encyclopedia

آپ ﷺکا چہرہ مبارک

Published on: 18-Oct-2023

(حوالہ: علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی،علامہ سیّد سعد ابراہیم، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 15، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 316-333)

اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق بڑے کمال حسن کے ساتھ فرمائی ہے اسی وجہ سے انسان کارخانہ ربوبیت کی حسین ترین تخلیق ہے۔ جس کا ذکر قرآن ان الفاظ میں کرتا ہے:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِى اَحْسَنِ تَقْوِیمٍ41
بیشک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔

کائنات حسن کے سارے جلوے وجودِ انسانیت میں مجتمع کردیے گئے۔ تاہم کائنات انسانیت کا حسن جب اپنے نکتہ کمال کو پہنچا تو وجودِ مصطفوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamتخلیق پذیر ہوا۔ یہی وہ حسنِ ازلی ہے جب پھیلا تو کائنات ِحسن کے جلووں کی مانگ بھرگئی اور سمٹا تو چہرہ مصطفویSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے معنون ہوگیا۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مبارک رنگت

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرہ انوار کی لونیت کو بیان کرتے ہوئےامام ابو نعیم اصفہانی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

وكان لونه صلى اللّٰه علیه وسلم لیس بالابیض الامھق والامھق الشدید البیاض الذى لا تضرب بیاضه الى الشھبة ولم یكن بالادم وكان ازھر اللون والازھر ھو الابیض الناصع البیاض الذى لا یشوبه صفرة ولا حمرة ولا شى من الالوان وقد نعت بعض نعته بذلك ولكن انما كان المشرب حمرة ما ضحى منه للشمس والریاح وما كان تحت الثیاب فھو الابیض الازھر لایشك فیه احد ممن وصفه بانه ابیض ازھر فمن وصفه بانه ابیض ازھر فعنى ما تحت الثیاب فقد اصاب ومن وصف ما ضحى منه للشمس والریاح بانه ابیض مشرب بحمرة فقد اصاب ولونه الذى لا یشك فیه البیاض الازھر وانما الحمرة من قبل الشمس والریاح وكان عرقه فى وجھه مثل اللؤلو اطیب من المسك الاذفر.2
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا رنگ خالص سفید جس میں کسی دوسرے رنگ کی آمیزش نہ ہو نہ تھی۔ مگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamگندمی رنگ کے بھی نہ تھے بلکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرے کا رنگ سرخ و سفید تھااور یہ بھی مروی ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا رنگ چمکدار تھا جس میں زردی سرخی یا کسی دوسرے رنگ کا امتزاج نہ تھا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعریف کرنے والوں میں سے بعض کا خیال بھی یہی ہے۔اس لیے دونوں اقوال کے درمیان یوں محاکمہ ہوسکتا ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ظاہری اعضاء دھوپ اور آب وہوا سے متاثر ہوکر سرخی مائل سفید تھے مگر کپڑوں کے نیچے والے جسم کا رنگ چمکدار سفید تھا (جس میں سرخی کی آمیزش نہ تھی) لہٰذا جس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا رنگ چمکدار سفید قرار دیا ہے وہ بھی درست ہے کیونکہ اس سے مراد کپڑوں کے نیچے کا حصہ ہے جبکہ سرخی مائل سفید قرار دینے والا بھی درست کہتا ہے اس لیے کہ دھوپ اور ہوا کے تاثر سے ظاہری اعضاء میں سرخی کی آمیزش ہوگئی تھی لہٰذا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا اصل رنگ چمکدار سفیدی ٹھہرا جبکہ سرخی کا امتزاج آب وہوا کے باعث قرار پایا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرے پر پسینہ موتیوں کی طرح چمکتا تھا جس کی خوشبو مہکتی کستوری سے بھی فزوں تر تھی۔

رب نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرۂ انور کی قسم کھائی ہے

قرآن نے جہاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے منسوب دیگر اشیاء کی قسم کھائی وہاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرۂ مبارک اور گیسوئے عنبریں کی قسم بھی کھائی ہے۔ جب سلسلہ وحی بعض حکمتوں کے پیش نظر کچھ دن منقطع ہوا تو اس پر بعض بدبخت دشمنانِ اسلام نے زبان طعن دراز کی اور کہنے لگے کہ محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا خدا (نعوذ باﷲ) اس سے روٹھ گیا ہے۔ اس قسم کی طعن آمیز باتوں کی وجہ سے بتقاضائے بشریت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی طبیعت مبارکہ میں کچھ ملال سا پیدا ہوا اس پر اﷲ تعالیٰ نے سورۃوالضحی کو نازل کیا اور فرمایا:

وَالضُّحٰى1وَالَّیلِ اِذَا سَـجٰى2 مَا وَدَّعَك رَبُّك وَمَا قَلٰى33
قَسم ہے چاشت کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہو کر اپنا نور پھیلاتا ہے)۔ (یا:- اے حبیبِ مکرّم!) قَسم ہے چاشت (کی طرح آپ کے چہرۂ انور) کی (جس کی تابانی نے تاریک روحوں کو روشن کر دیا)۔ (یا:- قَسم ہے وقتِ چاشت (کی طرح آپ کے آفتابِ رِسالت کے بلند ہونے) کی (جس کے نور نے گمراہی کے اندھیروں کو اجالے سے بدل دیا)، اور قَسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے۔ (یا:- اے حبیبِ مکرّم!) قَسم ہے سیاہ رات کی (طرح آپ کی زلفِ عنبریں کی) جب وہ (آپ کے رُخ زیبا یا شانوں پر) چھا جائے)۔ (یا:- قَسم ہے رات کی (طرح آپ کے حجابِ ذات کی) جب کہ وہ (آپ کے نورِ حقیقت کو کئی پردوں میں) چھپائے ہوئے ہے)، آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو ان الفاظ کے ذریعے اس بات کی طرف متوجہ کردیا کہ جب اﷲ تعالی تیرے رُخِ تاباں اور گیسوئے عنبریں تک کی قسم اٹھاتا ہے تو کبھی اس قدر پیار کرنے والا بھی اپنے محبوب سے ناراض ہوسکتا ہے۔

یہاں چاشت سے مراد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا چہرہ اقدس اور لیل سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مبارک زلفیں ہیں۔ا س پر ائمہ کی تصریحات بھی وافر موجود ہیں۔چنانچہ امام ملا علی قاری Rehmatullah Alaihاسی تصور کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

