encyclopedia

مولِدالنبی ﷺ

Published on: 27-Jun-2023

مولِدکا لفظ "وَلَدَ یُولِدُ" سے مشتق ہے جسے اصطلاح میں اسمِ ظرف کہا جاتا ہےجو " مکانِ ولادت" اور "زمانِ ولادت" دونوں ہیں۔ مولِدُالنبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam وہ مقام ہےجہاں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت با سعادت ہوئی اور یہ مقام نہ صرف اسلامی تاریخ بلکہ دنیاوی تاریخ کے اعتبار سے بھی ایک نہایت منفرد و متبرک مقام ہے۔ اہلِ عرب جو اپنی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کے اعتبار سےاپنے گِرد و نواح میں موجود سات بڑی تہذیبوں میں غیر مقبول اورغیر معروف تھے، نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بعثتِ مبارکہ سے نہ صرف اس دور میں بلکہ قیامت تک آنے والی جمیع انسانیت میں مشہور ومعروف ہوگئے۔

مسلمانوں میں اس مقام کی اہمیت اور اس کے با برکت ہونے کے حوالے سے کوئی اختلافِ رائے موجود نہیں ہے۔ یہ مقام جہاں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت ہوئی تاریخی طور پر خبرِ متواترسے ثابت ہے 1اور شیخ اسماعیل نبہانی Rehmatullah Alaih کے مطابق کعبۃ اللہ کےبعد اہل اسلام کے لیے سب سے زیادہ فضیلت اور اہمیت کا مقام ہے ۔ 2اس مقام پر آج بھی بے شمار لوگ اپنی دعاؤں کے لیے جاتے اور آتے ہیں اور کثیر علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ جگہ دعا کی قبولیت کا مقام ہے ۔ 3

مولِد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamحرمِ کعبہ کی مشرقی طرف سوق اللیل میں واقع ہے ۔ بیسوی صدی میں مولِد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو گرا دیا گیا اور اس کی جگہ پر ایک پبلک لائبریری "مکتبۃ مکۃ المکرمۃ"کے نام سے تعمیر کی گئی ۔ "مکتبۃ مکۃ المکرمۃ"مّکہ معظّمہ میں بیت اللہ کی جنوب ومشرقی جانب میں، باب السلام سے کوئی تین سو(300)گزکے فاصلہ پر محلہ "سوقُ اللیل" سے متصل مقام پر موجود ہے۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ وہ مقام ہے جہاں پہلے وہ گھر موجود تھا جو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے والد حضرت عبداللہ بن عبد المطلب Radi Allah Anho کی ملکیت تھا اور بنی ہاشم نے اس مقام کو مسجدِ حرام کی قربت کی وجہ سے اپنی رہائشگاہ کے طور پر اختیار کر رکھا تھا ۔ 4مولد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی پیمائش کو قدیم علماء نے اپنی کتابوں میں اُس دور کے مروّجہ طریقوں کے مطابق بیان کیا ہے۔ فی زمانہ چونکہ پیمائش کا طریقہ یکسر بدل گیا ہے چنانچہ جدید طریقۂ پیمائش کےمطابق مولود النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا موجودہ حصہ سامنے سے اڑتیس فٹ پانچ انچ(38.5) ہے اورپچھلا حصہ چوڑائی میں انتالیس (39)فٹ اور لمبائی میں انہتّر(69)فٹ پر مشتمل ہے۔5

image

مولد نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے متعلقہ مختلف اقوال

مختلف زمانوں میں علمِ سیرتسے تعلق رکھنے والے علما ء و مؤرخین نے مولد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حوالے سے اپنی آراء کا اظہار کیا ہے۔ کچھ کے مطابق مولد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا تعین اس لیے مشکل ہے کیونکہ ابتدائے اسلام میں اس حوالےسے کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی لیکن متاخرین علماء نے اس مسئلہ کا مکمل تدارک کرتے ہوئے نہ صرف مولد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا تعین فرما دیا ہےبلکہ اس سے متعلقہ تمام تاریخی احوال و تبدیلیوں کا احاطہ بھی فرما دیا ہے۔

