encyclopedia

آپ ﷺکی داڑھی مبارک

Published on: 23-Oct-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ محمد حسیب احمد،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 21، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 370-398)

اللہ تبارک و تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جس کو اشرف و افضل مخلوق بنایا گیا ہے 1 اورجس کی ساخت و قوام بھی سب سے زیادہ حسین و جمیل پیدا کیےگئے ہیں۔2 اس کے ساتھ ساتھ اس کا مکمل جسم انتہاء درجہ کے اعتدال کے ساتھ تخلیق کر کے اس کودنیا میں بھیجا گیا ہے۔3 جب یہ نوع انسانی کے افراد کی عمومی حالت ہے تو وہ قدسی جماعت جو ان انسانوں کے لیے رہبر ورہنما بناکر بھیجی گئی ہے ا س مقدس جماعت انبیاء کرام Alaihmus Salamکے حسن و خوبصورتی کا کیا عالم ہوگا؟اس کا اندازہ صرف اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب حسن یوسف Alaihis Salam کو دیکھا تو دیکھنے والیاں پکا ر اٹھیں کے قسم بخدا یہ انسان نہیں بلکہ معزز فرشتہ ہیں۔4جب حسن یوسف کا یہ عالم ہے تو سرور انبیاء خاتم النبیین Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حسن کا اندازہ لگانا یقینا عقل سے بالا تر ہے۔جس کے عجز کا اظہار آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو دیکھنے والوں نے ان الفاظ سے کیا کہ نہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے پہلے کبھی اتنا حسین دیکھا گیا اور نہ ہی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بعد دیکھا جا سکتا ہے۔5 سرورِ عالم حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamحسن کامل و اکمل کا پرتو تھے جو بے نظیر تھا۔اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسم اقدس کے تمام خدو خال بھی انفرادی طور پر یکتا حسن کے حامل تھے اور جب جسم اطہر کی صورت میں ان کی مجموعی حالت کسی انسان کی بصار ت میں اپنا جلوہ دکھاتی تو وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی حقانیت و صادقیت کی بر ملا گواہی دیتا۔انہی اعضاء جسم نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیں سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی داڑھی مبارک بھی تھی جو گھنی، گنجان اور خوش منظر تھی۔ ایسی بھری ہوئی نہ تھی کہ پورے چہرے کو ڈھانپ لے اور نیچے گردن تک چلی جائے۔داڑھی مبارک کے بال بالکل سیاہ تھے ۔ عمر مبارک کے آخری حصہ میں کل سترہ یا بیس بال ریشِ مبارک میں سفیدہوگئے تھے لیکن یہ سفید بال عموماً سیاہ بالوں میں چھپے رہتے تھے، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ریشِ مبارک کے بالوں کو طول و عرض سے برابر کٹوادیا کرتے تھے تاکہ بالوں کی بے ترتیبی سے شخصی وقار اور وجاہت متاثرنہ ہو۔6

داڑھی کا وسیع اور کشادہ ہونا خوشنمائی کی علامت ہوتاہے۔ جن لوگوں کی داڑھی صرف ٹھوڑی پر ہوتی ہےوہ خوشنما نہیں ہوتی اور اس سے چہرے کا بھی حسن نہیں کھلتا جبکہ لمبی اور چوڑی داڑھی سے چہرہ کا حسن نمایاں ہوتا ہے اور چہرہ پروقار اور وجیہ معلوم ہوتا ہے۔7

آپ ﷺکی مبارک داڑھی معتدل اورگھنی تھی

شمائل حبیب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےبارے میں وارد احادیث مبارکہ اس کوخوب واضح کرتی ہیں کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی داڑھی مبارک گھنی تھی۔ چنانچہ حضرت علی Radi Allah Anhoسے مروی ہے :

كان رسول اللّٰهٍ صلى اللّٰه علیه وسلم : ضخم الرأس واللحیة.8
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاعتدال کے ساتھ بڑے سر اور بڑی داڑھی والے تھے۔ 9

امام ابوبکر الاجری Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں کہ حضرت ھند بن ابی ہالہRadi Allah Anho فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم...كث اللحیة.10
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی داڑھی مبارک گنجان تھی۔

اس حدیث میں موجود لفظ الکث کا معنی بیان کرتے ہوئے امام بیہقیRehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

