتہ

مسلمانوں کا لشکر جب بلقاء کے حدود میں پہنچا تو ان کا سامنا ہرقل کی فوج سے ہوا جو شارف نامی بستی میں خیمہ زن تھی۔جب دشمن قریب ہوا تو مسلمانوں نے شارف سے ہٹ کر مؤتہ نامی بستی میں پڑاؤ ڈالااور وہاں صف بندی کی۔ مسلمانوں نے اپنے لشکر کے میمنہ پر قطبہ بن قتادہ Radi Allah Anho کو مقرر کیا جن کا تعلق بنی عذرہ سے تھا، اور میسرہ پر عبایہ بن مالک Radi Allah Anho کو جو انصار میں سے تھے، ان کو مقرر کیا گیا۔ 38

جنگ شروع ہوئی تو امیر جیش حضرت زید بن حارثہ Radi Allah Anho جہاد کا عَلم تھامے ہوئے تھے جو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کے سپرد کیا تھا۔ آپ Radi Allah Anho مردانہ وار لڑ ے، یہاں تک کہ انہیں دشمن کا نیزہ لگا اور وہ شہید ہوگئے۔حضرت زید بن حارثہ Radi Allah Anho کی شہادت کے بعد جنگ کی کمان حضرت جعفر بن ابی طالب Radi Allah Anho نے سنبھالی اُس ترتیب کے مطابق جو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے امارت کے لیے مقرر کی تھی۔ جعفر بن ابی طالب Radi Allah Anho اپنے سفید سرخی مائل گھوڑے ”شقراء“ پر سوار تھے۔ 39 جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا اور صفوں کوچیرتے ہوئے وہ آگے بڑھتے جارہے تھے۔ جب میدان کارزار میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا تو گھوڑے کی پشت سے چھلانگ لگا کر اترے اور گھوڑے کی کونچیں کاٹ ڈالیں کیونکہ انہیں اندیشہ ہوا کہ اگر وہ گھوڑے کو اپنے حال پر چھوڑدیں گے تو دشمن اس پر قبضہ کرکے مسلمانوں کے خلاف استعمال کریں گے۔ 40

حضرت جعفر بن ابی طالب Radi Allah Anho نے اپنے دائیں ہاتھ میں جھنڈا تھاما ہوا تھا اور جب دشمن نے وہ ہاتھ کاٹ دیا، توانہوں نے بائیں ہاتھ میں جھنڈا اٹھا لیا۔ جب دشمن نے وہ ہاتھ بھی کاٹ دیا تو انہوں نے اپنے دونوں بازوؤں کے ذریعہ جھنڈے کو اپنے سینہ کے ساتھ لگا لیایہاں تک کہ آپ شہید ہوگئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں انہیں جنت میں دو بازو عطا فرمائے جن کے ذریعہ وہ جنت میں فرشتوں کے ساتھ جہاں چاہےاڑتے پھرتے ہیں۔41 اس خصوصی فضیلت کی بنا پر جعفر بن ابی طالب Radi Allah Anho کو جعفر طیار کہا جاتا ہے۔42 حضرت عبد اللہ بن عمر Radi Allah Anho فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت جعفر بن ابی طالب Radi Allah Anho شہید ہوئے میں اس وقت ان کے پاس کھڑا تھا ۔ ان کے جسم پر نیزے اور تلواروں کے 50 زخم تھے جس میں سے ایک بھی پشت پر نہیں تھا اور ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ ان کے جسم پر 90 سے زیادہ نیزوں اور تلواروں کے نشانات تھے۔ 43

