encyclopedia

حمل مبارک اور اس کے واقعات

Published on: 03-Mar-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سیّد محمد خالد محمود شامی، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-3، مقالہ:11، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2019ء، ص: 395-413)

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت مبارکہ سے انسانی زندگی کو جو خوشحالی و آسودگی میسر آئی ہے وہ تمام تر انسانوں کے لیے یکساں طور پر مفید اور قابل دید ہے۔اس خوشحالی وآسودگی کا محور و مرکز خالقِ حقیقی سے قرب و اتصال ہے جس بنا پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت باسعادت تمام تر آسودگیوں اور فرحتوں کا منبع وماخذ قرار پاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت سے جہاں ہر طرف نعمتوں اور برکتوں کا اظہار ہوا وہاں دوسری طرف ان برکات و ثمرات سے نبوی گھرانہ بھی خوب لطف اندوز رہا۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے محترم والد ہوںRadi Allah Anho یا محتشم والدہRadi Allah Anha ،خواہ قریبی رشتہ دار ہوں یا دور کے،یہاں تک کہ دوست ہوں یا دشمن تمام ہی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت باسعادت کے انعامات واکرامات سے بہرۂ مند ہوئے۔اسی تناظر میں مقالہ کی موجودہ فصل تحریر کی گئی ہے جس میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے اپنی والدہ محترمہ حضرت سیّدہ آمنہRadi Allah Anha کے شکم اقدس میں تشریف آوری کے مبارک ایام اور ان کی مکمل مدت ،ان ایام میں رونما ہونے والے مبارک واقعات اور اس موضوع سے متعلقہ چیزوں کوبیان کیا گیا ہے۔

حضرت عبداللہ Radi Allah Anhoکا خواب

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادتِ مبارکہ کے ابتدائی مرحلہ یعنی حمل مبارک کے ذکر سے پہلے ضروری ہے کہ چند باتیں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے والدین کریمین Radi Allah Anhumaکے نکاح کے حوالہ سے کی جائیں کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کا اولین ذریعہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے والدین کریمین ہیں چنانچہ اس حوالہ سے صاحب روضۃ الفيحاءتحریر کرتے ہیں:

وذكر الحافظ النيسابورى: أن نور النبى صلى اللّٰه عليه وسلم لما صار إلى عبد اللّٰه كان يضىء فى غرته وتفوح من فمه رائحة المسك الأذفر، وكانو يستسقون به فيسقون. ونام فى الحجر فانتبه مكحولاً مدھونا قد كسي حلل المھابة، والجمال، فتحير ولم يدر من فعل به ذلك، فانطلق به أبوه إلى كھنة قريش، فقالوا: إن إله السموات قد أذن لھذا الغلام أن يتزوج، ونام مرة أخرى فى الحجر فرأى رؤيا فقصھا على الكاھن، فقالوا: لئن صدقت رؤياك ليخرجن من ظھرك من يؤمن به أھل السموات والأرض، وليكونن للناس علماً مبينا.1
حافظ نیشاپوری نے ذکر کیاکہ بیشک نور نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجب حضرت عبد اللہ Radi Allah Anho میں منتقل ہوا تو وہ ان کےچہرہ اقدس میں چمکتا تھااوران کے منہ مبارک سے مشک اذفر کی خوشبو آتی تھی۔اہل مکّہ آپ Radi Allah Anho کے وسیلہ سے بارش مانگتے تو ان کی دعا قبول و مقبول ہوتی ۔ایک موقع پر آپ مقام حجر میں سوئےہوئے تھے کہ اچانک اس حال میں بیدا ر ہوئے کہ آپ Radi Allah Anho کی آنکھوں میں سرمہ اور بالوں میں تیل لگاہوا تھا،جاذبِ نظر اور خوبصورت لباس زیبِ تن کیے ہوئے تھے، آپ Radi Allah Anho کو یہ سب کرنے والےکاعلم بھی نہیں تھا تو یہ دیکھ کر آپ Radi Allah Anho حیرا ن ہوگئے۔آپ Radi Allah Anho اپنے والد محترم حضرت عبد المطلب کے ساتھ قریش کے کاہنوں کے پاس گئے اور انہیں تما م ماجرا بتایا۔انہوں نے سن کر کہا کہ بلا شبہ آسمانوں کا رب اس نوجوان کوشادی کرنے کا حکم دیتا ہے۔اسی طرح آپ Radi Allah Anho ایک اور موقع پر مقام حجر میں سو رہے تھے تو آپ نے ایک خواب دیکھا اور کسی کاہن کو بتایا ۔اس نے جواب دیا اگر آپ کا خواب سچا ہے تو آپ کی پشتِ مبارک سے ایک ایسی ذات اقدس کا ظہور ہوگاجس پر آسمانوں و زمین والے ایمان لائیں گے اور وہ لوگوں کے لیے واضح عَلَمِ ہدایت(نشانی) ہوگا۔

اس وقت حضرت عبد اللہ کی عمر اٹھارہ بیس سال تھی ۔عنفوانِ شباب کا عالم ،چہرہ پر تقوی و پارسائی کے انوار کا ہجوم تھا، 2صدہا نرگسیں آنکھیں قدموں میں بچھانے کے لیے بے چین رہتیں،3 بعض تو حسن کی وجہ سے خود ہی نکاح کی پیشکش کردیتیں 4 اور بعض ماقبل کتب میں بیان کردہ نور نبوت 5 کا جلوہ دیکھ کر ایسا کرتیں جیساکہ امّ قتال 6 نامی عورت7 اورفاطمہ بنت مرّ8امی عورت9 نے کیالیکن حضرت عبد اللہ ہمیشہ انکار فرمادیا کرتے تھے۔10

آنحضرت ﷺکے والدین کا نکاح

یہاں تک کہ قدرت نے حضرت عبد اللہ اور حضرتِ آمنہ Radi Allah Anhuma کو نکاح کا موقع مہیا کیا اور رسول مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دادا محترم حضرت عبد المطلب Radi Allah Anho نے اپنے لخت ِجگر کا نکاح حضرت آمنہ Radi Allah Anha سے کردیاچنانچہ اس حوالہ سے مسور بن مَخْرمَہ اور ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین روايت كرتے ہیں:

كانت آمنة بنت وھب بن عبد مناف بن زھرة بن كلاب فى حجر عمھا وھيب بن عبد مناف بن زھرة فمشى إليه عبد المطلب بن ھاشم ابن عبد مناف بن قصى بابنه عبد اللّٰه بن عبد المطلب أبى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فخطب عليه آمنة بنت وھب فزوجھا عبد اللّٰه بن عبد المطلب وخطب إليه عبد المطلب بن ھاشم فى مجلسه ذلك ابنته ھالة بنت وھيب على نفسه فزوجه...لما تزوج عبد اللّٰه بن عبد المطلب آمنة بنت وھب أقام عندھا ثلاثا وكانت تلك السنة عندھم إذا دخل الرجل على امرأته فى أھلھا.11
سیّدہ آمنہ بنت وہب بن عبدمناف بن زہرہ بن کلابRadi Allah Anha اپنے چچا وہیب بن عبدمناف بن زہرہ کی تربیت میں تھیں۔ عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصّی اپنے بیٹے حضرت عبداللہ Radi Allah Anhoیعنی ابوالنبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو لے کر ان کے ہاں گئے اور ان کے لیے سیّدہآمنہ بنت وہب کی خواستگاری کی،چنانچہ نکاح ہوگیا۔اسی مجلس میں خود اپنے لیے حضرت عبدالمطلب بن ہاشم Radi Allah Anhaنے وہیب کی بیٹی ہالہ کی خواستگاری کی اور یہ نکاح بھی ہوگیا۔۔۔عبداللہ بن عبدالمطلبRadi Allah Anhuma نے جب سیّدہ آمنہ بنت وہبRadi Allah Anha سے نکاح کیا تو وہیں تین دِن بسر کیے کیونکہ ان لوگوں میں یہ قاعدہ تھا کہ نکاح کے بعد بیوی کے پاس جاتے تو تین دِن تک اسی گھر میں رہتے۔ 12

یوں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے والدین کریمین Radi Allah Anhuma کا نکاح ہوا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے والد محترم حضرت عبد اللہ Radi Allah Anho نکاح کے تین بعد تک مدینہ میں موجود حضرت آمنہ Radi Allah Anha کے گھر یعنی اپنے سسرال میں رہے ۔