الکث کا مطلب ہوتاہے کہ بالوں کے اُگنے کا وہ سرا جو ایک دوسرے سے ملا ہوا ہو۔11

ا سی طرح امام شامی صالحی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

وقال جبیر بن مطعم كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ضخم اللحیة.12
حضرت جبیر بن مطعم Radi Allah Anhoسے روایت ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی داڑھی مبارک گھنی تھی۔

مشہور تابعی حضرت سعید بن المسیب Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ Radi Allah Anho سے آپ کی داڑھی مبارک کا تذکرہ ان الفاظ میں سنا کہ حضرت نافع بن جبیر Rehmatullah Alaihسے روایت ہے:

قال: وصف لنا على النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ، فقال: كان ضخم الھامة عظیم اللحیة.13
حضرت علی نے ہمیں نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا حلیہ بیان کرتےہوئےفرمایا: آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی داڑھی مبارک اعتدال کے ساتھ لمبی تھی اور سرِ اقدس بڑا تھا۔

سینہ اقدس کو ریش مبارک نے جو زینت بخشی تھی صحابہ کرامRadi Allah Anhum اس کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

كث اللحیة تملأ صدره.14
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مبارک داڑھی گھنی اور سینے کو پُر کیے ہوئے تھی۔

اسی حوالہ سے حضرت اُم معبدRadi Allah Anha فرماتی ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كثیف اللحیة.15
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی داڑھی مبارک کے بال الجھے ہوئے نہ تھے۔

حضرت انسRadi Allah Anho سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بارے میں منقول ہے:

كانت لحیة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قد ملات ھھنا الى ھھنا وامر یدیه على خدیه.16
دونوں ہاتھوں سے اپنے رخساروں کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی داڑھی مبارک یہاں سے یہاں تک تھی۔

حضرت جھضم بن الضحاکRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ مقامِ رخیخ پر ٹھہرا تھا تو کسی نے بتایا کہ یہاں ایک شخص ایسا بھی موجود ہے جس نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زیارت کی ہے:

فاتیته فقلت رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قال نعم رایته رجلا مربوعا حسن السبلة.17
میں اسی وقت اس شخص کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ نے محبوبِ خدا Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زیارت کی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کاقد مبارک نہایت خوبصورت تھا نہ زیادہ طویل نہ ہی پست اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی داڑھی نہایت خوش منظر تھی۔

"السبلۃ" سامنے والی ڈاڑھی کو کہتے ہیں۔ لحیہ کے وہ سامنے والے بال جو سینہ پر لٹکے ہوتے ہیں یعنی نچلی ٹھوڑی والے بال ۔

ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے داڑھی مبارک گنجان ،سینہ تک بھری ہوئی اور سلجھی ہوئی تھی۔

آپ ﷺکی داڑھی کی رنگت

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی داڑھی مبارک انتہائی گہری سیاہ تھی۔چنانچہ امام بیہقی اس بارے میں روایت نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اسود اللحیة.18
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی داڑھی مبارک خوب سیاہ تھی۔

حضرت سعید بن مسیبRadi Allah Anho کی اسی روایت کو ابن عساکرنے بھی ان الفاظ میں بیان کیاہے:

كان اسود اللحیه حسن الشعر.19
حضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ریش مبارک سیاہ اور خوبصورت تھی۔

حضرت سعد بن ابی وقاص Radi Allah Anhoسے ان کے خادم زیاد نے آپ ﷺ کی داڑھی مبارک کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا:

وكانت لحیته حسنة....شدید سواد الراس واللحیة.20
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی داڑھی مبارک نہایت خوبصورت تھی یعنی داڑھی اور سر اقدس کے بال خوب سیاہ تھے۔

ان روایات سے واضح ہوتا ہےکہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی داڑھی مبارک کے بال گہرے سیاہ تھے۔یہ سیاہی مکمل داڑھی مبارک کے بالوں کی شان تھی سوائے آخری عمر میں چند بالوں کے کہ ان میں کچھ سفیدی مزید چار چاند لگانے کے لیے در آئی تھی۔

حضور اکرم ﷺکی داڑھی مبارک مرقّع حسن تھی

حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی داڑھی مبارک مرقع حسن تھی۔دین الہٰی کی اشاعت و تبلیغ کی وجہ سے جب داڑھی مبارک بڑھ جاتی تھی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاس کو سنوار تے تھے۔چنانچہ اس بارے میں حضرت عبداﷲ بن عمر و بن العاصRadi Allah Anhuma سے روایت ہے:

ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یاخذ من لحیته من عرضھا و طولھا.21
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamداڑھی مبارک کے طول و عرض کو برابر طور پر کاٹ دیتے تھے۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے اس عمل سے یہ واضح ہورہا ہے کہ داڑھی میں زینت و حسن کا قائم رکھنا ضروری ہے۔اسی طرح سیدنا صدیق اکبرRadi Allah Anho کے والدِ گرامی حضرت ابو قحافہ Radi Allah Anho آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو ان کی داڑھی منتشر تھی جس کو دیکھ کرآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ارشاد فرمایا:

لو اخذتم واشار بیده الى نواحى لحیته.22
داڑھی مبارک کے دونوں اطراف کی طرف اشارہ کرتے ہوئےآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ کاش آپ اسے درست کرلیتے۔

تو معلوم ہوا کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی سنت ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamداڑھی مبارک کو سنوارتے تھے اور اسی طرح سنوارنے کاحکم صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو بھی دیاکرتے تھے۔اسی لیے صحابہ Radi Allah Anhum کا معمول تھا کہ وہ قبضۂ دست سے زائد داڑھی کٹوادیتے تھے۔ حضرت عبداﷲ بن عمر Radi Allah Anhuma کا معمول تھا جب آپ حج یا عمرہ سے فارغ ہوتے توداڑھی کی مناسب تراش خراش کرتےچنانچہ ان کےبارے میں منقول ہے:

قبض على لحیته فما فضل اخذه.23
داڑھی مبارک کو مشت میں لیتے جو اس سے زائد ہوتی اسے کٹوادیتے۔

اور امام نسائی Rehmatullah Alaihاپنی سند کے ساتھ حضرت مروان بن سالم المنقطع سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں:

رایت ابن عمر قبض على لحیته فقطع ما زاد على الكف.24
میں نے ابن عمر Radi Allah Anhumaکو دیکھا کہ اپنی داڑھی کو مٹھی میں لیتے جو حصہ مٹھی سے زائد ہوتا اسے کاٹ دیتے تھے۔

حضرت ابوہریرہ Radi Allah Anhoکا بھی یہی معمول تھاچنانچہ ان کےمتعلق روایت میں منقول ہے:

یقبض على لحیته ثم یاخذ ما فضل عن القبضه.25
آپ داڑھی مبارک پر مٹھی رکھتے جو اس سے زائد ہوتی اسے ترشوا دیتے۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسو ل اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی گنجان داڑھی مبارک ترشواتے تھے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی سنت مبارک کی وجہ سے صحابہ کرام Radi Allah Anhum کا بھی طریقہ رہا کہ وہ اپنی داڑھیوں کو ایک مشت پکڑ کر زائد بالوں کو کٹوادیا کرتے تھے۔

حضور اکرمﷺکاداڑھی مبارک میں خوشبو لگانا

حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنے سر کے بالوں پر اور داڑھی مبارک میں خوشبو لگاتے تھے ۔چنانچہ امام بخاری Rehmatullah Alaihنے صحیح بخاری میں باب باندھا ہے :

باب الطیب فى الراس واللحى.
سر میں اور داڑھی میں خوشبو لگانا۔

اور اس کے تحت حضرت اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ Radi Allah Anhaسے ایک روایت نقل کی ہے۔چنانچہ وہ نقل فرماتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ حضرت اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ Radi Allah Anhaاس حوالہ سے فرماتی ہیں:

كنت اطیب النبى صلى اللّٰه علیه وسلم باطیب ما یجد حتى اجد وبیص الطیب فى راسه ولحیته.26
میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو وہ خوشبو لگاتی تھی جو مجھے میسر ہونے والی خوشبوؤں میں سب سے بہترین تھی حتیٰ کہ میں خوشبو کی چمک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سر اور داڑھی میں پاتی۔

اس حدیث مبارکہ میں "وبیص الطیب" کا ذکر ہے اس کا معنی خوشبو کی چمک اور اس کی شعائیں ہیں۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam داڑھی مبارک میں خوشبو کا استعمال فرماتے تھے۔