حضرت جعفر بن ابی طالب Radi Allah Anho کی شہادت کے بعد حضرت عبد اللہ بن رواحہ Radi Allah Anho نے کمان سنبھالی اور عَلم بلند کر کے آگے بڑھے۔آپ Radi Allah Anho گھوڑے پر سوار تھے اور چاہ رہے تھے کہ گھوڑے سے اتر کر دشمن پر وار کریں لیکن اترنے میں کچھ دقّت ہوئی تواپنے نفس کو ملامت کرنے کے لیے کچھ اشعار کہے اور پھر زور لگا کر گھوڑے سے اتر پڑے۔جب گھوڑے سے اترے تو آپ Radi Allah Anho کے چچازاد گوشت کی ہڈی لے کر آئے اور کہا کہ یہ تناول کر کے کچھ قوت حاصل کرلیں کیونکہ ان دنوں آپ Radi Allah Anho نے بہت کم کچھ کھایا تھا۔حضرت عبد اللہ بن رواحہ Radi Allah Anho نے اس ہڈی کو ابھی ایک ہی بار چوسا تھا کہ لوگوں کےایک دوسرے پر جھپٹنے کی آواز سنی۔ اس پر آپ Radi Allah Anho نےاپنے نفس کو ملامت کیا اور ہڈی پھینک کر دشمن کی صفوں میں گھس گئے یہاں تک کہ شہادت پالی۔44 سعيد بن ابی ہلال فرماتے ہیں کہ زید بن حارثہ Radi Allah Anho ، جعفر بن ابی طالب Radi Allah Anho اور عبد اللہ بن رواحہ Radi Allah Anho کو غزوہ مؤتہ والے دن ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔ 45

حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anhoکی قیادت

حضرت عبد اللہ بن رواحہ Radi Allah Anho کی شہادت کے بعد جب جھنڈا ان کے ہاتھ سے گر گیا تو لوگوں میں ہل چل مچ گئی۔کچھ ادھر ادھر بھاگنے لگے کچھ پیچھے ہٹنے لگے۔ قتبہ بن عامر Radi Allah Anho جو میمنہ کے سالار تھے انہوں نے لوگوں کو پکارا اور فرمایا:

يا قوم يقتل الرجل مقبلا أحسن من أن يقتل مدبرا. 46
اے لوگو! مرد مجاہد کا لڑ کر شہید ہونا بہتر ہے اس سے کہ پیٹھ پھیرے اور قتل ہو۔

اس کے بعد ابو الیسر Radi Allah Anho نے جھنڈا اٹھایا اور ثابت بن اقرم عجلانی Radi Allah Anho کے حوالے کیا۔ ثابت بن اقرم Radi Allah Anho نے امارت لینے سے انکار کیا تو لوگوں نے حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho کو اپنا نیا سپہ سالار مقرر کیا، اور ثابت بن اقرم Radi Allah Anho نے عَلَم ِجہاد ان کے سپرد کردیا۔47 جب حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho نے لشکر کی قیادت سنبھالی اور رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا جھنڈا بلند کیاتو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس موقع پر مدینہ پاک میں ارشاد فرمایا کہ اب معرکہ نے شدّت اختیار کرلی ہے۔ 48

اگلے دن حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho نے جنگی حکمت عملی میں تبدیلی فرمائی جس سے جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا۔ جب صبح ہوئی توجنگ شروع ہونے سے پہلے حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho نے اگلی صفوں کے لوگوں کو پچھلی صفوں میں بھیج دیا، اسی طرح میمنہ کو میسرہ اور میسرہ کو میمنہ کردیا۔جب جنگ شروع ہوئی اور کفّار نے اپنے سامنے نئے چہرے دیکھے تو ان کے اوسان خطا ہوگئے۔انہیں لگا کہ مسلمانوں کو رات میں کہیں سے مدد پہنچی ہے چنانچہ ان کے دل میں مسلمانوں کا رعب بڑھ گیااور کفّار کے قدم اکھڑ گئے اور مسلمانوں نے کفّار کی خوب بیخ کنی کی۔ 49 گھمسان کی جنگ ہوئی اور خالد بن ولید Radi Allah Anho نے خوب بہادری کے جوہر دکھائے یہاں تک کہ آپ Radi Allah Anho کے ہاتھ سے 9 تلواریں ٹوٹیں اور صرف ایک یمنی تیغہ (چھوٹی تلوار، جس کا پھل چوڑا ہوتا ہے) آپ Radi Allah Anho کے ہاتھ میں باقی رہ گیا تھا۔ 50