والانسب بھذا المقام فى تحقیق المرام ان یقال: ان فى الضحى ایماء الى وجھه صلى اللّٰه علیه وسلم كما ان فى اللیل استعارا الى شعره علیه الصلوٰة والسلام.4
اس سورۃ کا نزول جس مقصد کی خاطر ہوا ہے اس کا تقاضا ہےکہ کہا جائے کہ ضحی سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے چہرۂ انور اور لیل سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مبارک زلفوں کی طرف اشارہ ہے۔

واضح بات ہے کہ جب یہاں مقصد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو تسلی دینا ہے تو اس سے مراد زیادہ مناسب یہی ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرۂ انور اور سیاہ زلفوں کی قسم یاد فرمائی جائے تاکہ دشمنان اسلام کو شرمندگی ہو اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو تسکین حاصل ہو۔

اسی طرح امام زرقانی Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

الضحى بوجھه صلى اللّٰه علیه وسلم واللیل بشعره.5
ضحیٰ سے مراد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا چہرۂ انور اور لیل سے مراد آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مبارک زلفیں ہیں۔

آیت کے معنی پر شک اور اس کاازالہ

اسی حوالہ سے امام فخر الدین رازیRehmatullah Alaih ایک سوال اور پھر اس کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

ھل احد المذكرین فسر الضحى بوجھه محمد واللیل بشعره. نعم ولااستبعاد فیه.6
کیا کسی مفسر نے ضحی کی تفسیر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرۂ انور اور لیل کی تفسیر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زلفوں کے ساتھ کی ہے؟(جواباً کہتے ہیں کہ) ہاں یہ تفسیر کی گئی ہے اور اس میں کوئی بُعد نہیں ۔

اسی آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے امام نیشاپوریRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

لا استبعاد مما یذكره الواعظ من تشبیه وجه محمد صلى اللّٰه علیه وسلم بالضحى وشعرہ باللیل.7
علماء اسلام حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرہ اقدس کو جو ضحیٰ کے ساتھ اور مبارک زلفوں کو لیل کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں۔

اسی حوالہ سےعلامہ آلوسیRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

ومن الناس من فسر الضحى بوجھه صلى اللّٰه علیه وسلم واللیل بشعره علیه الصلوٰة والسلام كما ذكر الامام وقال: لا استبعاد فیه.8
بعض مفسرین نے الضحی سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا چہرۂ انور اور اللیل سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی سیاہ زلفیں مراد لی ہیں۔ امام رازیRehmatullah Alaih نے اس قول کو ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ معنی لینے میں کوئی حرج نہیں۔

علامہ اسماعیل حقی Rehmatullah Alaih"الضحی" اور "اللیل"کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اشارتست بروشنى وروى حضرت مصطفى صلى اللّٰه علیه وسلم وكنایت از سیاھى موئے وے.9
یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرہ اقدس کی نورانیت اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زلفوں کی سیاہی کی طرف اشارہ ہے۔

امام شاہ عبد العزیز دہلویRehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

بعضے گویند كه مراد از ضحى روئے پیغمبر است صلى اللّٰه علیه وسلم واز لیل موئے اوست كه درسیاھى ھمچو شب است.10
بعض مفسرین نے ضحیٰ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا چہرہ انور مراد لیا ہے اور لیل سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مبارک زلفیں جو سیاہی میں تاریک رات کی طرح ہیں۔

یہ تمام اقوال اس بات پر دلالت کررہے ہیں کہ ان آیات بینات میں استعارہ کے طور پر رسو ل اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرہ اور زلف مبارک کو ضحٰی اور لیل سے تعبیر کر کے ان کی قسم اٹھائی گئی ہے۔

حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی چاہت پرقبلہ کی تبدیلی

اللہ ربُّ العزّت نے قرآن مجید میں اپنے محبوب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرہ انور کا ذکر بڑی محبت اور اپنائیت کے انداز میں فرمایا۔ مکّۃ المکرّمہ اور مدینہ منوّرہ کے ابتدائی دور میں مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے تھے اس پر یہود نے طعن کیا کہ مسلمان اور ان کا نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہمارے دین کی تو مخالفت کرتے ہیں مگر نماز کے وقت ہمارے ہی قبلہ کی طرف رُخ کرتے ہیں۔ اگر ہم نہ ہوتے تو ان کو قبلہ کی خبر تک نہ ہوتی اور یہ عنقریب ہمارے دین کو اختیار کرلیں گے۔ اس طعن کی وجہ سے رسالت مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دل اقدس پر بوجھ ہوا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے تبدیلی قبلہ کی خواہش کرتے ہوئے حضرت جبرائیل Alaihis Salamسے فرمایا:

وددت لوحولنى اللّٰه الى الكعبة فانھا قبلة ابى ابراھیم.11
میں چاہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ میرا قبلہ تبدیل فرماکر کعبہ کو قبلہ قرار دیں کیونکہ یہی میرے والد ابراہیم کا قبلہ ہے۔

حضرت جبرائیل Alaihis Salamنے عرض کیا:

انما انا عبد مثلك وانت كریم على ربك فسل انت ربك فانك عنداللّٰه بمكان.12
یا رسول اﷲ! Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیں بھی ایک عبد ہوں اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبارگاہ ایزدی میں معزز ہیں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamتبدیل قبلہ کے بارے میں سوال کریں کیونکہ یہ اﷲ کے ہاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہی کا مقام ہے۔

یعنی میں بندۂ مامور ہوں اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبندۂ محبوب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam، میں صرف ماننے والا ہوں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ماننے والےتو ہیں ہی ،اس کے ساتھ ساتھ منوانے والے بھی ہیں۔ میں فقط اﷲ تعالیٰ کی رضا چاہنے والا ہوں اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی رضا اﷲ کو مطلوب ہے۔یہ کہہ کر حضرت جبرائیل Alaihis Salamآسمان پر چلے گئے حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے نماز کی نیت باندھ لی اس آرزوئے شوق میں کہ تبدیلی قبلہ کا حکم آئے۔ چہرۂ اقدس اٹھاکر بار بار آسمان کی طرف دیکھا پس چہرۂ اقدس کو اٹھانے کی دیر تھی کہ اﷲ تعالیٰ کو اپنے محبوب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے اس انداز پر پیار آگیا یوں ارشادِ باری تعالی ہوا:

قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْھك فِى السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّینَّك قِبْلَة تَرْضٰیھا ۠ فَوَلِّ وَجْھك شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ14413
(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجیے ۔