استقرار ِحمل مبارک

تین دن اپنے سسرال میں رہنے کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے والدِ محترم حضرت عبد اللہ Radi Allah Anho آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی والدہ محترمہ حضرت سیّدہآمنہ Radi Allah Anha کو اس گھر میں لے آئے جو ان کے لیے لیا تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے ابن اسحق روایت نقل کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں كہ وہب بن عبدمناف نے اپنی بیٹی سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha کی شادی (جو اپنے قبیلے میں سیّدۃ النساء کہلاتی تھیں) عبدالمطلب کے بیٹے سیّد عبد اللہ Radi Allah Anho سے بخوشی کردی۔کیونکہ دونوں خاندانوں کا تعلق آخر میں بنی اسماعیل سے ہی جڑ تا تھا۔آپ Rehmatullah Alaih مزید اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

فذكروا أنه دخل عليھا حين ملكھا مكانه، فوقع عليھا عبد اللّٰه، فحملت برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم.13
راویوں نے بیان کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ Radi Allah Anho حضرت آمنہ Radi Allah Anha کے پاس تب تشریف لے گئے کہ جب حضرت عبد اللہ Radi Allah Anho کاگھر آپ Radi Allah Anha کی ملکیت میں آیااوروہیں انہوں نے آپ Radi Allah Anha سے زفاف فرمایا جس سے آپ Radi Allah Anha رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےحملِ مبارک سے مشرف ہوئیں۔

اسی حوالہ سے امام قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:

لما أراد اللّٰه تعالى خلق محمد صلى اللّٰه عليه وسلم فى بطن أمه آمنة، ليلة رجب، وكانت ليلة جمعة، أمر اللّٰه تعالى فى تلك الليلة رضوان خازن الجنان، أن يفتح الفردوس، وينادى مناد فى السماوات والأرض: ألا إن النور المخزون المكنون الذى يكون منه النبى الھادى، فى ھذه الليلة يستقر فى بطن أمه الذى فيه يتم خلقه ويخرج إلى الناس بشيرا ونذيرا.14
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے وجودِ مسعود کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی والدہ ماجدہ Radi Allah Anhaکے شکم اطہر میں منتقل کرنے کا ارادہ فرمایا تو یہ ماہ رجب، جمعہ کی رات تھی۔ا س رات میں اللہ تعالیٰ تبارک وتعالیٰ نے خازنِ جنت حضرت رضوان کو حکم ارشاد فرمایا:فردوس کے دروازے کھول دیں اور آسمانوں و زمینوں میں ندا کرنے والا ندا کرے کہ پوشیدہ خزینہ جس سے نبی ہادی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے پیدا ہوناہے وہ نور آج کی رات شکم مادر میں قیام پذیر ہوچکا ہے، جہاں اس کی پیدائش کے مراحل کی تکمیل ہوگی اور وہ لوگوں کے لیے بشیرونذیر Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبن کر تشریف لائیں گے۔

ابو نعیم اصبہانی اسی حوالہ سے ایک اور روایت نقل کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:

قال ابن عباس: فكان من دلالات حمل النبى صلى اللّٰه عليه وسلم أن كل دابة كانت لقريش نطقت تلك الليلة وقالت: حمل برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ورب الكعبة وھو أمان الدنيا وسراج أھلھا ولم يبق كاهنة من قريش ولا قبيلة من قبائل العرب إلا حجبت عن صاحبتھا وانتزع علم الكھنة ولم يكن سرير ملك من ملوك الدنيا إلا أصبح منكوسا والملك مخرسا لا ينطق يومه ذلك ومرت وحوش المشرق إلى وحوش المغرب بالبشارات وكذلك البحار يبشر بعضھم بعضا به فى كل شھر من شھوره نداء فى الأرض ونداء فى السماء: أن أبشروا؛ فقد آن لأبى القاسم أن يخرج إلى الأرض ميمونا مباركا.15
حضرت ابن عباس Radi Allah Anhuma سے مروی ہے اس رات قریش کا ہر جانور پکار اٹھا ربّ کعبہ کی قسم! (سیّدنا)محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamحمل میں آگئے ہیں۔ وہ دنیا کے امام اور اہل دنیا(کے لیے ہدایت کا)چراغ ہیں۔ اسی لیے قریش کے تمام کاہنوں اور عرب کے تمام قبائل سے اسے مخفی رکھا گیا اور ان کے علم کہانت کو ان سے چھین لیا گیا اور اس دن تمام بادشاہوں کے تخت الٹ دیے گئے اور اس دن کی صبح ہر بادشاہ کو گونگا کردیا گیاحتیٰ کہ وہ پورا دن کچھ بھی نہ بول سکے اور مشرق کے پرندے مغرب کے پرندوں کو بشارت دینے گئے، اسی طرح سمندروں کی مخلوقات نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حمل کےمہینوں میں سے ہر مہینے میں زمین و آسمان میں ندا کی جاتی کہ خوش خبریاں سناو! عنقریب ابو القاسم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamزمین پر سعادت و برکت کے ساتھ تشریف لارہے ہیں۔

اس روایت کو علامہ قسطلانی نے بھی نقل کیا ہے۔ 16 ان مذکورہ روایات کے علاوہ بھی کئی ایک روایات اس بارے میں منقول ہیں کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حمل مبارک کے وقت ہی سے ان اکرام وانعامات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔

استقرارِ حمل کے ایّام

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے استقرارِ حمل کے ایام میں کئی اقوال منقول ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل ِعرب کی ایک رسم تھی جس کو وہ نسئی 17کہتے تھے جس کی وجہ سے تاریخی تعینات میں مشکلات ہوتی ہیں اور اختلاف رہتا ہے۔اسی بنا پر نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے استقرارِ حمل کے ایام میں بھی کئی طرح کی روایات ملتی ہیں لیکن ان میں سےکثرت کے ساتھ جس کو اپنایا گیا ہے وہ ذی الحج کی بارہ (12) تاریخ ہےچنانچہ امام احمد رضا خان القادری تحریر فرماتے ہیں:

صحیح قول ماہِ ذی الحج کی بارہ (12) تاریخ کا ہے ،مدارج میں اسی کی تصحیح فرمائی گئی ہے اگرچہ کہ بعض علماء استقرارِ حمل کامہینہ رجب قرار دیتے ہیں اور بعض دس محرم۔۔۔ اس کی مؤید حدیث ابن سعد و ابن عساکرہے کہ خثمیہ نامی عورت نے حضرت عبد اللہ Radi Allah Anhoکو اپنی طرف بلایا، آپRadi Allah Anha نے رمی جمار کا عذر فرمایا، بعد رمی حضرت سیّدہ آمنہRadi Allah Anha سے مقاربت کی اور حمل اقدس مستقر ہوا۔پھر خثمیہ نے آپRadi Allah Anho کودیکھ کر کہا کہ کیا نکاح کرلیا؟ فرمایا ہاں تو اس نےکہا کہ وہ نور جومیں نے آپ کی پیشانی سے آسمان تک بلند دیکھا تھا اب وہ یہاں نہ رہا اور سیّدہ آمنہRadi Allah Anha کو مژدہ دیجیے کہ ان کے حمل میں افضل اہل زمین ہے۔18 ابن سعد کی ایک روایت یوں ہے کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے والد ماجد سیّدنا حضرت عبد اللہ Radi Allah Anhaقبیلہ بنی خشعم کی ایک عورت کے پاس تشریف لائے تو اس نے آپRadi Allah Anha کی دونوں آنکھوں کےدرمیان ایک نور آسمان تک بلند دیکھا اور کہا کہ کیا آپ کو مجھ میں کوئی رغبت ہے؟ آپRadi Allah Anha نے فرمایا:یا ہاں یہاں تک کہ میں جمرات کی رمی کرلوں ۔(پھر اس کے بعد حضرت آمنہ Radi Allah Anhaسے مقاربت فرمائی اور حملِ اقدس مستقر ہوا)اب اس روایت سے یہ ظاہر ہے کہ رمی جمار حج کے ایام میں ہی ہوتی ہے 19 (تو گویا کہ استقرارِحملِ مبارک بھی ایام حج میں ہوا ہے) یہ بھی کہا گیا کہ استقرار حمل روزِ دو شنبہ کو ہوا،اس کو زبیر نے ذکرکیا اور مجمع البحار میں اسی پر جزم فرمایا 20 اور اصح یہ ہے کہ شبِ جمعہ تھی، اسی لیے امام احمد Rehmatullah Alaih شبِ جمعہ کو شبِ قدر سے افضل کہتے ہیں کہ یہ خیر و برکت و کرامت و سعادت جو اس میں اتری اس کے ہمسر نہ کبھی اتری نہ قیامت تک اترے گی۔21