چہرہ پر داڑھی کاحصہ

داڑھی تین جگہوں پر ہوتی ہے۔(1)قلموں سے نیچے کنپٹیوں پر ۔(2)جبڑوں پر۔(3)ٹھوڑی پر۔کانوں پر یا گالوں پر اُگنے والے بال داڑھی میں شامل نہیں لہٰذا ان کو کاٹنے میں کوئی حرج نہیں۔چنانچہ اس حوالہ سے علامہ احمد رضا خانRehmatullah Alaihلکھتے ہیں :

داڑھی قلموں کے نیچے سے کنپٹیوں، جبڑوں، ٹھوڑی پر جمتی ہے اور عرضاً اس کا بالائی حصہ کانوں اور گالوں کے بیچ ہوتا ہے۔ جس طرح بعض لوگوں کے کانوں پررونگٹے (بال) ہوتے ہیں وہ داڑھی سے خارج ہیں۔یوں ہی گالوں پر جو خفیف بال کسی کے کم کسی کے آنکھوں تک نکلتے ہیں وہ بھی داڑھی میں داخل نہیں۔ یہ بال قدرتی طور پر موئے ریش سے جدا وممتاز ہوتے ہیں۔ اس کا مسلسل راستہ جو قلموں کے نیچے سے ایک مخروطی شکل پر جانب ذقن (ٹھوڑی کی جانب) جاتا ہے یہ بال اس راہ سے جدا ہوتے ہیں۔ ان میں موئے محاسن کے مثل قوت نامیہ (بڑھنے کی طاقت) ہے،ان کے صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ بسا اوقات ان کی پرورش باعثِ تشویہ خلق وتقبیح صورت ہوتی ہےجو شرعاً پسندیدہ نہیں۔27

داڑھی انبیاء کرامﷺکی سنتِ متواترہ ہے

داڑھی رکھنا حضور سید عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاور جمیع انبیاء ومرسلینAlaihmus Salam کی سنت قدیمہ ومتواترہ ہے حضورنبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بعد خلفائے راشدین، جمیع صحابہ کرامRadi Allah Anhum ائمہ عظام ،محدثین ،فقہاء کرام اور اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیھم کا اس پر دوامی واستمراری عمل رہا ہے اور کسی سے اس کے خلاف منقول نہیں ہے۔

عبیداﷲ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت میں ایک مجوسی آیا اس نے داڑھی منڈائی ہوئی تھی اور مونچھیں لمبی رکھی ہوئی تھیں۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس سے فرمایا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا یہ ہمارے دین میں ہے۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا ہمارے دین میں یہ ہے کہ ہم مونچھیں کم کرائیں اور داڑھی بڑھائیں۔ 28

تمام فقہاء امت اس پر متفق ہیں کہ داڑھی کی مقدار قبضہ سے کم کرنا جائز نہیں اور یہ اجماع خود ایک مستقل دلیل ہے۔ امت محمدیہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لیے داڑھی رکھنا واجب ہےاور داڑھی منڈانا یا ایک مشت سے کم کرنا حرام و گناہ ہے۔چنانچہ اس کا حکم بیان کرتے ہوئے شیخ عبدالحق محدث دہلوی Rehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

حلق كردن لحیه حرام است وروش افرنج وھنود وجوقیان است كه ایشاں را قلندریه گویند آں بقدر قبضه واجب است.29
داڑھی منڈوانا حرام ہے اور فرنگیوں(یورپیوں) اور ہندوؤں کا طریقہ ہے اور جوگی لوگ کہ جنہیں قلندریہ کہتے ہیں ان کی عادت ہے ۔داڑھی مٹھی بھر لمبی رکھنا واجب ہے۔

داڑھی کی حد

داڑھی کا ایک مشت ہونا سنت کی آخری حد ہے۔ اس سے کم کرنا جائز نہیں اور اس سے اگر کچھ زیادہ ہوجائے تو جائز بلکہ اولیٰ ہے اور اس قدر لمبی چوڑی رکھنا کہ حد شہرت تک پہنچ جائے اور تمسخر کا سبب بن جائے مکروہ ہے۔چنانچہ علامہ احمد رضا خان Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

حضور اقدس Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam، حضرت عبداﷲ بن عمر، حضرت ابوہریرہ وغیرہم، صحابہ وتابعین Radi Allah Anhumکے افعال و اقوال اور ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ ومحرر مذہب امام محمد Radi Allah Anhuma وعامہ کتب فقہ وحدیث کی تصریح سے داڑھی کی حد ایک مشت ہے۔ اس سے کم کرنا کسی نے حلال نہ جانا، قبضہ(مٹھی) سے زائد کا قطع ہمارے نزدیک مسنون ہے بلکہ نہایہ میں بلفظ وجوب تعبیر کیا ہے۔ 30

