encyclopedia

آپ ﷺکا قلب اطہر

Published on: 02-Nov-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ،علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 36، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 486-493)

حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قلب مبارک کی وسعتوں اور گہرائیوں کا اندازہ لگانا اوراس بارے میں لب کشائی کی جرات کرنا انسان کی طاقت سے باہر ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا قلب مبارک اﷲ تعالیٰ کی خصوصی تجلیات وانوار اور علوم و معارف کا مرکز تھا ۔سب سے اعلیٰ وحی کے نزول کا محل اور مرکز یہی قلب اطہر بنا جوتمام کائنات کے دلوں سے پاکیزہ ، بہتر، نرم رقیق، وسیع وقوی اور تقویٰ و نظافت کا سرچشمہ تھا ۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا قلب اقدس کئی صفات سے متصف تھا مثلاً آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا قلب مبارک صرف حالت بیداری میں نہیں بلکہ حالت نیند میں بھی بیدار رہتا تھا۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قلب اطہر ہی کے انوار و کمالات سے تمام کائنات آج تک فیضیاب ہورہی ہے اور قیامت تک ہوتی رہےگی۔

یہ حقیقت پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جس مرتبہ کمال پر اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو فائز فرمایا ہے کسی اور کے لئے یہ منزلت رفیعہ ثابت نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے راز اور اخلاص کا مقام دل کو بنایا ہے ۔اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس بندے کے دل کو چن لیتا ہے اس کو اپنے راز کا امین بنالیتا ہے اور سب سے پہلے جس مبارک دل کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے راز کا امین بنایا وہ قلب مبارک سید الخلق رحمۃ للعالمین محمد مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہے کیونکہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamخلق میں سب سے پہلے ہیں اور ظہور میں سب انبیاء Alaihmus Salamسے آخر میں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی حکمت نے اجسام وقوالب کے اخلاق کو دلوں میں مخفی رازوں کی علامت اور نشانی بنایا ہے ۔پس جس کے دل میں راز خداوندی متحقق ہوگیا اس کے اخلاق میں بڑی وسعتیں پیدا ہوجاتی ہیں اور اس کی شفقت کا سایہ کسی ایک نوع اور جنس کے ساتھ مخصوص نہیں رہتا بلکہ اﷲ تعالیٰ کی ساری مخلوق، خواہ اس کا تعلق نباتات سے ہو، جمادات سے ہو یا حیوانات سے ہو، سب پر یکساں رہتا ہے۔ وہ نوع انسانی میں ہر فرد کے ساتھ ایسے اخلاق سے پیش آتا ہے جس سے اس کا بگاڑ دور ہوتا ہے اور اس میں خوبیاں نمودار ہوتی ہیں۔ اور اسی شفقت کے پیش نظر کبھی اس کو سختی سے بھی پیش آنا پڑتا ہے ۔بلکہ بعض اوقات اس کی خیر خواہی کے لیے اس پر حدود بھی نافذ کی جاتی ہیں۔ اس طرح ہر نرمی اور سختی ہر پیار اور ہر شدت میں اس کی بہتری ملحوظ ہوتی ہے۔1

قرآن کریم میں قلب مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam

قرآن کریم کی بعض آیات اور الفاظ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قلب مبارک سے منسوب ہیں اور مفسرین نے ایسے مقامات کی نشاندہی بھی کی ہے۔امام ثعلبی ، امام خازن اور امام بغوی رحمہما اﷲ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عباس Radi Allah Anhumaنے حضرت کعبRadi Allah Anho سے کہا کہ مجھے مثل نورہ کمشکوۃ (الایۃ) کے بارے میں بتائیے کہ اس سے کیا مراد ہے؟تو حضرت کعب Radi Allah Anhoنے جواب دیا:

ھذا مثل ضربه اللّٰه سبحانه لحمد صلى اللّٰه علیه وسلم فالمشكوة صدره والزجاجة قلبه والمصباح فیه النبوة توقد من شجر مباركة ھى سجرة النبوة.2
(آیت مذکورہ میں) باری تعالیٰ نے اپنے محبوب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے متعلق ایک مثال بیان فرمائی ہے۔ مشکوۃ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سینہ اقدس مراد ہے زجاجۃ سے مراد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا قلب اطہر ہے جبکہ مصباح سے مراد وہ صفت نبوت ہے جو شجرہ نبوت سے روشن ہے۔