اسی طرح مدارج النبوۃ میں ہے:

استقرار نطفه زكيه در ایام حج بر قول اصح در اوسط ایام تشریق شب جمعه بود، ازیں جھت امام احمد بن حنبل لیلة الجمعة را فاضل تر لیلة القدر داشته.22
اصح قول کے مطابق نطفہ مطہرہ کا استقرار حج کے دنوں میں ایام تشریق کے درمیان جمعہ کی رات کو ہوا۔اسی وجہ سے امام احمد بن حنبل Rehmatullah Alaih شب جمعہ کو شب قدر سے افضل سمجھتے ہیں۔23

یعنی کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا استقرارِ حمل مبارک ماہ ذی الحج کی بارہ (12)تاریخ کو ہوا ہے اور یہی قول تمام اقوال میں معتبر ہے۔

نبی اکرمﷺ کی مدّتِ حمل

رہا یہ اشکا ل کہ اگر اس قول کو مان لیا جائے تو مدتِ حمل تین ماہ ہوگی جو کہ کسی بھی طور پر ممکن نہیں ہے تو اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں اشہرِ حرم متعین نہیں تھے کیونکہ اہلِ عرب اپنے مفادکےلیے ان کی تقدیم و تاخیرکیا کرتے تھے جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو ذکر فرمایا ہے۔24اسی وجہ سے رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ہجرت کے دسویں سال حج کےموقع پر25 ارشاد فرمایا تھا کہ زمانہ اسی حالت پر واپس لوٹ آیا ہے جس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسے پیدا فرمایا تھا۔ 26 اس فرمان کی وجہ یہی تھی کہ اہل عرب مہینوں کی تبدیلی اپنے حساب اور اپنے منافع کے لیے کردیا کرتے تھے جس سے اصل مہینے خلط ملط ہوجایا کرتے تھے ۔ہوتا یوں تھاکہ یہ سب اپنے سردار کے پاس آتے اور کہتے اس سال یہ مہینہ حلال کردے، وہ حلال کردیتاتوکچھ بعید نہیں کہ اس ذی الحجہ سے ربیع الاوّل تک نو مہینے بنتے ہوں اوراس سال جمادی الآخرہ میں ذی الحج آیا ہو جس کاہونا کچھ بعید نہیں ۔ 27بہر کیف رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حملِ مبارک کی مدت میں بعض اقوال مذکور کیے جاتے ہیں لیکن علماءذیشان کے نزدیک اصح ترین قول کی بناء پر رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی حمل میں جلوہ گر رہنے کی مدت مکمل نو ماہ ہے یعنی حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamشکم مادر میں مکمل نو مہینے جلوہ افروز رہے۔ 28اسی حوالہ سے صاحبِ مواہب اللدنیہ تحریر فرماتے ہیں:

وعن أبى زكريا يحيى بن عائذ: بقى صلى اللّٰه عليه وسلم فى بطن أمه تسعة أشھر كملا، لاتشكو وجعا ولا مغصا ولا ريحا ولا مايعرض لذوات الحمل من النساء، وكانت تقول: واللّٰه ما رأيت من حمل ھو أخف منه ولا أعظم بركة منه.29
ابوزکریا یحییٰ بن عابد فرماتے ہیں کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی والدہ ماجدہ Radi Allah Anhaکے بطن اطہر میں پورے نو مہینے تشریف فرما رہے اس دوران حضرت سیّدہ آمنہ Radi Allah Anhaکے سر یا پیٹ میں کوئی درد اور کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی اور حاملہ عورتوں کو جو تکالیف ہوتی ہیں، آپ ان سے محفوظ رہیں۔ آپ فرماتی تھیں: اللہ کی قسم! میں نے اس سے بڑھ کر ہلکا اور زیادہ بابرکت حمل نہیں دیکھا۔ 30

اسی قول کو صاحبِ زرقانی نے بھی بغیر کسی نقد کے برقرار رکھا ہے۔ 31 ان تمام عبارات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے استقرارِ حمل کی مدت مکمل نو(9) ماہ ہے۔

حمل مبارک کے واقعات

جب رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنی والدہ محترمہ کے شکمِ اقدس میں تشریف لائے تو کئی ایک عجیب و غریب واقعات رونما ہوئے تھےچنانچہ اس حوالہ سے شیخ احمد بن محمد قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:

فذكرو ا أنه لما استقرت نطفته الزكية، ودرته المحمدية فى صدفة آمنة القرشية نودى فى الملكوت ومعالم الجبروت، أن عطروا جوامع القدس الأسنى، وبخروا جهات الشرف الأعلى، وافرشوا سجادات العبادات فى صفف الصفا لصوفية الملائكة المقربين، أهل الصدق والوفا، فقد انتقل النور المكنون إلى بطن آمنة ذات العقل الباھر، والفخر المصون، قد خصھا اللّٰه تعالى القريب المجيب بھذا السيد المصطفى الحبيب، لأنھا أفضل قومھا حسبا وأنجب، وأزكاھم أصلا وفرعا وأطيب.32
راویوں نے ذکر کیا ہے کہ جب حضرت سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha نے نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو شکم اطہر میں اٹھانے کا شرف حاصل کیا تو اس وقت بے شمار عجائبات ظاہر ہوئے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کے سلسلے میں عجیب و غریب باتیں پائی گئیں۔ چنانچہ علماء سیر نے ذکر کیا کہ جب حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کا پاکیزہ نطفہ اورگوہرِمحمدی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam، سیّدہ آمنہ قرشیہRadi Allah Anha کے صدف مبارک میں ٹھہر گیا تو عالمِ ملکوت و جبروت میں آواز دی گئی کہ پاک و مشرف مقامات کو معطر کرو نیز (آسمانوں اور ان کے اردگرد) علامات ِتعظیم ظاہر کرو اور ملائکہ مقرّبین میں سے منتخب فرشتوں کے لیے پاک صاف صفوں میں عبادات کے قالین بچھاؤ۔ یہ وہ فرشتے ہیں جو صدق و صفا سے موصوف ہیں۔ آج پوشیدہ نور ِ(محمدی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) حضرت سیّدہ آمنہRadi Allah Anha کے بطن مبارک میں منتقل ہوچکا ہے، وہ سیّدہ آمنہ Radi Allah Anhaجو بہت بڑی اور غالب عقل کی مالک اور حسب و نسب کے اعتبار سے فخر والی اور عیبوں سے پاک ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو قریب اور دعاؤں کو سننے اور قبول کرنے والا ہے، اس نے حضرت سیّدہ آمنہRadi Allah Anhaکو اس سردار، مصطفیٰ اور حبیب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ساتھ مخصوص کیا ہے کیونکہ حضرت سیّدہ آمنہRadi Allah Anha نسب کے اعتبار سے اپنی قوم میں سے افضل اور عمدہ ہیں اور اپنی اصل اور فرع کے اعتبار سے سب سے پاکیزہ اور طیب ہیں۔33

اسی طرح شیخ علی بن ابراہیم حلبی تحریر فرماتے ہیں:

وعن كعب الأحبار أن فى صبيحة تلك الليلة أصبحت أصنام الدنيا منكوسة: أى ولعل ذلك كان من علامة حمل أمه فى الكتب القديمة.34
حضرت کعب الاحبارRadi Allah Anho سے مروی ہے کہ اس رات کی صبح(جس رات میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا استقرارِ حمل ہوا)دنیاکے بت اوندھے منہ گرگئے اور ممکن ہے کہ یہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے اپنی والدۂ محترمہ کے شکم میں استقرار کی نشانی ہو جس کو قدیم کتب میں بیان کیاگیا ہو۔

