encyclopedia

حمل مبارک

Published on: 27-Jun-2023
image

حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہRadi Allah Anha کے بطن مبارک میں بارہ (12) ذوالحجہ بروز جمعۃ المبارک کو تشریف فرما ہوئے ۔ 1وہ نور جو حضرت آدم Alaihis Salamسے چلا تھا ، پاک پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل ہوتا ہوا حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب Radi Allah Anho تک پہنچا اور وہاں سے حضرت آمنہ Radi Allah Anhaکے بطن اطہر میں منتقل ہوا ۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے تمام آباؤاجداد کبھی بھی کسی بھی قسم کے شرک یا ایسی عادات و اطوار میں مبتلا نہیں رہے جو کہ معروف انسانی معاشرت میں قابل نفرت یا نا پسندیدہ رہی ہوں جن میں بالخصوص زنا اور بدکاری جیسے عیوب شامل ہیں۔ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی والدہ ماجدہ کے بطن اطہر میں قرار پایا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی والدہ ماجدہ کو کئی قسم کے روحانی تجربات و مشاہدات ہوئے جو اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ آپRadi Allah Anha نبیوں کے سردار اورخاتم الانبیاءSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی والدہ بننے والی ہیں ۔

حضرت عبدالمطلب کا خواب

حضرت عبدالمطلب نے حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کے نکاح سے قبل ایک خواب دیکھا تھا جس کے مطابق ان کی نسل میں ایک ایسے بچے کی ولادت ہونے والی تھی جو عرب و عجم کا سردار بننے والا تھا اور عرب و عجم کے لوگ اس کے مطیع و فرمانبردار ہو رہے تھے ۔ اسی وجہ سے وہ اپنے پوتے کے حوالے سے نہایت ہی مثبت و محبت بھرے احساسات کے حامل تھے ۔ احمد بن محمد القسطلانی Rehmatullah Alaih تحریر فرماتے ہے :

كان عبد المطلب قد رأى فى المنام كأن سلسلة من فضة قد خرجت من ظهره …ثم عادت كأنها شجرة، على كل ورقة منها نور وإذا أهل المشرق والمغرب كأنهم يتعلقون بهافقصها فعبرت له بمولود يكون من صلبه يتبعه أهل المشرق وأهل المغرب، ويحمده أهل السماء وأهل الأرض. 2
عبدالمطلب نے اپنی پشت سے ایک چاندی کی زنجیر کو نکلتے ہوئے دیکھا ۔ وہ زنجیر درخت میں تبدیل ہو گئی۔ اس درخت کا ہر پتہ چمکتا دمکتا نظر آتا تھا اور مشرق و مغرب کے تمام لوگ اس سے اپنے تعلق کو قائم کر رہے تھے ۔ عبدالمطلب نے جب اپنا خواب اہل علم کو بیان کیا تو اس کی تعبیر اس طرح کی گئی کہ ان کی صُلب سے ایک بچہ ( یعنی پوتے ) کی ولادت ہو گی جس کی اطاعت مشرق و مغرب کے تمام لوگ کریں گے اور زمین و آسمان کی ساری مخلوقات اس کی مدح سرائی میں رطبُ اللسان ہوگی ۔

اس روایت کو امام زرقانی Rehmatullah Alaih ، 3ابو نعیم Rehmatullah Alaih ، 4عبدالرحمٰن جامی Rehmatullah Alaih5اور امام سہیلی Rehmatullah Alaih6نے بھی نقل کیا ہے ۔ یہ خواب اس بات پر دلالت کر تا ہے کہ حضرت عبدالمطلب نبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت سے ماقبل بھی اس بات پر آگاہی رکھتے تھے کہ ان کی نسل میں ایک ایسے بچے کی ولادت ہونے والی ہے جو پوری دنیا کی امامت اور سیادت کے فرائض سر انجام دے گا ۔

