encyclopedia

میلاد النبی ﷺ اور کرسمس

Published on: 13-Apr-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-3، مقالہ:28، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2019ء، ص: 781-788)

بعض لوگ سمجھتے اورکہتے ہیں کہ جشن میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam منانا سراسر عیسائیوں کی تقلید ہے اس لیے کہ عیسائی سیّدنا مسیحAlaihis Salam کی ولادت کا دن مناتے ہیں اور یہ سب کچھ نصاریٰ کی تقلید و نقل میں کیا جاتا ہے۔ جس طرح نصاریٰ سیّدناعیسیٰAlaihis Salam کی میلاد(جس کو عرفِ عام میں کرسمس کہا جاتا ہے)مناتے ہیں بعینہ اسی طرح مسلمان بھی رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا میلاد مناتے ہیں اور میلاد کی ہر چیز میں ان کی تقلید کرتے ہیں لہٰذا یہ عیسائیوں کی رسم ہے جس سے اجتناب کرنا لازمی و ضروری ہے کیونکہ مسلمانوں کو یہود و نصاری کی پیروی تو دور کی بات ان کی مشابہت سے بھی منع کیا گیا ہے۔اسی اعتراض کو شیخ ملا علی القاری نے بھی اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے ۔1

بادی النظر میں مذکورہ بالا اعتراض لاعلمی کی بنا پر پیدا ہوا ہے اور یہ اعتراض در حقیقت مسلمانوں پر عظیم بہتان ہےکیونکہ ائمہ اسلاف مثلاً امام ابو شامہ،2 امام فخر الدین رازی،3 امام جلال الدین سیوطی،4 ابن حجر الہیتمی،5 علامہ سخاوی،6 ابن جوزی،7 اما یوسف شامی،8 شیخ اسماعیل حقی 9 اور دیگر کبار فقہاء ومحدثین رحمۃ اللہ علیہم حضوراکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کی تقریب منانے اور اس میں جمع ہونے کو بہتر عمل قراردینے کے ساتھ ساتھ اس عمل کو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم میں شامل قرار دیتے ہیں تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان ائمہ اسلاف نے العیاذ باللہ نصاریٰ کی پیروی و تقلید کو تعظیم مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں شامل قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس عمل کو بہتر بھی کہاہے جو کہ قرآنی نصوص کے خلاف ہے؟

صاف ظاہر ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ معترضین کا یہ کہنا کہ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam منانا عیسائیوں کی طرح حضرت عیسٰی Alaihis Salamکی ولادت کی تقریب سے مشابہہ ہے تو یہ "قیاس مع الفارق "ہےیعنی دو مختلف الحقیقت چیزوں کو ایک جیسا قرار دینا ہےاور اس کی غلط مثال دینا ہے کیونکہ نصاری حضرت عیسٰی Alaihis Salamکا یوم پیدائش یعنی کرسمس ڈےالعیاذ باللہ ان کے خدا یاا خدا کا بیٹا یا تیسرا خدا ہونے کے لحاظ سے مناتے ہیں اور اسلام نے اس کو کفر قرار دیا ہے چنانچہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کفر کو بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا:

لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ ۘ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۭ 10
بیشک ایسے لوگ (بھی) کافر ہوگئے ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ تین (معبودوں) میں سے تیسرا ہے، حالانکہ معبودِ یکتا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔

یعنی نصاریٰ جو حضرت عیسیAlaihis Salam کو بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کا برگزیدہ رسول و نبی ماننے کے مذکورہ بالا کفر کرتے ہیں اور اسی لحاظ سے ان کا یومِ پیدائش مناتے ہیں۔لیکن نصاریٰ کے بر عکس مسلمان سیّدنا محمد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت پر خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ وہ اﷲ تبارک وتعالیٰ کے بندے اور اس کےمقرب رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہیں اور اﷲتبارک وتعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو تمام انسانوں میں افضل بنایا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو وہ سب کچھ عطا فرمایا جو کسی اور کو نہیں عطا فرمایا۔یہ وجہ ہے کہ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محافل میں قرآن کی تلاوت اور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نعت کے ساتھ ساتھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ولادت کے احوال اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے فضائل بیان کیے جاتےہیں جن کو بیان کرنے کا مقصد ہی توحید الہٰی کے ساتھ نبی رحمت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی رسالتِ عامہ کو بیان کرنا ہوتا ہے۔اس تفصیل سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ کتنا بڑا فرق ہے مسلمانوں کا اپنے نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا یوم ولادت منانے اورنصاریٰ کا حضرت عیسٰی Alaihis Salamکی پیدائش کا دن منانے میں۔ وہ لوگ العیاذ باللہ حضرت عیسیAlaihis Salam کوخدایا خدا کا بیٹا مان کر ان کا یومِ پیدائش مناتے ہیں جبکہ اس کے برعکس مسلمان اﷲ تبارک وتعالیٰ کا مقرب بندہ،محبوب رسول اور مخلوق پر نعمتِ عظمی مان کر آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا یوم ولادت مناتےہیں ۔

