encyclopedia

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی الله عنها

Published on: 06-Nov-2024
image
تاریخ پیدائش:580/596 عیسویرحلت:61 ہجری.والد:ابو امیہ سہیل بن المغیرہوالدہ:عاتکہ بنت عامرشوہر:(۱)عبداللہ بن عبدالاسد (ابو سلمہ) رضی اللہ عنہ(۲) رسول اللہ ﷺاولاد:سلمہعمر رضی اللہ عنہزینب رضی اللہ عنہارقیہ (درّہ) رضی اللہ عنہالقب :ام المؤمنینقبیلہ:بنو مغیرہمزار مبارک:جنت البقیع
LanguagesEnglish

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ Radi Allah Anha کا اصل نام ہند بنت ابی امیۃ Radi Allah Anha تھا۔ 1ام سلمہ آپ Radi Allah Anhaکی کنیت تھی جس سے آپ Radi Allah Anhaمشہورہوئیں۔ حضرت ابو عمر Radi Allah Anho کے مطابق آپ Radi Allah Anha کا اصل نام ”رملہ“ تھا2لیکن اکثر علماء کےمطابق آپ Radi Allah Anha کا اصل نام” ہند“ ہی تھا۔ 3آپRadi Allah Anhaحضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho کی چچا زاد بہن تھیں۔4 آپ Radi Allah Anhaکثیر احادیث مبارکہ کی راویہ بھی ہیں۔

نام و نسب

حضرت ام سلمہ Radi Allah Anha کا پورا نام و نسب ہند بنت ابی امیہ بن المغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم تھا۔ 5 آپ Radi Allah Anha کی والدہ کا نام عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ تھا۔6 آپRadi Allah Anha کے والد مکہ کے مشہور مخیر اور فیاض انسان تھے اور ”زاد الراکب“ کے لقب سے مشہور تھے۔ 7 آپ Radi Allah Anha کے والد کی عادت تھی کہ اپنے ساتھ سفر کرنے والے کاروان کو اپنے مال سے کھانا کھلاتے تھے ۔8

نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ نکاح سے قبل

ابتداً حضرت ام سلمہ Radi Allah Anha ابو سلمہ Radi Allah Anho کے نکاح میں تھیں جن کا اصل نام عبداللہ بن عبدالاسد Radi Allah Anho تھا۔ عبداللہ بن عبدالاسد Radi Allah Anho کا تعلق قبیلۂ بنو ہلال سے تھا۔9 آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور عبداللہ بن عبدالاسد Radi Allah Anho آپس میں رضاعی بھائی بھی تھے کیونکہ دونوں کی رضاعی والدہ حضرت ثویبہ Radi Allah Anha تھیں۔ 10

اپنے عالی نسب کے علاوہ حضرت ام سلمہ Radi Allah Anha اور ابو سلمہ Radi Allah Anho ان مسلمانوں میں شامل تھے جنہوں نے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا۔ 1112 ان سے پہلے صرف حضرت ابو بکرRadi Allah Anho، حضرت علی Radi Allah Anhoاور کچھ دیگر افراد مسلمان ہوئے تھے۔ جب دونوں نے اسلام قبول کیا تو قریش مکہ نےانہیں تکالیف پہنچانی شروع کردیں لیکن یہ دونوں میاں بیوی استقامت کے ساتھ دین اسلام پر قائم رہے۔ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے زوجین نے حبشہ ہجرت فرمائی۔ 1314 جب ان دونوں کو معلوم ہوا کہ مکہ مکرمہ میں معاملات بہتر ہوگئے ہیں تو یہ دونوں مکہ مکرمہ واپس آگئے لیکن قریش کی جانب سے ایک مرتبہ پھر ایذا رسانی کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کی وجہ سے ان ہوں نے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ مشرکین مکہ کو جب ان کی ہجرت کی خبر پہنچی تو وہ رکاوٹیں ڈالنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ چنانچہ ام سلمہ Radi Allah Anha کے قبیلے بنو مغیرہ کے ایک گروہ نے ان پر حملہ کردیا اور ابو سلمہRadi Allah Anho سے اونٹ کی لگام چھین لی اور ام سلمہ Radi Allah Anhaکو زبردستی واپس قبیلے جانے پر زور دیا۔ اسی کشمکش میں ابو سلمہ Radi Allah Anhoکے قبیلے بنو اسد نے ان کے بیٹے سلمہRadi Allah Anhoکو اپنے قبضہ میں کرلیا۔ اس جھگڑے میں ان کے بیٹے سلمہRadi Allah Anhoکے ہاتھ کا جوڑ بھی الگ ہوگیا لیکن اس کے باوجود بنو اسد سلمہRadi Allah Anhoکو لے گئے۔ 15حضرت ام سلمہRadi Allah Anhaکو ان کے قبیلے والے لے گئے اور حضرت ابو سلمہ Radi Allah Anhoتنہاآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس مدینہ تشریف لےآئے۔