نور نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam

حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کی ولادت سے قبل حضرت عبدالمطلب کی پیشانی ہمیشہ ایک منفرد اور یکتا قِسم کے نور سے جگمگاتی رہتی تھی اور لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ ان کے جسم سے مشک کی خوشبوآتی تھی حالانکہ اکثر اوقات آپ عطریات وغیرہ کا استعمال بھی نہیں فرماتے تھے ۔ علماءِ سیرت کا اس بات پر اتفاق رہا ہےکہ حضرت عبدالمطلب میں پائی جانے والی مشک کی وہ خوشبو اور پیشانی پر چمکنے والا وہ نور"نورِ محمد ی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam "تھا اور یہ نورآپ تک آپ کے آباؤ اجداد سے منتقل ہو کر پہنچا تھا ۔ جب حضرت عبدالمطلب کے ہاں آپ کے بیٹے حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کی ولادت ہوئی تو وہ نور حضرت عبداللہ Radi Allah Anho میں منتقل ہو گیا جس کی بابت امام قسطلانی Rehmatullah Alaih فرماتے ہیں :

وكان عبد المطلب يفوح منه رائحة المسك الإذفر ونور رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم يضىء فى غرته، وكانت قريش إذا أصابها قحط تأخذ بيد عبد المطلب فتخرج به إلى جبل ثبير فيتقربون به إلى اللّٰه تعالى، ويسألونه أن يسقيهم الغيث فكان يغيثهم ويسقيهم ببركة نور محمد صلي اللّٰه عليه وسلم غيثا عظيما. 7
حضرت عبدالمطلب کے بطنِ اطہر سے مشکِ اذفرکی خوشبوآیا کرتی تھی اور آپ کی پیشانی ہمیشہ نورِ محمدی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے چمکا کرتی تھی ۔جب بھی قریش قحط سالی کا شکار ہوتے تو وہ عبدالمطلب کا ہاتھ پکڑ کر انہیں جبلِ ثبیر پر لے جاتے اور ان کے توسل سے اللہ کی بارگاہ میں تقرب پاتے (یعنی دعا کرتے )۔ وہ اللہ کی بارگا ہ میں عبدالمطلب کو بطور وسیلہ کے پیش کرتے اور اللہ رب العزت نورِ محمدی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی برکات کی وجہ سے ان کے استغاثوں کو قبول فرماتا اور بارانِ رحمت کا نزول فرماتا۔

حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کا خواب

حضرت عبداللہ Radi Allah Anho ایک خوبصورت اور وجیہ نوجوان تھے ۔ 8جب آپ Radi Allah Anhoاٹھارہ (18) سال کے ہوئےتو اپنے ظاہری حسن و جمال اور باطنی کمالات کی وجہ سے اکثر و بیشتر خواتین کی طرف سے نکاح کے پیغام کے لیے منتخب کیے جاتے مگر آپ Radi Allah Anho ان پیغامات کو قبول نہ فرماتے بلکہ احسن طریقے سے ان پیغامات سے انکار فرما دیا کرتے تھے۔ جو خواتین ان کے ظاہری حسن و جمال سے متاثر ہوتیں ان کی طرف سے نکاح کے پیغام کا آنا تو ایک عمومی بات تھی لیکن جو خواتین یا خاندان تورات اور انجیل کی تعلیمات سے آشنا تھے وہ خاص طور پر آپ Radi Allah Anhoکی ذاتِ بابرکت میں دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ یہ جانتے تھے کہ وہ نور جو آپ Radi Allah Anho کی پیشانی مبارک پر چمکتا تھا اس کو سوائے نکاح کے بابرکت طریقے کے کسی اور انداز میں حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ 9جو نور حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کی پیشانی مبارک پر چمکتا تھا اس کی وجہ، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے نور کا ،آپ Radi Allah Anhoکی پشتِ مبارک میں موجود ہونا تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بابرکت وجود کا یہ نور ایک نسل سے دوسری نسل میں، حضرت آدم Alaihis Salamکے دور ِمبارک سے ہی منتقل ہوتاچلا آ رہا تھا جو کہ مختلف صلبوں سے پاک رحموں میں منتقل ہوتا ہوا حضرت عبداللہ Radi Allah Anho تک پہنچا تھا اور آپRadi Allah Anho کی پیشانی مبارک پر چمکتا رہتا تھا ۔ اسی تناظر میں موسی الخطیب العمری Rehmatullah Alaih ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