ملا علی القاری کا اعتراض اور اس کا جواب

اس مقام پر ملا علی القاری نے بھی یہی اعتراض وارد کیا ہے کہ ہمیں نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اہل کتاب کی مخالفت کا حکم دیا ہے لہذا میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam منانے میں بھی مشابہت ہے مخالفت نہیں ہے چنانچہ شیخ ابن جزری کی اس موقف پر کہ جب نصاری اپنے نبی کا میلاد مناتے ہیں تو مسلمان تو اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ وہ اپنے نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم میں اس عمل مولد کو سر انجام دیں اس پر اعتراض کرتے ہوئے ملا علی القاری تحریر فرماتے ہیں:

قلت لیکن یرد علیه انا مامورون بمخالفة اھل الکتاب ولم یظھر من الشیخ لھذا السوال جواب.11
میں (یعنی ملا علی قاری)کہتا ہوں کہ اس موقف پر یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ ہمیں تو اہل کتاب کی مخالفت کا حکم دیاگیا ہے (تو اس عمل میں مطابقت کیسے ممکن ہے؟)شیخ جزری سے اس سوال کا جواب ظاہر نہیں ہوا۔

اس اعتراض کے جواب سے پہلے یہ ذہن نشین رہے کہ ملا علی القاری بذاتِ خود میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جواز کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ آپRehmatullah Alaih نے اس کے جواز کے حوالہ سے ایک کتاب بنامِ"المورد الروی فی المولد النبوی صلي الله عليه وسلم" بھی تحریرفرمائی ہے جس میں ممالک اسلامیہ میں منائے جانے والی میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محافل کی نوعیت وکیفیت کو بیان کیا ہے اور دیگر ائمہ کبار کے حوالہ سے قرآن وحدیث سے اس کا جواز بھی ثابت فرمایا ہے البتہ اس مقام پر صرف یہ کہنا چاہا ہے کہ اس موقف پر یہ سوال کیا جاسکتا ہے جس کا جواب شیخ نے نہیں دیا ۔تفصیلی جواب تو ذیل میں آرہا ہے البتہ یہاں صرف یہ کہنا مناسب رہے گا کہ اہل اسلام کو اہل کتاب کی ہر بات میں مخالفت کا حکم نہیں دیا گیا ہے بلکہ بقول علامہ شامی حرام ومکروہ اعمال اور ان کے شعائر دینیہ میں مخالفت کا حکم دیاگیا ہے12 جبکہ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam منانا حرام ومکروہ نہیں بلکہ مستحب کام ہے۔ 13دوسری بات یہ ہے کہ قرآن و سنت میں دیگر انبیاء کرامAlaihmus Salam کے میلاد کا ذکر موجود ہے14بالخصوص حضرت عیسی Alaihis Salamکے میلاد کا ذکر قرآن کریم میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے 15 جو کہ امت کے لیے حجتِ شرعی ہے لہذا اہل کتاب میلاد منائیں یا نہ منائیں یا جس بھی طرز وفکر سے منائیں اس سے مسلمانوں کے میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam منانے پر کوئی حرف نہیں آتا ۔ عقلاً بھی یہ بات قابلِ غور ہے کہ کیا اگر اہل کتاب نماز پڑھتے ہیں تو ہم نماز چھوڑ دیں ، وہ روزہ رکھتے ہیں تو ہم روزہ چھوڑد یں ، وہ صداقات دیتے ہیں تو ہم زکوٰۃ چھوڑ دیں علیٰ ھذا القیاس اس لیے اس مسئلہ میں حتمی بات ابن عابدین شامی ہی کی ہے جس میں حرام و مکرو ہ اعمال اور ان کے شعائرِدینیہ میں اجتناب کا بالخصوص حکم موجود ہے ورنہ عاشورہ کے روزے کی طرح عمل ترک نہیں ہو گا بلکہ اس میں احسن اضا فہ کر کے مخالفت کی جائے گی۔