حضرت ام سلمہ Radi Allah Anhaاپنے شوہر اور بیٹے کی جدائی کے غم میں نڈھال ہوگئیں۔ وہ روزانہ الابطح کے مقام پر جاتیں اور اپنے شوہر اور بیٹے کی جدائی میں صبح سے شام تک روتی رہتیں اور اللہ سے اپنی فریاد کرتی رہتیں۔ 16 ایک دن حضرت ام سلمہRadi Allah Anhaکے خاندان میں سے کسی نے ان کو روتے ہوئے دیکھا اور اسے قبیلے کی جانب سے کیے گئے ظلم کا احساس ہوا۔ اس نے قبیلے والوں سے بات کی اور انہیں ان کے شوہر کے پاس لے جانے پر راضی کرلیا۔ جب بنو اسد کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے مثبت قدم اٹھایا اور حضرت ام سلمہ Radi Allah Anhaکے بیٹے سلمہRadi Allah Anhoکو بھی ان کے حوالے کردیا۔ جب آپ Radi Allah Anhaمکہ مکرمہ کے مقام التنعیم پہنچیں تو وہاں آپ Radi Allah Anhaکی ملاقات عثمان ابن ابی طلحہٰ Radi Allah Anhoسے ہوئی جو اس وقت ایمان نہیں لائے تھے۔عثمان Radi Allah Anhoنے ان کی مدد کرتے ہوئے مدینے کی جانب رہنمائی فرمائی۔ جب یہ دونوں قُبا پہنچے تو عثمان Radi Allah Anhoنے ان کو بتایا کہ ان کے شوہر اس گاؤں میں ہیں اور یہ کہہ کر مکہ مکرمہ کی جانب لوٹ گئے۔ حضرت ام سلمہ Radi Allah Anhaاللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس گاؤں پہنچیں اور بالآخر ایک سال بعد آپ Radi Allah Anhaاپنے شوہر سے دوبارہ جا ملیں۔ 17

حضرت ام سلمہ Radi Allah Anhaحبشہ ہجرت کرنے والی اور مدینہ ہجرت کرنے والی پہلی خاتون صحابیہ تھیں۔ 18 حضرت ام سلمہ Radi Allah Anhaکے ابو سلمہ Radi Allah Anhoسے چار بچے ہوئے جن کے نام سلمہRadi Allah Anho، عمرRadi Allah Anho، زینبRadi Allah Anhaاور درہRadi Allah Anhaتھا۔ 19بعض روایات کے مطابق درہ کا اصل نام رقیہ Radi Allah Anhaتھا۔ 20

حضرت ابو سلمہ Radi Allah Anho کا وصال

حضرت ابو سلمہ Radi Allah Anho کا شمار ان صحابیوں میں ہوتا ہے جو جنگ بدر میں بہادری کے ساتھ کفار مکہ سے لڑے جس میں اللہ کے فضل و کرم سے مسلمان فتح یاب ہوئے۔ اس کے بعد ابوسلمہRadi Allah Anho نے جنگ احد میں بھی شرکت فرمائی21 اور بہادری کے جوہر دکھائے، لیکن اس جنگ میں انہیں بہت زخم بھی آئے۔22 انہوں نے اپنے زخموں کی بہت دیکھ بھال کی اور دو مہینے کے عرصے میں آپ Radi Allah Anho دوبارہ صحت مند ہوگئے اور اگلی جنگ میں اللہ کی راہ میں لڑنےکے لیے تیار ہوگئے۔