داڑھی مبارک میں سفیدی

حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سرِمبارک اور داڑھی مبارک کے بال سیاہ تھے جیسا کہ ابتداء میں بیان ہوا۔ تاہم آخری عمرِ مبارکہ میں کچھ بال مبارک سفید بھی ہوگئے تھے ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ٹھوڑی مبارک کے اوپری بال سفید تھےاور سرِ مبارک اور داڑھی مبارک کے دوسرے حصوں میں سفید بال بہت کم تھے جو حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں سفید ہوئےتھے۔ چنانچہ اسی حوالہ سے حضرت وہب بن ابو جحیفہRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں:

رایت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ورایت بیاضا من تحت شفته السفلى العنفقة.31
میں نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زیارت کی اور میں نے دیکھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لب ِ اقدس کے نیچے کچھ بال سفید تھے۔

اس کی شرح کرتے ہوئے امام بیہقی Rehmatullah Alaih تحریر کرتے ہیں:

العنفقۃ:نچلے ہونٹ کے نیچے کے بالوں کے گرد کے بال سفید تھے۔ایسا لگتا تھا جیسے یہ سفید موتی ہیں ۔۔۔ یہاں تک کہ وہ داڑھی کے اصل بالوں پر پڑتے اس طرح کہ جیسے وہ داڑھی میں سے ہیں۔32

ٹھوڑی کے بال

اسی طرح امام بخاری Rehmatullah Alaih بیان کرتے ہیں:

عن وھب أبى جحیفة السوائى، قال: رأیت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ورأیت بیاضا من تحت شفتھا لسفلى العنفقة.33
وہب ازابی حجیفہ السوائیRehmatullah Alaih وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے نچلے ہونٹ کے نیچے ٹھوڑی کے کچھ بال سفید تھے۔

اس حدیث میں"عنفقہ" کا لفظ ہے ۔نچلے ہونٹ کے نیچے جو چند بال ہوتے ہیں ان کو "عنفقہ "کہتے ہیں ۔ اردو میں اس کو بچہ داڑھی کہتے ہیں۔34

امام بخاری Rehmatullah Alaihسے ہی روایت ہے:

سأل عبد اللّٰه بن بسر صاحب النبي صلى اللّٰه علیه وسلم ، قال: أرأیت النبي صلى اللّٰه علیه وسلم كان شیخا؟ قال: كان فى عنفقته شعرات بیض.35
حضرت عبد اللہ بن بسر Radi Allah Anhoسے سوال کیاگیا جو نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے صحابی تھے : کیا آپ نے نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زیارت کی (جب) آپ بوڑھے تھے؟ انہوں نے کہا کہ(ہاں اور) آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے نچلے ہونٹ کے نیچے چند سفید بال تھے۔36

ان روایات سے معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ریش مبارک میں لب اقدس کے نیچے اور گوش مبارک کے ساتھ گنتی کے چند بال ہی سفید تھے اور اس کے علاوہ باقی تمام کے تمام بال گہرے سیاہ تھے۔

داڑھی مبارک کے سفید بالوں کی تعداد

سفید بالوں کی تعداد کتنی تھی ا ن میں مختلف روایات سیرت کی کتب میں مروی ہیں ۔حضرت عبداﷲ بن بسر Radi Allah Anho کی حدیث کا مقتضی یہ ہے کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دس سے زائد سفید بال نہ تھے کیونکہ انہوں نے قلت کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی داڑھی مبارک میں بیس بال بھی سفید نہ تھے اور حضرت حمید نے اپنی ٹھوڑی کے اوپر اشارہ کرکے بتایا کہ سترہ بال سفید تھے۔

علامہ بلقینی Rehmatullah Alaihنے ان تمام ر وایات کو جمع کیا ہے۔ ساری روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سفید بالوں کی تعداد بیس سے زائد نہ تھی۔چنانچہ حضرت انس Radi Allah Anhoبالوں کی سفیدی کے بارے میں بیان کرتے ہیں:

لیس فى راسه ولحیته عشرون شعرة بیضاء.37
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سر اقدس اور داڑھی مبارک میں بیس سے زائد بال سفید نہ تھے۔

