encyclopedia

ابتداءِ وحی

Published on: 03-Jul-2023
image
LanguagesEnglish

نزولِ وحی کی ابتداء ماہ ِرمضان المبارک میں شب قدرسے ہوئی۔12اس وقت حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam غار حرا میں تنہا اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف تھے کہ حضرت جبرائیل Alaihis Salam انسانی صورت میں بارگاہِ نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں تشریف لائے اورفرمایا: ''اقرأ''،حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam فرماتے ہیں: فرشتے نے مجھے پکڑا اور اتنے زور سے بھینچا کہ مجھے انتہائی مشقت ہوئی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: ''اقرأ''،3آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ اس نے پھر دوسری بار مجھے پکڑا اور اتنی زور سے بھینچا کہ مجھے انتہائی تکلیف اور دشواری ہوئی، 4پھر اس نے مجھے چھوڑ دیااور کہا:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ1 خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ2 اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ3 الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ4 عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ55
پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا، پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا، آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

جب یہ وحی نازل ہوئی تو حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ مجھے محسوس ہوا کہ یہ الفاظ میرے دل پر لکھے گئے ہیں اور میں ان الفاظ کو پڑھ سکتا ہوں 6پھر جب حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کی تلاوت فرمائی تو حضرت جبرائیل Alaihis Salamوہاں سے تشریف لے گئے۔ اس کے بعد حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بھی غارِ حرا سے باہر تشریف لے آئے اور تیز تیز قدم لیتے ہوئے اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگے۔ جب آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پہاڑ کے درمیانی حصّے پر پہنچے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بلندی سے آواز آئی جس میں کہا جارہا تھا: ''اے محمد(Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)!: آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرائیل(Alaihis Salam) ہوں۔ '' حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنا چہرۂ مبارک آسمان کی جانب بلند کیا اور جبرائیل Alaihis Salamکو دیکھا جنہوں نے پورے آسمان کو گھیرا ہوا تھا۔حضرت جبرائیل Alaihis Salam نے دوبارہ وہی الفاظ دہرائے: ''اے محمد(Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)!: آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرائیل (Alaihis Salam) ہوں۔ '' حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کچھ دیر انہیں ملاحظہ فرماتے رہے پھر اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ایک جانب ہوئے لیکن جہاں کہیں بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی نظرِ مبارک پھیرتے وہیں جبرائیل Alaihis Salamکو موجود پاتے۔ پھر حضرت جبرائیل Alaihis Salamتشریف لے گئے اور حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پہاڑ سے نیچے گھر کی جانب قدم بڑھانے لگےاور اس حال میں گھر پہنچے کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا قلب مبارک تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ 7گھر پہنچ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamحضرت خدیجہRadi Allah Anha کے پاس گئے اورفرمایا زملوني زملوني یعنی مجھے چادر اڑھاؤ، مجھے چادر اڑھاؤ۔ جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نزول وحی کے واقعہ کا اثر کچھ کم ہوا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت خدیجہRadi Allah Anha کو تمام صورتحال سے آگاہ فرمایا۔8حضرت خدیجہ Radi Allah Anha نے حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی دلجوئی فرمائی اور تسلی دیتے ہوئے فرمایا:

كلا واللّٰه ما يخزيك اللّٰه أبدا، إنك لتصل الرحم، وتحمل الكل، وتكسب المعدوم، وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق. 9
اللہ تعالیٰ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو کبھی شرمندہ نہیں کرے گا کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamرشتہ داروں سے میل جول رکھتے ہیں،( کمزوروں کا) بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کے لیے کماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں پیش آنے والی مشکلات میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔

اس کے بعد حضرت خدیجہ Radi Allah Anha اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس تشریف لے گئیں۔ ورقہ بن نوفل ایک عالم ، عبرانی زبان پر مہارت رکھنے والے، انجلیل کا ترجمہ کرنے والےاور حضرت ابراھیم Alaihis Salam کے دین پر ایمان رکھنے والی شخصیت تھے۔ آپ ضعیف ہونے کی وجہ سے بینائی سے محروم تھے۔ 10جب ورقہ بن نوفل کو حضرت خدیجہRadi Allah Anha نے تمام تر تفصیلات سے آگاہ کیا تو آپ گہری سوچ میں چلے گئے اور پھر فرمایا: اگرحضرت جبرائیل Alaihis Salam نے واقعی اپنے قدم زمین پر رکھ دیے ہیں تو انہوں نے لوگوں کی اچھائی کے لیے کام کردیا ہے۔ حضرت جبرائیل Alaihis Salam نبی کے علاوہ کبھی کسی کے لیے زمین پر تشریف نہیں لائے کیونکہ حضرت جبرائیل Alaihis Salam تمام انبیاءAlaihmus Salam کے رفیق ہیں جو اللہ کے حکم سے انبیاءAlaihmus Salam کے پاس تشریف لاتے ہیں۔ میں اس چیز پریقین رکھتا ہوں جو تم نے عبداللہ Radi Allah Anho کے بیٹے کے متعلق مجھے بتائی ہے لیکن میں ان سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں اور سننا چاہتاہوں کہ فرشتے نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے کیا کلام فرمایا ہے کیونکہ مجھے خوف لاحق ہے کہ کہیں یہ جبرائیل Alaihis Salam کے علاوہ کوئی اور نہ ہو کیونکہ بعض اوقات شیاطین بھی اس روپ میں لوگوں کے پاس آکر انہیں گمراہ کرتے ہیں اور نیک انسانوں کو پریشان کرتے ہیں، یہاں تک کہ اچھی عقل رکھنے کے باوجود وہ دیوانے ہوجاتے ہیں11

حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرتِ خدیجہ Radi Allah Anha کے کہنے پرورقہ بن نوفل کے پاس تشریف لے گئے جنہوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے اس واقعہ کے متعلق اور حضرت جبرائیل Alaihis Salam سے ملاقات کے احوال دریافت کیے۔ حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انہیں تفصیل سے سب کچھ بتایا اور ساتھ ہی حضرت جبرائیل Alaihis Salamنے جو وحی نازل کی تھی اس کے متعلق آگاہ فرما کر حضرت جبرائیل Alaihis Salam کے آسمان پر ظاہر ہونے اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو رسول کہنے کے متعلق بھی بتایا۔ یہ سب سن کر ورقہ بن نوفل نے کہا: میں حلفیہ کہتا ہوں کہ وہ حضرت جبرائیلAlaihis Salam ہی تھے اور یہ الفاظ اللہ کی جانب سے نازل ہوئے ہیں۔ اللہ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حکم دیا ہے کہ لوگوں کو اس کے احکامات پہنچائیں۔ یہ معاملہ پیغمبری کا ہے اور اگر میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اعلانِ نبوت تک زندہ رہا تو میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا مکمل ساتھ دوں گا۔12

کیا حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اپنے نبی ہونے پر شک تھا؟

ابو جعفر احمد بن محمد الطحاوی کی نقل کردہ حدیث کے مطابق حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس وقت بھی نبی تھے جب حضرت آدم Alaihis Salam کو مٹی اور پانی سے تخلیق کیا جارہا تھا۔13اس پر بعض مستشرقین و اہلِ علم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاس وقت بھی نبی تھے توآپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ورقہ بن نوفل اور دیگر لوگوں سے اپنے نبی ہونے کی تصدیق کروانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اُمِّی تھےیعنی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کسی استاد سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی، اسی لیے نزولِ وحی سے قبل آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لئےحصول علم کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ نہ ہی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس وقت تک عالمِ دنیا میں یہ جانتے تھے کہ میں نبی ہوں لیکن جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر وحی کا نزول شروع ہوا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نہ صرف عالمِ دنیا کے احوال پر آگاہ ہوئے بلکہ اس کے ساتھ اللہ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو عالمِ ارواح اور دیگر عالموں کے احوال پر بھی آگاہی عطا فرمائی جس کی بنیاد پر آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمایا تھا:

كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ. 14
میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم (Alaihis Salam) مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔

  • 1  القرآن، سورۃ البقرۃ 2 : 185
  • 2  القرآن، سورۃ القدر 97 : 1
  • 3  بعض تاریخی حوالۂ جات یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبرائیل یاقوت اور موتیوں سے مزین ریشمی یا مخمل کا کپڑا لائے تھے جس پر کلام الٰہی لکھا ہوا تھا اور اسے آپﷺ کو دکھایا گیا اور فرمایا کہ پڑھیے۔ (عبد الرحمٰن ابن عبداللہ السھیلی، الرؤض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ، ج-1، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 404)
  • 4  محمد ابن اسمٰعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوضیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 1
  • 5  القرآن، سورۃ العلق 96 : 1-5
  • 6  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،2009م، ص: 181
  • 7  محمد ابن اسمٰعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوضیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 1
  • 8  عبد الرحمٰن ابن عبداللہ السھیلی، الرؤض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ، ج-1، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 406
  • 9  محمد ابن اسمٰعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوضیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 1
  • 10  ابوالحسین مسلم بن الحجاج القشیری ،صحیح المسلم، حدیث: 403، مطبوعۃ :دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 80
  • 11  ابو الفدا اسمٰعیل ابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دار المعرفة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، 1976م، ص: 386
  • 12  ایضاً
  • 13  ابو جعفر احمد بن محمد الطحاوی، شرح مشکل الآثار، حدیث: 5976، ج-15، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 231
  • 14  ایضاً، حدیث: 5977

Powered by Netsol Online