encyclopedia

اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا

Published on: 22-Feb-2025
پیدائیش:589 یا 594 عیسویوفات:45 ہجری ، 664 عیسویوالد:ابو سفیان بن حربوالدہ:صفیہ بنت ابوالعاصشوہر:حضرت محمد ﷺعبید اللہ ابن جحشاولاد:حبیبہلقب:ام المومنینقبیلہ:بنو عبد شمسمزار مبارک:جنت البقیع
LanguagesEnglishGerman

اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha کا اصل نام رملہ بنت ابی سفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی تھا۔1 بعض مورخین کا خیال ہے کہ آپ Radi Allah Anha کا اصل نام ہند تھا2 لیکن زیادہ تر اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ Radi Allah Anha کا اصل نام رملہ تھا۔3آپ Radi Allah Anha کی پیدائش حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اعلان نبوت سے تقریبا 17 برس پہلے ہوئی۔4 آپ Radi Allah Anhaحضرت امیر معاویہ Radi Allah Anho کی ہمشیرہ اور حضرت ابو سفیان Radi Allah Anho کی صاحب زادی تھیں۔5 آپRadi Allah Anha کی والدہ کا نام صفیہ بنت ابی العاص تھا۔ 6

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ نکاح سے قبل کی زندگی

حضرت اُمّ حبیبہRadi Allah Anha پہلے عبید اللہ بن جحش جو حضرت زینب بنت جحش Radi Allah Anhaکے بھائی تھے ان کے ساتھ بیاہی ہوئی تھیں۔7 آپRadi Allah Anha اور ان کے شوہر نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اعلان نبوت کے بعد شروع ہی میں اسلام قبول کر لیا تھاپھر قریش مکہ کے مظالم سے بچنے کے لیے حبشہ کی طرف دوسری ہجرت میں شریک بھی ہو ئے تھے۔8

حبشہ ہجرت فرمانے کے بعد آپ Radi Allah Anha کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوئی جس کا نام حبیبہ رکھا گیا۔ چنانچہ اپنی اس بیٹی کی نسبت سے آپ Radi Allah Anha اُمّ حبیبہ مشہور ہو گئیں۔ 9 کچھ عرصے کے بعد جب انہیں یہ پتہ چلا کہ عمر بن الخطاب اور حمزہ ابن عبدالمطلب Radi Allah Anhuma اسلام قبول کر چکے ہیں تو اب انہیں لگا کہ مکہ مسلمانوں کے لیے ایک محفوظ جگہ بن چکی ہوگی اسی لیے بہت سارے مسلمان مکہ واپس ہو گئے تاہم اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha اوران کے شوہر دوسرے مسلمانوں کے ساتھ حبشہ میں ہی مقیم رہے۔ کچھ عرصے کے بعد آپRadi Allah Anha نے خواب میں دیکھا کہ آپ Radi Allah Anhaکے شوہر بہت ہی بری حالت و کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha کا یہ خواب اس وقت سچا ثابت ہو گیا جب آپ Radi Allah Anha کو اس بات کا پتہ چلا کہ آپ Radi Allah Anha کے شوہر نے اسلام ترک کر کے عیسائیت کو بطور مذہب کے قبول کر لیا ہے۔آپRadi Allah Anha نے جب اپنے شوہر سے اس بارے میں استفسار کیا تو اس نے کہا کہ اس نے بہت سارے مذاہب کا مطالعہ کیا ہے اور عیسائیت کو ان میں سب سے بہترین پایا ہے لہذا اس نے عیسائیت قبول کرلی ہے۔اس کے بعد عبید اللہ بن جحش نے بڑی کوشش کی کہ آپ Radi Allah Anha بھی اسلام ترک کر کے عیسائیت اختیار کر لیں لیکن آپ ایک سچی مومنہ کی حیثیت سے اسلام پر قائم و دائم رہیں۔ 10آپRadi Allah Anha نے ان کو اپنے خواب سے بھی آگاہ کیا جس میں آپ نے اسے بری حالت میں دیکھا تھا لیکن اس نے یہ بات سن کر کوئی توجہ نہیں دی۔آپ Radi Allah Anha نے پھر اس کو اسلام اختیار کرنے کی تاکید کی اور سمجھایا کہ عیسائیت اس کے لئے نقصان کا باعث ہوگی مگر وہ نہیں مانا۔ 11 یہ وہ وقت تھا جب اپنے شوہر کے اس غلط فیصلے کی وجہ سے آپ Radi Allah Anha پر غم و الم کا پہاڑ گر پڑا تھا۔آپ Radi Allah Anha کو اپنے شوہر کے حوالے سے یہ بات سمجھ میں نہیں ا ٓسکی کہ آخر اتنی تکالیف اور مشقت برداشت کرنے کے بعد اس نے اسلام کو کیوں چھوڑا کیونکہ اگر اسے عیسائیت ہی اختیار کرنی تھی تو وہ بآسانی مکہ مکرمہ میں ٹھہر سکتا تھا کیونکہ قریشِ مکہ عیسائیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعرض اور انہیں تکلیف میں مبتلا کرنے والے نہیں تھے۔

حضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha کے لیے دوسرا بڑا مسئلہ حبشہ میں یہ تھا کہ وہ بحیثیت مسلمان کے اپنے عیسائی شوہر کے ساتھ کسی بھی صورت میں قیام نہیں کر سکتی تھیں۔ لہذا ان کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ باقی نہیں رہا کہ وہ اس سے علیحدگی اختیار کرلیں۔ آپ Radi Allah Anhaکے سابقہ شوہر عبید اللہ بن جحش کے بارے میں آتا ہے کہ بعد میں اس کا انتقال کثرتِ شراب نوشی کے باعث ہوا۔12

حضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha نے جب اپنی بیٹی پر نظر ڈالی تو سوچا کہ وہ مکہ واپس چلی جائیں لیکن وہاں مسئلہ یہ تھا کہ خود آپ Radi Allah Anha کے والد ابو سفیان اُس وقت اسلام کے کھلے دشمن تھے اور آپ Radi Allah Anha کسی بھی صورت میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھیں۔ دوسری طرف آپ Radi Allah Anha کا سسرال بھی حبشہ میں تھا لہذا ان کا وہ گھر جو مکہ میں تھا وہ خالی اور غیر آباد تھا۔ ایسی صورتحال میں مکہ مکرمہ واپس جانا آپ Radi Allah Anha کے لیے کسی بھی صورت میں موزوں نہیں تھا چنانچہ آپ Radi Allah Anha نے حبشہ ہی میں قیام فرمایا اور اللہ کے حضور بہتری کے لیے دعا فرمائی۔

آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ امّ حبیبہ Radi Allah Anha کا نکاح

اپنے سابقہ شوہر عبید اللہ کے ارتداد اور انتقال کے فوری بعد حضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha نے ایک خواب دیکھا جس میں اس بات کی واضح علا مات اور اشارے موجود تھے کہ آپ Radi Allah Anha کے ساتھ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جلد ہی نکاح فرما لیں گے۔ 13 آپ Radi Allah Anha کا یہ خواب جلد ہی سچا ثابت ہو گیا کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے حضرت عمر و بن امیہ Radi Allah Anho کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ وہ حضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha کا نکاح آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ کر دیں۔14شاہ حبشہ نجاشی کے لیے یہ بڑے ہی اعزاز کی بات تھی کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے حوالے سے اسے یہ ذمہ داری سونپی تھی۔ اس کام کے نتیجے میں اسے اس بات کا بھرپور یقین تھا کہ مسلمانوں اور حبشہ کے تعلقات آپس میں مزید مضبوط ہوں گے۔

حضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha کی عدت کے ختم ہونے پر شاہ حبشہ نے آپ Radi Allah Anha کی خدمت میں ایک خادمہ بھیجی جس نے آپ Radi Allah Anha کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف سے بھیجے ہوئے پیغام سے آگاہ کیا۔ اس پیغام کو سن کر حضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha بہت ہی خوش ہوئیں اور آنے والی شاہ حبشہ کی خادمہءِ خاص کے لیے خصوصی طور پر دعا فرمائی۔آپ Radi Allah Anha نے اس کو اپنے چاندی کے دو ہار اور چاندی کی ایک انگوٹھی بطور تحفے کے بھی دی۔اس خادمہ نے حضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha سے کہا کہ شاہ حبشہ نے آپ Radi Allah Anha سے عرض کی ہے کہ آپ Radi Allah Anha کسی شخص کو اپنا وکیل بنا لیں تاکہ وہ آپ Radi Allah Anha کی نیابت میں آپ Radi Allah Anha کا نکاح حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے کر دیں 15 چنانچہ اُم ّحبیبہ Radi Allah Anha نے خالد بن سعید العاص Radi Allah Anho کو اپنا وکیل مقرر فرما کر انہیں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے نکاح کرنے کی اجازت دے کر بھیجا۔ 16 شاہ حبشہ نے حضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha کےنکاح کی محفل کا انعقاد کیا جس میں اس نے حبشہ میں رہنے والے تمام مسلمانوں کو مدعو کیا۔تمام مسلمان حضرت جعفر بن ابی طالب اور خالد بن سعید بن العاص Radi Allah Anhuma کی قیادت میں اس باوقار تقریب میں شریک ہوئے۔جب تمام شرکائے محفل پہنچ چکے تو نجاشی نے درج ذیل خطبہ دیا :

الحمد اللّٰه الملك القدوس السلام المؤمن المهيمن العزيز الجبار، أشھد أن لااله الا اللّٰه وأن محمدا عبده ورسوله وأنه الذى بشر به عيسى ابن مريم عليه السلام۔ 17
تمام تعریفیں اس ذات کےلیے ہیں جو بادشاہت کے قابل ہے بزرگی والا ہے،سلامتی والا ہے، امن والا ہے، عزتوں والا ہے، عظمت والا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ پاک کا کوئی شریک نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ،اور یہ وہی رسول ہیں جن کی خوشخبری عیسی بن مریم Alaihmus Salam نے دی۔

اس خطبہ کے بعد شاہ حبشہ نے اس محفل میں کھڑے ہو کر حاضرین کو آگاہ کیا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے تحریری طور پر ان سے یہ بات ارشاد فرمائی تھی کہ وہ اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha کا نکاح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ کر دیں چنانچہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے وہ اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha کانکاح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ00 4 دینار مہر کے عوض کرنے پر راضی ہے جسے خالد بن سعید Radi Allah Anho نےدلہن کے وکیل کے طور پر قبول فرمایا۔18نکاح اور شادی کی اس تقریبِ سعید کے بعد جب لوگ جانے لگے تو شاہ حبشہ نے کہا کہ تمام انبیاء کرام Alaihmus Salam کے ہاں یہ روایت اور طریقہ کار مُروج رہا ہے کہ جب کبھی وہ نکاح فرمایا کرتے تھے تو اس کے بعد وہ حاضرین کی تواضع کے لے کھانا پیش کیا کرتے تھے اور حاضرین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ پیش کردہ کھانے کو کھا کر جائیں۔چنانچہ اس محفل نکاح میں بھی کھانا مہمانوں کے سامنے رکھا گیا جو مہمانوں نے خوشی کے ساتھ تناول فرمایا ۔ 19