امام ابو حاتم رازی Rehmatullah Alaihاپنی سند کے ساتھ اس کو ان الفاظ میں روایت کرتے ہیں:

عن شمر بن عطیة قال جاء ابن عباس الى كعب الاحبار فقال حدثنى عن قول اللّٰه فیھا مصباح والمصباح قلبه یعنى قلب محمد صلى اللّٰه علیه وسلم و عن ابى بن كعب فى قوله المصباح فى زجاجة فذلك النور فى زجاجة والزجاجة قلبه.3
شمر بن عطیہ سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباس Radi Allah Anhuma کعب الاحبار Radi Allah Anhoکے پاس آئے توفرمایا کہ مجھے اللہ تبارک وتعالی کے فرمان: فیھامصباح کے بارے میں بتائیں تو (انہوں نے کہا) مصباح سے مراد آپ ﷺکا قلب انور ہے۔حضرت ابی بن کعب Radi Allah Anho سے باری تعالی کے فرمان: المصباح فی الزجاجۃ کے بارے میں منقول ہے کہ یہ نور شیشی میں ہے اور شیشی سے مراد آپ ﷺکا قلب انور ہے۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اﷲ رب العزت نے حضور ﷺکے مبارک سینے کو انوار و معارف الٰہیہ کا خزینہ بنایا تھا۔اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالنَّجْمِ اِذَا ھوٰى14
قَسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشمِ زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے۔

امام جعفر صادق Radi Allah Anho سے "والنجم اذا ھویٰ" کے بارے میں منقول ہے کہ النجم سے مراد حضور ﷺکا قلب انور ہے۔قاضی عیاض Rehmatullah Alaih نے ان کا قول ان الفاظ میں ذکر کیا ہے۔

ھو قلب محمد صلى اللّٰه علیه وسلم .5
نجم سے مراد حضرت محمد مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا قلب انور ہے۔

شیخ احمد شہاب الدین خفاجی Rehmatullah Alaihاس کے تحت لکھتے ہیں کہ ان انوار سے وہ ربانی تجلیات مراد ہیں جو علوم و حکم اور کمالات ومشاہدات کی صورت میں آپ ﷺکو حاصل ہوئیں اس کے بعد قلب اقدس کو نجم کہنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

وتشبیه قلبه صلى اللّٰه علیه وسلم بالنجم لا یخفى ظھوره لا شراقه بنور ربه.6
قلب انور کی نجم کے ساتھ تشبیہ واضح ہے کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا قلب اقدس رب کریم کے انوار سے روشن ہے۔

رب تعالیٰ کا انتخاب قلب مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam

قلب نبوی تمام بندوں کے دلوں سے افضل و اعلیٰ ہے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے صحابہ کا دل تمام نوع انسانی سے بہتر ہے ۔چنانچہ امام ابوداؤد الطیالسی Rehmatullah Alaihروایت کرتے ہیں:

عن عبداللّٰه قال ان اللّٰه عزوجل نظر فى قلوب العباد فاختار محمداً فبعثه برسالاته وانتخبه بعلمه ثم نظر فى قلوب الناس بعده فاختارله اصحابه فجعلھم انصار دینه ووزاء نبیه صلى اللّٰه علیه وسلم فما راه المومنون حسنا فھو عنداللّٰه حسن وما راه المومنون قبیحا فھو عنداللّٰه قبیح.7
سیدنا عبداﷲ بن مسعود Radi Allah Anho بیان فرماتے ہیں کہ اﷲ عزوجل نے اپنے بندوں کے دلوں کو دیکھا تو حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دل کا انتخاب کیا۔پس آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو رسالت کے ساتھ مبعوث کیا اور اپنے علم کے ساتھ منتخب کیا۔ پھر اپنے بندوں کے دلوں کی طرف دیکھا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے اصحاب کرام کا انتخاب کیاتو انہیں اپنے دین کا مددگار بنایا اور انہیں اپنے نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا وزیر بنایا۔ سو جس کو مؤمنین اچھا خیال کریں وہ اﷲ کے ہاں بھی اچھا ہوتا ہے اور جس کو مؤمنین برا سمجھیں وہ اﷲ کے ہاں بھی برا ہوتا ہے۔