اسی طرح حضرت ابن عباسRadi Allah Anhuma فرماتے ہیں کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamحضرتِ سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha کے پیٹ میں تھے تو کئی قسم کے شواہد اور علامات سامنے آئیں۔ قریش کے مویشی بھی بعض اوقات زبان ِحال سے گفتگو کرتے،وہ خدائے کعبہ کی قسم کھاتےاور گواہی دیتے کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاہل دنیا کے لیے امان ہیں۔ وہ دنیا کے لیے نور اور روشنی ہیں۔ یہ علامات ہر کاہن اور ساحر کے سامنے آتیں۔ ان دنوں تمام کاہن بے بس ہوگئے۔ دنیا کے بادشاہوں میں ایک بھی ایسا تخت نہ تھا جو الٹ نہ گیا ہو، مغربی ومشرقی سرزمینوں میں جاری دریاایک دوسرے کو بشارتیں دیتے، ان کی موجوں پر اکثر یہ لکھا پایا جاتا کہ ابو القاسم رحمۃ للعالمین Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamتشریف لانے والے ہیں۔35

اسی حوالہ سے شیخ یوسف بن اسماعیل النبہانی نے اپنی نظم میں درج ذیل اشعاررقم فرمائے ہیں:

وكان من آیاته فی حمله
عصیان فیل وھلاک اھل
ابرھةبخیله ورجله
طیرابابیل اتت لقتله
وقتلھم تردھم وتردي.36
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حمل مبارک کے دوران سب سے بڑی یہ نشانی رونما ہوئی کہ ہاتھی نے اپنے مالک کی نافرمانی کی۔ ابرہہ، اس کا لشکر اور اس کا تمام ساز و سامان تباہ ہوگیا۔ ان کو قتل کرنے کے لیے ابابیل آئے۔ ان پرندوں نے ان کو قتل کردیا انہیں ہلاکت و تباہی کے گڑھے میں پھینک دیا۔37

اس کے علاوہ بھی کئی ایک واقعات منقو ل ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے استقرارِ حمل سےہر طرف سرور وشادمانی کا دور دورہ تھا۔ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےشکم مادر میں تشریف لانے سے قبل اہل قریش پر نہایت تنگی و قحط کا حال تھا لیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے استقرارِ حمل کی برکت سے وہ قحط دور ہوگیاچنانچہ اس حوالہ سے شیخ احمد بن محمد قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:

وكانت قريش فى جدب شديد، وضيق عظيم، فاخضرت الأرض وحملت الأشجار، وأتاھم الرفد من كل جانب، فسميت تلك السنة التى حمل فيھا برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم سنة الفتح والابتھاج.38
اس وقت قریش انتہائی سخت قحط سے دوچار تھے اور کافی تنگی میں تھے(تو اس حمل مبارک کی برکت سے) زمین سرسبز ہوگئی اوردرختوں پر پھل آگئے اور اس خوش حالی کے باعث اُن کے پاس ہر جگہ سے مال و دولت آنے لگی حتیٰ کہ اس سال کا نام جس میں رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا استقرارِ حمل ہوا تھا "خوشیوں اور کشادگیوں والا سال"رکھ دیا گیا۔

جب دیگر اشیاء و افراد پر انعام و اکرام کی یوں مسلسل کرم نوازیاں ہورہی تھیں تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی والدہ محترمہ جن کے بطنِ مبارک میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجلوه افروزتھے اُن پر ہونے والی برکات بھی کہیں زیادہ تھیں چنانچہ انہی برکات و ثمرات کے حوالہ سے صاحبِ سیرتِ حلبیہ تحریر فرماتے ہیں:

كانت آمنة تحدث وتقول: أتانى آت حين مر بى من حملى ستة أشھر فى المنام وقال لى: يا آمنة إنك حملت بخير العالمين، فإذا ولدتيه فسميه محمدا واكتمى شأنك...وعن ابن عباس: كان من دلالة حمل آمنة برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم أن كل دابة لقريش نطقت تلك الليلة أى التى حمل فيھا برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم.39
جناب سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha فرمایا کرتی تھیں کہ جب حمل کے چھ مہینے گزر گئے تو 40 میں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا جس نے مجھ سے کہا : سیّدہ آمنہ !تمہارے پیٹ میں جو بچہ ہے ، وہ افضل العالمین ہے ۔ جب وہ پیدا ہوتومحمد ( Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) نام رکھنا اور یہ راز کسی سے نہ کہنا۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ جناب سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha کے شکم میں حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے استقرار کی دلیل یہ تھی کہ قریش کے تمام جانور اس رات بولنے لگ گئے اور کہنے لگے کہ محمد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamماں کے شکمِ اطہر میں منتقل ہو گئے ہیں۔

اسی حوالہ سے سیرتِ ابن اسحاق میں امام ابن ِاسحاق نقل کرتے ہیں:

كانت آمنة بنت وھب أم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم تحدث أنھا أتيت حين حملت محمدا صلى اللّٰه عليه وسلم فقيل لھا: إنك قد حملت بسيد ھذه الأمة، فإذا وقع الى الأرض فقولى: أعيذه يبالواحد من شر كل حاسد.41
جناب سیّدہ آمنہ بنت وہب رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی والدہ محترمہ Radi Allah Anha فرمایا کرتیں تھیں کہ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیرے پیٹ میں تھے تو مجھے بارہا کہا گیا کہ تمہارے پیٹ میں اس قوم کا سردار ہے ۔ جب ولادت کا وقت قریب آئےتو یوں کہنا کہ میں اسے ہر حاسد کے شر سے خدائے واحد کی پناہ میں دیتی ہوں ۔

مذکورہ روایت مختلف طرق اور متنوع طور پر منقول ہوئی ہے جن سب کا ماحصل ایک ہی ہے کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے استقرارِ حمل سے ہی برکات و انعامات کا سلسلسہ تواتر کے ساتھ شروع ہوگیا تھاچنانچہ ابن زمعہ اپنی پھوپھی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

ہم سناکرتے تھے حضرت سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha نے جس وقت سے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو حمل میں لیا تو وہ کہتیں تھیں کہ مجھے حمل کی مشقت اور اس کا بوجھ محسوس ہی نہیں ہوا جیسا کہ دیگر عورتوں کوہوا کرتا ہے البتہ میری ماہواری بند ہوگئی تھی اور فرماتیں کہ کوئی آنے والا میرے پاس آیا جبکہ میں نیم خوابی میں تھی اور کہنے لگا تمہیں حمل کی تکلیف محسوس ہورہی ہے؟ توگویا میں نے اس سے کہا مجھے کچھ معلوم نہیں تو وہ آنے والا کہتا بیشک تم اس امت کے نبی و سردار Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی والدہ ہوجب یہ پیدا ہوجائیں تو ان کا نام محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamرکھنا اور یہ پیر کا دن تھا۔ 42

مواہب کی نقل کردہ روایت میں یہ زیادتی بھی ہے کہ فرشتہ نے حضرت سیّدہ آمنہ Radi Allah Anhaسے کہاکہ جب بچہ کی ولادت ہو تو ان کا نامِ نامی محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamرکھنا اور ان کی گردن مبارک میں یہ لٹکادینا۔ آپ Radi Allah Anha فرماتی ہیں کہ جب میں بیدا رہوئی تو میرے پاس ایک کاغذ پڑا تھا جس پر یہ لکھا ہوا تھا:

اعیذہ بالواحد
من شر كل حاسد
وكل خلق رائد
من قائم و قاعد
عن السبیل حائد
علی الفساد جاھد
من نافث و عاقد
و كل خلق مارد
یا خذ بالمراصد
فی طرق الموارد .43
میں اسے خدائے یکتا کی پناہ میں دیتی ہوں، ہر حاسد کے شرسے۔میں کھڑے ہونے والے پیغام لانے والے مخلوق میں سے زائد کے شر سے۔ راہِ راست سے ہٹنے کے شر سے، فساد کے لیے کوشش کرنے والے کے شر سے۔ پھونک مارنے والے ، گرہ لگانے والے اور ہر سرکش مخلوق کے شر سے۔ وہ انہیں کمین گاہوں سے پکڑلیتا ہے، سارے گھاٹوں کے رستوں سے۔

اسی طرح اس روایت کو ابن کثیر نے بھی نقل کیا ہے جس میں یہ زیادتی ہےکہ اس نومولود کی نشانی یہ ہوگی کہ اس کے ساتھ ایک نور نکلے گا جس سے ملک شام میں بصریٰ کے محلات بھرجائیں گے۔44