سیدِ عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو کعبہ کا قبلہ بنایا جانا پسندِخاطر تھا حضور اس اُمید میں آسمان کی طرف نظر فرماتے تھے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔چنانچہ امام ابن جریر طبری Rehmatullah Alaih اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں:

عن قتادةرضي الله عنه فى قوله "قد نرى تقلب وجھك فى السماء" قال: كان صلى اللّٰه علیه وسلم یقلب وجھه فى السماء یحب ان یصرفه اللّٰه عزوجل الى الكعبة حتى صرفه اللّٰه الیھا.14
حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamآسمان کی طرف چہرہ فرماتےتھے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamیہ چاہتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو کعبہ کی طرف پھیردے تو یہ آیت نازل ہوئی : بے شک ہم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرہ کا آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں سو ہم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو اس قبلہ کی طرف پھیردیں گے جس پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamراضی ہیں۔

جونہی یہ آیت لے کر حضرت جبریلAlaihis Salam نازل ہوئے اس وقت حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نماز کی حالت میں تھےاور دو رکعت نماز بیت المقدس کی طرف رُخِ انور کرکے ادا فرماچکے تھے۔حضرت جبریلAlaihis Salam حکم خداوندی کے ساتھ نازل ہوئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بقیہ دو رکعت کعبہ کی طرف رُخِ انور فرماکر ادا فرمائیں۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ساتھ خوش قسمت صحابہRadi Allah Anhum اُسی حالت میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی اقتداء میں کعبہ کی طرف مُڑگئے۔

اس ارشاد خداوندی سے صاف ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو اپنے پیارے محبوبِ مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی رضا بہت محبوب ہے جو محبوبِ مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamچاہتے ہیں وہی عطا فرمادیا جاتا ہے۔حالانکہ اس سے پہلے بیت المقدس کی طرف اﷲ تعالیٰ کے حکم سے نمازیں پڑھی جاتی تھیں۔ لیکن نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تمنا یہ تھی کہ میرے لیے وہی قبلہ بنادیا جائے جو حضرت ابراہیم Alaihis Salamکا تعمیر کردہ اﷲ تعالیٰ کا سب سے پہلا گھر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بار بار اپنے رخ انور کو آسمان کی طرف اٹھانے پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خواہش پوری فرمادی۔

اس حوالہ سےابن دحیہ کلبی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

ان للّٰه مدح وجه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقال جل من قائل: (قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْھك فِى السَّمَاء فَلَنُوَلِّینَّك قِبْلَة تَرْضَاھا) فبسبب تقلب وجھه حول القبلة من بیت المقدس الى الكعبة جھرا، بعد ان صلى الیھا ستة عشر او سبعة عشر شھرا على ماثبت باتفاق عند علماء الافاق. فكانت بركة وجھه فى التقلب معطیة لرضاہ فى اعطاه قبلة یرضاھا فیما اقتضاہ. وفیه كرامة عظیمة للنبى صلى اللّٰه علیه وسلم حیث اعطاہ اللّٰه ذلك ولم یسال ولا صرح ولا تكلم.15
بے شک اللہ تعالیٰ نے نبی پاک Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرۂ مبارکہ کی مدح فرمائی اور فرمایا کہ ہم تمہارے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں تو ہم پھیردینگے تمہارے لیے قبلہ کو جیسا تم چاہتے ہو۔ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے 16 یا 17 ماہ بیت المقدس کےرُخ نماز پڑھی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بار بار چہرہ پھیرنے سے تحویل قبلہ کا واقعہ ہوا۔ یہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرۂ مبارکہ کے بار بار پھیرنے کی برکتیں ہیں اور ان کی خوشی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی کو قبلہ بنا دیا جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تمنا اور دلی تقاضا تھا۔ اس واقعے میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی عظیم شان کا اظہار ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لبہائے مبارک کی جنبش نہ ہوئی نہ صراحت ہوئی، نہ کلام پرجیسا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے چاہا اللہ تعالیٰ نے وہ عطا فرمادیا۔

چہرۂ مبارک حسن وجمال کا مرقّع

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا رخِ انوار تمام سے بڑھ کر حسین و جمیل تھا۔چنانچہ امام بخاریRehmatullah Alaih لکھتے ہیں کہ حضرت براء Radi Allah Anhoنے فرمایا:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم احسن الناس وجھا.16
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا چہرہ تمام لوگوں سے زیادہ حسین تھا۔

اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن سمرۃ Radi Allah Anho سے نقل کرتے ہوئےامام ترمذی Rehmatullah Alaih روایت کرتے ہیں:

عن جابر بن سمرة قال: رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى لیلة اضحیان و علیه حلة حمرآء فجعلت انظر الیه والى القمر فاذاھو عندى احسن من القمر.17
حضرت جابر بن سمرہ Radi Allah Anho فرماتے ہیں: میں نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو چودہویں رات میں دھاری دار سرخ یمنی جوڑا پہنے ہوئے دیکھا میں کبھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی طرف دیکھتا اور کبھی چاند کی طرف تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیرے نزدیک یقیناً چاند سے زیادہ حسین تھے۔

کسی شخص کے اس سوال کے جواب میں کہ کیارسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا چہرۂ مبارک تلوار کی مثل تھا؟ حضرت براء بن عازب Radi Allah Anho نے جواب میں کہا:

لا، بل مثل القمر.18
"نہیں"، بلکہ مثل ماہتاب تھا۔

صحابہ کرام Radi Allah Anhum نے حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرۂ انور کو فقط چاند ہی سے تشبیہ نہیں دی بلکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرۂ انور کو قرآن کا ورق بھی قرار دیا۔ چنانچہ حضرت انس Radi Allah Anhoسے مروی ہے:

حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مرضِ وصال کے دنوں میں سیدنا صدیق اکبر Radi Allah Anho نماز کی امامت کے فرائض انجام دیا کرتے، سوموار کا دن تھا صحابہ کرام Radi Allah Anhum صف درصف ان کے پیچھے نماز ادا کررہے تھے۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:

فكشف النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ستر الحجرة ینظر الینا وھو قائم كأن وجھه ورقة مصحف ثم تبسم یضحك فھممنا ان نفتتن من الفرح برؤیة النبى صلى اللّٰه علیه وسلم .19
تو اچانک نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنے حجرہ انور کا پردہ اٹھایا اور کھڑے ہوکر ہمیں دیکھا (ہم نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرہ انور کی زیارت کی) تو وہ قرآن کے ورق کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ ہماری کیفیت دیکھ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے تبسم فرمایا ہم نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دیدار فرحت آثار کی خوشی کی وجہ سے نماز توڑدینے کا ارادہ کرلیا۔