امام احمد بن حنبلRehmatullah Alaih نے اس حدیث مبارکہ کو ان الفاظ میں روایت کیا ہے:

عن عبداللّٰه بن مسعود قال ان اللّٰه نظر فى قلوب العباد فوجد قلب محمد صلى اللّٰه علیه وسلم خیر قلوب العباد فاصطفاه لنفسه فابتعثه برسالته ثم نظر فى قلوب العباد بعد قلب محمد فوجد قلوب اصحابه خیر قلوب العباد فجعلھم وزراء نبیه یقاتلون على دینه فما راى المسلمون حسنا فھو عنداللّٰه حسن وما راوا سیئا فھو عنداللّٰه سیئى.8
حضرت عبداﷲ بن مسعودRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں کہ اﷲ نے بندوں کے دلوں کی طرف دیکھاتو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قلب اقدس کو سب سے افضل پایا لہٰذا انہیں اپنی ذات کے لئے منتخب کرتے ہوئے رسالت کے لیے مبعوث فرمایا۔ پھر حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دل کے بعد بندوں کے دلوں کی طرف دیکھا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے اصحاب کا دل تمام سے افضل پایا پس انہیں اپنے پیارے نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی معیت وصحبت عطا کی۔ انہوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مشن کی خاطر خوب قربانی دی پس جس عمل کو مسلمان اچھا جانیں وہ اﷲ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جسے مسلمان برا جانیں وہ اﷲ کے ہاں بھی برا ہے۔

قلب مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamگنجینہ اسرار خداوندی

اﷲ تعالیٰ نے دلوں کو اپنے راز ونیاز اور اخلاص کا محل بنایا ہے اور اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اپنے لیے منتخب فرمالیتا ہے ۔سب سے اولین دل جو اﷲ کے خصوصی رازوں کا محل ومرکز بنا وہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا قلب انور ہی تھا۔ اس حوالہ سے امام قسطلانیRehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

اول قلب اودعه الیه قلب محمد صلى اللّٰه علیه وسلم لانه اول خلق.9
سب سے پہلا دل جسے اﷲ تعالیٰ نے اپنے راز کا مرکز بنایا وہ قلب مصطفوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہے کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تخلیق سب سے پہلے ہوئی۔

اسی حوالہ سےشیخ عبد الحق محدث دہلویRehmatullah Alaih لکھتے ہیں کہ امام لغت حضرت اصمعیRehmatullah Alaih سے ایک شخص نے پوچھا حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے فرمان "انہ لیغان علی قلبی" (میرے دل پر بعض اوقات بوجھ آتا ہے) سے کیا مراد ہے تو انہوں نے فرمایا:

اگر از غیر قلب رسول ا للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وغین اومى پرسیدید مگیفتم انچه میدانستم اما ایں جادم نتوانم زركه حقیقت آنرا جز علام الغیوب كسے نداند.10
اگر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے علاوہ کسی کے قلب اور اس پر بوجھ کے بارے میں سوال ہوتا تو اس پر گفتگو کرتا مگر یہاں میں دم نہیں مارسکتا کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قلب انور کے معاملہ کو سوائے اﷲ تعالیٰ کے کوئی نہیں جان سکتا۔

دل مبارک مصدر خشیت الہٰی

قلب نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسب سے بڑھ کر تقویٰ کے زیور سے آراستہ تھاکیونکہ خود آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا ارشاد گرامی ہے:

اما واللّٰه انى لاخشاكم للّٰه واتقاكم له.11
سنو بخدا میں تم سب سے زیادہ اﷲ سے خشیت اور اﷲ سے تقویٰ رکھنے والا ہوں۔

قلب نبوی اور کینہ سے برأت

حضرت عبداﷲ بن مسعود Radi Allah Anhoسے مروی ہے کہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنے صحابہ کرام Radi Allah Anhoکو مخاطب کرکے فرمایا تم میں سے کوئی دوسرے کے بارے میں مجھے کوئی چیز نہ پہنچائے:

فانى احب ان اخرج الیكم وانا سلیم الصدر.12
میں پسند یہ کرتا ہوں کہ میں تمہاری طرف اس حال میں آؤں کہ میرا سینہ بالکل صاف ہو۔