سالِ ولادت فقط لڑکوں کی پیدائش

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے استقرارِ حمل کی برکات میں سے یہ برکت بھی لوگوں کو میسر آئی کہ جس سال رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا استقرارِ حمل ہوا اس میں تمام ہی حاملہ عورتوں کو لڑکوں کی نعمت سے نوازا گیاچنانچہ صاحبِ حلبیہ نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

قد أذن اللّٰه تلك السنة لنساء الدنيا أن يحملن ذكورا كرامة لرسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم .45
آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی کرامت اور شرف کی وجہ سے اس سال اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کی عورتوں کو حکم دیا کہ وہ نر بچے ( یعنی لڑکے ) پیدا کریں ۔46

انہی برکتوں کو بیان کرتے ہوئے حضرت سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha کے حوالہ سے علامہ ابن حجر ہیثمی شافعی تحریر فرماتے ہیں:

قالت آمنة لما حملت بحبیبى محمد صلى اللّٰه عليه وسلم فى اول شھر من حملى وھو شھر رجب الاصم بینما انا ذات لیلة فى لذة المنام اذ دخل على رجل ملیح الوجه طیب الرائحة وانوارہ لائحة وھو یقول مرحبا بک یا محمد قلت له من انت؟ قال أنا آدم أبو البشر قلت له ماترید: قال أبشرى یا آمنة فقدحملت بسید البشر و فخر ربیعة ومضر ولما كان الشھر الثانى دخل على رجل وھو یقول السلام علیک یارسول اللّٰه قلت له من انت قال انا شیث قلت له ما ترید قال أبشرى یاآمنة فقد حملت بصاحب التاویل والحدیث ولما كان الشھر الثالث دخل على رجل وھو یقول السلام علیک یا نبى اللّٰه قلت له من انت قال أنا ادریس، قلت ماترید قال أبشرى یا آمنه فقد حملت باالنبى الرئیس ولما كان الشھر الرابع دخل على رجل وھو یقول السلام علیک یاحبیب اللّٰه قلت له من انت قال أنا نوح قلت له ما ترید قال أبشرى یا آمنة فقد حملت بصاحب النصر والفتوح ولما كان الشھر الخامس دخل على رجل وھو یقول السلام علیک یا صفوة اللّٰه قلت له من انت قال أنا ھود، قلت ماترید قال أبشرى یا آمنة فقد حملت بصاحب الشفاعة العظمى فى الیوم الموعود ولما كان الشھر السادس دخل على رجل وھو یقول السلام علیک یا رحمة اللّٰه قلت له من انت قال أنا ابراھیم الخلیل قلت له ما ترید قال أبشرى یا آمنه فقد حملت بالنبى الجلیل ولما كان الشھر السابع دخل على رجل وهویقول السلام علیک یامن اختاره اللّٰه قلت له من انت قال أنا اسماعیل الذبیح قلت له ما ترید قال أبشرى یا آمنة فقد حملت بالنبى الرجیح الملیح ولما كان الشھر الثامن دخل على رجل وھو یقول السلام علیک یاخیرةاللّٰه؟ فقلت له من انت قال أنا موسى بن عمران قلت له ما ترید قال أبشرى یا آمنة فقد حملت بمن ینزل علیه القرآن ولماكان الشھر التاسع دخل على رجل وھو یقول السلام علیک یا خاتم رسل اللّٰه دنى القرب منک یارسول اللّٰه قلت له من انت قال أنا عیسى ابن مریم قلت له ماترید قال أبشرى یا آمنة فقد حملت بالنبى المکرم و الرسول المعظم صلى اللّٰه عليه وسلم وزال عنک البوس والعنا والسقم والالم.47
حضرت سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha فرماتی ہیں کہ جب نورِ محمدی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیرے صدف میں رجب المرجب کے مہینے میں رونق افروز ہوا تو میں اپنے گھر میں آرام کر رہی تھی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک مرد جس کے چہرے سے خوبصورتی اور جسم سے بہترین خوشبو نیز انوار و تجلیات ظاہر تھے، وہ مجھ سے کہنے لگا :"مرحبا یا محمد صلى اللّٰه عليه وسلم" میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کون ہیں؟ تو انہوں نے ارشاد فرمایا : میں ابو البشر آدم Alaihis Salam ہوں ، میں نے پوچھا آپ Alaihis Salam کس لیے تشریف لائے ہیں؟ فرمایا : اے سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha ! تمہیں مبارک ہو کہ تم بنی نوع انسان کے سردار اور قبیلہ ربیعہ و مضر کے افتخار سے فیضیاب ہو۔ جب دوسرا مہینہ آیا تو اسی طرح ایک کامل شخص میرے خواب میں آیا اور کہنے لگا : "السلام علیک یا رسول اللہ صلى اللّٰه عليه وسلم " میں نے کہا آپ کون ہیں ؟ تو فرمایا :میں حضرت شیث Alaihis Salam ہوں ، میں نے کہا آپ علیہ السلام کیا ارادہ رکھتے ہیں ؟ فرمایا : اے سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha ! تمہیں مبارک ہو کہ تم صاحب تاویل و حدیث سے فیضیاب ہو ۔ جب تیسرا مہینہ آیا تو اسی طرح ایک اور آدمی میرے خواب میں آیا اور کہنے لگا : "السلام علیک یا نبی اللہ صلى اللّٰه عليه وسلم"میں نے پوچھا آپ کون ہیں ؟ تو فرمایا :میں حضرت ادریس Alaihis Salam ہوں ، میں نے پوچھا آپ Alaihis Salam کیا چاہتے ہیں؟ تو فرمایا : اے سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha : تمہیں مبارک ہو کہ تم تمام نبیوں کے سردار سے فیضیاب ہو ۔ جب چوتھا مہینہ آیا ماقبل اشخاص کی طرح ایک اور شخص میرے خواب میں آیا اور کہنے لگا :"السلام علیک یا حبیب اللہ صلى اللّٰه عليه وسلم" میں نے پوچھا آپ کون ہیں ؟ تو فرمایا : میں حضرت نوح Alaihis Salam ہوں، میں نے کہا آپ کیا چاہتے ہیں ؟ تو فرمایا : اے سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha ! تمہیں مبارک ہو کہ تم صاحب نصر و فتح سے فیضیاب ہو۔ جب پانچواں مہینہ آیا تو اسی طرح ایک اور شخص میرے خواب میں آیا اور کہنے لگا :"السلام علیک یا صفوۃ اللہ صلى اللّٰه عليه وسلم" میں نے پوچھا آپ کون ہیں ؟ تو فرمایا: میں حضرت ہود Alaihis Salam ہوں ، میں نے کہا آپ Alaihis Salam کیا چاہتے ہیں ؟ فرمایا ؛ اے سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha ! تمہیں مبارک ہو تم اس نبی مکرم سے فیضیاب ہو جو کہ قیامت کے دن شفاعت ِ کبریٰ کے مالک ہوں گے۔ جب چھٹا مہینہ آیا تو اسی طرح ایک بزرگ (خواب میں)میرے پاس آئے اور کہنے لگے :"السلام علیک یا رحمۃ اللہ صلى اللّٰه عليه وسلم" میں نے پوچھا آپ کون ہیں ؟ تو فرمایا : میں حضرت ابراہیم Alaihis Salam ہوں ، میں نے پوچھا آپ کیا چاہتے ہیں ؟ تو فرمایا: اے سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha ،تمہیں مبارک ہو کہ صاحب جلال نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے فیضیاب ہو ۔ جب ساتواں مہینہ آیا تو اسی طرح ایک اور شخص میرے خواب میں آئےاور کہنے لگے:"السلام علیک یا من اختارہ اللہ صلى اللّٰه عليه وسلم"میں نے پوچھا آپ کون ہیں ؟ تو فرمایا : میں حضرت اسماعیل ذبیح اللہ Alaihis Salam ہوں ، میں نے پوچھا آپ Alaihis Salam کیا چاہتے ہیں ؟ تو فرمایا : تمہیں مبارک ہو آمنہ تم بہترین اورملیح حسن والے نبی سے فیضیاب ہو۔ جب آٹھواں مہینہ آیا تو اسی طرح ایک شخص میرے خواب میں آئے اور کہنے لگے:"السلام علیک یا خیرۃ اللہ صلى اللّٰه عليه وسلم"میں نے پوچھا آپ کون ہیں ؟ تو فرمایا :میں حضرت موسیٰ بن عمران Alaihis Salam ہوں ، میں نے کہا آپ Alaihis Salam کیا چاہتے ہیں ؟ تو فرمایا : اے سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha ! تمہیں مبارک ہو تم اس نبی معظم سے فیضیاب ہو جن پر قرآن مجید نازل ہوگا۔جب نواں مہینہ آیا تو اسی طرح ایک شخص میرے خواب میں آئے اور کہنے لگے:"السلام علیک یا خاتم الرسل صلى اللّٰه عليه وسلم"آپ کے ظہور کا وقت مجھ سے قریب تر ہے۔ میں نے پوچھا آپ کون ہیں؟ فرمایا : میں حضرت عیسیٰ بن مریم Alaihmas Salam ہوں ، میں نے کہا آپ Alaihis Salam کیا چاہتے ہیں ؟ تو فرمایا : اے سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha ! تمہیں مبارک ہو تم نبی مکرم اور رسول ِ معظم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے فیضیاب ہو ، تم سے تمام تکالیف و مصائب و آلام دور کردیے گئے ۔