دوسرے دن نجاشی نے اپنی خادمہ خاص کو اپنی بیویوں کی طرف سے اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha کے پاس قیمتی تحائف کے ساتھ بھیجا۔ بیش قیمت ان تحائف میں عنبر اور دوسری عطریات بھی شامل تھیں۔ حضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha نے شاہ حبشہ کے گھرانےکی طرف سے بھیجے ہوئے ان تحائف کو قبول فرمایا اور پھر فوری طور پر استعمال کرنے کے بجائے انہیں حفاظت کے ساتھ اپنے پاس یہ سوچ کر رکھ لیا کہ جب وہ مدینہ منورہ میں رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے گھر پر تشریف لے جائیں گے تو ان تحائف کو اپنے ساتھ لے جائیں گی۔ 20 آپ Radi Allah Anha نے حبشہ میں فتح خیبر تک قیام فرمایا۔ اس کے بعد حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے عمر بن امیہ الضمری Radi Allah Anho کو اپنا سفیر بنا کر نجاشی کے پاس بھیجا تاکہ وہ نجاشی سے حبشہ میں مقیم تمام مہاجرین کو واپس مدینہ منورہ بھیجنے کا انتظام کرسکیں کیونکہ مسلمان اب مدینہ منورہ میں اچھی خاصی قوت وہ طاقت اختیار کر چکے تھے۔ نجاشی نے سفیر ِرسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے مسافروں کو واپس مدینہ منورہ لے جانے کے لیے دو بحری جہازوں کا انتظام بھی اپنی طرف سے کیا۔ 21 یہ مسلمان جب مدینہ منورہ پہنچے تو حضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha کو امّ المومنین کے مقام، شرف اور عزت سے نوازا گیا۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےحضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha کے لیے دوسری ازواج مطہرات کے حجروں کے برابر میں ایک حجرہ تعمیر فرما یا جہاں آپ Radi Allah Anha نےحضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاور اپنی صاحبزادی کے ساتھ نہایت خوشگوار زندگی گزاری۔

حضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha سے روایت کرنے والے صحابہ Radi Allah Anhum

حضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ Radi Allah Anha نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے کئی احادیث کو روایت فرمایا۔آپ Radi Allah Anha سے ان احادیث کو روایت کرنے والوں میں آپ Radi Allah Anha کی صاحبزادی حبیبہ Radi Allah Anha ، آپ Radi Allah Anha کے دو بھائی حضرت امیر معاویہ اور حضرت عتبہ Radi Allah Anhuma ،آپ Radi Allah Anha کے بھتیجے عبداللہ بن عتبہ بن ابی سفیان Radi Allah Anho اور ابو سفیان بن سعید بن المغیرہ بن الاخنس الثقفی Radi Allah Anho جو آپ Radi Allah Anha کے بھانجے تھے، شامل ہیں۔ ان کے علاوہ آپ Radi Allah Anha کے دو آزاد کردہ غلام سالم بن سوال اور ابو الجراح Radi Allah Anhuma نے بھی آپ Radi Allah Anha سے احادیث روایت فرمائی ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ صفیہ بنت شیبہ، زینب بنت ام سلمہ، عروہ ابن زبیر، ابو صالح السمان Radi Allah Anhumاور دوسرے کئی صحابہ کرام Radi Allah Anhum نے آپ Radi Allah Anhaسے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی احادیث طیبہ کو روایت کرنے کا شرف حاصل کیا ہے ۔22

ابو سفیان کی حضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha کے گھر آمد