العیّاش کے مطابق حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے مولد کا تعین اس لیے مشکل ہے کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت زمانہ جاہلیت میں ہوئی اور اس وقت بالعموم کسی کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہی نبی آخر الزماں ہیں۔ اس لیے کسی نے بھی اس جگہ کو محفوظ رکھنے کا کوئی خاص اہتمام نہیں کیا۔ ان کے مطابق خود جائے ولادت کے مقام کے تعین میں اختلاف ہےکہ وہ مکّہ میں ہے یا ابواء میں۔ اسی طرح یہ بھی کہاگیا ہے کہ وہ مکّہ میں شِعب (ابی طالب)میں ہےیامحصّب میں ہے ۔ 6امام محمد بن يوسف الصالحی الشامیRehmatullah Alaih کے نزدیک یہ بات بھی مختلف فیہ ہے کہ آیا نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت مکّہ کے علاقہ میں ہوئی بھی تھی یا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے عُسفان کے علاقے میں تولد فرمایا 7اور علی شبیر کا مؤقف یہ ہے کہ نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت عُسفان کے علاقے میں ہوئی جو کہ مدینہ طیبہ کے رستے میں موجود ایک چھوٹا سا گاؤں تھا 8لیکن ابن ظہیرہ نےمغلطائی کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے عسفان سے متعلق مولد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اقوال کو نہایت ہی کمزور اور ضعیف قرار دیا ہے ۔ 9تاریخی طور پر بھی دیکھا جائے تو مذکورہ بالا چند محدثین و مورخین کے مقابلے میں علمِ حدیث، تاریخ و سیرت سے وابستہ کثیر علماء نے دلائل و براہین کی روشنی میں اس بات کا ثبوت فراہم کیا ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت با سعادت مکّہ مکرّمہ کے محلہ سوق الیل کی گلی میں اسی مقام پر ہوئی جہاں آج مکّہ مکرّمہ کی لائبریری موجود ہے ۔

امام فاکہیRehmatullah Alaih نے اپنی مشہور زمانہ کتاب أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه میں اس حدیث کو نقل کیا جس میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی جائے ولادت کے حوالے سے خود ارشاد فرمایا :

مولدي مكة ومهاجري المدينة. 10
میری جائےولادت" مکّہ " اور مقامِ ہجرت "مدینہ" ہے۔

یہ حدیث مسند ابی بکر صدیق میں بھی موجود ہے ۔ 11امام الفاسی Rehmatullah Alaih نے بھی اپنی کتاب میں اس بات کی تصدیق فرمائی ہے کہ نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت مکّہ مکرّمہ میں ہی ہوئی ۔ 12امام ابن جوزی Rehmatullah Alaih نے بڑی صراحت کے ساتھ اس علمی اختلاف کا حل اپنی کتاب میں واضح الفاظ میں پیش فرمایا ہے:

لا خلاف أنه ولد صلي اللّٰه عليه وسلم بجوف مكة، وأن مولده صلي اللّٰه عليه وسلم كان عام الفيل، وكان أمر الفيل تقدمة قدّمها اللّٰه لنبيه صلي اللّٰه عليه وسلم وبيته. 13
اس بات میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت عام الفیل والے سال مکّہ مکرّمہ میں ہوئی ۔اللہرب العزت نے ہاتھیوں والے واقعہ کو اپنے محبوب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور اپنے گھر سے متعلقہ نشانی( کے طور پر دلیل ) بنایا ہے ۔