حدیث مشابہت کی غلط تشریح

رہی بات اس حدیث مبارکہ کی جو معترضین اور ملا علی القاری اپنی دلیل میں پیش کرتے ہیں جس کو مسند احمد میں یوں روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کسی قوم سے مشابہت کے حوالہ سے ارشاد فرمایا:

من تشبّه بقوم فھو منھم. 16
جو کسی قوم سے مشابہت کرے وہ ان میں سے ہے۔

اس حدیث کے تنا ظر میں معترضین کا یہ کہنا کہ چونکہ عیسائی اپنے نبی کا میلاد مناتے ہیں اگر مسلمان بھی اپنے نبی کا میلاد منائیں گے تو یہ ان کے ساتھ مشابہت ہوجائے گی لہٰذا میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam منانا منع ہے تو اس بارے میں حقیقت یہ ہے کہ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو عیسائیوں کا طریقہ کہہ کر اس حدیث سے استدلال کرنا بالکل غلط ہےکیونکہ اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں جو کہ مذکورہ بالا معترضین کا اختراع کردہ ہےکیونکہ ہر مشابہت منع نہیں بلکہ کسی قوم کی مشابہت ان کی بری باتوں اور برے کاموں میں منع ہے نہ کہ مطلقاً مشابہت۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کام ایسا ہو جو کہ کفار کی دینی یا قومی علامت بن چکا ہو جس کو دیکھ کر لوگ اسےکافر قوم کا آدمی سمجھیں جیسے کہ دھوتی، چوٹی، زنار، وغیرہ ورنہ مسلمان بھی آب زمزم مکّہ معظمہ سے لاتے ہیں اور ہندو بھی گنگا جل لاتے ہیں،مسلمان حج کےموقع پر حج کی رسوم اد اکرتےہیں اورہندو بھی کمبھ کے میلہ میں جمع ہوکر مذہبی رسوم کی ادائیگی کرتےہیں، ہم بھی منہ سے کھاتے اور پاؤں سے چلتے ہیں کفار بھی یہی کرتے ہیں،ہم بھی لباس پہنتے ہیں اور وہ بھی کپڑے پہنتے ہیں لیکن اس مشابہت کو کوئی بھی ذی شعور شخص مذکورہ بالا حدیث کے تحت سمجھتے ہوئے ممنوع قرار نہیں دے سکتا کیونکہ یہ تشریح غیر معقول ہے۔

مشابہت کا صحیح مفہوم

پھر معترضین کے اس رویہ سے ایک لازمی اشکال یہ پیداہوتا ہے کہ نصاری بھی روزہ رکھتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں،لباس پہنتے ہیں، اب اگر میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam منانا صرف اس لیے منع ہے کہ نصاری بھی اپنے نبی17 کا میلاد مناتے ہیں تو پھر مسلمانوں کو بھی روزے رکھنے، کھانا کھانے اور لباس پہننے سے بچنا چاہیے کیونکہ ان تمام باتوں میں بھی مشابہت موجود ہے جبکہ ایسا کوئی بھی ذی شعور انسان نہیں کہہ سکتا لہذا صرف تقریبِ میلاد ہی کی مشابہت سے حدیث بالا کے تناظر میں مشابہت کا حکم لگانا درست نہیں ہے کیونکہ اس مشابہت سے مراد کسی قوم کے شعارِ دینی میں مشابہت ہے جیسے زنار باندھنا ، صلیب پہننا اور ان جیسے دیگر شعائر میں مشابہت اختیار کرناہے۔اس مذکورہ تشریح کی تائید درج ذیل حدیث مبارکہ سے بھی ہوجاتی ہے جس میں منقول ہے کہ نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد عاشورہ کا روزہ رکھا چنانچہ اس حدیث میں مروی ہے کہ نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے خودعاشورہ کا روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام Radi Allah Anhumکوبھی یہ روزہ رکھنے کا حکم دیا حالانکہ اس میں مشابہتِ یہود تھی چنانچہ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں:

