غزوہ بنو قینقاع سن2 ہجری، 15 شوال، بروز ہفتہ کو پیش آیا۔1اس غزوہ میں رسول اللہ
نے بنو قینقار کے قلع کامحاصرہ فرمایا جو کہ بغیر کسی خون خرابہ کے 15 دن تک جاری رکھا۔2اس محاصرہ میں یہودیوں کے 700کے قریب افراد قلعہ بند تھے جن میں 300 زِرہ پو ش تھے۔3غزوه قینقاع میں مسلمانوں كو بغیر جنگ اور جانی نقصان کے فتح حاصل ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ بڑی تعداد میں اسلحہ ان کے حصہ میں مال غنیمت كے طور پر آیا۔4
مسجد نبوی
سے مسجد قبا جاتے ہوئے مدینہ منورہ کے جنوب میں یہود کی بستیاں موجود تھیں۔ 5ان میں سےایک قلعہ بنو قینقاع کا بھی تھا جس میں یہود کے اس قبیلہ کے لوگ آباد تھے۔ان کا مشہور بازار، جو سوقِ قینقاع کہلاتا تھا، مدینہ کا مرکزی تجارتی مرکز سمجھا جاتا تھا جہاں زیورات سازی، اسلحہ سازی اور دیگر حرفتی کام کیے جاتے تھے۔
جب حضرت محمد مصطفیٰ
مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ
نے وہاں موجود یہودی قبائل اور آس پاس کے قبائل سے تعلقات استوار فرما کر ایک میثاق مرتب فرمایا۔ 6اس معاہدہ کے اندر ایک شق تھی جس کے مطابق یہ معاعدہ کسی ظالم یا گناہ گار (فساد کرنے والے) کو تحفظ فراہم نہیں کرے گا۔ 7کچھ دن بعد ایک مسلمان خاتون یہودیوں کے بازار میں کچھ خریداری کرنے گئیں۔ خریداری کے بعد جب وہ واپس ہونے لگیں تو وہاں موجود ایک یہودی نے ان کے لباس کو کسی چیز سے باندھ دیا جس کی وجہ سے جب خاتون چلنے لگیں تو ان کے جسم سے کپڑا سرک گیا جس کو دیکھ کر یہودی قہقہے لگانے لگے۔ خاتون نے جب یہ حرکت دیکھی تو چیخ کر مسلمانوں کو مدد کے لئے پکارہ۔اس عورت کی فریاد اتنی دلسوز تھی کہ ایک مسلمان کی غیرت اس کو برداشت نہ کرسکی اور اس نے موقع پر ہی متعلقہ یہودی کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ جب بات بڑھی تو جواب میں یہودیوں نے مل کر اس مسلمان کو شہید کردیا ۔ 8مسلمان کا اس یہودی کا قتل کرنا معاہدہ کے خلاف اس لئے نہیں تھا کیونکہ یہ معاہدہ کسی ظالم یا فسادی کو تحفظ مہیا نہیں کرتا تھا۔ اس کے برعکس یہودیوں نے جب مل کر اس مسلمان کو شہید کردیا تو یہ معاہدہ کی صریح خلاف ورزی تھی کیونکہ معاہدہ میں یہ بات طے تھی کہ کسی بھی مسئلہ کی صورت میں نبی کریم
سے رابطہ کیا جائے گا۔ اس شق كو بیان كرتے ہوئے ابن ہشام فرماتے ہیں:
وإنه ما كان بين أهل هذه الصحيفة من حدث أو اشتجار يخاف فساده، فإن مرده إلى اللّٰه عز وجل، وإلى محمد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، وإن اللّٰه على أتقى ما في هذه الصحيفة وأبره.9
اس دستور کو تسلیم کرنے والوں کے درمیان اگر کوئی مسئلہ یا جھگڑا رونما ہو جس سے فساد کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ اور اللہ اس شخص کے ساتھ ہے جو اس دستور کے مندرجات پر احتیاط اور وفا شعاری کے ساتھ عملدرآمد کرے۔
اس عہد شکنی کے باوجود نبی کریم
اہل یہود کے پاس تشریف لے گئے تاکہ اس معاملہ کو بغیر کسی مزید خون خرابے کے حل کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے رسول اللہ
نے یہودی باشندوں کو جمع کیا اور ان کو اسلام کی دعوت دی10لیکن یہود یوں نے بڑی ڈھٹائی سے آپ