حضرت ابوبکر صدیق Radi Allah Anho مصلیٰ چھوڑ کر صف کی طرف آئے کیونکہ انہوں نے محسوس کیا کہ شاید آقا Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamتشریف لے آئے ہیں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ہمیں اشارے سے نماز کو پورا کرنے کا حکم دیا اور پردہ نیچے گرادیا اسی دن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا وصال ہوگیا۔

حضرت انس Radi Allah Anho سے مروی دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:

اخر نظرة نظرتھا الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وكشف الستارة یوم الاثنین فنظرت الى وجھه كانه ورقة مصحف.20
مجھے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرہ انور کی آخری زیارت اور دیدار اس وقت نصیب ہوا جب پیر کی د ن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے پردہ ہٹاکر صحابہ کرام کو نماز پڑھتے ہوئے ملاحظہ فرمایا۔ پس میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرہ انور کو قرآن مجید کا ایک ورق پایا۔

محدث کبیر امام عبدالرؤف مناوی Rehmatullah Alaihوجہ تشبیہ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ووجھه التشبیه حسن الوجه وصفاء البشرة وسطوع الجمال لما افیض علیه من مشاھدة جمال الذات.21
چہرہ اقدس اپنی صفائی، حسن اور جمال کی چمک دمک میں قرآن کے ورق کی طرح کیوں نہ ہو؟کیونکہ یہی تووہ چہرہ اقدس ہے جس نے جمال ذات باری تعالیٰ کے مشاہدہ سے فیضان پایا ہے۔

امام نووی "کان وجھہ ورقۃ مصحف" کے تحت لکھتے ہیں:

عبارة عن الجمال البارع وحسن البشرة وصفاء الوجه واستنارته.22
یہ جملہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے با جمال چہرۂ انور کے حسنِ صفائی اور اس کے انتہائی منور ہونے کی تعبیر ہے۔

اسی طرح شیخ ابراہیم بیجوری Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

یشبه ورقة مصحف فى الحسن والصفا فان ورقة المصحف مشتملة على البیاض والاشراق الحسى والمعنوى من حیث ما فیھا من كلام اللّٰه تعالى وكذلك وجھه الشریف مشتمل على الحسن وصفاء البشرة وسطوع الجمال الحسى والمعنوى.23
حسن وصفائی میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرۂ انور کو ورق مصحف اس لیے کہا کہ جس طرح ورق مصحف کلام الہٰی ہونے کی وجہ سے حسی ومعنوی نور پر مشتمل ہے اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا چہرہ انور بھی جمال حسی ومعنوی کا مرکز ومنبع ہے۔

نگاہِ جبریل میں اور کوئی نہیں

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حسن وجمال کے فریفتہ صرف انسان ہی نہیں تھے بلکہ خود سید الملائکۃ حضرت جبریل بھی اس پر فریفتہ تھے۔چنانچہ حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ Radi Allah Anhaسے روایت ہے کہ رسول پاک Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا :

عن جبریل علیه السلام قال: قلبت مشارق الارض ومغاربھا فلم اجدرجلاافضل من محمد صلى اللّٰه علیه وسلم ولم اربیتا افضل من بیت بنى ھاشم.24
جبریل نےکہا :میں نے تمام زمین کے مشرق ومغرب کوچھا ن مارا مگر نہ تومیں نے(سیدنا) محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے(کسی بھی چیز میں) بہتر کسی کو پایا نہ ہی میں نے بنوہاشم کے گھرسے بہتر کوئی گھر دیکھا۔

چہرہ مصطفوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجمالِ الہٰی کا آئینہ ہے

یوں تو کائنات کی ہر شے حسنِ باری تعالیٰ کی نشاندہی کرتی ہے ۔یہ چاند، سورج، ستارے، سبھی کے سبھی اس حسنِ مطلق کی تخلیق کے شاہکارہیں مگر ان سب سے بڑھ کر جمالِ الہٰی کا مظہر چہرہ وذاتِ مصطفوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہے ۔کیونکہ یہی وہ چہرہ اقدس ہے جو ہر وقت اﷲ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور توجہ کا مرکز ہے جسے قرآنِ مجید و فرقانِ حمید نے فانک باعیننا25 (آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہر وقت ہماری نگاہوں میں ہیں) کے دلنشین وفرحت بخش اور محبت بھرےالفاظ میں بیان کیا ہے۔چونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا چہرہ اقدس جمال الہٰیہ کا مظہر اتم ہے اسی وجہ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا:

من رانى فقد راى الحق.26
جس شخص نے مجھے دیکھا اس نے حق دیکھا۔

امام نبھانی Rehmatullah Alaihامام احمد بن ادریس Rehmatullah Alaihکے حوالے سے مذکور حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

من رانى فقد راى الحق تعالى.27
جس نے مجھے دیکھا گویا اس نے اﷲ کو دیکھا۔

حضرت ملا علی قاری Rehmatullah Alaihاس كی شرح ميں لکھتے ہیں:

نعم یصح ان یراد به الحق سبحانه على تقدیر مضاف، اى: راى مظھر الحق او مظھره اومن رانى فسیرى اللّٰه سبحانه. لان من ر اى النبی صلى اللّٰه علیه وسلم فى المنام فسیراہ یقظة فى دار السلام، فیلزم منه انه یرى اللّٰه فى ذلك المقام، ولا یبعد ان یكون المعنى من رانى فى المنام فسیرى اللّٰه فى المنام. فان رؤیتى له مقدمة او مبشرة لذلك المرام.28
یہاں الحق سے اﷲ تعالیٰ کی ذات مبارکہ بھی مراد لینا درست ہے البتہ مضاف مقدر ہوگا یعنی اس نے ذاتِ الہٰی کا مظہر دیکھايا یہ معنی ہے کہ جس نے میری زیارت کی تو وہ اﷲ تعالیٰ کی زیارت کا شرف بھی پائے گا۔ کیونکہ جس نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خواب میں زیارت کی وہ بیداری میں بھی جنت میں زیارت کرے گا ۔پس اس سے لازم آتا ہے کہ وہ اس مقام پر دیدار الہٰی سے بھی مشرف ہوگا اور یہ معنی بھی بعید نہیں کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا وہ عنقریب خواب میں دیدار الہٰی سے مشرف ہوگا۔ کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زیارت اس بات کی بشارت اور پیش خیمہ ہے کہ وہ شخص اپنے رب کریم کی زیارت سے مشرف ہوگا۔