مذکورہ بالا حدیث اور اقوال اس طرف نشاندہی کرتے ہیں کہ نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت باسعادت مکّہ مکرّمہ میں ہی ہوئی اور وہ قول جو عسفان سے متعلق ہے سیرت نگاروں کے نزدیک مردود اور نا قابل اعتنا ہے تاہم جہاں تک بات مکّہ مکرّمہ میں متعین جگہ کی ہے تو اس سے متعلق بھی آئمہ میں کچھ اختلاف رہا ہے۔ محمد بن یوسف الصالحی الشامی Rehmatullah Alaih14اور علی شبیر 15نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ایک رائے کے مطابق وہ مقام جہاں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت ہوئی رَدَم کا ہو سکتا ہے لیکن مغلطائی نے ان کے اس قول کو بھی غریب قرار دیا ہے۔ جامع اللطیف میں مذکورہ پہلو پر بات کرتے ہوئے ابن ظہیرہ رقمطراز ہیں:

وقد ذكر السهيلي أنه صلي اللّٰه عليه وسلم وُلد بالشعب، وقيل بالدار التي عند الصفا التي كانت لمحمد بن يوسف أخي الحجاج......وهو غريب ونقل مغلطائی......ويقال ولد بالردم، ويقال بعسفان......وهو اغرب16
امام سہیلی نے ذکر کیا ہے کہ بلا شبہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamشعب بنی ہاشم میں پیدا ہوئے۔اور یہ بھی منقول ہو اہے کہ اس گھر میں پیدا ہوئے جو صفا کے ساتھ ہے جو اب حجاج بن یوسف کے بھائی محمد بن یوسف کا ہے۔۔۔اور یہ روایت غریب ہے۔امام مغلطائی نے نقل کیاہے کہ ۔۔۔آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamردم یا عسفان نامی جگہ کے پاس پیدا ہوئےا ور یہ روایت بھی کافی غریب ہے۔

بعض علماء نے سوق الیل میں موجود اس ”شعب بنی ہاشم“ والی گلی کا ایک اور نام بھی بیان کیا ہے جو کہ ”شعب ابن ابی طالب “ہے اور کچھ نے اسی مقام کے لیے”زقاق المولد“ جس کو بعد میں”زقاق المدکک“بھی کہا گیا کا نام بھی استعمال کیا ہے ۔ محمد عبدالرؤف المناوی تحریرفرماتےہیں:

وُلد رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم بمكة داخل الزقاق المعروف بزقاق المدكك. 17
حضوراکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت باسعادت مکّہ مکرّمہ کے مشہورمحلہ زقاق میں ہوئی جو "زقاق المدکک"کے نام سےجانا جاتاہے۔

مولد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ایک اور نام ”شعبِ علی “ بھی ہےاور ”سوق اللیل“ بھی چنانچہ اس حوالہ سے عبد اللہ محمد ابکر رقمطراز ہیں:

تقع دار مولدہ صلي اللّٰه عليه وسلم في شعب بنی هاشم قدیما ویسمي بشعب علي كما یسمي سوق اللیل وھو مكان شرقي الحرم الشریف. 18
رسول اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا قدیم گھر " شعب بنی ہاشم" میں واقع ہے اور اس کو" شعبِ علیRadi Allah Anho " کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے جیساکہ اس کو "سوق اللیل" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔یہ وہ مکان ہے جو حرم شریف کے مشرقی کنارہ کی طرف واقع ہے۔

اسی طرح مقام ِ مولد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے محلِ وقوع کے حوالہ سے شیخ محمد بن احمد مکی روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں:

الموضع الذي یقال له مولد النبی صلي اللّٰه عليه وسلم وھو مشھور في الموضع الذي یقال له سوق اللیل وفي حاشیة شیخنا علي مولد الدردیر ولد بسوق اللیل علي الصحیح في الدار التي كانت لمحمد بن یوسف اخي الحجاج وكانت قبل ذلک بید عقیل ابن ابی طالب رضي اللّٰه عنه. 19
وہ جگہ جس کومولد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکہا جاتا ہے اور وہ مشہور بھی ہےاُس مقام پر واقع ہے جس کو "سوق اللیل" کہا جاتا ہے اور "مولد الدردیر" پر لکھے گئے ہمارے شیخ کے حاشیہ میں ہے کہ صحیح ترین روایت کی بنا پر آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam"سوق اللیل"کے اسی گھر میں متولد ہوئے جو بعد میں حجاج کے بھائی محمد بن یوسف کی ملکیت میں رہا ہے۔اس سے پہلےیہ گھر حضرت عقیل بن ابی طالبRadi Allah Anho کی مِلک میں تھا۔