کی دعوت کو رد کردیا اور کہنے لگے کہ ابھی آپ
کا مقابلہ ان کی اپنی قوم کے نا تجربہ کار لوگوں سے ہی ہوا ہے جب یہ تجربہ کار جنگجوؤں سے لڑیں گے تو ان کو مصائب جنگ کا اندازہ ہوگا۔11رسول اللہ
نے ان کی بدتمیزی پر مبنی یہ بات بڑے صبر و تحمل سے سنی اور بغیر کسی رد عمل کے واپس تشریف لے گئے۔صحابہ کرام
بھی رسول اللہ
کے ساتھ خاموشی سے اپنے غم وغصہ کو دبا کر واپس تشریف لے گئے اور اس وقت صبر وبرداشت سے کام لیا ۔12
میثاق مدینہ کی صورت میں رسول اللہ
چونکہ یہود سے جنگ نہ کرنے کا عہد کرچکے تھے اس لیے آپ
از خود اقدام جنگ نہیں فرمارہے تھے لیکن اس طرح کے عہد شکنی کے واقعہ اور اس سے قبل بھی اہل یہود کی سازشوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ٰ نے آپ
کو یہود کے ساتھ کیا گیا معاہدہ ختم کرنے کا حکم دےدیا اور فرمایا :
وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَۃً فَانْۢبِذْ اِلَيْہِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ 5813
اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو ان کا عہد ان کی طرف برابری کی بنیاد پر واپس لوٹا دیں۔ بیشک اللہ دغابازوں کو پسند نہیں کرتا۔
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ
کو کھلی اجازت تھی کہ اب آپ
یہود کے ساتھ کئے ہوئے عہد کے پابند نہیں ہیں لہذا آپ
ان کے خلاف اب اقدامی کاروائی حملہ کی صورت میں کرسکتے ہیں۔ اس ہی آیت کے نزول کے بعد آپ
نے یہود کےقبیلہ بنو قینقاع کے محاصرہ کا ارادہ فرمایا۔14
حضرت محمد
صحابہ کرام
کی جماعت لے کر بنو قینقا ع کے قلعہ کی طرف روانہ ہوئے۔ لشکر کا جھنڈا حضرت حمزہ
کے ہاتھ میں دیا اور مدینہ منورہ میں ابو لبابہ
کو والی بنایا ۔ قلعہ کے قریب پہنچ کر مسلمانوں نے دیکھا کہ یہودیوں نے اپنے آپ کو قلع بند کردیا ہے۔ رسول اللہ
نے ان کا محاصرہ فرمایا اور بغیر کسی خون خرابہ کے 15 دن تک ان کا محاصرہ جاری رکھا۔15اس محاصرہ میں یہودیوں کے 700کے قریب افراد قلعہ بند تھے جن میں 300 زِرہ پو ش تھے۔16
جب محاصرہ کو 15دن ہوگئے تو یہودیوں نے مغلوب زدہ ہوکر رسول اللہ
سے صلح کرنے کےلیے پیغام بھیجا کہ وہ مال کو قبول فرمالیں اور ان کی عورتوں کوان کے ساتھ رہنے دیں۔ 17رسول اللہ
نے باوجود ان کی ہٹ دھرمی، بدتمیزی اور وعدہ خلافی کے ان کوقلعہ سےنیچے آنے کی اجازت دے دی۔18
یہودیوں کے جرم اور ہٹ دھرمی کی سزا تو قتل تھی لیکن جب ان کو قلعہ سے نکال کر باندھا گیا تو رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی رسول اللہ
کے پاس آیا اور مِنت کرنے لگا کہ آپ
ان کو چھوڑ دیں اور قتل نہ کریں۔ رسول اللہ
نے اس کی بات اَن سنی کی تو وہ اور زیادہ اصرار کرنے لگا جس کی وجہ سے آپ
نے یہود کی جان بخشی کردی اور ان کو وہاں سے فوری نکلنے کاحکم جاری فرمایا۔19
عبداللہ ابن ابی نے بھرپور کوشش کی کہ اس کی دوستی یہود کے ساتھ قائم رہے اور ان کی جان بخشی کےلیے اس نے بہت جتن کئے تاکہ ان کا نورِ نظر بن سکے۔ دوسری طرف حضرت عبادہ بن صامت
جن کے تعلقات اسلام سے قبل یہود کے ساتھ تھے، جب ان کو پتہ چلا کہ یہود نے رسول اللہ
کی بات نہیں مانی اور جنگ پر آمادہ ہوگئے ہیں تو وہ رسول اللہ
کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمانے لگے:
أتولى اللّٰه ورسوله صلى اللّٰه عليه وسلم والمؤمنين، وأبرأ من حلف هؤلاء الكفار وولايتهم.20
میں اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کی دوستی کو ترجیح دیتا ہوں۔اور ان کفار(یہود) کی دوستی اور تعلق سے براءت کا اظہار کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت عبادہ بن صامت
کے اس عمل سے خوش ہوکر مومن اور منافق کے فرق پر قرآن کریم کی یہ آیات نازل فرمائیں:21
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ۰ۘؔ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۰ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِــمِيْنَ51فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْہِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَۃٌ۰ۭ فَعَسَى اللہُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِہٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَسَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِيْنَ5222
اے ایمان والو! یہود اور نصارٰی کو دوست مت بناؤ۔ یہ (سب تمہارے خلاف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور تم میں سے جو شخص ان کو دوست بنائے گا بیشک وہ (بھی) ان میں سے ہو (جائے) گا، یقیناً اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا۔ سو آپ ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جن کے دلوں میں (نفاق اور ذہنوں میں غلامی کی) بیماری ہے کہ وہ ان (یہود و نصارٰی) میں (شامل ہونے کے لئے) دوڑتے ہیں، کہتے ہیں: ہمیں خوف ہے کہ ہم پر کوئی گردش (نہ) آجائے (یعنی ان کے ساتھ ملنے سے شاید ہمیں تحفظ مل جائے)، تو بعید نہیں کہ اﷲ (واقعۃً مسلمانوں کی) فتح لے آئے یا اپنی طرف سے کوئی امر (فتح و کامرانی کا نشان بنا کر بھیج دے) تو یہ لوگ اس (منافقانہ سوچ) پر جسے یہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں شرمندہ ہوکر رہ جائیں گے۔
یہودی اپنی عورتوں، بچوں اور دیگر سامان لے کر وہاں سے نکلے اور شام کے علاقہ کی طرف ہجرت کرگئے۔23حضرت محمد
نے یہود یوں کو اسلحہ کے بغیر نکلنے کا حکم دیا تھا اس لیے جب وہ قلعہ چھوڑ کر گئے تو مسلمانوں کو وہاں سے اچھی خاصی مقدار میں اسلحہ ملا جس میں سے رسول اللہ
نے 3کمانیں جن کے نام الكتوم ، الروحاء اورالبيضاء تھے، 3 تلواریں قلعی، بتّار اور حتف،242 زِرہیں الصغدیہ یا السغدیہ اور فضہ اور3 نیزے اپنے لئے پسند فرمائے۔ اس کے علاوہ اسلحہ بنانے کا سامان اور مزید جنگی آلات بھی مسلمانوں کو یہود سے حاصل ہوئے جس کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کیاگیا۔غزوہ بدر کے بعد یہ پہلا غزوہ تھا جس میں رسول اللہ
کےلیے خمس نکالا گیا۔ 25
غزوہ بنو قینقاع میں رسول اللہ
کی قیادت میں مسلمانوں کو بغیر جانی نقصان کے فتح حاصل ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ بڑی تعداد میں اسلحہ بھی مال غنیمت میں آیا ۔26مسلمانوں کی اس فتح نے یہود کے دلوں پر مسلمانوں کا رعب طاری کردیااور دیگر اقوام کے لوگ بھی مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کی کھلی سازش کرنے سے وقتی طور پر دور رہے۔