وذكر الحافظ النيسابوري:......ونام في الحجر فانتبه مكحولاً مدهونا قد كسي حلل المهابة، والجمال، فتحير ولم يدر من فعل به ذلك، فانطلق به أبوه إلى كهنة قريش، فقالوا: إن إله السموات قد أذن لهذا الغلام أن يتزوج، ونام مرة أخرى في الحجر فرأى رؤيا فقصها على الكاهن، فقالوا: لئن صدقت رؤياك ليخرجن من ظهرك من يؤمن به أهل السموات والأرض، وليكونن للناس علماً مبينا. 10
حافظ نیشاپوری نے ذکر کیاکہ: ۔ ۔ ۔ایک موقع پر آپRadi Allah Anhoمقامِ حجرحجر میں سوئےہوئے تھے کہ اچانک اس حال میں بیدا ر ہوئے کہ آپ Radi Allah Anhoکی آنکھوں میں سرمہ اور بالوں میں تیل لگاہوا تھا،جاذبِ نظر اور خوبصورت لباس زیبِ تن کیے ہوئے تھے، آپRadi Allah Anhoکو یہ سب کرنے والےکاعلم بھی نہیں تھا، جس کی وجہ سےآپRadi Allah Anhoحیرا ن ہوگئے ۔آپRadi Allah Anhoاپنے والد محترم حضرت عبد المطلب کے ساتھ قریش کے کاہنوں کے پاس گئے اور انہیں تما م ماجرا بتایا۔انہوں نے جواب دیا کہ بلا شبہ آسمانوں کا رب اس نوجوان کوشادی کرنے کا حکم دیتا ہے۔اسی طرح آپRadi Allah Anhoایک اور موقع پر مقامِ حجر میں سو رہے تھے تو آپ Radi Allah Anhoنے ایک خواب دیکھا اور کسی کاہن کو بتایا ۔اس نے جواب دیا اگر آپ کا خواب سچا ہے تو آپ Radi Allah Anhoکی پشتِ مبارک سے ایک ایسی ذات اقدس کا ظہور ہوگاجس پر آسمانوں و زمین والے ایمان لائیں گے اور وہ لوگوں کے لیے واضح عَلَمِ ہدایت(نشانی) ہوگا۔

ایسے خواب و واقعات کے بعد حضرت عبدالمطلب نے آپ Radi Allah Anho کے نکاح کا فیصلہ فرمایا اور آپ Radi Allah Anho کے لیے ایک عمدہ و بہتر لڑکی کی تلاش شروع کر دی جس سے آپ Radi Allah Anho کا نکاح کیا جا سکے ۔ ان کو وہ لڑکی مدینہ کے قریب موجود بنو زہرہ قبیلہ میں حضرت آمنہ Radi Allah Anha کی صورت میں جا ملی۔

حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ Radi Allah Anha کا نکاح

حضرت عبدالمطلب اپنے بیٹے حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کو لے کر مدینہ کی جانب چل پڑے یہاں تک کہ ان کی ملاقات حضرت آمنہ Radi Allah Anha کے چچا سے ہوئی جو کہ ان کے سرپرست اور دیکھ بھال کرنے والے تھے ۔ حضرت عبدالمطلب نے ان سے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کے لیے حضرت آمنہ Radi Allah Anha کا ہاتھ مانگا جس کو انہوں نے بخوشی قبول فرما لیا ۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے محمد بن سعد البصری Rehmatullah Alaih روايت كرتے ہیں:

كانت آمنة بنت وهب بن عبد مناف بن زهرة بن كلاب في حجر عمها وهيب بن عبد مناف بن زهرة فمشى إليه عبد المطلب بن هاشم ابن عبد مناف بن قصي بابنه عبد اللّٰه بن عبد المطلب أبي رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم فخطب عليه آمنة بنت وهب فزوجها عبد اللّٰه بن عبد المطلب وخطب إليه عبد المطلب بن هاشم في مجلسه ذلك ابنته هالة بنت وهيب على نفسه فزوجه......لما تزوج عبد اللّٰه بن عبد المطلب آمنة بنت وهب أقام عندها ثلاثا وكانت تلك السنة عندهم إذا دخل الرجل على امرأته في أهلها. 11
سیّدہ آمنہ بنت وہب بن عبدمناف بن زہرہ بن کلابRadi Allah Anha اپنے چچا وہیب بن عبدمناف بن زہرہ کی تربیت میں تھیں۔ عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصّی اپنے بیٹے حضرت عبداللہRadi Allah Anho یعنی ابوالنبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو لے کر ان کے ہاں گئے اور ان کے لیے سیّدہ آمنہ بنت وہبRadi Allah Anhaکی خواستگاری کی،چنانچہ نکاح ہوگیا۔اسی مجلس میں خود اپنے لیے حضرت عبدالمطلب بن ہاشم Radi Allah Anhoنے وہیب کی بیٹی ہالہ کی خواستگاری کی اور یہ نکاح بھی ہوگیا۔۔۔عبداللہ بن عبدالمطلبRadi Allah Anhuma نے جب سیّدہ آمنہ بنت وہبRadi Allah Anhaسے نکاح کیا تو وہیں تین دِن بسر کیے کیونکہ ان لوگوں میں یہ قاعدہ تھا کہ نکاح کے بعد بیوی کے پاس جاتے تو تین دِن تک اسی گھر میں رہتے۔ 12

حمل مبارک کی تصدیق

حضرت آمنہ Radi Allah Anha کے گھر تین روز قیام کرنے کے بعد حضرت عبداللہ Radi Allah Anho انہیں اپنے گھر لے آئےجس کو انہوں نے حضرت آمنہ Radi Allah Anha کی ملکیت میں دیدیا ۔ ابھی اس گھر میں آئے ہوئے حضرت آمنہ Radi Allah Anha کو چند روز ہی گزرے تھے کہ آپ Radi Allah Anha کو اس بات کی خوشخبری ملی کہ آپ Radi Allah Anha خاتم النبین Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی والدہ ماجدہ بننے کے شرف سے مشرف ہونے والی ہیں ۔ 13حدیث طیبہ کے مطابق یہ وہ وقت تھا جب داروغۂِ جنت کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ جنت کے تمام دروازے کھول دےاور ایک فرشتہ کو اللہ کی جانب سے یہ حکم دیا گیا کہ وہ زمین و آسمان کی ساری مخلوقات میں یہ اعلان کر دے کہ آج خاتم النبین محمد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی والدہ ماجدہ کے بطن اطہر میں قرار پذیر ہو گئے ہیں ۔14امام اصبہانی Rehmatullah Alaih اس وقت ہونے والے کئی روحانی واقعات و مشاہدات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہے :

قال ابن عباس: فكان من دلالات حمل النبي صلي اللّٰه عليه وسلم أن كل دابة كانت لقريش نطقت تلك الليلة وقالت: حمل برسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ورب الكعبة وهو أمان الدنيا وسراج أهلها ولم يبق كاهنة من قريش ولا قبيلة من قبائل العرب إلا حجبت عن صاحبتهاوانتزع علم الكهنة ولم يكن سرير ملك من ملوك الدنيا إلا أصبح منكوسا والملك مخرسا لا ينطق يومه ذلك ومرت وحوش المشرق إلى وحوش المغرب بالبشارات وكذلك البحار يبشر بعضهم بعضا به في كل شهر من شهوره نداء في الأرض ونداء في السماء: أن أبشروا، فقد آن لأبي القاسم أن يخرج إلى الأرض ميمونا مباركا. 15
حضرت ابن عباس سے مروی ہے اس رات قریش کا ہر جانور پکار اٹھا: ربّ کعبہ کی قسم! (سیّدنا)محمدSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حمل میں آگئے ہیں۔ وہ دنیا کے امام اور اہل دنیا(کے لیے ہدایت کا)چراغ ہیں۔ اسی لیے قریش کے تمام کاہنوں اور عرب کے تمام قبائل سے اسے مخفی رکھا گیا اور ان کے علمِ کہانت کو ان سے چھین لیا گیا اور اس دن تمام بادشاہوں کے تخت الٹ دیے گئے اور اس دن کی صبح ہر بادشاہ کو گونگا کردیا گیاحتیٰ کہ وہ پورا دن کچھ بھی نہ بول سکے اور مشرق کے پرندے مغرب کے پرندوں کو بشارت دینے گئے، اسی طرح سمندروں کی مخلوقات نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔حضور نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حمل کےمہینوں میں سے ہر مہینے میں زمین و آسمان میں ندا کی جاتی کہ خوش خبریاں سناو! عنقریب ابو القاسمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamزمین پر سعادت و برکت کے ساتھ تشریف لارہے ہیں۔

استقرارِ حمل کے ایام

استقرارِ حمل کے حوالے سے مشہور ترین قول بارہ (12) ذوالحجہ کا ہے ۔ ابن عساکر نے بعض اہلِ علم کی رائے کو نقل کیا ہے جس کے مطابق آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا قرارِ حمل رجب یا محرم کے مہینے میں وقوع پذیر ہوا لیکن آئمۂِ سیر ت کی تصریحات کے مطابق حتمی قول بارہ (12) ذوالحجہ ہی کا ہے ۔ اس تاریخ کا تعین ابن عساکر کی بیان کردہ اس روایت سے ہوتا ہے جس میں خثیمہ نامی ایک کاہنہ نے حضرت عبداللہ Radi Allah Anho سے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ حضرت عبداللہ Radi Allah Anho نے اس کے پیغامِ نکاح کو یہ کہہ کر منع فرما دیا تھا کہ وہ ابھی رمی جمار کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں ۔ بعد میں وہ اپنی زوجہ حضرت آمنہ Radi Allah Anha کے پاس گئے اور ان سے مقاربت کو اختیار فرمایا جس کے نتیجہ میں نبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا نور آپ Radi Allah Anho کی صُلب مبارک سے حضرت آمنہ Radi Allah Anha کے بطنِ مبارک میں منتقل ہوگیا ۔ جب آپRadi Allah Anho واپس تشریف لا رہے تھے تو اسی خثیمہ نے آپ Radi Allah Anhoکو دیکھ کر آپ Radi Allah Anhoسے دریافت کیا : کیا آپ نے نکاح کر لیا؟ حضرت عبداللہ Radi Allah Anho نے جواب دیا: ہاں۔ خثیمہ نے جب آپRadi Allah Anhoکا جواب اثبات میں سنا تو کہنے لگی وہ نور جو میں نے آپ کی پیشانی میں چمکتا ہو ادیکھا تھا اب وہ وہاں موجود نہیں ہے گویا کہ آپ کی زوجہ میں منتقل ہو گیا ہے۔ پھر وہ غمزدہ لہجے میں کہنے لگی کہ میری طرف سے آمنہ کو مبارکباد دینا کہ وہ کائنات کی عظیم ترین ہستی کی ماں بننے والی ہے ۔ 16اس روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رمی جو ایام حج میں کی جاتی ہے انہی ایام میں حضرت عبداللہ Radi Allah Anho اور حضرت آمنہRadi Allah Anha کی مقاربت ہوئی اور استقرارِ حمل وجود میں آیا ۔ شیخ محدث حق دہلوی نے بھی اسی روایت کی تصدیق کی ہے اور استقرار حمل کی تاریخ کو ایام تشریق میں سے قرار دیا ہے اور جمعہ کے دن کا تعین فرمایا ہے ۔ 17