مر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم أناس من الیھود قد صاموا یوم عاشوراء، فقال: ما هذا من الصوم؟ قالوا: هذا الیوم الذى نجى اللّٰه موسی وبنی إسرائیل من الغرق، وغرق فیه فرعون، وهذا یوم استوت فیه السفینة على الجودى، فصام نوح وموسی شکرا للّٰه، فقال النبی صلى اللّٰه عليه وسلم أنا أحق بموسی، وأحق بصوم هذا الیوم، فأمر أصحابه بالصوم.18
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam یہود کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے اور انہوں نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا ہوا تھا۔ تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے پوچھا یہ روزہ کیسا ہے؟ انہوں نے جواب دیا یہ وہ دن ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰAlaihis Salam اور بنی اسرائیل کو غرق ہونے سے بچالیا اور فرعون کو اس دن غرق کردیا۔ اور یہ وہ دن ہے جس میں حضرت نوحAlaihis Salam کی کشتی جودی پہاڑ پر جاکر ٹھہری۔ تو اس دن حضرت نوحAlaihis Salam اور حضرت موسیٰAlaihis Salam دونوں نے اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے روزہ رکھا۔ یہ سن کر حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا میں حضرت موسیٰ کے لیے اس دن کا روزہ رکھنے کا زیادہ حق رکھتا ہوں چنانچہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام Radi Allah Anhumکو بھی اس دن کے روزے کا حکم فرمایا۔

اسی طرح یہود کی کتابت کے بارے میں حضرت زید سے ارشاد فرمایا کہ اسے سیکھو چنانچہ روایت میں منقول ہے :

أمرنی رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم أن أتعلم له كلمات من كتاب یھود قال: إنی واللّٰه ما آمن یھود على كتاب قال: فما مربی نصف شھر حتی تعلمته له قال: فلما تعلمته كان إذا كتب إلى یھود كتبت إلیھم، وإذا كتبوا إلیه قرأت له كتابھم. 19
حضرت زید بن ثابت Radi Allah Anhoکہتے ہیں کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے یہود کی کچھ تحریر سیکھ لوں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں یہود کی تحریر پر اعتماد و اطمینان نہیں کرتا(لہذا تم اسے سیکھو) چنانچہ ابھی آدھا مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے خاطر اسے(جلد ہی ) سیکھ لیا۔ کہتے ہیں: پھر جب میں نے سیکھ لیا اور پھرآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو یہودیوں کے پاس کچھ لکھ کر بھیجنا ہوتا تو میں لکھ کر ان کے پاس بھیج دیتا اور جب یہودیوں نے کوئی چیز لکھ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس بھیجنی ہوتی تو میں ان کی کتاب (تحریر) پڑھ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو سنا دیتا ۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ایک اچھے عمل میں مشابہت سے منع نہیں فرمایا بلکہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے خود بھی روزہ رکھا اور روزے کا حکم بھی ارشاد فرمایا ۔اسی طرح ضرورت کی بنا پر یہود کی کتابت کو بھی سیکھنے کا حکم دیا تاکہ خط وکتابت اعتماد کے ساتھ ہوتی رہےتو اس سے واضح ہوا کہ ممنوع مشابہت فقط کسی بھی قوم کے شعائر دینی میں مشابہت ہے جس سے اسلامی شعائر کی پامالی ہوتی ہے نہ کہ مطلقاً مشابہت جیساکہ معترضین کا اختراعی مفہوم ہے۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے عمل سے یہ ضابطہ بھی بیان فرمادیا کہ جس دن ﷲ کی کوئی نعمت حاصل ہوتواسے یادرگار کے طور پر مناتے ہوئے خوشی کا اظہار کرنا جائز ہے جس سے بخوبی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ عملِ خیر میں مشابہت سے یہ حکم جاری کرنا کہ جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے انتہائی کم علمی ہے کیونکہ صحابہ کرامRadi Allah Anhum نے خود حضوراکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حکم کی وجہ سے اس عمل خیر میں یہود کی مشابہت کی ہے البتہ فرق پھر بھی رکھا کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے جبکہ نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دودن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

حدیث مشابہت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ شامی لکھتے ہیں:

فإن التشبه بھم لا یکرہ فى كل شیء، بل فى المذموم وفیما یقصد به التشبه. قال هشام: رأیت على أبی یوسف نعلین مخصوفین بمسامیر، فقلت أترى بھذا الحدید بأسا؟ قال لا قلت: سفیان وثور بن یزید كرها ذلک لأن فیه تشبھا بالرهبان؛ فقال كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یلبس النعال التی لھا شعر وإنھا من لباس الرهبان. فقد أشار إلى أن صورة المشابھة فیما تعلق به صلاح العباد لا یضر، فإن الأرض مما لا یمکن قطع المسافة البعیدة فیھا إلا بھذا النوع. 20
اہل کتاب سے مشابہت اختیار کرنا ہر چیز میں مکروہ نہیں ہے بلکہ مذموم چیزوں اور جن میں تشبہ مقصود ہوتا ہے ان میں مکروہ ہے۔امام ہشامRehmatullah Alaih کہتے ہیں میں نے امام ابو یوسف Rehmatullah Alaihکو میخوں کے ذریعہ جوڑے ہوئے جوتے پہنے دیکھا تو پوچھا: کیا آپ کی رائے میں اس لوہے میں کوئی حرج ہے؟ فرمایا نہیں میں نے عرض کیا امام سفیانRehmatullah Alaih اور امام ثور بن یزیدRehmatullah Alaih اسے مکروہ سمجھتے ہیں اس لیے کہ اس میں راہبوں سے مشابہت پائی جاتی ہے؟ فرمایا نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بالوں والے جوتے پہنتے تھے اور یہ بھی راہبوں کا پہنا وا ہے۔چنانچہ امام ابویوسفRehmatullah Alaih نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ بندوں کی بھلائی سے متعلق چیزوں میں مشابہت کی صورت مضر نہیں ہے اس لیے کہ زمین کی لمبی مسافت اس قسم کے جوتوں کے بغیر طے کرنا ممکن نہیں ہے۔

جب صاحب شریعت نے عمل خیر میں مشابہت سے منع نہیں کیا بلکہ یہود سے بڑھ کر محبت کا اظہار کرتے ہوئےروزہ رکھنے کا حکم دیا 21 تو اس اعتراض کی کیا گنجائش باقی رہی؟ یاد رہے کہ اسلام نے کافر کے ساتھ جس مشابہت سے منع کیا وہ یہ ہے کہ اس کا ہر وہ عقیدہ وعمل جو اسلام کے منافی ہو اس سے احتراز لازمی ہے اگر کسی نے ایسے معاملات میں ان سے مشابہت اختیار کی تو اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی ہوگی۔ یہی وجہ ہے وہ ائمہ کرام جو احکام شریعت کے مزاج شناس ہیں،ان کی میلاد مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بارے میں رائے اس رائے سےیکسر مختلف ہے جو اعتراض کی صورت میں پیش کی جاتی ہے۔ان ائمہ کی رائے کا مفہوم یہ ہے کہ جب عیسائی اپنے نبی کے یوم میلاد کو عید کے طور پر مناتے ہیں تو اہل اسلام کو اپنے نبی کے یوم میلاد کو اس سے بڑھ چڑھ کر منانا چاہیےاور یہ کفار کے ساتھ مشابہت نہیں بلکہ شیطانی قوتوں کو زندہ درگور کرنا ہے۔چنانچہ صاحب لواء الحنفیہ شیخ ملا علی القاری شیخ ابن جزریRehmatullah Alaih کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

ولولم یکن فى ذلک الا ارغام الشیطان وسرور اھل ایمان قال یعنی الجزرى و إذا كان أهل الصلیب اتخذوا لیلة مولد نبیھم عیدًا أكبر فأهل الإسلام أولى بالتکریم وأجدر. 22
اور اس(محفل میلاد)میں شیطان کےلیےغم اوراہل ایمان کےلیے فرحت ہے ۔شیخ ابن جزری مزید فرماتے ہیں کہ جب عیسائی دنیا اپنے نبی کے یوم میلاد کو بڑی عید قرار دیتے ہیں تو اہل اسلام تو اپنے نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے یوم میلاد کی تکریم کرنے کے زیادہ حقدار ہیں۔

