encyclopedia

ام المؤمنین حضرت حفصہ بنت عمر رضی الله عنها

Published on: 07-Nov-2024
image
پیدائش605 عیسویوفات41 ہجریوالدحضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہوالدہزینب بنت مظعون رضی اللہ عنھاشوہر(۱)حضرت خنیس ابن حذافہ رضی اللہ عنہ (شہید)(۲)رسول اللہ ﷺلقب:ام المؤمنینقبیلہ:قریشمزار مبارکجنت البقیع
LanguagesEnglishPortuguese

حضرت حفصہ بنت عمر Radi Allah Anhuma اعلان نبوت سے پانچ سال قبل 605 ہجری میں پیدا ہوئیں۔ آپ Radi Allah Anha حضرت عمر بن خطاب Radi Allah Anho اور زینب بنت مظعون Radi Allah Anha کے گھر پیدا ہوئیں۔ یہ وہ دور تھا جب بیت اللہ کی دوبارہ تعمیر کی جارہی تھی۔ 1 آپ Radi Allah Anha قرآن حفظ کرنے اور اسے یاد کرنے کے حوالے سے جانی جاتی ہیں۔

نسب

حضرت حفصہ Radi Allah Anha کا نسب یہ ہے، حضرت حفصہ بنت عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی بن رباع بن عبد اللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب القریش۔ 2 والدہ کا نام زینب بنت مظعون بن حبیب بن وھب بن حذافہ بن جمح تھا۔ آپ Radi Allah Anha عثمان بن مظعون کی بہن تھیں۔ 3

حرم نبوی ﷺ میں داخلےسے قبل زندگی

حضرت حفصہ Radi Allah Anha نے حضرت عمر Radi Allah Anho کے بابرکت گھر میں پرورش پائی۔ ابتدا میں آپ Radi Allah Anha کا نکاح حضرت خنیس ابن حذافہ بن قیس بن سعد السہمی Radi Allah Anho سے ہوا تھا۔ حضرت خسیس Radi Allah Anho کا شمار ان مسلمانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے حبشہ ہجرت فرمائی تھی اور بعد ازاں مدینہ ہجرت کی تھی۔ 4 آپ Radi Allah Anho نے غزوہ بدر میں بھی شرکت فرمائی تھی۔ اس جنگ میں آپ Radi Allah Anho کو بہت زخم آئے جن کی تاب نہ لاکر بالآخر آپ Radi Allah Anho ہجرت کے تیسرے سال انتقال فرما گئے تھے۔ 5 یوں حضرت حفصہ Radi Allah Anha 18 سال کی عمر میں بیوہ ہوگئیں۔ اپنے شوہر کے انتقال کے بعد آپ Radi Allah Anha نے بہت دکھ جھیلے۔

حرم نبوی ﷺ میں داخلہ

حضرت عمر Radi Allah Anho کو ان کے بیوہ ہونے کا بہت غم تھا اور وہ اپنی بیٹی کو اس حالت میں نہیں دیکھ پارہے تھے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنی بیٹی کے لیے اچھے شوہر کی تلاش کی جائے تاکہ ان کی بیٹی کے چہرے پر دوبارہ خوشی نمودار ہوجائے۔ انہوں نے حضرت ابو بکر Radi Allah Anho سے کہا کہ آپ Radi Allah Anho میری بیٹی سے نکاہ کریں لیکن یہ سن کر حضرت ابو بکر Radi Allah Anho خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد حضرت عمر Radi Allah Anho حضرت عثمان غنی Radi Allah Anho کے پاس گئے اور ان سے اپنی بیٹی کے رشتہ کی بات کی۔ کچھ دن تامل کے بعد حضرت عثمان Radi Allah Anho نے بھی نفی میں جواب دیا۔ 6 حضرت عمر Radi Allah Anho اس وجہ سے بہت غصہ میں آگئے اور شکایت لے کر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ عالیہ میں پہنچ گئے۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے آپ Radi Allah Anho کی شکایت سنی اور یہ خوشخبری سنائی۔

قد زوج اللّٰه عثمان خيرا من ابنتك وزوج ابنتك خيرا من عثمان. 7
تحقیق اللہ تعالیٰ نے عثمان کا نکاح تمہاری بیٹی سے بہتر عورت سے طے کیا ہے اور تمہاری بیٹی کا نکاح عثمان سے بہتر شخص سے طے کیا ہے۔

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی جانب سے یہ خوشخبری سننے کےبعد حضرت عمر Radi Allah Anho نے جان لیا کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرت حفصہ Radi Allah Anha نے نکاح فرمائیں گے۔ حضرت عمر Radi Allah Anho یہ سن کر بہت زیادہ خوش ہوئے کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے بہتر کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو حضرت حفصہ Radi Allah Anha سے نکاح کرے۔ اس خوشخبری کو سننے کے بعد حضرت عمر Radi Allah Anho خوشخبری سنانے فوراً گھر گئے اور اپنی بیٹی کو یہ اچھی خبر سنائی، ساتھ ہی ساتھ پورے مدینے والوں کو بھی یہ خوشخبری سنائی۔ راستے میں حضرت ابو بکر Radi Allah Anho سے ملاقات ہوئی۔ ان سے جو کلام ہوا وہ نیچے بیان کیا گیا ہے:

...فلقيني أبو بكر، فقال: لعلك وجدت علي حين عرضت علي حفصة فلم أرجع إليك شيئا؟ قال عمر: قلت: نعم، قال أبو بكر: فإنه لم يمنعني أن أرجع إليك فيما عرضت علي، إلا أني كنت علمت أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قد ذكرها، فلم أكن لأفشي سر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، ولو تركها رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قبلتها. 8
میری ملاقات حضرت ابو بکر Radi Allah Anho سے ہوئی تو انہوں نے کہا:چونکہ آپ Radi Allah Anho مجھ سے ناراض ہوئے جب آپ Radi Allah Anho نے مجھے حفصہ Radi Allah Anha سے نکاح کے لیے کہا اور میں نے آپ Radi Allah Anho کو کوئی جواب نہیں دیا؟ میں نے کہا: ہاں۔ ابو بکر Radi Allah Anho نے فرمایا: مجھے تمہاری پیشکش سے کسی چیز نے نہیں روکا سوائے اس چیز کے کہ مجھے معلوم تھا کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مجھے ان کے متعلق آگاہ کیا تھا، اور میں اللہ کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا راز کسی طور پر بھی افشا نہیں کرسکتا۔ اور اگر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ایسا نہیں کرتے تو میں ضرور آپ Radi Allah Anho کی پیشکش کو قبول کرلیتا۔

اس کے بعد حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت عائشہ Radi Allah Anha سے نکاح کے بعد شعبان کے مہینے میں 9 حضرت حفصہ Radi Allah Anha سے نکاح کرلیا۔ 10 آپ Radi Allah Anha کا مہر 400 چاندی کے درہم تھے۔ 11 اس طرح آپ Radi Allah Anha حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے گھرانے میں داخل ہوگئیں یہ جانتے ہوئے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی پہلے ہی دو ازواج مطہرات حضرت عائشہ Radi Allah Anha اور حضرت سودہ Radi Allah Anha موجود ہیں۔ حضرت سودہ Radi Allah Anha نے حضرت حفصہ Radi Allah Anha کو خوش آمدید کہا جبکہ حضرت عائشہ Radi Allah Anha کو انہیں قبول کرنے میں کچھ وقت لگا جو بعد میں بہت اچھی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔

حضرت حفصہ Radi Allah Anha کی حفاظت قرآن کے لیے خدمات

حضرت حفصہ Radi Allah Anha کا زیادہ تر وقت اللہ کی عبادت اور گناہوں کی معافی مانگنے میں گزرتا تھا۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پردہ فرما جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمام ازواج مطہرات Radi Allah Anhum میں سے آپ Radi Allah Anha ہی کو حفاظت قرآن کا اعزاز عطا فرمایا تھا۔

قرآن مجید کا متن حضرت ابو بکر Radi Allah Anho نے ترتیب دیا تھا تو وہ حضرت عمر Radi Allah Anho کے انتقال فرمانے کے بعد حضرت حفصہ Radi Allah Anha کی نگرانی میں آگیا تھا۔ 1213 حضرت عثمان Radi Allah Anho نے اپنے دور خلافت میں ان سے قرآن مجید کے متن کو طلب فرمایا اور وعدہ کیا کہ ان کی نقول بنا کر قرآن آپ Radi Allah Anha کو واپس کردیا جائے گا۔ حضرت حفصہ Radi Allah Anha نے قرآن کا متن حضرت عثمان Radi Allah Anho کو بھجوایا جنہوں نے ان کی اسی طرح کی نقول بنوائیں اور ان نقول کو مسلمان حاکموں کو بھجوادیا۔ 14 حضرت حفصہ Radi Allah Anha نہ صرف قرآن مجید کا متن اپنے پاس سنبھال کر رکھا بلکہ اسے حفظ بھی فرمالیا تھا۔

رحلت

حضرت حفصہ Radi Allah Anha نے اپنی زندگی روزہ رکھنے اور اللہ کی عبادت میں گزاری۔ آپ Radi Allah Anha حضرت امیر معاویہ Radi Allah Anho کے دور حکومت کی ابتدا میں اس دنیا سے تشریف لے گئیں، یہ 41 ہجری کا دور تھا۔ 15 آپ Radi Allah Anha کو دیگر ازواج مطہرات Radi Allah Anhum کے ساتھ جنت البقیع میں دفن کیا گیا ۔


  • 1  محمد ابن یوسف السھیلی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج-11، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993م، ص:184
  • 2  محمد ابن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:65
  • 3  احمد ابن یحیی بن جابر ابن داؤد البلاذری، جمل من انساب الاشرف، ج-1، مطبوعۃ:دار الفکر، بیروت، لبنان، 1996م، ص:422
  • 4  ابو الفدا احمد ابن علی العسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج-2، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:291
  • 5  عز الدین علی ابن محمد الشیبانی ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ:مکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص:291
  • 6  ابو حاتم محمد ابن حبان التمیمی الدارمی، صحیح ابن حبان، حدیث-4039، ج-9، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1998م، ص:347
  • 7  محمد ابن سعد البصری، طبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:66
  • 8  محمد ابن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 5122، مطبوعۃ: دار السلام، ریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:915-916
  • 9  محمد ابن یوسف السھیلی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج-11، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993م، ص:184
  • 10  محمد ابن اسحاق الیسار المدنی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:280
  • 11  عبدالرحمن ابن عبداللہ السھیلی، الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ، ج-7، مطبوعۃ: دار الاحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000م، ص:562
  • 12  سلیمان ابن احمد الطبرانی، المعجم الکبیر، حدیث: 4901، ، ج-5، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ،القاھرۃ، مصر، 1994م، ص:146
  • 13  محمد ابن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 4679، مطبوعۃ: دار السلام، ریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:804
  • 14  ابو حاتم محمد ابن حبان التمیمی الدارمی، صحیح ابن حبان، حدیث-4506، ج-10، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1998م، ص:361
  • 15  عز الدین علی ابن محمد الشیبانی ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ:مکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص:64

Powered by Netsol Online