4ہجری میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے 150 صحابہ 23 کی جماعت کے ساتھ قبیلۂ بنو اسد سے جنگ کرنے کے لیے ابو سلمہ Radi Allah Anhoکو سپہ سالار بنایا 24 کیونکہ قبیلۂ بنو اسد دوسرے کفارکے ساتھ مدینہ منورہ میں آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو معاذ اللہ شہید کرنے کی تک و دو میں لگے ہوئے تھے۔ حضرت ابو سلمہ Radi Allah Anhoبہت بہادری سے لڑے اور اللہ نے مسلمانوں کو فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔ کامیاب و کامران ہوکر آپ Radi Allah Anhoاپنے گھر لوٹے لیکن معرکہ آرائی کے دوران ان کے پرانے زخم دوبارہ تازے ہوگئے25 جن سے انہیں دوبارہ تکلیف شروع ہوگئی۔ آخر کار زخموں کی تاب نہ لاکر آپRadi Allah Anhoشہید ہوگئے۔26آخر ی وقت میں حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam آپ Radi Allah Anhoکے بالکل قریب موجود تھے۔ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ابو سلمہ Radi Allah Anhoکی روح نکل جانے کے بعد اپنے دست مبارک سے ان کی آنکھوں کو بند کیا۔27 اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس طرح ارشاد فرمایا:

«إن الروح إذا قبض تبعه البصر»، فضج ناس من أهله، فقال: «لا تدعوا على أنفسكم إلا بخير، فإن الملائكة يؤمنون على ما تقولون»، ثم قال: «اللهم اغفر لأبي سلمة وارفع درجته في المهديين، واخلفه في عقبه في الغابرين، واغفر لنا وله يا رب العالمين، وافسح له في قبره، ونور له فيه.28
”جب جان نکلتی ہے تو آنکھیں اس کے پیچھے لگی رہتی ہیں۔“ اور لوگوں نے ان کے گھر میں رونا شروع کر دیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا:”اپنے لیےاچھی ہی دعا کرو اس لیےکہ فرشتے تمہاری باتوں پر آمین کہتے ہیں۔“ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے دعا کی: ”یا اللہ! ابوسلمہ کو بخش دے اور ہدایت والوں میں ان کا درجہ بلند فرما، تو ان کے باقی رہنے والے عزیزوں میں خلیفہ ہو جا اور ہمیں اور ان کو بخش دے۔ اے تمام عالم کے پالنے والے، ان کے لیے قبر میں کشادگی فرما اور اس میں روشنی کر۔“

نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے ام سلمہ کا نکاح

جب حضرت ام سلمہ Radi Allah Anhaکا نکاح حضرت ابو سلمہ Radi Allah Anhoسے ہورہا تھا تو ان دونوں نے آپس میں عہد کیا کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی پہلے اس دنیا سے چلا گیا تو دوسرا شخص دوبارہ نکاح نہیں کرے گا۔ اس عہد کے باوجود ابو سلمہ Radi Allah Anhoنے حضرت ام سلمہ Radi Allah Anhaکو تاکید کی کہ میرے دنیا سے چلے جانے کے بعد تم ضرور نکاح کرلینا۔ اس کے بعد آپ Radi Allah Anhoنے حضرت ام سلمہ Radi Allah Anhaکے لئے باقائدہ دعا کی کہ اللہ انہیں ان سے بہترشوہر عنایت فرمائے جو انہیں رنج و تکلیف نہ دے۔29جب حضرت ابو سلمہ Radi Allah Anhaشہید ہوگئے اورآپRadi Allah Anhaکی عدت مکمل ہوگئی تو حضرت ابو بکر Radi Allah Anhoنے انہیں پیغام نکاح پہنچایاتا کہ حضرت ابو سلمہ Radi Allah Anhoکی اولاد کی پرورش اپنے ذمہ لے لیں، لیکن حضرت ام سلمہ Radi Allah Anhaنے حضرت ابو بکر صدیق Radi Allah Anhoکو نفی میں جواب دیا۔30 ان کے بعد آپ Radi Allah Anhaکو حضرت عمر بن خطاب Radi Allah Anhoنے نکاح کا پیغام بھجوایا لیکن آپ Radi Allah Anhaنے انہیں بھی نفی میں جواب دیا۔ 31

اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بذات خو د حضرت ام سلمہ Radi Allah Anhaکو نکاح کا پیغام بھجوایا جس پر آپ Radi Allah Anhaبہت خوش ہوئیں لیکن بارگاہ رسالت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھنے کے لیے آپ Radi Allah Anhaنے مناسب سمجھا کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سامنے کچھ گزارشات پیش کی جائیں۔ چنانچہ حضرت ام سلمہ Radi Allah Anhaنے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں پیغام بھجوایا کہ میں ایک عمر رسیدہ خاتون ہوں اور میری جوان اولاد ہے۔ اس کے علاوہ مزید یہ کہ میں بہت زیادہ غیرت کھانے والی عورت ہوں۔32 اس کے جواب میں آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمایا کہ جہاں تک ان کی عمر کا سوال ہے توآپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عمر ان سے زیادہ ہے، اور جہاں تک بچوں کا تعلق ہےتو اللہ اور اس کا رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ان کی دیکھ بھال کے لئے کافی ہیں، اور جہاں تک غیرت کھانے کی بات ہےتو اللہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی دعا کی برکت سے اس معاملے میں ان کی غیرت(دیگر ازواج کے حوالہ سے) کو دور فرمادے گا۔33

اس پیغام کے بعد حضرت ام سلمہ Radi Allah Anhaنے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا پیغام نکاح قبول کیا اور شوال کے مہینے میں آپ Radi Allah Anhaکا نکاح ہوگیا۔ 34 مہر کی صورت میں آپ Radi Allah Anhaکو چمڑے کا ایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، ایک گھڑا اور دو چکیاں عنایت فرمائی گئیں۔ 35 اللہ تعالیٰ نے حضرت ام سلمہRadi Allah Anhaکے حق میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی دعا قبول فرمائی اور ان کے دل میں دیگر ازواج مطہرات سے الفت پیدا فرمادی۔ آپRadi Allah Anhaآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے کاشانۂ اقدس میں نہایت آ رام و سکون سے رہنے لگیں اور آپ Radi Allah Anhaکی بیٹی آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نگہبانی میں پرورش پانے لگیں۔

6 ہجری میں حضرت ام سلمہ Radi Allah Anhaآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ عمرے کی سعادت حاصل کرنے گئیں جس میں دیگر صحابۂ کرام Radi Allah Anhumبھی شامل تھے۔ راستے میں مشرکین مکہ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حدیبیہ کے مقام پر روک دیااور فی الحال عمرہ کرنے کی اجازت دینے سے منع کردیا۔ حضرت ام سلمہ Radi Allah Anhaنے اس موقع پر بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے اصحاب Radi Allah Anhumسے فرمایا کہ اپنے جانوروں کو ذبح کرو اور سر سے بالوں کو اتار لو توبعض اصحاب تذبذب کا شکار ہوگئے اور فیصلے پر عمل کرنے میں شش و پنج میں مبتلا ہوگئے۔ یہ بات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی زوجۂ محترمہ حضرت ام سلمہRadi Allah Anhaسے کہی جس پر آپ نے فرمایا:

......لن يقوموا حتى تنحر بدنك وتدعو حالقك فيحلقك فخرج ففعل ذلك......36
۔۔۔وہ اس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک کہ آپ اپنا جانور ذبح نہ کر دیں اور اپنے حجام کو اپنا سر مونڈنے کے لیے نہ بلالیں۔ چنانچہ آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)نے باہر جا کر ایسا ہی کیا۔۔۔

جب مسلمانوں نے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا یہ عمل دیکھا تو انہوں نے بھی فوراً اپنے اپنے جانور قربان کرنا شروع کردیے اور اپنے سرمنڈوالیے۔37 تمام اصحاب رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو یہ احساس ہوگیا کہ جو حکم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمادیا وہ ہی ان کے حق میں بہتر ہے۔

مرویات

آپRadi Allah Anhaنےکیونکہ تمام ازواج مطہرات میں سب سے طویل عمر پائی تھی اس لئے آپ Radi Allah Anhaنے نبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے باکثرت روایات کو نقل فرمایا اور آپRadi Allah Anhaسے باکثرت صحابہ کرامRadi Allah Anha اور تابعین، جن میں عمر، زينب، عامر، مصعب بن عبد الله، نبہان،عبد الله بن رافع، نافع،سفينہ،ابو كثير، حسن، صفيہ بنت شيبہ، ہند بنت الحارث الفراسيہ، قبيصہ بنت ذؤيب، عبد الرحمن بن الحارث بن ہشام، ابو عثمان النہدی، ابو وائل،سعيد بن المسيب، ابو سلمہ، عروة، ابو بكر بن عبد الرحمن،سليمان بن يسار وغیرہ شامل ہیں، نے روایات کو نقل کیا 38 اور بالخصوص واقعہ کربلا کے حوالے سے بیان کردہ آپRadi Allah Anhaکی روایات نہایت مشہور و معروف ہیں۔