بعض روایات میں سترہ یا اٹھارہ کا بھی ذکر موجود ہے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ داڑھی مبارک کے تمام بال سفید نہ تھے۔

بالوں کا کونسا حصّہ سفید تھا؟

جہاں صحابہ کرامRadi Allah Anhum نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سفید بالوں کی تعداد بیان فرمائی ہے وہاں انہوں نے ان مقامات کی نشاندہی بھی کی ہے جہاں سفیدی درآئی تھی۔ وہ دو مقامات تھے ایک ہونٹ اور ٹھوڑی کا درمیانی حصہ اور دوسرا آنکھ اور کان کا درمیانی حصہ تھا۔چنانچہ جب قتادہ Radi Allah Anhoنے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے خادمِ خاص حضرت انس سے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے خضاب استعمال کرنے کے بارے میں سوال کیا توخادم خاص حضرت انس Radi Allah Anhoنے فرمایا:

لا انما كان شىء فى صدغیه.38
نہیں!آپ کی کنپٹیوں میں کچھ سفیدی تھی۔

"کنپٹیوں" یعنی آنکھ اور کان کے درمیان کچھ سفیدی تھی باقی اس کے علاوہ تمام داڑھی مبارک گہری سیاہ تھی۔اسی حوالہ سے امام احمد بن حنبل شیبانی Rehmatullah Alaihروایت کرتے ہیں:

عن حریز بن عثمان قال: كنا غلماناً جلوساً عند عبدللّٰه بن بسر و كان من اصحاب النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ولم نكن نحسن نساله فقالت اشیخاً كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قال كان فى عنفقته شعرات بیض.39
حضرت حریز بن عثمان بیان کرتے ہیں کہ ہم چند بچے حضرت عبداﷲ بن بسرRadi Allah Anho جو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے صحابی تھے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ہمیں صحیح طرح سوال کرنا بھی نہیں آتا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبوڑھے ہوگئے تھے انہوں نے فرمایا کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے نچلے ہونٹ کے نیچے بال سفید تھے۔

نیز امام احمد بن حنبل شیبانیRehmatullah Alaihروایت کرتے ہیں:

عن ابى جحیفة قال: رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وھذه منه واشار الى عنفقته بیضاء فقیل لابى جحیفة و مثل من انت یومئذ قال ابرى النبل واریشھا.40
حضرت ابوجحیفہRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو دیکھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے یہ بال( اشارہ نچلے ہونٹ کے نیچے والے بالوں کی طرف تھا ) سفید تھے کسی نے ابو جحیفہRadi Allah Anho سے پوچھا کہ اس زمانے میں آپ کیسے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں تیر تراشتا اور اس میں پر لگاتا تھا۔

حضرت ابو جحیفہ Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں:

رایت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فرایت بیاضا من تحت شفته السفلى مثل موضع اصبغ العنفقة.41
میں نے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زیارت کی اور میں نے دیکھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے نیچے والے مبارک ہونٹ کے نیچے سفید بال تھے۔

بالوں کی سفیدی میں چاندی کی چمک

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سر اقدس اور داڑھی مبارک میں جو چند بال سفید تھے یہ سفید بال مبارک گویا کہ چاندی کے دھاگے تھے جو سیاہ بالوں کے سامنے چمکتے تھے۔ جب ان بالوں کو زردی سے رنگ دیا جاتا تھا تو وہ یوں چمکتے تھے گویاکہ سامنے کے سیاہ بالوں میں سونے کے دھاگے چمک رہے ہوں۔چنانچہ اسی حوالہ سے امام شامی صالحی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

وكان شیبه كانه خیوط الفضة یتلالا بین ظھرى سواد الشعر الذى معه اذا مس ذلك الشیب الصفرة.42
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سفید بال مبارک گویا کہ چاندی کے دھاگہ تھے جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سیاہ بالوں کے بیچ میں چمکتے تھے جب ان سفید بالوں کو مہندی لگتی تھی۔

بالوں کی سفیدی کا چھپ جانا

سر اقدس میں اس قدر قلیل بال سفید تھے کہ بعض اوقات وہ نظر بھی نہ آتے تھے۔ خصوصاً جب بالوں کو تیل لگاتے تو اس وقت دکھائی نہیں دیتے تھے۔ حضرت جابر بن سمرہ Radi Allah Anho سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سر اقدس کے بال سفید تھے؟ تو انہوں نے فرمایا:

لم یكن فى راس رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم شیب الا شعرات فى مفرق راسه اذا ادھن واراھن الدھن.43
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سر اقدس میں صرف چند بال سفید تھے جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamتیل لگاتے تو وہ بھی اوجھل ہوجاتے تھے۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ بالوں کی سفیدی خشیت الہٰی کی وجہ سے تھی کیونکہ ایک مرتبہ صحابہ کرام Radi Allah Anhumکے اس سوال پر کہ حضور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبوڑھے نظر آرہے ہیں تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا مجھے سورۂ ھود اور اس طرح کی دیگر سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے۔روایات میں ہے کہ رسالت مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی یہ کیفیت دیکھ کرحضرت سیدنا ابوبکر صدیقRadi Allah Anho روپڑتے تھے۔ حضرت انس Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابوبکر اور حضرت عمر Radi Allah Anhumaدونوں مسجد نبوی میں منبر رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں رسالت مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنے دولت کدہ سے اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ اپنی داڑھی مبارک پر ہاتھ پھیر رہے تھے۔حضرت ابوبکرRadi Allah Anho انتہائی نرم دل اور حضرت عمر Radi Allah Anhoکچھ سخت تھے تو حضرت ابوبکر Radi Allah Anhoنے دیکھتے ہی عرض کیاکہ یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam! میرے والدین آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر فدا ہوں،آقا اتنی جلدی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر بڑھاپا آگیا ہے؟بس اتنی بات کہنا تھی کہ ابوبکر کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب اُمڈ آیا۔اس پر آقائے دوجہاں Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا:ہاں مجھے ھود اور اس کی ہم مثل سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے ۔حضرت ابوبکر Radi Allah Anhoنے سوال کیا یا رسول اﷲ! ہم مثل سے کونسی سورتیں مراد ہیں؟ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا :وہ سورتیں الواقعہ، القارعۃ، سَاَلَ سَآئِلٌ اوراِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ ہیں۔44

ابو ایوب انصاری کا نبی اکرم ﷺکی داڑھی کا ادب کرنا

طبرانی میں حضرت ابوایوب انصاری Radi Allah Anhoکے بارے میں ایک روایت مذکور ہے ۔ جس میں منقول ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی داڑھی مبارک پر پرندے کا پر گرا تو حضرت ابو ایوب انصاری Radi Allah Anhoنے اسے اپنے پاس رکھ لیا۔چنانچہ روایت میں مروی ہے:

فسقطت على لحیته ریشة فابتدر ابو ایوب فاخذھا لحیته.فقال صلى اللّٰه علیه وسلم نزع للّٰه عند ما تكره.45
تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی داڑھی مبارک پر کسی پرندے کا پرگراتوابوایوب انصاری Radi Allah Anhoنے فی الفور اسے پکڑلیا۔اس پر سرورِ کونین Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا: اﷲ تعالیٰ تجھ سے ہر وہ شے دور کردے جو تجھے ناپسند ہو۔

یعنی حضرت ابو ایوب انصاری Radi Allah Anhoنے رسولِ اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی داڑھی مبارک کا اس طرح سے ادب کیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ان کو دعا دی۔اسی طرح مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیبRadi Allah Anho کا بیان ہے کہ حضرت ابوایوب انصاری Radi Allah Anhoنے اپنے آقا Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مبارک داڑھی کا ایک بال حاصل کرلیا اور سرور عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو علم ہوا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا:

لا یصییك السوء یا ابا ایوب.46
اے ابوایوب تجھے کبھی کوئی تکلیف عارض نہ ہوگی۔

حضور اکرم ﷺکا داڑھی میں خضاب لگانا

حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے خضابِ مبارک کے بارے میں کتب احادیث میں دو طرح کی روایت مروی ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے خضاب نہیں لگایا جیسے کہ حضرت انسRadi Allah Anho کی روایت میں ہے اور بعض روایات میں ہےکہ حضور ﷺنے خضاب لگایا ہے۔ ان روایات میں راجح یہی ہے کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے خضاب لگایاہے۔ چنانچہ حضرت انس والی روایت اس طرح منقول ہے:

ولم یختضب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم، انما كان البیاض فى عنفقته وفى الصد غین وفى الراس نبذ.47
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے کبھی خضاب نہیں لگایا، کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ہونٹ کے نیچے، کنپٹیو ں اور سر مبارک سے چند بال سفید تھے۔