یہ قول شیخ عبداللہ الغازی Rehmatullah Alaih20اور امام ابن حجر الہیثمی Rehmatullah Alaih21نے بھی نقل کیا ہے۔ امام ابن ظہيرہ المخزومی نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس بات کو لکھا ہے کہ یہ بات مشہور ہے اور تواتر کے ساتھ نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہے کہ نبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت اسی سوق اللیل میں محمد یوسف والے گھر میں ہوئی جو کہ شعب بنی ہاشم میں واقع ہے۔ 22

مذکورہ بالا حوالہ جات اور علماء کی تصریحات اس طرف واضح نشاندہی کرتی ہیں کہ نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جائے ولادت کے حوالے سے متاخرین علماء میں کوئی اختلاف نہیں ۔ امام ازرقی Rehmatullah Alaihنے بھی اسی قول کی تائید کی ہے۔23عبداللہ محمد ابکر نے اس بات میں مزید یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ اہل مکّہ عمومی طور پر اس جگہ کے بارے میں جانتے تھے اور وہ جگہ وہاں کے مکینوں میں معروف ہے۔ 24

ڈاکٹر ناصر ابن علی نے اپنی کتاب الآثارالاسلامیۃفی مکۃالمکرمۃمیں لکھا ہے کہ تمام سیرت نگاروں کے نزدیک یہ بات طے ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت اپنے دادا جان حضرت عبدالمطلب کے گھر میں ہوئی تھی جو کہ شعب بنی ہاشم میں موجو د تھا اور اسی مقام پر بنو ہاشم اور کفار مکّہ نے مسلمانوں کا سیاسی مقاطعہ کیا تھا ۔ تمام تاریخ دانوں نے واقعہ شعب ابی طالب کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے جو کہ سیر ت نگاری میں درجہ تواتر کو پہنچی ہوئی بات ہے ۔ جب نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دادا حضرت عبدالمطلب اپنی آخری عمر میں نا بینا ہوئے تو آپ نے اپنی جائیداد اپنے بیٹوں میں تقسیم فرما دی اور شعب بنی ہاشم وہ جائیداد تھی جو ترکہ کے طور پرنبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے والد محترم حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کے حصہ میں آئی تھی ۔عربوں کے معروف رواج کے مطابق ان کی اولاد کی پیدائش بچے کے والد کے گھر میں ہوتی تھی اسی لیے یہ بات سب سے زیادہ قرینِ قیاس ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت بھی اسی گھر میں ہوئی جو کہ شعب بنی ہاشم میں موجود ہے ۔ 25