رحلت

حضرت ام سلمہ Radi Allah Anhaنے طویل عمر پائی۔ آپ Radi Allah Anhaکا انتقال تمام امہات المؤمنین میں سب سے آخر میں 61 ہجری میں ہوا۔39 آپ Radi Allah Anhaکو جنت البقیع میں دیگر ازواج مطہرات کے ساتھ دفن کیا گیا۔40


  • 1  عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 329
  • 2  أبو الفضل أحمد بن علي العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 404
  • 3  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 187
  • 4  أبو عبد الله شمس الدين الذهبي، سير أعلام النبلاء، ج-3، مطبوعۃ: دارالحدیث، القاھرۃ، مصر، 2006م، ص: 467
  • 5  عبدالملک ابن ھشام، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: شرکہ مکتبۃ و مطبع مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 322
  • 6  أحمد بن يحي بن جابر بن داؤد البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1996م، ص: 429
  • 7  عز الدین علی ابن محمد الشیبانی ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: مکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص:326
  • 8  أبو الفضل أحمد بن علي العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 404
  • 9  محمد بن إسحاق المطلبی،كتاب السیر و المغازی المعروف بسیرۃ النبویه لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 260
  • 10  شمس الدين محمد بن أبي بكر ابن قيم الجوزيۃ، زاد المعاد في هدي خير العباد، ج-1، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص: 81
  • 11  محمد ابن سعد البصری، طبقات الکبری، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 181
  • 12  أبو الفضل أحمد بن علي العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 131
  • 13  محمد ابن سعد البصری، طبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 69
  • 14  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 187
  • 15  أحمد بن يحي بن جابر بن داؤد البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1996م، ص: 258
  • 16  أبو الفضل أحمد بن علي العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 404
  • 17  ابوالفدا اسماعیل ابن کثیر الدمشقی،السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-2، مطبوعۃ: دار المعرفۃ للطبعۃ والنشر والتوضیع، بیروت، لبنان، 1976م، ص: 216-217
  • 18  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 187
  • 19  عز الدین علی ابن محمد الشیبانی ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: مکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص:326
  • 20  عبدالملک ابن ھشام، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: شرکۃ مکتبۃ و مطبع مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 645
  • 21  أحمد بن يحي بن جابر بن داؤد البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1996م، ص: 207
  • 22  ابو عبداللہ محمد بن عمر الواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دار الأعلمي، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 340
  • 23  أبو عبد الله محمد بن أحمد شمس الدين الذھبی، السیرۃ النبویۃ من كتاب تاريخ الاسلام، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 404
  • 24  محمد ابن سعد البصری، طبقات الکبری، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 182
  • 25  ابو الفدااسماعيل ابن كثير الدمشقي، السیرۃ النبویۃ لابن كثير، ج-3، مطبوعۃ: دار المعرفة للطبعة والنشر والتوضيع، بیروت، لبنان، 1976م، ص: 121
  • 26  أبو عبد الله محمد بن أحمد شمس الدين الذھبی، السیرۃ النبویۃ من كتاب تاريخ الاسلام، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 404
  • 27  محمد ابن سعد البصری، طبقات الکبری، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 182
  • 28  مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حديث: 2130، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:370
  • 29  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 189
  • 30  أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 405
  • 31  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 188
  • 32  محمد بن إسحاق المطلبی،كتاب السیر و المغازی المعروف بسیرۃ النبویه لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 282
  • 33  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 188
  • 34  محمد بن إسحاق المطلبی،كتاب السیر و المغازی المعروف بسیرۃ النبویه لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 283
  • 35  عبدالملک ابن ھشام، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: شرکہ مکتبۃ و مطبع مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 645
  • 36  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 191
  • 37  ایضاً
  • 38  أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 406
  • 39  ابو عبداللہ شمس الدین الذھبی، سیر الاعلام النبلاء، ج-3، مطبوعۃ: دارالحدیث، القاھرۃ، مصر، 2006م، ص: 472
  • 40  محمد بن حبیب البغدادی، المحبر، مطبوعۃ: دائرة المعارف العثمانية، حيدر آباد الدكن، الهند ، 1942 م، ص: 85

Powered by Netsol Online