یعنی شیخ ابن جزری Rehmatullah Alaihنے مشابہت کے پہلو سے قطع نظر یہ بات کہی ہے کہ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں چونکہ نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم و توقیر ہے لہٰذا جب نصاریٰ حضرت سیّدنا عیسٰیAlaihis Salam کا یوم ولادت (نعوذ بااللہ) انہیں خدا کا بیٹا سمجھ کر جو ش وخروش سے مناتے ہیں تو اہل اسلام تو اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ وہ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam منائیں اور اس پر خوشی کا اظہار کریں کہ اس میں تعظیم مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا پہلو زیادہ واضح اور نمایا ں ہے ااور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی وضاحت بھی موجود ہے کہ ہم محمد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو (نعوذ با اللہ) خدا کا بیٹا نہیں بلکہ اس کا بر گزیدہ بندہ اور رسول مانتے ہیں اور ان کے والدین کریمین کا ذکرِ خیر اسی وجہ سے کرتے ہیں تا کہ لوگوں کے قلوب و اذہان میں آپ کی بزرگی کے ساتھ ساتھ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی بندگی کی صفت بھی ہمیشہ واضح رہے ۔


  • 1  نور الدين علی بن سلطان القاری،الورد الروی فی المولد النبویﷺ ، مطبوعۃ: منھاج القرآن ببلیکیشنز، لاہور، باکستان، 2011م، ص:79
  • 2  شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّد المرسلینﷺ ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص:174
  • 3  شھاب الدین احمد بن حجر ہیتمی،النعمۃ الکبری علی العالم فی مول سیّد ولد آدمﷺ ، مطبوعۃ: مکتبۃ الحقیقیۃ، استنبول ، ترکی، 2003 م،ص:6
  • 4  جلال الدین عبد الرحمن بن ابی ابکر السیوطی،الحاوی للفتاوٰی، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م ، ص:182
  • 5  شھاب الدین احمد بن حجر الہیتمی، النعمۃ الکبری علی العالم فی مولد سیّدولد آدمﷺ ، مطبوعۃ: مکتبۃ الحقیقیۃ، استنبول، ترکی، 2003 م، ص:7
  • 6  شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّدالمرسلینﷺ ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص:174
  • 7  ابو الفرج عبد الرحمن ابن جوزی، مولد العروس، مطبوعۃ: قادری رضوی کتب خانۃ، لاہور، باکستان،2011م، ص:207
  • 8  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشادفی سیرۃ خیرالعبادﷺ ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013 م، ص:365
  • 9  ابو الفداء إسماعیل حقی بروسی، روح البیان فی تفسیر القرآن، ج-9، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص:56
  • 10  القرآن، سورۃ المائدۃ 5: 73
  • 11  نورالدين علی بن سلطان القاری،المورد الروی فی المولد النبویﷺ ، مطبوعۃ: منھاج القرآن ببلیکیشنز، لاہور، باکستان،2011م، ص:79
  • 12  ابن عابدین محمد أمین بن عمر الشامى، رد المحتار علی الدر المختار، ج-1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1992م، ص:624
  • 13  ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الامین المأمونﷺ ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:123
  • 14  القرآن، سورة الهود71:11
  • 15  القرآن، سورة مريم33:19
  • 16  أبو عبدﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث:5114، ج-9، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالة، بیروت، لبنان،2001م، ص: 123
  • 17  حالانکہ ماقبل میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ نصاری حضرت عیسی علیه السلام کا یوم ولادت خدا کے بیٹے کے طور پر مناتے ہیں نہ کہ اپنے نبی کے طور پر یہی چیز مابہ الامتیاز کا درجہ رکھتی ہے۔ (ادارہ)
  • 18  أبو عبدﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث: 8717، ج-14، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 335
  • 19  أبو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی، جامع الترمذي، حدیث:2715 ، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص:808
  • 20  ابن عابدین محمد أمین بن عمر الشامي، رد المحتار علی الدر المختار، ج-1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،1992م، ص:624
  • 21  ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح بخاری، حدیث:3397، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م،ص:569
  • 22  نور الدين علی بن سلطان القاری،الورد الروی فی المولد النبویﷺ ، مطبوعۃ: منھاج القرآن ببلیکیشنز، لاہور، باکستان، 2011م،ص:79

Powered by Netsol Online