ابن کثیر Rehmatullah Alaih نے بحوالہ موسیٰ بن عقبہ Rehmatullah Alaih کے لکھا کہ جب مسلمانوں نے حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho کو اپنا نیا سپہ سالار مقرر کیا تو ان کی انوکھی چال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دشمن کو شکست سے دوچار کیا اور مسلمان غالب آگئے۔ 51 اس مرحلہ میں جب دشمن پر ہیبت طاری تھی اور وہ الٹے قدموں میدان چھوڑ کر بھاگ رہے تھے تب حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور اپنے لشکر کو سمیٹ کر پیچھے ہٹنا شروع ہوئے۔یہ بظاہر جنگی اصولوں کے خلاف تھا کہ شکست خوردہ دشمن کا پیچھا کر کے انہیں مزید نقصان پہنچانے کے بجائے مسلمان خود پیچھے ہٹ رہے تھے لیکن اس فیصلہ کی وجہ یہ تھی کہ حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho کو معلوم تھا کہ اُنہوں نے دشمن کے ایک جتھے کو شکست دی تھی نہ کہ پورے لشکر کو اور جیسے ہی یہ خبر دشمن کی بقیہ فوج کو پہنچنی تھی، وہ کمک لے کر آجاتے اور چونکہ دشمن کی تعداد اس وقت مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ تھی اس لئےعقل مندی اسی میں تھی کہ مسلمان اپنی بچی کچی فوج کے ساتھ صحیح سلامت واپس ہوں۔ مزید یہ کہ اتنی کم تعداد میں ایک عظیم الشام رومی لشکر کو نقصان پہنچانا خود ایک تاریخ ساز کارنامہ تھا اور اس کے بعدصحیح سلامت واپس پہنچنا نہایت صحیح فیصلہ تھا۔ اسی پر عمل کرتے ہوئے حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho نے دشمن کی سراسیمگی کا فائدہ اٹھایا، مسلمانوں کے لشکر کو جمع کیا اور پیچھے ہٹتے ہٹتے جنگ کے میدان سے مسلمانوں کو صحیح سلامت باہر لے آئے۔ 52

میدان کارزار حضور ﷺ کی آنکھوں کے سامنے

علّامہ واقدی Rehmatullah Alaih روایت کرتے ہیں کہ غزوہ مؤتہ کے موقع پر حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مدینہ میں منبر پر تشریف فرما تھے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سامنے سے مدینہ سے شام تک کے درمیان کےسارے پردے اٹھا دئے گئے تھے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس معرکہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ 53 آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مدینہ طیبہ میں بیٹھ کر وہاں کے لوگوں کو امراءِ لشکر کی شہادتوں کے حوالہ سے آگاہ کیا اور جب حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho کو سالار لشکر بنایا گیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کے لیے دعا کرتے ہوئے فرمایا:

اللهم إنه سيف من سيوفك، فأنت تنصره، فمن يومئذ سمي سيف . 54
اے اللہ! خالدبن ولید Radi Allah Anho تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں پس تو ان کی مدد فرما۔ اس دن کے بعد سے حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho کا لقب سیف اللہ ہوگیا۔

اس کے بعدآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے شہداء کا ذکر فرمایا۔ ابن ہشام Rehmatullah Alaih روایت کرتے ہیں:

ثم قال: لقد رفعوا إلي في الجنة، فيما يرى النائم، على سرر من ذهب، فرأيت في سرير عبد اللّٰه بن رواحة ازورارا عن سريري صاحبيه، فقلت: عم هذا؟ فقيل لي: مضيا وتردد عبد اللّٰه بعض التردد، ثم مضى. 55
پھر (رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے) فرمایا: بے شک میں نے ان کو خواب میں جنت کے اندر سونے کے تختوں پربیٹھے دیکھا ہے اور میں نے عبد اللہ بن رواحہ Radi Allah Anho کے تخت میں زید بن حارثہ Radi Allah Anho اور جعفربن ابی طالب Radi Allah Anho کے تخت کے مقابلے میں ایک قسم کی کمی دیکھی ہے۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے پوچھا : یہ کمی کس وجہ سےہے؟ فرمایا: وہ دونوں بغیر کسی تردد کے آگے بڑھے اور عبد اللہ بن رواحہ Radi Allah Anho نے تھوڑا تردد کیا تھا۔