شیخ ابو سلیمان نے مکّہ سے تعلق رکھنے والے علماء ، مؤرخین و محدثین کی ایک طویل فہرست کا ذکر اپنی کتاب میں اس حوالے سے کیا ہے کہ وہ سارے علماء اس بات پر متفق تھے کہ نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی جائے ولادت شعب ابی طالب ہی تھی ۔ آپ فرماتے ہیں کہ مکی مؤلفین کی جانب سے مکی تاریخ نے تحقیق وتدوین کے اعتبار سےبہت منزلت پائی۔حسنِ اتفاق یہ ہےکہ اس کو اُن محدثین، فقہاءاور قضاۃ نےلکھاجو دقیق علمی معیارپرپورااترنےوالی صحیح معلومات کے علاوہ کسی قسم کی معلومات کوکوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ان مؤلفین میں مکی مؤرخین کے شیخ ابوالولید محمد بن عبد اللہ بن احمد الارزقی (متوفی 223ھ)کی کتاب "اخبار مکۃ وما جاء فیھا من الآثار"۔۔۔ابو عبداللہ محمد بن اسحاق الفاکہی (متوفی245ھ)کی کتاب "اخبار مکۃ فی قدیم الدھر وحدیثہ"۔۔۔حافظ ابو الطیب تقی الدین محمد بن احمد بن علی الفاسی المکی المالکی(متوفی 775ھ)کی کتاب"شفاءالغرام باخبارالبلدالحرام"۔۔۔جمال الدین محمد جار اللہ بن محمد نور الدین بن ابی بکر ابن علی ابن ظہیرہ القرشی المخزومی(986ھ) کی کتاب "الجامع اللطیف فی فضل مکۃ واھلھاوبناء البیت الشریف"۔۔۔ محمد قطب الدین بن احمد علاء الدین بن محمد النھر وانی المکی المعروف قطبی (متوفی 917ھ) کی کتاب"الاعلام باعلام بیت اللہ الحرام فی تاریخ مکۃ المشرفۃ"۔۔۔علی بن عبد القادر الطبری (متوفی1070ھ) کی کتاب"الأرج المسکی فی تاریخ المکی وتراجم الملوک والخلفاء"۔۔۔علی بن تاج الدین بن تقی الدین السنجاری(1057ھ) کی کتاب "منائح الکرم فی أخبارمکۃ والبیت وولاۃ الحرم"۔۔۔محمد بن احمد بن سالم بن عمر المکی المالکی المعروف ابن صباغ (متوفی 1321ھ) کی کتاب "تحصیل المرام فی اخبارالبیت الحرام والمشاعر العظام ومکۃ والحرم وولاتھا الفخام"۔۔۔علامہ مؤرخ محدث احمد بن محمد الحضراوی(متوفی 1327ھ) کی کتاب "العقد الثمین فی فضائل البلد الامین"۔۔۔علامہ محدث عبد اللہ بن محمد الغازی المکی الحنفی (متوفی1365ھ)کی کتاب "افادۃ الانام بذکر اخبار البلد الحرام"۔۔۔مربی علامہ شیخ عبد المالک بن عبد القادر بن علی المعروف الطرابلسی(متوفی1417ھ)کی کتاب "دلیل الآثار المطلوبۃ فی مکۃ المحبوبۃ"۔۔۔اور مؤرخ شیخ عاتق بن غیث البلادی (1431ھ)کی تالیف "معالم مکۃ التاریخیۃ والاثریۃ" شامل ہیں۔ اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ یہ کتبِ مذکورہ کا مجموعہ ان معتبر مؤلفین ،عظیم محدثین ،فقہا،قاضیوں اور مکّہ مکرّمہ کے ان اہل علم حضرات کاہے جنہوں نے بچپن ہی سے مکّہ مکرّمہ میں زندگی گزاری ہے یا وہ ایسے بزرگ ہیں جو اس کے مضافات کے باسی اور رہائشی ہیں۔ان تمام اہل علم و قلم کی نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی جائے ولادت کے بارے میں کوئی بھی بات لائق اعتبار و قابل نقل ہے جو تواتر علمی کے ساتھ اجلی صورتوں اور لطیف معنوں میں آشکار ہوجاتا ہے۔اب کوئی حاجت باقی نہیں رہی ہے کہ مزید نقول پیش کی جائیں۔ 26بیسویں صدی میں اسی مقام پر مکّہ کی سب سے بڑی لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا جو کہ مکتبۃمکۃ مکرمہ کہلاتی ہے۔ اس لائبریری کا موجودہ پتہ المسجد الحرام روڈ ، الحرم ، مکّہ 24231، سعود یہ العربیہ ہے ۔

وہ مقام جہاں سب سے پہلے نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا جسم مبارک مَس ہوا

وہ خاص جگہ اور کمرہ جہاں نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے تولد فرمایا علماء حدیث ، تاریخ اور سیرت نے اس کی بھی وضاحت فرما ئی ہے۔شیخ محمد ابن احمد فرماتے ہیں :

وموضع مسقط رأسه الشریف في ھذ المحل المعروف الي الآن وھو موضع مثل التنور. 27
اس مقامِ مولد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیں جو اب تک مشہور ہے ا ٓپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی (بعد ِولادت)جائے سجدہ 28(جو اپنی شکل و صورت میں)تنور کی مثل ہے ۔

