ہجرت کے تیسرے سال، ربیع الثانی کے مہینے میں حضرت محمد مصطفیٰ
غزوہ بَحران کے لئے مدینہ منورہ سے اپنے لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے۔1 اس غزوہ کو غزوہ بَحران کے ساتھ ساتھ غزوہ فُرع2اور غزوہ بنو سلیم بھی کہا گیا ہے۔ 3 اس واقعہ کو غزوہ بَحران اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ حجاز کی حدود میں مدینہ طیبہ سے کچھ فاصلے پر موجود ”بَحران “ کے مقام پر لڑا گیا۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کی کفّار کے ساتھ باقاعدہ جنگ نہیں ہوئی 4 کیونکہ لشکر اسلام جب بَحران پہنچا تو بنو سلیم کے لوگ لشکر اسلام کی آمد کا سن کروہاں سے بھاگ نکلے تھے۔ 5
غزوه بحران كا سبب یہ تھا کہ آپ
کو 3ہجری میں اطلاع ملی کہ بنو سلیم کے افراد فُرع کے قریب مقامِ بَحران پر مسلمانوں کے خلاف حملہ کرنے کے لیے جمع ہو رہے ہیں ۔ 6 آپ
نے جب اس خبر کو سنا تو ہجرت کے تیسرے سال، ربیع الثانی کے مہینے میں مدینہ منورہ سے اپنے لشکر کے ساتھ جنگ کی نیت سے روانہ ہوئےتاکہ دشمن کا بھرپور مقابلہ کیا جا سکے۔ 7
آپ
اپنے 300 صحابہ کرام
کے ہمراہ مدینہ منوّرہ سے نکل کر انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ کسی کو کچھ بتائے بغیر بَحران کی طرف روانہ ہو گئے۔اس موقع پرآپ
نے مدینہ منوّرہ میں حضرت عبداللہ بن مکتوم
کو اپنا نائب مقرر فرمایا۔ 8لشکر اسلام جب بَحران پہنچا تو بنو سلیم مسلمانوں کے لشکر کا سن کر خوف کی وجہ سے وہاں سے بھاگ نکلے۔ 9آپ
نے وہاں چند دن قیام فرمایا 10 اور پھر جمادی الاوّل کے مہینے میں وہاں سے واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ 11