مسلمانوں نے جنگ کی خبر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تک پہنچانے کے لیے مؤتہ سے ایک قاصد یعلی بن امیہ Radi Allah Anho کو روانہ کیا۔ جب وہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس پہنچے تو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان سے فرمایا کہ اگر وہ چاہیں تووہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو خبر دے دیں ورنہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خود انہیں بتا دیں کہ جنگ میں کیا ہوا۔ اس پر آپ Radi Allah Anho نے عرض کی کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہی ان کو آگاہ فرمادیں۔ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کو تمام تر جنگ کے حالات بتائے جس پر یعلی بن امیہ Radi Allah Anho نے عرض کی کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جنگ کے تمام حالات اس طور پر بتلائے کہ کچھ بھی باقی نہ چھوڑا۔ اس پر نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے اس طور پر اٹھا دیا تھا کہ وہ مدینہ پاک سے ہی جنگ کا مشاہدہ فرمارہے تھے۔ 56

مدینہ واپسی

حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho مسلمانوں کو میدان جنگ سے بحفاظت نکال کر مدینہ واپس لوٹے تو مدینہ والے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی قیادت میں لشکر کا استقبال کرنے کے لیے باہر نکل آئے ۔ بچے آگے آگے دوڑ رہے تھے اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی سواری پر سوار تھے۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے سب کو تاکید کی کہ بچوں کو اپنی سواریوں پر بٹھائیں اور خود عبد اللہ ابن جعفر Radi Allah Anho کو اپنے ساتھ اپنی سواری پر بٹھا لیا۔ جب مسلمان لشکر سے آملے تو کچھ لوگ ان کے واپس لوٹ آنے کی وجہ سےطعن و تشنیع کرتے ہوئےان پر مٹی پھینکنے لگے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان لوگوں کو اس فعل سے روکا اور فرمایا کہ یہ لوگ میدان جنگ سے بھاگنے والے نہیں بلکہ پلٹ پلٹ کر دشمن پر حملہ کرنے والے ہیں۔57 امام ابن کثیر Rehmatullah Alaih ان روایات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جن لوگوں کو مدینہ والوں نے ”فرارہوجانے والے“ کہہ کر مخاطب کیاتھا، یہ مسلمانوں کا وہ لشکر نہیں تھا جو حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho کے حکم پر واپس ہوا تھا، 58 بلکہ یہ الگ سے چند لوگ تھے جنہیں ایک سَریہ پر بھیجا گیا تھا اور وہ لوگ وہاں سے فرار ہوکر مدینہ میں آکر چھپ گئے تھے۔ ان لوگوں کو بھی نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے "فرار ہوجانے والے" نہیں کہا تھا بلکہ ان کو عَکَّار(پناہ طلب کرنے والا) کہا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خود ان کے پشت پناہ ہیں۔59 لہٰذا غزوہ موتہ سے واپس آنے والوں کے بارے میں یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ لوگوں نے انہیں "فرارہوجانے والے" کہا ہو۔

جنگ کا نتیجہ

غزوہ مؤتہ میں مسلمان دشمن کے ساتھ سات دن تک برسر پیکار رہے۔ 60 اس غزوہ کے نتیجہ کے بارے میں مورخین کااختلاف ہے۔ کچھ کے نزدیک مسلمان کسی واضح فتح کے بغیر لوٹ آئے جبکہ دیگر کے ہاں مسلمانوں کو مشرکین پر واضح فتح نصیب ہوئی۔61 اس اختلاف کی وجہ درحقیقت حضرت انس بن مالک Radi Allah Anho کی وہ روایت ہے جس میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےارشاد فرمایا:

عن أنس رضي اللّٰه عنه، أن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم نعى زيدا، وجعفرا، وابن رواحة للناس قبل أن يأتيهم خبرهم، فقال: «أخذ الراية زيد فأصيب، ثم أخذ جعفر فأصيب، ثم أخذ ابن رواحة فأصيب» وعيناه تذرفان: حتى أخذ الراية سيف من سيوف اللّٰه، حتى فتح اللّٰه عليهم. 62
حضرت انس Radi Allah Anho فرماتے ہیں: حضرت زید Radi Allah Anho ، حضرت جعفر Radi Allah Anho اور حضرت ابن رواحۃ Radi Allah Anho کی شہادت کی خبر نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی شہادت کی خبر آنے سے پہلے ہی صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو بیان کردی۔ آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) نے فرمایا۔ "زید Radi Allah Anho نے جھنڈا تھاما اور وہ شہید كردیے گئے، پهر جعفر Radi Allah Anho نے جهنڈا تهاما اور وه (بهی ) شہید كردیے گئے، پهر ابن رواحہ Radi Allah Anho نے جهنڈا تهاما اور وه (بهی) شہید كردیے گئے۔"(یہ سب بیان کرتے ہوئے )آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی چشمان مبارک سے آنسو جاری تھے: یہاں تک کہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار(حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho) نے جھنڈا تھاما، اور اللہ نے (مسلمانوں) کو فتح عطا فرمائی۔

اس حدیث کےتحت حافظ ابن حجر فتح الباری Rehmatullah Alaih میں فرماتے ہیں:

واختلف أهل النقل في المراد بقوله: "حتى فتح اللّٰه عليه". هل كان هناك قتال فيه هزيمة للمشركين أو المراد بالفتح انحيازه بالمسلمين حتى رجعوا سالمين. 63
اہلِ نقل اس بات میں اختلاف کرتے ہیں کہ ”حتیٰ کہ اللہ نے انہیں فتح عطا کی“ سے کیا مراد ہے؟ کہ آیا میدان جنگ میں باقاعدہ قتال کے ذریعہ مشرکین کو شکست ہوئی تھی یا مراد یہ ہے کہ (تین ہزار) مسلمانوں کا (دو لاکھ کفّار ) کے چنگل سے صحیح سلامت نکل آنا فتح کے مترادف ہے۔

پھر دونوں طرف کے دلائل ذکر کرنے کے بعد آخر میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

...أو يمكن الجمع بأن يكونوا هزموا جانبا من المشركين وخشي خالد أن يتكاثر الكفار عليهم فقد قيل إنهم كانوا أكثر من مائة ألف فانحاز بهم حتى رجع بهم إلى المدينة. 64
۔۔۔اور ان دونوں باتوں کو یوں جمع کرنا اس طرح ممکن ہے کہ : (مسلمانوں ) نے مشرکین کے ایک گروہ کو شکست دی ہو اور حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anhoکو خدشہ ہوا کہ کفار مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ تعداد (میں حملہ آور ہو جائیں گے )، انہوں نے کہا کہ یہ ہم سے ایک لاکھ سے زیادہ ہیں تو وہ مسلمانوں کو لے کر پیچھے ہٹ گئے اور انہیں مدینہ واپس لے آئے۔

غرضیکہ مسلمانوں کا اتنی قلیل تعداد میں دو لاکھ کے لشکر کو ان کے علاقہ میں جاکر للکارنا اور پھر ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ، یہاں تک کے کفّار کے ایک حصہ کے سپہ سالار مالک بن زافلہ کو قتل کردینا، 65 دشمن کے لشکر کے ایک حصہ کو باقاعدہ میدان جنگ میں شکست دے دینا اور پھر صرف 12 افراد کی شہادت کے ساتھ بقیہ فوج کو بحفاظت واپس لے آنا کسی واضح فتح سے کم نہیں تھا۔

شہداء غزوۂ مؤتہ

غزوہ مؤتہ میں مسلمانوں کی طرف سے 12افراد نے جام شہادت نوش کیا، جن کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:

  1. حضرت زید بن حارثہ Radi Allah Anho
  2. حضرت جعفر بن ابی طالب Radi Allah Anho
  3. حضرت عبد اللہ بن رواحہ Radi Allah Anho
  4. عباد بن قیس Radi Allah Anho
  5. مسعود بن اسود Radi Allah Anho
  6. وہب بن سعد Radi Allah Anho
  7. حارث بن نعمان Radi Allah Anho
  8. سراقہ بن عمروبن عطیہ Radi Allah Anho
  9. ابو کلیب بن عمرو بن زید Radi Allah Anho
  10. جابر بن عمروبن زید Radi Allah Anho
  11. عمرو بن سعدبن حارث Radi Allah Anho
  12. عامر بن سعد بن حارث Radi Allah Anho . 66

  • 1  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 339
  • 2  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 719
  • 3  أیضاً
  • 4  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 343
  • 5  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 4261، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوضیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 722-721
  • 6  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 348
  • 7  أیضاً، ص: 343
  • 8  ابوعیسی محمد بن عیسی الترمذی، سنن الترمذي، حدیث: 527، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 183
  • 9  ابوعیسی محمد بن عیسی الترمذی، سنن الترمذي، حدیث: 527، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 183
  • 10  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 720
  • 11  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-6، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 151
  • 12  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 349
  • 13  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 755
  • 14  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 719
  • 15  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعةﷺ، ج-4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: ، ص: 358
  • 16  أبو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي، جوامع السيرة النبوية، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 174
  • 17  ارکان ادارۂ تحریر دارالمعارف، محمد رسول اللہﷺ،ج – 8، مطبوعہ: بزم اقبال، لاہور، پاکستان، 2022ء، ص: 542
  • 18  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 339
  • 19  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 405
  • 20  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي ، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون ، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص:101
  • 21  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 719
  • 22  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم،مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان،2010م، ص: 394
  • 23  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الأنف في شرح السيرة النبوية لابن هشام، ج-7، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان ،2000م، ص: 164
  • 24  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 339
  • 25  ایضاً، ص: 340
  • 26  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي ، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون ، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص:96
  • 27  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 755
  • 28  أیضاً، ص: 756
  • 29  ایضاً
  • 30  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 342
  • 31  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 758
  • 32  ابوعیسی محمد بن عیسی الترمذی، سنن الترمذي، حدیث:527، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 183
  • 33  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 756
  • 34  ابن ہشام نے اس قبیلہ کا نام قَیس کی جگہ قَین لکھا ہے۔ (ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 720)
  • 35  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 344
  • 36  أیضاً
  • 37  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 720
  • 38  ایضاً، ص: 722
  • 39  أیضا
  • 40  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الأنف في شرح السيرة النبوية لابن هشام، ج-7، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان ،2000م، ص: 172
  • 41  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 723
  • 42  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 414
  • 43  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:4260 - 4261، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوضیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 722-721
  • 44  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 723
  • 45  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج-7، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، 1379ھ، ص: 511
  • 46  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-6، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 150
  • 47  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 348
  • 48  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 764
  • 49  ایضاً
  • 50  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 4266، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوضیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 722
  • 51  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 409
  • 52  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 350
  • 53  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 761
  • 54  أبو بکر عبد اللہ بن محمد ابن أبی شیبۃ، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، حدیث: 36966، ج-7، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودية، 1409 ھ، ص: 412
  • 55  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 724
  • 56  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 408
  • 57  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 725
  • 58  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 410
  • 59  ابوعیسی محمد بن عیسی الترمذی، سنن الترمذي، حدیث:1716، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 537
  • 60  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-6، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 151
  • 61  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعةﷺ، ج-4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، دار الریان للتراث ، 1405ھ، ص: 375
  • 62  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 4262، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوضیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 722
  • 63  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج-7، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، 1379ھ، ص: 513
  • 64  ایضاً
  • 65  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 724
  • 66  ایضاً، ص: 729-730

Powered by Netsol Online