مدت حمل کا دورانیہ

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا اپنی والدہ ماجدہ کے بطن اطہر میں بصورت حمل مبارک کے وقوع پذیر ہونا تقریباًنو (9) ماہ کے عرصے کے لیے ہی تھا ۔ 18اسی حوالہ سے صاحبِ مواہب اللدنیہ Rehmatullah Alaih تحریر فرماتے ہیں:

وعن أبى زكريا يحيى بن عائذ: بقى صلي اللّٰه عليه وسلم فى بطن أمه تسعة أشهر كملا، لا تشكو وجعا ولا مغصا ولا ريحا ولا ما يعرض لذوات الحمل من النساء، وكانت تقول: واللّٰه ما رأيت من حمل هو أخف منه ولا أعظم بركة منه. 19
ابوزکریا یحییٰ بن عابد فرماتے ہیں کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی والدہ ماجدہ کے بطن اطہر میں پورے نو (9) مہینے تشریف فرما رہے۔ اس دوران سیّدہ آمنہ Radi Allah Anhaکے سر یا پیٹ میں کوئی درد اور کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی اور حاملہ عورتوں کو جو تکالیف ہوتی ہیں، آپRadi Allah Anha ان سے محفوظ رہیں۔ آپRadi Allah Anha فرماتی تھیں: اللہ کی قسم! میں نے اس سے بڑھ کر ہلکا اور زیادہ بابرکت حمل نہیں دیکھا۔

امام زرقانی Rehmatullah Alaih نے بھی اس روایت کی تصدیق کی ہے ۔ 20یہ روایات واضح طور پر مدتِ حمل کے دورانیہ کا تعین کرتی ہیں اور بلا اختلاف اس کے مکمل نو (9) ماہ ہونے کو ثابت کرتی ہے۔

مدتِ حمل پر اعتراض

اکثر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت ماہ ربیع الاول میں ہوئی تا ہم اگر مذکورہ بالا اقوال کو ذہن میں رکھا جائے جس کے مطابق استقرارِ حمل بارہ (12) ذوالحجہ کو وقوع پذیر ہوا تو اس کے مطابق مدتِ حمل فقط تین (3) ماہ ٹھہرتی ہے جو کہ عرف اور عادت کے خلاف ہے کیونکہ عام طور پر مدت حمل آٹھ (8) سے دس (10) ماہ کے درمیان ہوتی ہے21اور کم از کم مدت حمل چھ (6) ماہ کی لگ بھگ متعین کی گئی ہے۔ 22اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عربوں میں "نسئی"کی روایت عام تھی جس کے مطابق وہ اپنے عام مہینوں کو مقدس مہینوں سے تبدیل کرتے رہتے تھے ۔ یہاں تک کہ جب بھی ان کو دشمن قبائل سے جنگ لڑنا ہوتی اور وہ وقت، مقدس مہینوں یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ ، محرّم یا رجب کا ہوتا، تو وہ ان مہینوں کو نام کی تبدیلی کے ساتھ اپنے لیے جائز قرار دے دیتے اور اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کر لیتے کہ یہ ایّام اور مہینے جنگ وجدل کے بعد اطمینان اور سکون سے منائے جائیں گے۔ اسی وجہ سے قرآن حکیم میں سورۃالتوبہ کے اندر اللہ رب العزت نے باقاعدہ اس عمل کی مذمت بیان فرمائی ہے ۔23