ابن جبیر Rehmatullah Alaihنے اس نور کے تنور کی مانند روشن ہونے والی بات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے :

والموضع المقدس الذي سقط فيه صلي اللّٰه عليه وسلم ساعة الولادة السعيدة المباركة التي جعلها اللّٰه رحمة للأمة أجمعين محفوف بالفضة.29
وہ خاص مقام جہاں نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ( حالت سجدہ میں ) تشریف فرما ہوئے (یہ) وہ وقت تھا جہاں اللہ نے پوری امت مبارکہ کے لیے نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو رحمت بنا کر بھیجا تھا ۔ وہ جگہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آمد سے چاندنی کی مانند روشن ہو گئی تھی ۔

مذکورہ بالا حوالہ جات اس طرف رہنمائی کرنے کے لیے کافی ہیں کہ متاخرین علماء نے نہ صرف اس شہر ، گلی اور گھر کا تعین کر دیا ہے جہاں نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت با سعادت ہوئی تھی بلکہ تاریخی روایات کے تناظر میں اس خاص کمرہ اور اس خاص کمرہ میں موجود اس خاص جگہ کا بھی تعین فرما دیا ہے جہاں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سب سے پہلے حالتِ سجدہ میں اس دنیا میں تشریف فرما ہوئے تھے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسم مبارک نے اس زمین کو سب سے پہلے چھوا تھا۔ لوگ عمومی طور پر اس جگہ کی زیارت کے لیے نہ صرف یہ کہ دور دراز کا سفر کر کے آیا کرتے تھے بلکہ اس جگہ کو متبرک سمجھ کر وہاں پر اپنے لیے دعائیں بھی مانگا کرتے تھے ۔ جب خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور دوران جنگ کئی مقامات تباہ ہوئے اور بعد کی آنے والی حکومتوں نے بھی کئی متبرک مقامات کو بالارادہ ختم کر دیا تو انہی میں سے ایک یہ مقام بھی تھا جہاں نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت باسعادت ہوئی تھی لیکن ہمارے آئمہ اور علماء کی تصنیفات نے نہ صرف اس جگہ سے متعلقہ شواہد کو جمع کیا بلکہ مضبوط حوالہ جات کی روشنی میں اس بات کا حتمی تعین بھی فرما دیا کہ وہ کونسی جگہ تھی اور ہے تاکہ آج کی دنیا کے لوگ اور آئندہ آنے والے زمانوں کے لوگ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی جائے ولادت کے حوالے سے کسی بھی قسم کے شکوک شبہات یا اختلاف سے محفوظ و مامون رہیں ۔

انتقال ملکیت

وہ گھر جس میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت ہوئی تھی اپنی اصل کے اعتبار سے حضرت عبد المطلب کی ملکیت تھا جو کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دادا جان تھے ۔ حضرت عبد المطلب سے وہ گھر وراثت میں حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کو منتقل ہوا 30جو کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے والد ماجد تھےاور آپ Radi Allah Anhoسے اس کی ملکیت آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف منتقل ہو گئی ۔ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مکّہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو یہ گھر عقیل ابن ابی طالب Radi Allah Anho کے قبضہ میں آگیا31جنہوں نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا ۔ اس بات کو اسی انداز میں محدث عبداللہ غازی 32اور دیار البکر ی 33نے بھی نقل کیا ہے ۔ حضرت عقیل ابی طالبRadi Allah Anho نے یہ گھر بعد میں حجاج بن یوسف کے بھائی محمد بن یوسف کے ہاتھوں فروخت کر دیا تھا ۔ 34محمد بن یوسف نے یہ گھر حضرت عقیل ابن ابی طالب Radi Allah Anho سےایک لاکھ دنانیر کے عوض خریدا تھا اور اس کو اپنے ذاتی مکان کا حصہ بنا دیا تھا اور اس کا نام ’’البیضاء‘‘(سفید عمارت ) رکھ دیا تھا اور یہی "بیتِ ابی یوسف"کے نام سے مشہور ہوا 35 اور پھر آج کے دور میں اسی مقام پر اب مکتبۃ مکۃ المکرمۃ موجود ہے ۔