قریش مکہ نے جب مسلمانوں کے ساتھ کئے ہوئے صلح حدیبیہ کے ،معاہدہ کو توڑا تو انہیں اس کے برے عواقب و نتائج کا خوف دامن گیر ہوا ۔ لہذا انہوں نے ابو سفیان کو مدینہ منورہ بھیجا تاکہ وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات کوبحال یا حل کر سکیں لیکن وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اس بات پر قائل نہیں کر سکا۔چنانچہ وہ اپنی صاحبزادی حضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha کے پاس گیا تاکہ وہ اس معاملے میں ان کی طرف سے ان کی سفارش یا مداخلت کر کے معاملے کو حل کروا سکے حالانکہ گزشتہ 15 برسوں سے ان کی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ 23 ابو سفیان حضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha کے حجرہ مبارکہ میں داخل ہوا اور عمومی طور پر جس طرح مہمان ا ٓکر گھر میں بیٹھتے ہیں اسی طرح اس نے بھی براہ راست ا ٓکر اس جگہ بیٹھنے کی کوشش کی جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی جائے خاص تھی۔ اُمّ المومنین حضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha نے جب اس منظرکو دیکھا تو آپ Radi Allah Anhaنے وہاں بچھے ہوئے گدّے کو اپنے والد ابو سفیان کے نیچے سے کھینچ کر اسے تہہ کر دیا اور اسےاس گدّے پر بیٹھنے نہیں دیا۔ابو سفیان نے اپنی صاحبزادی کا یہ رویہ دیکھ کر ان سے اس کی وجہ پوچھی تو آپ Radi Allah Anha نے اسے جواب دیا کہ یہ وہ گدّا ہے جس پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تشریف فرما ہوتے ہیں اور ایک مشرک اس پر بیٹھے یہ انہیں گوارہ نہیں چاہے وہ ان کا والد ہی کیوں نہ ہو۔یہ بات سن کر ابو سفیان کہنے لگا کہ لگتا ہے کہ اُن پر اثراتِ بَد ہو گئے ہیں اور پھر وہ وہاں سے اٹھا اور واپس چلا گیا ۔24حضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha کا یہ طرز عمل کے اپنے مشرک والد کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے فرش اور گدّے پر بیٹھنے نہیں دیا یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ Radi Allah Anha کے دل میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے اعلی درجے کی محبت، عظمت اور رفعت شان موجود تھی۔ابو سفیان کے اسلام لانے کے واقعات میں اس واقعے کا بھی بہت بڑا عمل دخل ہے کیونکہ اس نے اپنی آنکھوں سے خود اپنی صاحبزادی اور دوسرے مسلمان رشتہ داروں کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا بے مثال ادب و احترام کرتے ہوئے دیکھا تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر بالآخر وہ مسلمان ہو گیا۔

وصال

حضرت اُمّ حبیبہ Radi Allah Anha کو جب یہ بات محسوس ہوئی کہ اب ان کا وقتِ وصال ا ٓچکا ہے تو انہوں نے تمام اُمہات المومنین Radi Allah Anhum کے ساتھ ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ ان کے ساتھ زندگی میں اپنے تعلقات کے حوالے سے ہر چیز کو واضح اور صاف کر سکیں۔انہوں نے ان تمام ازواج مطہرات Radi Allah Anhum سے اپنی دانستہ و غیر دانستہ غلطیوں پر معافی طلب کی اور خود اپنی طرف سے ان میں سے ہر ایک کو تمام چھوٹے بڑے معاملات پر جن سے کبھی بھی ان کی دل آزاری ہوئی تھی دل سے معاف فرما دیا۔ 25 آپ Radi Allah Anha کا وصال 44 ہجری میں اس حالت میں ہوا 26 کہ آپ Radi Allah Anha کے چہرہ اقدس نہایت پرسکون اور مطمئن تھا۔ آپ Radi Allah Anha کا وصال حضرت امیر معاویہ Radi Allah Anho کے دور حكومت میں ہوا اور آپRadi Allah Anha کی تدفین جنت البقیع میں کی گئی۔ 27


  • 1  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-4، مطبوعۃ: دار المعرفة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، 1976م، ص: 584
  • 2  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-11، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 193
  • 3  ابو عمر یوسف بن عبد اللہ ابن عبد البر القرطبي،الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج-4، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992م، ص: 1843
  • 4  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 140
  • 5  ایضاً، ج-6، ص: 121
  • 6  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 76
  • 7  امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:281
  • 8  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 239
  • 9  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 199- 200
  • 10  ایضاً، ص: 438
  • 11  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 77
  • 12  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص:477
  • 13  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 77
  • 14  امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:281
  • 15  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 77
  • 16  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 439
  • 17  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-11، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 195
  • 18  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 77-78
  • 19  عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص: 300
  • 20  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-11، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 195
  • 21  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 711
  • 22  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 142
  • 23  مارٹن لنگز، محمد رسول اللہ ﷺ (مترجم: کاظم جعفری)، مطبوعہ: بک کارنر، جہلم، پاکستان، 2015ء، ص: 435
  • 24  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-3، مطبوعۃ: دار المعرفة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، 1976م، ص: 530
  • 25  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 440
  • 26  عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص: 301
  • 27  جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی، تاریخ الخلفاء، مطبوعۃ: مکتبۃ نزار مصطفی الباز، مكة المکرمۃ، السعودیۃ، 2004م، ص: 155

Powered by Netsol Online