برصغیر کی معتبر علمی و روحانی شخصیت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکیRehmatullah Alaih اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:

حضرت رسالت مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے فرمان "من رانی فقد رای الحق" کے دو معنی ہیں:
اول یہ کہ "من رانی فقد رانی یقیناًفان الشیطان لا یتمثل بی"دوم یہ کہ "من رانی فقد رای اللّٰه تعالیٰ"یعنی اس فرمان نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ جس نے مجھے دیکھا یقیناًاس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا اور دوسرا معنی یہ ہوگا کہ جس نے مجھے دیکھا اس نے اﷲ تعالیٰ کو دیکھا۔29

شیخ عبد الحق محدث دہلوی Rehmatullah Alaihچہرۂ اقدس کو جمالِ الہٰی کا آئینہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:

او وجه شریف وےصلى اللّٰه علیه وسلم مرآت جمالِ الٰھى ومظھر انوار نامتناھى وے.30
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا چہرہ اقدس اﷲ تعالیٰ کے جمال کے لیے آئینہ ہے اور اس قدر انوار الہٰی کا مظہر کہ اس کی حد نہیں۔

چہرۂ مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر خوشی کے اثرات

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجب خوش ہوتے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مبارک چہرہ پر اس کے اثرات نمایاں ہوجاتے۔چنانچہ اس حوالہ سےام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ Radi Allah Anhaبیان کرتی ہیں:

ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم دخل علیھا مسرورا تبرق اساریر وجھه فقال الم تسمعى ما قال المدلجى لزید واسامة وراى اقدامھما ان بعض ھذه الاقدام من بعض.31
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamان کے پاس خوش خوش تشریف لائے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا‘ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا کیا تم نے نہیں سنا کہ المدلجی نے زید اور اسامہ Radi Allah Anhuma کے متعلق کیا کہا ہے! اس نے ان دونوں کے قدم دیکھ کر کہا! یہ بعض قدم! بعض قدموں کا جز ہیں۔

حضرت ابوہریرہ Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں :

واذا ضحك كاد یتلالا فى الجدر لم ارقبله ولا بعده مثله صلى اللّٰه علیه وسلم.32
جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مسکراتے تھے تو دیواریں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے نور سے جگمگا اٹھتیں۔ میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے قبل یا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجیسا حسین نہیں دیکھا۔

ملا علی قاریRehmatullah Alaih نے درج ذیل الفاظ میں حدیث کا ترجمہ کیا ہے:

أى: یشرق نوره علیه إشراقا كإشراق الشمس علیھا .33
یعنی دیواروں پر نور اس طرح چمکتا جس طرح سورج کی وجہ سے دھوپ پڑتی ہے۔

حاشیہ زرقانی علی المواہب نہایہ ابن اثیر Rehmatullah Alaihکے حوالہ سے ہے:

انه علیه الصلوٰة والسلام كان اذا سر فكان وجھه المرآة التی ترى فیھا صور الاشیاء وكان الجدر تلاحك وجھه. اى: یرى الجدر فى وجھه صلى اللّٰه علیه وسلم.34
جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمسرور و خوش ہوتے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا چہرہ مثل آئینے کے ہوجاتا کہ اس میں اشیاء کا عکس نظر آتا اور دیواریں آپ ﷺکے چہرہ میں نظر آجاتیں۔

اسی طرح امام زرقانی Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

ان وجھه صلى اللّٰه علیه وسلم كان شدید النور بحیث یقع نوره على الجدار اذا قابلھا.35
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا چہرہ اقدس اس قدر نورانی تھا کہ جب اس کی نورانیت دیواروں پر پڑتی تو وہ چمک اٹھتیں۔

حضرت حلیمہ سعدیہRadi Allah Anha کے گھر میں ہمہ وقت اجالا

قاضی ثناء اﷲ پانی پتیRehmatullah Alaih شمائل محمدیہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha کے گھر جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آمد ہوئی تو ان کا گھر روشن رہتا تھا۔حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha نے لوگوں پر اس حقیقت کو آشکار کرتے ہوئے فرمایا:

ما كنا نحتاج الى السراج یوم اخذناه لان نور وجھه كان انور من السراج فاذا احتجنا الى السراج فى مكان جئنا به فتنورت الامكنة ببركته صلى اللّٰه علیه وسلم .36
جس دن سے ہم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو اپنے گھر لائے ہیں اس دن سے ہمیں گھر میں چراغ جلانے کی حاجت نہ رہی کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرہ انور کانور چراغ سے زیادہ منور تھا جب کبھی ہمیں کسی جگہ چراغ کی ضرورت ہوتی تو ہم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو اٹھاکر وہاں لے جاتے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی برکت سے تمام جگہ روشن ہوجاتی۔

حضورِ اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرۂ انور کی تابانی

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہRadi Allah Anha آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرہ اقدس کے اعجاز کے بارے میں بیان کرتی ہیں کہ ایک اندھیری رات میں مجھ سے سوئی زمین پر گر پڑی۔ میں تلاش کر ہی رہی تھی کہ اچانک رسالت مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مبارک چہرہ سے نور کی شعاعیں نکلنا شروع ہوگئیں اس چمک کی وجہ سے مجھے گم شدہ سوئی مل گئی۔چنانچہ اس روایت کے متعلق امام اصبہانی Radi Allah Anhumaکے الفاظ اس طرح ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہRadi Allah Anha فرماتی ہیں:

قالت استعرت من حفصة بنت رواحة ابرة كنت اخیط بھا ثوب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فسقطت عنى الابرة فطلبتھا فلم اقدر علیھا فدخل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فتبینت لشعاع نور وجھه.37
میں نے حفصہ بنت رواحہ Radi Allah Anhaسے ایک سوئی ادھار پر لی تھی جس سے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا کپڑا سی رہی تھی اور مجھ سے وہ سوئی گرگئی۔ میں نے اسے ڈھونڈا لیکن اسے نہ پاسکی۔ اتنے میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamداخل ہوئے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرہ انور کی نور میں مجھے سوئی نظر آگئی۔

یہ صرف ایک مرتبہ کا واقعہ یا اتفاقیہ معاملہ نہ تھا بلکہ آپ فرماتی ہیں:

كنت ادخل الخیط فى الابرة حال الظلمة لبیاض رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم .38
میں ہمیشہ رات کی تاریکی میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرہ اقدس کے نور کی روشنی میں سوئی میں دھاگہ ڈال لیا کرتی تھی۔

حجر اسود کی تعظیمِ مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam

حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anhaبیان فرماتی ہیں کہ جب ہم حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو لے کر واپس اپنے خاندان میں جانے لگے تو خواہش ہوئی کہ جانے سے پہلے بیت اﷲ شریف کا طواف کرلینا چاہیے۔ میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو اٹھاکر حرم کعبہ لے گئی۔ طواف شروع کرنے سے پہلے میں نے چاہا کہ حجر اسود کو بوسہ دوں لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب حجر اسود نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو دیکھا تو اپنی جگہ سے حرکت کرکے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی طرف بڑھا حتی کہ چہرۂ اقدس سے چمٹ کر اس نے بوسے لینے شروع کردئیے۔

قاضی ثناء اﷲ پانی پتی Rehmatullah Alaihنے مذکورہ روایت کو ان الفاظ سے بیان کیا ہے:

روى ان حلیمة لما اخذته دخلت على الاصنام فنكس الحبل راسه وكذا جمیع الاصنام من اماكنھا تعظیما له وجاء ت به الى الحجر الاسود لیقبله فخرج من مكانه حتى التصق بوجھه الكریم صلى اللّٰه علیه وسلم.39
جب حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anhaآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو لے کر بتوں کے پاس گئیں تو حبل اور دیگر تمام بتوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعظیم کی خاطر سر جھکا دیا اور جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو لے کر حجر اسود کے پاس پہنچیں تو وہ دیکھتے ہی اپنی جگہ سےاکھڑکر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرہ انور کے ساتھ چمٹ گیا۔

چہرۂ اقدس حق کا پرتو

حضرت عبداﷲ بن سلامRadi Allah Anho جو اسلام لانے سے قبل یہود کے بہت بڑے عالم تھے۔وہ فرماتے تھے کہ اسلام کے دامن رحمت میں آنے سے پہلے جب میں نے نبی آخر الزماں Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بارے میں سنا تو نبوت کی دعویدار اس ہستی کو دیکھنے کے لیے آیا۔ اس وقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمسجدِ نبوی میں تشریف فرما تھے۔ حضرت عبداﷲ بن سلام Radi Allah Anhoفرماتے ہیں:

فلما استبنت وجه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عرفت ان وجھه لیس بوجه كذاب.40
پس جب میں نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا چہرۂ اقدس دیکھا تو میرا دل پکار اٹھا کہ یہ (نورانی) چہرہ کسی جھوٹے شخص کا نہیں ہوسکتا۔

اسی طرح حضرت حارث بن عمرو سہمیRadi Allah Anho فرماتے ہیں:

اتیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وھو بمنی او بعرفات وقد اطاف به الناس قال: فتجئى الاعراب فاذا راوا وجھه قالوا ھذا وجه مبارك.41
میں منیٰ یا عرفات کے مقام پر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی بارگاہ میں حاضر ہوا اور (دیکھا کہ) حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زیارت کے لیے لوگ جوق در جوق آرہے ہیں پس میں نے مشاہدہ کیا کہ دیہاتی آتے اور جب وہ آپ ﷺکے چہرہ اقدس کی زیارت کرتے تو بے ساختہ پکار اٹھتے کہ یہ بڑا ہی مبارک چہرہ ہے۔

طارق بن عبداﷲ Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں کہ ہمارے قافلے نے مضافات مدینہ میں پڑاؤ ڈالا۔ ہمارے قافلے میں نبی آخر الزماں Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamتشریف لائے۔ اس وقت تک ہم حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ذاتِ اقدس سے آشنا نہیں تھے۔آقائے محتشم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ہمارا سرخ اونٹ پسند آگیا اونٹ کے مالک سے سودا طے ہوالیکن اس وقت حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاس رقم نہ تھی۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے طے شدہ رقم بھجوانے کا وعدہ کیا اور سرخ اونٹ لے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے تشریف لے جانے کے بعد اہل قافلہ اپنے خدشات کااظہار کرنے لگے کہ ہم نے تو سرخ اونٹ کے خریدار کا نام تک دریافت نہیں کیا اور محض وعدے پر اونٹ ایک اجنبی کے حوالے کردیا ہے۔ اگر اونٹ کے خریدار نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا تو کیا ہوگا؟ لوگوں کی قیاس آرائیاں سننے کے بعد سالار قافلہ کی بیوی قافلے والوں کو مخاطب کرکے یوں گویا ہوئی:

لا تلاوموا، فإنى رأیت وجه رجل لم یكن لیحقركم، ما رأیت شیئا أشبه بالقمر لیلة البدر من وجھه.42
تم ایک دوسرے کو ملامت نہ کرو بیشک میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا ہے (اور میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ) وہ ہرگز تمہیں رسوا نہیں کرے گا۔ میں نے اس شخص کے چہرے سے بڑھ کر کسی چیز کو چودھویں کے چاند سے مشابہ نہیں دیکھا۔

جب شام ہوئی تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا میں رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا قاصد ہوں یہ کھجوریں لو پیٹ بھر کر کھا بھی لو اور اپنی قیمت بھی پوری کرلو۔ تو ہم نے خوب سیر ہوکر کھجوریں کھائیں اور (اونٹ کی) قیمت بھی پوری کرلی۔

جمالِ چہرۂ اقدس پر محترم چچا کا خراجِ عقیدت

حضوراکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےچچا جناب حضرت ابو طالب Radi Allah Anhoنے ایک موقع پر چہرۂ مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا نقشہ یوں کھینچا:

وأبیض  یستسقى  الغمام  بوجھه        ثمال  الیتامى  عصمة  للأرامل.43

وہ ( Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)گورے رنگ والے جن کے روئے روشن کے توسل سے مینہ برستا ہےیتیموں کے جائےپناہ، بیواؤں کے نگہبان ہیں۔

صحابی رسول حضرت کعب بن زبیرRadi Allah Anho نےچہرۂ مصطفیٰ کا بڑا نورانی منظر نامہ بیان فرمایا۔چنانچہ امام قسطلانی نے ابوبکر بن الانباری کے حوالے سے ایک روایت نقل کی کہ جب حضرت کعب Radi Allah Anhoقیصدہ پیش کرنے کے دوران اس شعر پر پہنچے:

ان     الرسول   لنور   یستضاء   به
مھند  من  سیوف  اللّٰه  مسلول.44

بے شک رسول خدا Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamایسا نور ہیں جن سے (ہدایت کی) روشنی حاصل کی جاتی ہے آپ اللہ کی کھینچی ہوئی تلواروں میں ایک عمدہ تلوارہیں۔

توحضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ردائے مبارک جو اس وقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسم اقدس پرتھی حضرت کعبRadi Allah Anho کو عطا فرما دی۔

حسنِ مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاور شاعرِ رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam

اسی طرح رخ زیبا کی تعریف و مدح بیان کرتے ہوئےحضرت حسان بن ثابت Radi Allah Anho فرماتے ہیں:

و احسن  منک  لم ترقطّ  عینی        اجمل    منک    لم تلد      النساء
خلقت   مبرأ   من   كل   عیب        و كانك  قد  خلقت  كما تشاء .45

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسا حسین میری آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے زیادہ جمیل کسی عورت نے جنا ہی نہیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے گویا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamایسے پیدا کیے گئے جیسا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے چاہا۔46

امام شرف الدین بو صیری کا بارگاہِ اقدس میں خراجِ تحسین Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam

عرب وعجم میں معروف نعتیہ کلام قصیدہ بردہ شریف میں امام شرف الدین بوصیریRehmatullah Alaih نے کمالِ حسن حضور یوں بیان فرمایا :

فھو  الذى   تم   معناه   وصورته
ثم  اصطفاه  حبیبا  بارى  النسم.47

یعنی ،پس آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamوہ (ذات اتم) ہیں جن کے ظاہری و باطنی کمالات مکمل ہوئے تو خالق ارواح نے انھیں اپنا منتخب و محبوب بنالیا۔

اس سے مراد یہ ہے کہ مخلوق میں اگرکوئی مکمل واتم ہے تووہ صرف ذات مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی صورت تمام ظاہری کمالات و حسن کا مرقع ہےاور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا باطن تمام اخلاق و محامد کا مجموعہ ہے۔ یعنی رب کائنات نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو جتنی عظمت بخشی اس سے بڑھ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو اعزاز عطا کیا اور وہ اعزاز محبوبیت کا ہے۔

امام بوصیری Rehmatullah Alaih نے اسی قصیدہ میں ایک جگہ پیارے آقا Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو سورج سے تشبیہ دی اور تمام انبیائے کرام Radi Allah Anhum کو ستاروں سے۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

فإنّه  شمس  فضل  ھم  كواكبھا       یظھرن  أنوارھا  للنّاس  فى  الظّلم.48

یعنی ، بے شک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamفضیلت و برتری میں (روشن) آفتاب کی مانند ہیں اور سب انبیائے کرام روشن ستارے ہیں جو اس آفتاب نبوت کے انوار کو لوگوں کے لیے تاریکیوں میں ظاہر کررہے ہیں۔

اور ایسا کیوں نہ ہو کہ بقول کسے وہ اگر جلوہ کریں تو کون تماشاہی ہو؟مذ کورہ بالا صفحات میں چہرۂ مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ظاہری حسن کا تفصیلی ذکر کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حسن کی حقیقت کوسمجھانے کے لیے الفاظ ناکافی ہیں ۔ ان کے حسن کا طالب تو خود اللہ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو بنایا۔ ہر کسی کو دیدارمصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاور لقائے محبوب کا متمنی بنایا اور حقیقت یہ ہے کہ حقیقت جمال مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamتو دیکھنے کی کسی آنکھ میں تاب ہی نہیں ہے۔ جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ السلام کے والد شاہ عبدالرحیم دہلوی نے ذکر کیا کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا:

جمالى مستورعن اعین الناس غیرة من اللّٰه ولوظھر لفعل الناس اكثر ممافعلوا حسین راؤ یوسف.49
یعنی ، میرا حسن و جمال پردے میں چھپا ہوا ہے اگر ظاہر ہوجائے تو لوگوں کا حال اس حال سے زیادہ ہو جوان کا یوسف کو دیکھ کر ہوا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے غیرت کی وجہ سے میرے حسن کو چھپا رکھا ہے ۔

حضرت ابوبکرصدیق Radi Allah Anho کو سرکار نے خود فرمایا:

یا ابابكر الذى بعثنى بالحق لم یعرفنى حقیقة غیرربى.50
یعنی ،اے ابوبکر مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے مجھے معبوث فرمایا مجھے میرے رب کے سوا کسی نے (کماحقہ) پہنچانا ہی نہیں۔

یعنی نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حسن و جلوہ کو اللہ ربُّ العزّت نے پردوں میں ظاہر فرما یا ہے اور سوائے اللہ رب العزت کے نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی حقیقت خلقت کو کوئی اور نہیں جانتا۔

نبی اکرم حسن وجمال کا بے مثل و بے نظیر مرقع تھے اور اس بے نظیر حسن ِ کامل کا عکس آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسدِ اقدس کے تمام تر حصو ں میں نمایاں نظر آتاتھا۔بالخصوص آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرۂ مبارک میں اس حسنِ کامل کا بدرجہ اتم واکمل اظہار ہوتا تھا۔جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمسرور ہوتے اور مسکراتے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حسنِ تاباں میں مزید اضافہ ہوتا تھا جس سے ارد گرد کے درو دیوار پر نور کی کرنیں پڑتی تھیں اور ماحول یکسر تبدیل ہوجایا کرتا تھا۔اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا چہرۂ مبارک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسمِ اطہر کا وہ خوبصورت ترین حصہ تھا کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اگر ایک بار دیکھ لیتے تو منصف مزاج اشخاص آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی صداقت و حقانیت کی گواہی دیتے اور علی الاعلان رسالت نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا اقرار کر کے ہمیشہ کے لیے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قافلہ حق میں شامل ہوجایا کرتے تھے۔