حضرت عبداﷲ بن عمرو Radi Allah Anhuma سے مروی ہے کہ صحابہ کرام Radi Allah Anhum نے عرض کیا یا رسول اﷲ! لوگوں میں افضل ترین کون شخص ہے؟ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا ہر وہ شخص جو مغموم القلب اور صدوق اللسان ہو ۔عرض کیا یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam! ہم صدوق اللسان (سچ کہنے والا) کا معنی جانتے ہیں مگر مغموم القلب کے بارے میں نہیں جانتے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنےفرمایا : اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کا دل متقی اور اس طرح صاف ہو کہ اس میں کوئی گناہ ،سرکشی،کھوٹ اور حسد نہ ہو۔13

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا قلب مبارک ھمہ وقت بیدار رہتا

اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے قلبِ انور کو اسی طرح بیداری عطا فرمائی تھی کہ وہ ہر وقت اور ہر حال میں باری تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا تھا۔ نہ تو اس پر نیند کا غلبہ ہوسکتا تھا اور نہ ہی اس پر غفلت طاری ہوسکتی تھی اور یہی وجہ ہے کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا خواب بھی سراپا وحی تھا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نیند وضو میں خلل واقع نہیں کرتی تھی۔چنانچہ امام بخاریRehmatullah Alaih اور دیگر کئی محدثین روایت کرتے ہیں:

حدثنا عبداللّٰه ابن مسلمة عن مالك عن سعید المقبرى عن ابى سلمة بن عبد الرحمن انه سال عائشة كیف صلوة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى رمضان قالت ما كان یزید فى رمضان ولا غیره على احدى عشرة ركعة یصلى اربع ركعات فلا تسال عن حسنھن وطولھن ثم یصلى ثلاثاً فقلت یارسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم تنام قبل ان توتر قال تنام عینى ولا ینام قلبى.14151617181920
ام المومنین عائشہ صدیقہ Radi Allah Anha سے دریافت کیا گیا کہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamرمضان المبارک میں کتنی نماز پڑھا کرتے تھے انہوں نے جواب دیا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamرمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ جب چار رکعتیں پڑھتے تو ان کی خوبی اور طوالت کے بارے میں کچھ نہ پوچھیے۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے اور ان کی درستی و درازی کی کیا ہی بات ہے۔ (تہجد کی آٹھ رکعت) اس کے بعد تین رکعت (وتر) پڑھتے میں عرض گزار ہوئی یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam! وتر پڑھنے سے پہلے تو آپ سوگئے تھے؟ فرمایا میری آنکھ سوتی ہے لیکن میرا دل نہیں سوتا۔

قلوبِ انبیاء ہمیشہ بیدار رہتے تھے

حضرت ملا علی قاریRehmatullah Alaihاور امام عبد الرؤف مناوی Rehmatullah Alaihاس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

انما فعلت ذلك لانى لا اخشى فوت الوتر وھذا من خصائص الانبیاء علیھم السلام لحیاة قلوبھم واستغراق شھود جمال الحق المطلق.21
میں یہ عمل اس لیے کرتا ہوں کہ مجھے وتروں کی قضا کا اندیشہ نہیں ( کہ میرا دل بیدار رہتا ہے اور) یہ انبیاء Alaihmus Salam کا خاصہ ہے کہ ان کے مبارک دل ہر وقت ہر حال میں بیدار اور جمال حق اﷲ تعالیٰ کے مشاہدہ میں مستغرق رہتے ہیں۔

قلب مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی سماعت و بصارت

اس حوالہ سے امام دارمیAlaihmus Salam روایت کرتے ہیں کہ حضرت جبریل Alaihis Salamنبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت میں حاضر ہوئے اورانہوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پیٹ مبارک کو چیر دیا پھر حضرت جبریل Alaihis Salamنے فرمایا:

قلب وكیع فیه اذنان سمیعتان وعینان بصیرتان محمد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم المقفى الحاشر خلقك قیم ولسانك صادق ونفسك مطمئنة.قال ابو محمد وكیع یعنى شدیدا.22
یہ بہت زبردست دل ہے ،اس میں دو کان ہیں جو سن لیتے ہیں اوردو آنکھیں ہیں جو دیکھ لیتی ہیں ۔حضرت (سیدنا)محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاﷲ کے رسول ہیں جوسب سے آخر میں تشریف لائے ہیں، یہی جمع کرنے والے ہیں (اےسیدنا محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے اخلاق مضبوط ہیں، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زبان سچی ہے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا نفس مطمئن ہے۔امام دارمیRehmatullah Alaih فرماتے ہیں کہ "وکیع" کا مطلب شدید اور زبردست ہے۔