قاضی بیضاویRehmatullah Alaih کا قول ہے کہ واقعہ فیل ان ہی عجیب واقعات میں تھاجو نبوت کے قریب کے زمانے میں پیش آیا کرتے ہیں۔کیونکہ واقعہ فیل اسی سال میں پیش آیا جس میں آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپیدا ہوئے ۔ اسی لیے کتاب ہدی میں علامہ ابن قیم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عادت یہ ہے کہ وہ بڑے بڑے اور عظیم الشان امور سے پہلے ان کے مقدمے اور تمہیدیں ظاہر فرمایا کرتا ہے۔ 48

حضرت عبد اللہ Radi Allah Anho کا یثرب میں انتقال

جب حمل کے دو مہینے پورے ہوگئے تو حضرت عبد اللہ Radi Allah Anhoمدینے میں اپنے ننھیال بنی نجار میں وفات پا گئے اور ابواء میں دفن ہوئے ۔ ابن عباس Radi Allah Anhumaراوی ہیں کہ جب جناب عبد اللہ Radi Allah Anhoفوت ہوگئے تو فرشتوں نے کہا : اے خدا! تیرا نبی تو (دُرِّ)یتیم ہوگیا ہے ۔اللہ رب العزت نے فرمایا کہ ہم اس کے نگہبان اور مددگار ہیں ۔49

اسی طرح ابن اسحاقRehmatullah Alaih سے روایت ہے کہ تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب Radi Allah Anhumaکا انتقال اس حال میں ہواکہ حضرت سیّدہ آمنہ Radi Allah Anhaابھی حاملہ ہی تھیں ۔50

بعض روایتوں سے معلوم ہوتاہےکہ قدیم کتابوں میں جہاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آمد کی خبریں ہیں وہیں اس بات کو بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نبوت کی علامتوں میں سے ایک علامت بتلایا گیا ہےکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے والد کا انتقال آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت سے پہلے ہی ہوجائے گا اور اس طرح آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیں(دُرِّ) یتیم ہونے کی شان مکمل طریقے پر پائی جائے گی۔ کتاب اسدُ الغابہ میں یہ روایت ہے کہ حضرت عبد المطلب نے (حضرت عبد اللہ Radi Allah Anhoکی بیماری کی خبر سن کر) اپنے بیٹے زبیر کو ان کے پاس بھیجا جو حضرت عبد اللہ Radi Allah Anhoکے سگے بھائی تھے اور یہ کہ حضرت عبد اللہ Radi Allah Anhoکی وفات (مدینے میں )زبیر کے سامنے ہی ہوئی۔ ان کو وہاں تابعہ والے مکان میں دفن کیا گیا۔ 51

منقول ہے کہ حضرت سیّدہ آمنہ Radi Allah Anhaنے ان کی وفات پر درجِ ذیل اشعار کہے:

عفا جانب البطحاء من آل هاشم
وجاور لحدا خارجا في الغمائم
دعته المنایا دعوة فاجابھا
وما تركت في الناس مثل ابن هاشم
عشیة راحوا یحملون سریرہ
تعاوره اصحابه في التزاحم
بنو ہاشم سے وادئِ بطحاء کا کنارہ خالی ہوگیا، وہ ایسی قبر میں چلے گئے جو ان کے گھر والوں سے دور ہے،موتوں نے ان کو بلایا تو انہوں نے قبول کیا اور موت نے اس ہاشمی نوجوان جیسا کوئی نہیں چھوڑا، جس رات وہ ان کی چارپائی اٹھائے جارہے تھے تو بھیڑ کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو مشکل سے پکڑاتے تھے، اگرچہ موت اور اس کے حادثات نے ان کو غفلت میں آلیا لیکن وہ بہت زیادہ عطیات دینے والے اور بہت زیادہ رحم کرنے والے تھے۔52

حضرت ابن عباس Radi Allah Anhumaسے مروی ہے جب حضرت عبداللہ Radi Allah Anhoکا انتقال ہوا تو فرشتوں نے کہا: اے ہمارے معبود اور اے ہمارے سردار! تیرا نبی(دُرِّ) یتیم رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اس کا محافظ اور مددگار ہوں۔ 53 حضرت امام جعفر صادق Radi Allah Anhoسے پوچھا گیا کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو والدین سے کیوں(دُرِّ) یتیم بنایا گیا؟ انہوں نے فرمایا: اس لیے کہ آپ پر مخلوق کا کوئی حق نہ ہو۔ ابوحیان محمد بن یوسف اندلسی نے بھی اس بات کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ 54

آنحضرت ﷺاولین اور اکلوتی اولاد

بعض کتب سیر میں منقول ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے علاوہ بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی والدہ ماجدہRadi Allah Anha کو حمل ہوا اور اسی طرح یہ بھی منقول ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے والد ماجد نے دو شادیاں کی تھیں ۔اس حوالہ سے علامہ واقدیRehmatullah Alaih کہتے ہیں کہ ہمارے اور اہل علم کے نزدیک مشہور بات یہی ہے کہ حضرت آمنہ Radi Allah Anhaاور حضرت عبد اللہ Radi Allah Anhoکے یہاں آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے علاوہ کوئی اولاد نہیں ہوئی، علامہ سبط ابن جوزی کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ Radi Allah Anho کی شادی حضرت آمنہ Radi Allah Anhaکے سوا کبھی کسی سے نہیں ہوئی اور اسی طرح حضرت آمنہ Radi Allah Anhaکی شادی حضرت عبد اللہ Radi Allah Anhoکے سوا کبھی کسی سے نہیں ہوئی، اسی طرح انہوں نے مؤ رخین و علماء کا اس بات پر اتفاق و اجماع نقل کیا ہے کہ حضرت آمنہ Radi Allah Anhaکے پیٹ میں آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سوا کبھی کوئی بصورت حمل نہیں آیا۔ حضرت آمنہRadi Allah Anha کا جو یہ قول ہے کہ "مجھے اس سے زیادہ ہلکا حمل کبھی نہیں ہوا۔ "اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے علاوہ اور حمل بھی ہوا ہے مگر ( اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ ) انہوں نے یہ بات اپنے قول میں تاکید پیدا کرنے کے لیے کہی ہے۔ واقدی کہتے ہیں کہ سبط ابن جوزی نے علماء کا اتفاق و ا جماع نقل کیاہے کہ حضرت سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha کو آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سوا کبھی کوئی حمل نہیں ہوا۔55

درج بالا تما م تحریرسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجب اپنے والد محترم حضرت عبد اللہ Radi Allah Anhoکے صلب اقدس سے اپنی والدہ محترمہ Radi Allah Anhaکے شکم اقدس میں منتقل ہوئے تو اس وقت تمام عالم کائنات نے خوشی کا اظہار کیا اور تمام مخلوقات نے ایک دوسرے کو اس کی مبارک باد دی۔اسی طرح حضرت سیّدہ آمنہ Radi Allah Anhaنے بھی کئی ایک خوارقِ عادات واقعات و مناظر بھی دیکھے جن سے آپ کو اس بات کا کامل یقین ہوگیا کہ آپ Radi Allah Anhaکے شکم اقدس میں اس جہاں کا سب سے بہترین مولود پرورش پا رہاہے۔