  • 1  ابو سلیمان عبد الوھاب ابراھیم، مکتبۃ مکۃ المکرمۃ قدیماًوحدیثاً، مطبوعۃ: مکتبۃ الملک فھد الوطنیۃ، الریاض، السعودیۃ، 2012م، ص:38
  • 2  شیخ یوسف بن إسماعيل النبهاني، جواهر البحار في فضائل النبي المختارﷺ، ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،2010م، ص:428
  • 3  محمد بن أحمد النهرواني، كتاب الإعلام بأعلام بيت الله الحرام، مطبوعۃ:المکتبۃ العلمیۃ، المکۃالمکرمۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:355
  • 4  ابو سلیمان عبد الوھاب ابراھیم، مکتبۃ مکۃ المکرمۃ قدیماًوحدیثاً، مطبوعۃ: مکتبۃ الملک فھد الوطنیۃ، الریاض، السعودیۃ، 2012م، ص:35-36
  • 5  ڈاکٹر محمد طاہر القادری،تاریخ مولد النبیﷺ،مطبوعہ:منہاج القرآن،پبلی کیشنز،لاہور،پاکستان،1994ء،ص:12
  • 6  ابو سالم عبد الله بن محمد العياش، الرحلة العياشية، ج-1، مطبوعة: دار السويدي للنشر والتوزيع، أبو ظھبي، الإمارات العربية المتحدة،2006م، ص:358
  • 7  امام محمد بن يوسف الصالحي الشامی، سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،2013م، ص:338
  • 8  علی شبیر،تاریخ مولد النبیﷺ،مطبوعہ:دکن لارپورٹ، دکن،انڈیا، 1930ء،ص:3-5
  • 9  محمد بن محمد ابن ظهيرة المخزومي، الجامع اللطيف في فضل مكة وأهلها وبناء البيت الشريف، مطبوعة: مكتبة الثقافة الدينية، القاهرة، مصر،1423ھ، ص:286
  • 10  أبو عبد الله محمد بن اسحاق الفاكهي، أخبارمكة في قديم الدهر وحديثه، ج-4، مطبوعة: مكتبة الأسدي، مكة المكرمة، السعودية،1430ھ، ص:6
  • 11  أبو بكر أحمد بن علي بن سعيد بن إبراهيم الأموي المروزي، مسند أبي بكر الصديق، حدیث: ۱۳۵، ج-1، المطبوعۃ: المكتب الإسلامي، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:202
  • 12  ابو سرحان مسعود بن محمد الفاسي، نفائس الدرر من اخبار سيد البشرﷺ،ج-1، مطبوعة: مركز الدراسات والابحاث وإحياء التراث، الرباط، المغرب، 1431ھ، ص: 107 -108
  • 13  شمس الدين محمد بن ابي بكر ابن القيم الجوزيۃ، زاد المعاد في هدي خير العباد، ج-1، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان،1425ھ، ص:74
  • 14  امام محمد بن يوسف الصالحي الشامی، سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،2013م، ص:338
  • 15  علی شبیر،تاریخ مولد النبیﷺ،مطبوعہ:دکن لارپورٹ، دکن،انڈیا، 1930ء،ص:3-5
  • 16  محمد بن محمد ابن ظهيرة المخزومي، الجامع اللطيف في فضل مكة وأهلها وبناء البيت الشريف، مطبوعة: مكتبة الثقافة الدينية، القاهرة، مصر،1423ھ، ص:286
  • 17  محمد عبد الرؤف المناوي، العجالة السنية على الفية السيرة النبوية، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1424 ھ، ص:28
  • 18  عبد اللہ محمد ابکر،صور من تراث مکۃ المکرمۃ،مطبوعة: مؤسسۃ علوم القرآن، بیروت، لبنان، 2004م،ص:38