مذکورہ بالا روایات سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا قلب مبارک جماعتِ انبیاء کرام Alaihmus Salamمیں سے بھی سب سے قوی اور مضبوط تھا۔یہی وہ دل اقدس تھا کہ جس کو اللہ رب العزت نے سب سے پہلے اپنے اسرار کا راز داں بنایا اور پھر اسی قلب مبارک کے وسیلہ سے دوسرے قلوب کو اپنی معرفت کا محل بنایا۔


  • 1  پیر محمد کرم شاہ الازہری ، ضیاء النبی ﷺ ،ج -5،مطبوعہ : ضیا ء القرآن پبلی کیشنز ، لاہور،پاکستان، 1420ھ، ص: 492-493
  • 2  ابو اسحاق احمد بن ابراہیم ثعلبی ،تفسیر ثعلبی ،ج -7 ،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت ، لبنان، 2002 ء، ص:105
  • 3  عبد الرحمن بن محمد بن ادریس رازی ، تفسیر ابی حاتم الرازی ،،حدیث: 14577-14578، ج -8، مطبوعۃ: مکتبۃ نزار مصطفی الباز، مکۃ المکرمۃ،السعودیۃ، 1419ھ، ص: 2696-2597
  • 4  القرآن، سورۃالنجم53: 1
  • 5  عیاض بن موسیٰ مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج -1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص:99
  • 6  شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی مصری ، نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض، ج -1، مطبوعۃ: دار ابن رجب، القاہرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :200
  • 7  سلیمان بن داؤد الطیالسی، مسند ابی داؤد الطیالسی، حدیث: 243، ج -1، مطبوعۃ: دار ھجر، القاہرۃ، مصر،1999ء، ص:99
  • 8  احمد بن حنبل الشیبانی ، مسند احمد، حدیث: 3600، ج-6، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:84
  • 9  محمد بن عبدالباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب ،ج-5، مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان،1996ء،ص:466
  • 10  الشیخ عبد الحق الدھلوی ، مدارج النبوۃ ،ج-1 ،مطبوعۃ: منشی لولکشور،ہند، (لیس التاریخ موجوداً) ،ص :19
  • 11  محمد بن حبان ، صحیح ابن حبان، حدیث: 317، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:20-21
  • 12  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 3759، ج-6، ، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:301-302
  • 13  محمد بن یزید ابن ماجہ ، سنن ابن ماجہ، حدیث:4216، ج-2 ، مطبوعۃ:دار احیاء الکتب العربیۃ ، القاہرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجوداً)، ص:1409
  • 14  محمد بن اسماعیل بخاری ،صحیح البخاری، حدیث: 3376، ج -3، مطبوعۃ: دار ابن کثیر ، بیروت، لبنان، 1987ء، ص:1308
  • 15  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث: 738، ج -1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی،بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً) ،ص-509
  • 16  احمد بن حنبل شیبانی، مسند احمد، حدیث: 23553، ج-7 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1994ء، ص :55
  • 17  احمد بن محمد بن سلامۃ ابو جعفر الطحاوی ،مشکل الآثار، حدیث: 3757، ج-5، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ بیروت، لبنان، 1995ء،ص :243
  • 18  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی،السنن الکبریٰ، حدیث: 602، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003ء ، ص :198-197
  • 19  یوسف بن عبداﷲ ابن عبدالبر قرطبی ،التمھید لما فی الموطأ من المعانی والمسانید ، ج-8، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، وبیروت ،لبنان، 1999ء،ص:403
  • 20  محب الدین ابو جعفر احمد بن عبداﷲ طبری ، غایۃ الاحکام فی احادیث الاحکام، حدیث: 583، ج -1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2004ء، ص-1512
  • 21  نور الدین علی بن سلطان القاری، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج-2، مطبوعۃ: مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص :74
  • 22  عبداﷲ بن عبد الرحمن دارمی، سنن الدارمی، حدیث:54، ج-1، مطبوعۃ: دار المغنی للنشر والتوزیع، المکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، 2000ء، ص:199-200

Powered by Netsol Online