  • 1  ياسين بن خير الله بن محمود بن موسى الخطيب العمرى، الروضة الفيحاء فى أعلام النساء،ج-1،مطبوعۃ: المکتبۃ الاسلامی، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص:25
  • 2  ابو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی،شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان،1996م،ص:207
  • 3  سیّد احمدبن زینی دحلان،السیرۃ النبویہ (مترجم: علامہ ذوالفقار علی ساقی)،ج-1،مطبوعہ :ضیاءالقرآن پبلیکیشنز،لاہور،پاکستان،2014ء،ص:50
  • 4  شیخ عبد الحق محد ث دہلوی ،مدارج النبوۃ(مترجم:مفتی غلام معین الدین )، ج-2،مطبوعہ:ضیاء القرآن ،پبلیکیشنز،لاہور،پاکستان،2012ء،ص:29-30
  • 5  جلال الدین عبد الرحمٰنبن ابی بکر السیوطی، الخصائص الکبریٰ(مترجم:مفتی سیّد غلام معین الدین) ، ج-1-2مطبوعہ: زاویہ پبلیشرز، لاہور، پاکستان، 2014ء، ص:104
  • 6  ام قتال کے اس علم و معرفت کی وجہ یہ تھی کہ ان کے بھائی ورقہ بن نوفل نے نصرانی مذہب اختیار کرلیا تھااور کتب سماویہ کا مطالعہ کیا کرتے تھے اور ان کو اس مطالعہ سے ہی معلوم ہوا تھا کہ اس امت میں اولاد اسماعیل سے ایک نبی آخرالزمان ﷺکا ظہور ہونے والا ہے۔ ام قتال نے اپنے بھائی سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق معلوم کرلیا کہ آخر الانبیاء علیہ التحیۃ و الثناء کے والد گرامی یہی ہیں اور ان کی پیشانی میں جس نور کا ظہور ہے وہ اسی نور مجسم ہی کا ہے۔ ابو الفرج عبدالرحمن ابن جوزی،الوفاء باحوال المصطفیﷺ(مترجم:علامہ محمد اشرف سیالوی)،مطبوعہ:حامد اینڈ کمپنی،لاہور،پاکستان،2002ء،ص:112-113
  • 7  ابو الفرج عبدالرحمن ابن جوزی،الوفاء باحوال المصطفیﷺ(مترجم:علامہ محمد اشرف سیالوی)مطبوعہ:حامد اینڈ کمپنی،لاہور،پاکستان،2002ء،ص:113
  • 8  ابوالغیاض الخثعمی کہتے ہیں: فاطمہ بنت مُرّ یہ بہت ہی نوخیز و نوجوان و باعصمت و عفیف و پاکدامن عورت تھی اور اس نے کتابیں بھی پڑھی تھیں۔ نوجوانانِ قریش میں اس کے چرچے تھے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ کے چہرے میں اس کو نور نبوت نظر آیا تودرج بالا معاملہ ہوا۔محمد بن سعد الزہری،طبقات ابن سعد(مترجم:علامہ عبد اللہ العمادی)،ج-1،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی ،کراچی، پاکستان ،(سن اشاعت ندارد)،ص:116
  • 9  ابو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی،شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ(مترجم:محمد صديق ہزاروی)،ج-1،مطبوعہ:فريد بك اسٹال،لاہور، پاكستان،2011ء،ص:71
  • 10  امام محمد بن اسحاق المطلبی،سیرت ابن ِ اسحاق(مترجم:محمد اطہر نعیمی)،مطبوعہ:مکتبہ نبویہ ، لاہور،پاکستان،1434ھ،ص:142-144
  • 11  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبرٰی،ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:76
  • 12  محمد بن سعد الزہری،طبقات ابن سعد(مترجم:علامہ عبد اللہ العمادی)،ج-1،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی ،کراچی، پاکستان ،(سن اشاعت ندارد)،ص:115
  • 13  امام محمد بن اسحاق المطلبی، سیرۃ ابن اسحاق، ج-1،مطبوعۃ:دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:94
  • 14  شیخ احمد بن محمد القسطلانی،ا لمواهب اللدنية بالمنح المحمدية ،ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م،ص:72
  • 15  ابو نعيم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی، دلائل النبوۃ، ج-2، مطبوعۃ:المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 2012م، ص:362-363
  • 16  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:62
  • 17  اہل عرب کے ہاں دورِ جاہلیت میں چار مہینہ محترم تھے جو کہ ابتداء ہی سے محترم شمار کیے جاتے تھے لیکن نسئی کی رسم وعادت کی وجہ سے وہ لوگ اپنے حساب سے ان کی گنتی کو آگے پیچھے کر دیا کرتے تھےجس سے ان کا مقصد اپنے منافع کو پانا ہوتا تھا۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر 36میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔(ادارہ)
  • 18  ابو القاسم علی بن الحسن المعروف بابن عساکر،تاریخ دمشق،ج-3،مطبوعۃ:دار الفکر للنشر والتوزیع، بیروت، 1995م، ص:404
  • 19  امام احمد رضا خان القادری،فتاوی رضویّہ،ج-26،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن،لاہور،پاکستان،2004ء،ص:406
  • 20  جمال الدين محمد بن طاهر علی الصدّيقي، مجمع بحار الانوار في غرائب التنزيل والاخبار، ج-5، مطبوعۃ: مجلس دائرۃ المعارف العثمانية، الهند، 1967م ،ص:244
  • 21  امام احمد رضا خان القادری،فتاوی رضویّہ،ج-26،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن،لاہور،پاکستان،2004ء،ص:406
  • 22  شیخ عبد الحق محدّث دہلوی،مدارج النبوۃ،ج-2،مطبوعہ:نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی،لاہور،پاکستان،1997ء،ص:13
  • 23  شیخ عبد الحق محدّث دہلوی،مدارج النبوۃ(مترجم:مفتی سیّد غلام معین الدین)،ج-2،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور،پاکستان،2012ء،ص:30
  • 24  القران ،سورۃ التوبۃ9: 37
  • 25  ابو الحسن مسلم بن الحجاج القشيرى، صحیح مسلم، حدیث: 1679،مطبوعة: دار السلام للنشر والتوزيع،الرياض، السعودية، 2000م،ص:743
  • 26  ابو عبدالله محمد بن إسماعيل البخارى، صحیح بخاری، حدیث: 4662، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزيع،الرياض، السعودية، 1999م، ص:800
  • 27  امام احمد رضا خاں القادری، فتاوٰی رضویہ،ج-26، مطبوعہ: رضا فاؤنڈیشن، لاہور ، پاکستان، 1921ء، ص : 405-411
  • 28  شیخ نو رالدین علی بن احمد سمہودی،الموارد الھنیۃ فی مولد خیر البریۃﷺ،مطبوعة:زاویۃ ببلشرز،لاہور،باکستان، (ليس التاريخ موجودًا)،ص:111
  • 29  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:63
  • 30  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقی الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواهب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ(مترجم:مولانا محمد صدیق ہزاروی)، ج-1، مطبوعہ :فرید بک اسٹال، لاہور،پاکستان، 2004ء،ص:75
  • 31  أبو عبد الله محمد بن عبد الباقی الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃِ، بیروت، لبنان، 2012م، ص:204
  • 32  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:60
  • 33  شیخ احمد بن محمد قسطلانی،المواہب الدنیۃبالمنح المحمدیۃ(مترجم:مولانا محمد صدیق ہزاروی)،مطبوعہ :فرید بک اسٹال،لاہور،پاکستان، 2004ء،ص:72
  • 34  ابو الفرج علی بن ابراهيم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ النبی الامین المامونﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م،ص:70
  • 35  أبو عبد الله محمد بن عبد الباقی الزرقانی ، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية،ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان، 1996م،ص:202-203
  • 36  شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی،حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّد المرسلینﷺ،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ بیروت ، لبنان، 2005م، ص:186
  • 37  ایضا،ج-1، مطبوعہ : ضیاء القرآن پبلیکیشنز ، لاہور، پاکستان ، 2013 ء،ص:396
  • 38  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2009م،ص:61
  • 39  ابو الفرج علی بن ابراهيم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ النبی الامین المامونﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م،ص:70