اب جب کہ یہ بات قرآن سے ثابت ہے کہ عربوں میں" نسئی" کا رواج عام تھا تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ استقرارِ حمل شعبان یا جمادی الآخرۃ کے مہینے میں ہوا تھا جیسا کہ ابن جریراور مردویہ وغیرہ نے ذکر کیا ہے ۔ امام شامی کے مطابق بھی وہ مہینہ رجب کا تھا لیکن اس وقت کی رائج شدہ تقویم (calendar) کے مطابق وہ ذوالحجہ کا مہینہ چل رہا تھا جس میں لوگ حج اور اس سے متعلقہ امور کےلیے سفر کر رہے تھے۔ گویا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت با سعادت جو کہ ربیع الاول میں وقوع پذیر ہوئی رجب یا شعبان سے لے کر ماہ ربیع الاول تک پورے8سے 9 ماہ کا عرصہ بنتا ہے جو کہ معروف مدتِ حمل ہے لیکن رائج شدہ جنتری کے مطابق وہ ذوالحجہ کا مہینہ تھا۔


  • 1  شیخ عبد الحق محدّث دہلوی،مدارج النبوۃ(مترجم:مفتی سیّد غلام معین الدین)،ج-2،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور،پاکستان،2012ء،ص:30
  • 2  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:364
  • 3  أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ،ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃِ، بیروت، لبنان، 1996م، ص:162
  • 4  ابو نعيم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ:المکتبۃ العصریۃ، صیدون، لبنان، 2012م، ص: 54
  • 5  نور الدین عبدالرحمٰن جامی، شواہد النبوۃ، مکتبہ نبویہ، لاہور، پاکستان، 1995ء، ص: 46-47
  • 6  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان ، 1412ھ، ص: 95
  • 7  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:52
  • 8  أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃِ، بیروت، لبنان، 1996م، ص: 207
  • 9  جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر السیوطی، الخصائص الکبریٰ(مترجم:مفتی سیّد غلام معین الدین) ، ج-1، مطبوعہ: زاویہ پبلیشرز، لاہور، پاکستان، 2014ء، ص: 104
  • 10  ياسين بن خير الله بن محمود بن موسى الخطيب العمري، الروضة الفيحاء في أعلام النساء،ج-1،مطبوعۃ: المکتبۃ الاسلامی، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص:25
  • 11  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبرٰی،ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:76
  • 12  محمد بن سعد الزہری،طبقات ابن سعد(مترجم:علامہ عبد اللہ العمادی)،ج-1،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی ،کراچی، پاکستان ،(سن اشاعت ندارد)،ص:115
  • 13  امام محمد بن اسحاق المطلبی، سیرۃ ابن اسحاق، ج-1،مطبوعۃ:دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:94
  • 14  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:72
  • 15  ابو نعيم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی، دلائل النبوۃ، ج-2، مطبوعۃ:المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 2012م، ص:362-363
  • 16  ابو القاسم علی بن الحسن المعروف بابن عساکر،تاریخ دمشق،ج-3،مطبوعۃ:دار الفکر للنشر والتوزیع، بیروت، 1995م، ص:404
  • 17  شیخ عبد الحق محدّث دہلوی،مدارج النبوۃ،ج-2،مطبوعہ:نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی،لاہور،پاکستان،1997ء،ص: 13
  • 18  شیخ نو رالدین علی بن احمد سمہودی، الموارد الھنیۃ فی مولد خیر البریۃﷺ، مطبوعة: زاویۃ ببلشرز، لاہور، باکستان، (ليس التاريخ موجودًا)، ص:111
  • 19  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:63
  • 20  أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃِ، بیروت، لبنان، 2012م، ص:204
  • 21  Encyclopedia of Britannica: https://www.britannica.com/science/pregnancy/Duration-ofpregnancy: Retrieved:17-05-2023
  • 22  أبو الحسين أحمد بن محمد القدوري، مختصر القدوري في الفقه الحنفي، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان، ص: 171
  • 23  القرآن، سورۃ التوبۃ 36:09

Powered by Netsol Online