  • 1  القرآن، سورۃ التین 95 : 4
  • 2  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ الاصفہانی، دلائل النبوۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986ء، ص:637
  • 3  القرآن، سورۃ ا لضحیٰ 93: 1-3
  • 4  علی بن سلطان القاری، شرح الشفا، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1421ھ، ص:90
  • 5  محمد بن عبدالباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب، ج-8 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص:444
  • 6  محمد بن عمر بن حسن فخر الدین الرازی، مفاتیح الغیب التفسیر الکبیر، ج-31، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1420ھ، ص:191
  • 7  نظام الدین حسن بن محمد نیسابوری، غرائب القرآن ورغائب الفرقان ،ج-6 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1416ھ، ص:515
  • 8  شہاب الدین محمود بن عبداﷲ الآلوسی، روح المعانی، ج-15، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:373
  • 9  اسماعیل حقی بن مصطفی، تفسیر روح البیان، ج-10، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً) ، ص:453
  • 10  شاہ عبد العزیز بن ولی اﷲ الدہلوی، تفسیر عزیزی ، مطبوعہ :کتب خانہ رحیمیہ ،دیوبند، یوپی،ہند، 1388ء، ص:219
  • 11  منصور بن محمد بن عبد الجبار سمعانی، تفسیر السمعانی، ج-1 ، مطبوعۃ: دار الوطن، الریاض، السعودیۃ، 1997ء، ص:151
  • 12  ابو محمد الحسين بن مسعود البغوى، معالم التنزيل فى تفسير القرآن، ج-1 ، مطبوعۃ: دار طیبۃ للنشر والتوزیع، 1997ء، ص:16
  • 13  القرآن، سورۃ البقرۃ 2 : 144
  • 14  ابو جعفر محمد بن جریر طبری، جامع البیان، ج-2 ، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1410ھ، ص:13
  • 15  ابو الخطاب عمر بن الحسن ابن دحیہ کلبی، الآیات البینات فی ذکر ما فی اعضاء رسول اﷲ ﷺ، مطبوعۃ: مکتبۃ العمرین العلمیۃ، الامارات، العربیۃ المتحدۃ، 2000ء، ص:200
  • 16  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3549، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر، 2003ء، ص:74
  • 17  محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 9، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:14
  • 18  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث :3552، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر، 2003ء، ص:744
  • 19  ایضًا:حدیث: 680 ، ص:148
  • 20  محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 368، مطبوعۃ: دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ئ، ص:181-182
  • 21  عبدالرؤف بن تاج العارفین عناوی، حاشیۃ بر جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج-2 ، مطبوعہ نور محمد اصح المطابع، کراتشی، باکستان، (لیس التاریخ موجوداً )، ص:255
  • 22  شرف الدین یحییٰ بن شرف النووی، شرح صحیح مسلم، ج-4، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1392ھ، ص:142
  • 23  ابراہیم بن محمد بیجوری، المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، 1956ء، ص:194
  • 24  ابو القاسم سليمان بن احمد الطبرانى،المعجم الاوسط، حدیث:6285، ج-6، مطبوعة:دار الحرمين،القاهرة، مصر، ( لیس التاریخ موجوداً)،ص:237
  • 25  القرآن، سورۃ الطور48:52
  • 26  احمد بن حنبل الشیبانی ، مسند احمد، حدیث:11522، ج-18، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص:83
  • 27  یوسف بن اسماعیل نبہانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختار، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:63
  • 28  نور الدین بن سلطان القاری، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج-2، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:236
  • 29  امداد اﷲ مہاجر مکی، شمائم امدادیہ ،مطبوعہ: لکھنؤ ،انڈیا، (سن اشاعت ندارد )، ص:9
  • 30  الشیخ عبد الحق دہلوی، مدارج النبوۃ، ج-1 ،مطبوعۃ: منشی لول کشور ،بھارت، (سن اشاعت ندا رد ) ،ص:3
  • 31  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:3555، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر، 2003ء، ص:744
  • 32  عبد الرزاق بن ہمام صنعانی، مصنف عبد الرزاق، حدیث، 20490، ج-11، مطبوعۃ المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1403ھ، ص:159
  • 33  نور الدین علی بن سلطان القاری، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج-2، مطبوعہ نور محمد اصح المطابع، کراتشی، باکستان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:15
  • 34  محمد بن عبدالباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب، ج-5، مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص:257
  • 35  ایضًا: ج-8، ص:444
  • 36  قاضی ثناء اﷲ المظھری، تفسیر المظہری، ج-6، مطبوعۃ: مکتبۃ رشیدیۃ،کوئتۃ، باکستان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:528
  • 37  اسماعیل بن محمد الاصبھانی، دلائل النبوۃ، حدیث117، مطبوعۃ : دار طیبۃ ،الریاض،السعودیۃ، 1409ھ ، ص:113
  • 38  علی بن سلطان القاری، شرح الشفا، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1433ھ ، ص:159
  • 39  قاضی ثناء اﷲ المظھری، تفسیر المظہری، ج-6، مطبوعۃ:مکتبۃ رشیدیۃ،کوئتۃ، باکستان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:528
  • 40  محمد بن عیسیٰ،سنن الترمذی، حدیث: 2458، ج-4، مطبوعۃ :دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:652
  • 41  ایضاً
  • 42  محمد بن حبان ابو حاتم، صحیح ابن حبان، حدیث: 6562، ج -14، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص :518
  • 43  ابو عبدالله محمد بن إسماعيل البخارى، صحیح البخاری، حدیث:1008، دارالسلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1419ﻫ ، ص:162
  • 44  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقی الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-4، مطبوعہ:دار الکتب العلمیۃِ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص:61
  • 45  الدکتور محمد سعید رمضان البوطی، مختارات من اجمل الشعر فی مدح رسول اللہ ﷺ، مطبوعۃ:دار المعرفۃ،دمشق، سوریہ، 1408ھ، ص:10
  • 46  حضرت حسان بن ثابت کی اس رباعی کا ایک حسین ودلکش ترجمہ یوں بھی ہے:نہ دیکھا میری آنکھوں نے کوئی تم ساحسین جاناں آﷺ۔صدف نے تم سا اگلاہی نہیں درثمیں جاناں ﷺ۔تمہیں پیدا کیا ہرعیب سے یوں پاک فرما کر کہ جیسے اپنی صفی سے بنے ہو نازنی جاناںﷺ۔
  • 47  اما م شرف الدین بوصیری،قصیدہ بردہ شریف،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور،پاکستان،2014ء،ص:115
  • 48  ایضًا:ص:135
  • 49  شاہ ولی اللہ، الدرالثمین فی مبشرات النبی الامینﷺ، مطبوعۃ: مطبوعۃ:مکتبۃ الشیخ،کراتشی، باکستان، 1430ھ، ص:7
  • 50  امام محمد مھدی الفاسی، مطالع المسرات، مطبوعۃ:مکتبۃ نوریۃ رضویۃ، لاھور، باکستان، (لیس التاریخ موجوداً ) ص: 120

Powered by Netsol Online