  • 40  اس روایت کے ظاہری الفاظ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہاکو اپنے حاملہ ہوجانے کا علم اس فرشتے کے بتلانے پر ہی ہوا ۔ اس سے پہلے تک انہیں اس کا علم نہیں تھا۔اس لیے کہ ان کو کوئی ایسی علامت محسوس نہیں ہوئی جس سے وہ یہ سمجھ سکتیں کیونکہ انہیں کسی بوجھ اور تھکن کا احساس بھی نہیں ہوا۔ ادھر ان کی یہ بھی عادت تھی کہ ان کا حیض اکثر رک جایا کرتا تھا اور متعین دنوں میں غائب ہوجانے کے بعد دوبارہ شروع ہوجایا کرتا تھا۔نہ ہی انہوں نے اس طرف توجہ کی کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر جو نور تھا وہ( حمل ہوجانے کے بعد ) وہاں سے نکل کر خود ان کے چہرے میں منتقل ہوگیا تھا جیسا کہ اس کے متعلق بعض علماء نے بیان کیا ہے، ان بعض حضرات نے لکھا ہے کہ جب یہ نور حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے چہرے سے جدا ہوا تو حضرت آمنہ رضی اللہ عنہاکے چہرے میں منتقل ہوگیا ۔اسی طرح سونے یا جاگنے کی حالت میں جو نور حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے جسم سے نکلا تھا وہ اس کو بھی نہیں محسوس کرسکی تھیں اس لیے کہ وہ خود حمل نہیں تھا بلکہ حمل کے علاوہ محض نور تھا جو اس حمل سے نکلا تھا ۔ادھر شاید آنحضرت ﷺ کے والد حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت آمنہ رضی اللہ عنہاکو اس عورت کا پیغام نہیں پہنچایا تھا جس نے اپنے آپ کو نکاح کے لیے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا تھا اور (پھر جب اس کی آرزو پوری نہیں ہوسکی اور اس نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا سے شادی اور ہمبستری کے بعد دیکھا کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے چہرے سے وہ نور نکل چکا ہے تو اس نے ) حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ جاؤ اور آمنہ رضی اللہ عنہا کو بتلادو کہ وہ زمین کے رہنے والوں میں بہترین انسان کو حمل کی صورت میں حاصل کرچکی ہیں۔ ( اس واقعہ کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے ، مقصد یہ ہے کہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو اپنے حمل کا علم فرشتے کے بتلادینے سے پہلے نہیں ہوسکا کیونکہ معلوم ہونے کے جتنے سبب ہوسکتے تھے ان میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہوا۔ حمل کے ابتدائی زمانہ میں جو بوجھ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کومحسوس ہوا وہ ہوسکتا ہے کہ فرشتے کے بتلادینے کے بعد محسوس ہوا ہو، مگر کتاب مواہب میں ہے کہ حضرت کعب سے روایت ہے کہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے پاس فرشتہ اس وقت آیا تھا جب کہ ان کے حمل کو چھ مہینے گزرچکے تھے۔ ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی ،سیرت حلبیہ، (مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ،دارالاشاعت، کراچی، پاکستان، 2009ء، ص:161
  • 41  امام محمد بن اسحاق المطلبی، سیرۃ ابن اسحاق، ج-1،مطبوعۃ:دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:96-97
  • 42  محمد بن سعد الزہری،طبقات ابن سعد(مترجم:علامہ عبد اللہ العمادی)،ج-1،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی ،کراچی، پاکستان ،(سن اشاعت ندارد)،ص: 118
  • 43  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2009م،ص:61-62
  • 44  ابو الفداء اسماعيل ا بن كثير الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1986م، ص:275
  • 45  ابوالفرج علی بن ابراہیم الحلی، انسان العیون فی سیرۃ النبی الامین المامون ﷺ، ج -1،مطبوعہ : دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان ،2013م، ص:72
  • 46 ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی ،سیرت حلبیہ (مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ،دارالاشاعت کراچی ،پاکستان،2009ء،ص:165
  • 47  شھاب الدین احمد بن حجر الہیتمی،النعمۃالکبری علی العالم فی مولد سیّد ولد اٰدمﷺ،مطبوعۃ:مکتبۃ الحقیقیۃ، استنبول، ترکی،2003م،ص:19-20
  • 48  ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی، سیرت حلبیہ(مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ،دارالاشاعت ،کراچی، پاکستان،2009ء،ص:201
  • 49  أبو عبد الله محمد بن عبد الباقى الزرقانى ، شرح الزرقانى على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية،ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت،لبنان،1996م،ص :206-208
  • 50  اسی پر اکثر علماء کا اتفاق ہے یعنی حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا انتقال آنحضرتﷺ کی ولادت سے پہلے ہوگیا تھا اگرچہ کچھ روایات ایسی بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کی ولادت کے بعد فوت ہوئے ۔حافظ دمیاطی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی قول کو درست قرار دیا ہے۔ ایک روایت ہے کہ آنحضرتﷺ کے والد کا انتقال اس وقت ہوا جب کہ آپ ﷺصرف دو مہینے کے حمل کی صورت میں تھے، ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺکی پیدائش سے دو مہینے پہلے ہوا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپﷺکی عمر اس وقت دو ماہ کی ہوچکی تھی اور آپﷺپالنے میں جھولتے تھے اورعلامہ سہیلی نے ( روض الانف) میں لکھا ہے کہ اسی قول پر اکثر علماء کا اتفاق ہے ۔حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا انتقال مدینے میں ہوا جہاں وہ کھجوروں کی تجارت کے سلسلے میں اپنے ننھیال (یعنی اپنی والدہ کے گھر والوں سے) ملنے گئے تھے۔ ان کے ننھیال والے بنی عدی ابن نجار تھے، یہ بھی ممکن ہے کہ جانے کے دونوں مقاصد ہوں۔ایک روایت یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ قریش کے قافلوں میں سے ایک عیر یعنی قافلےکے ساتھ غزہ کے لیے روانہ ہوئے، عیر سے مراد وہ قافلہ ہے جو تجارتی سامان لے کر جاتا ہے۔ یہ لوگ تجارت کے سلسلے میں روانہ ہوئے تھے۔ جب غزہ میں وہ تجارت سے فارغ ہوگئے اور وہاں سے واپس ہوئے تو راستے میں مدینے سے گزرے۔اس وقت حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے تھے، اس لیے انہوں نے قافلے والوں سے کہا کہ میں یہاں اپنی ننھیال بنی عدی ابن نجار کے پاس ٹھہرجاتا ہوں ۔ غرض عبد اللہ رضی اللہ عنہ بنی نجار کے پاس بیماری کی حالت میں ایک مہینہ رہے ، بہرحال قریشی قافلہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو ان کی ننھیال میں بیمار چھوڑ کر آگے بڑھ گیا، جب یہ مکے پہنچا تو ان لوگوں سے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے والد عبد المطلب نے بیٹے کے متعلق دریافت کیا، قافلے والوں نے بتلایا کہ ہم نے ان کو بیماری کی حالت میں ان کی ننھیال بنی عدی ابن نجار کے پاس چھوڑا ہے۔ یہ سن کر عبد المطلب نے حضرت عبد اللہ کے بھائی حارث کو ان کے پاس بھیجا جیسا کہ بیان ہوچکا ہے، حارث عبد المطلب کے سب سے بڑے بیٹے تھے اور اسی لیے عبد المطلب کا لقب ابو الحارث (یعنی حارث کا باپ ) تھا۔ یہ حارث اسلام سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے، غرض جب حارث مدینے پہنچے تو انہوں نے عبد اللہ کو نہ پایا۔ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی، سیرت حلبیہ(مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ،دارالاشاعت، کراچی، پاکستان،2009ء، ص:170-173
  • 51  ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی، سیرت حلبیہ (مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ،دارالاشاعت ،کراچی ،پاکستان،2009ء،ص:171-172
  • 52  شیخ احمد بن محمد قسطلانی،المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ(مترجم:مولانا محمد صدیق ہزاروی)،ج-1،مطبوعہ :فرید بک اسٹال، لاہور،پاکستان، 2004ء، ص:75-76
  • 53  شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی،حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّد المرسلینﷺ،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص:167
  • 54  أبو عبد الله محمد بن عبد الباقی الزرقانی، شرح الزرقانی على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية،ج-1،مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان، 1996م، ص:208
  • 55  ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی، سیرت حلبیہ(مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ،دارالاشاعت کراچی ،پاکستان،2009ء،ص:176-177

Powered by Netsol Online