  • 19  شیخ محمد بن احمد المالکی المکی،تحصیل المرام فی اخبار البیت الحرام والمشاعرالعظام،ج-1،مطبوعۃ: مکتبۃ الاسدی،مکۃ المشرفۃ،السعودیۃ،2004م،ص:536
  • 20  شیخ محدث عبد اللہ الغازی المکی،افادۃالانام بذکر اخبار بلد اللہ الحرام،ج-2، مطبوعۃ: مکتبۃ الاسدی للنشر والتوزیع،المکۃ الکرمۃ،السعودیۃ،2009م،ص: 67
  • 21  شهاب الدين احمد بن حجر الهيثمي،مولد ابن الحجر الهيثمي، مخطوط جامعة الملك الفيصل، مملكة العربية السعودية، رقم اللوحة:11
  • 22  محمد بن محمد ابن ظهيرة المخزومي، الجامع اللطيف في فضل مكة وأهلها وبناء البيت الشريف، مطبوعة: مكتبة الثقافة الدينية، القاهرة، مصر،1423ھ، ص:258
  • 23  محمد بن عبد الله الازرقي، اخبارمكة وما جاء فيها من الاثار، ج-2، مطبوعة:مكتبة الاسدي، مكة المكرمة، السعودية، 2012م،ص:812
  • 24  عبد اللہ محمد ابکر، صور من تراث مکۃ المکرمۃ، مطبوعة:مؤسسۃ علوم القرآن، بیروت، لبنان، 2004م،ص: 38 -39
  • 25  الدکتور ناصر بن علی الحارثی،الآثار الاسلامیۃ فی مکۃ المکرمۃ، مطبوعۃ:مکتبۃ الملک فھد،الریاض،السعودیۃ،2009م، ص: 349 -350
  • 26  ابو سلیمان عبد الوھاب ابراھیم،مکتبۃ مکۃ المکرمۃ قدیماوحدیثا، مطبوعۃ:مکتبۃ الملک الفھد،الریاض، السعودیۃ، 2012م،ص: 42 -51
  • 27  شیخ محمد بن احمد المالکی المکی،تحصیل المرام فی اخبار البیت الحرام والمشاعرالعظام،ج-1،مکتبۃ الاسدی،مکۃ المشرفۃ،السعودیۃ،2004م،ص:537
  • 28  یہاں پر جائے سجدہ سے مراد وہ مقام ہے جہاں آپﷺ ولادت کے ما بعدسجدہ ریز ہوئے اوراسی جگہ کو عربی میں " مسقط رأس" کہا جاتا ہے۔(ادارہ)
  • 29  محمد بن احمد جبير الاندلسي، رحلة ابن جبير، مطبوعة: دار ومكتبة الهلال، بيروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا) ص: 92
  • 30  الدکتور ناصر بن علی الحارثی،الآثار الاسلامیۃ فی مکۃ المکرمۃ، مطبوعۃ: مکتبۃ الملک فھد،الریاض،السعودیۃ،2009م، ص: 349 -350
  • 31  ابو الحسن علی بن محمد الشھیر بابن الاثیر،الکامل فی التاریخ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1997م،ص:416
  • 32  شیخ محدث عبد اللہ الغازی المکی، افادۃ الانام بذکر اخبار بلد اللہ الحرام، ج-2، مطبوعۃ:مکتبۃ الاسدی للنشر والتوزیع،المکۃ الکرمۃ،السعودیۃ،2009م،ص:68
  • 33  حسين بن محمد الديار بكري، تاريخ الخميس في احوال انفس النفيس، ج-1، دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2009م، ص:364
  • 34  محمد بن عبد الله الازرقي، اخبارمكة وما جاء فيها من الاثار، ج-2، مطبوعة:مكتبة الاسدي، مكة المكرمة، السعودية، 2012م،ص:811
  • 35  حسين بن محمد الديار بكري، تاريخ الخميس في احوال انفس نفيس، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2009م،ص:364

Powered by Netsol Online