اس روایت میں اگرچہ کہ خضاب کی ممانعت آئی ہے جس کا جواب آگے مذکور ہے۔لیکن اس روایت کے برعکس کئی روایات میں منقول ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے خضاب استعمال فرمایا ہے اورکئی صحابہ کرام Radi Allah Anhumنے اس کو ذکر کیا ہے۔ چنانچہ پہلے ان صحابہ کرامRadi Allah Anhum کی روایت پیش کرتے ہیں پھر حضرت انس Radi Allah Anho والی روایت کا جواب ذکر کریں گے۔

حضرت ابوہریرہRadi Allah Anho کا بیان

حضرت ابو ہریرہ Radi Allah Anhoسے روایت کرتے ہوئے امام ترمذی Rehmatullah Alaihنقل کرتے ہیں:

عن عثمان بن موھب قال: سئل ابوھریرة ھل خضب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم؟ قال: نعم.48
حضرت عثمان بن موہبRehmatullah Alaih بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ Radi Allah Anhoسے سوال کیا گیا، کیا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے خضاب لگایا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔

حضرت عبداﷲ بن بریدہ Radi Allah Anho کا بیان

حضرت عبداﷲ بن برید ہ Radi Allah Anhoسے روایت کرتے ہوئے امام محمد بن سعد البصری Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

عن عبدللّٰه ابن بریدة قال: قیل له: ھل خضب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ؟ قال: نعم.49
حضرت عبداﷲ بن بریدہRadi Allah Anho سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے خضاب لگایا تھا تو انہوں نے کہا:ہاں۔

حضرت عبداﷲ بن عمر Radi Allah Anhumaکا بیان

حضرت عبداﷲ بن عمر Radi Allah Anhumaسے روایت کرتے ہوئےامام ا بن ابی شیبہ Rehmatullah Alaih نقل کرتےہیں:

ان ابن جریج سال ابن عمر رایتك تصفر لحیتك بالورس فقال ابن عمر: اما تصفیرى لحیتی فانى رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یصفرلحیته.50
ابن جریج Rehmatullah Alaihنے حضرت ابن عمر Radi Allah Anhumaسے سوال کیا میں دیکھتا ہوں کہ آپ اپنی داڑھی کو زردرنگ سے رنگتے ہیں؟ حضرت ابن عمر Radi Allah Anhumaنے فرمایا:میں اپنی داڑھی زردرنگ سے اس لیے رنگتا ہوں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺکو زرد رنگ سے داڑھی کو رنگتے ہوئے دیکھا ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عباس Radi Allah Anhuma کا بیان

حضرت عبداﷲ بن عباس Radi Allah Anhumaسے روایت کرتے ہوئے امام ہیثمیRehmatullah Alaihنقل کرتےہیں:

عن ابن عباس قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اذا ارادان یخضب اخذ شیئا من دھن وزعفران فرشه بیده ثم یمرسه على لحیته.51
حضرت ابن عباس Radi Allah Anhuma بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجب خضاب لگانے کا ارادہ کرتے توکچھ تیل اور زعفران لے کر اپنےہاتھ پرمسلتے پھر اس کو اپنی داڑھی پر ملتے۔

ابن مالک، شعیب ، ناجیہ Radi Allah Anhum کا بیان

ان تمام سے روایت کرتے ہوئے امام ہیثمی Rehmatullah Alaihنقل کرتے ہیں:

وعن انس بن مالك وشعیب بن عمرو وناجیة بن عمرو قالوا راینا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یخضب.52
حضرت انس بن مالک، شعیب بن عمرو اورناجیہ بن عمرکہتےہیں: ہم نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو خضاب کرتے ہوئے دیکھا۔

دیگر راویوں کا بیان

حضرت جہذمہ Radi Allah Anhaسے روایت کرتے ہوئے امام ہیثمی Rehmatullah Alaihنقل کرتے ہیں:

عن الجهدمة قالت: رأیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم خرج إلى الصلاة ینفض رأسه ولحیته من ردع الحناء.53
جہذمہRadi Allah Anha بیان کرتی ہیں کہ میں نے دیکھا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نمازکےلیے گھر سے نکلے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سر اور داڑھی سےمہندی کےاثرات جھلکتے تھے۔

اسی طرح حضرت عبد الرحمن ثمالیRadi Allah Anho سے روایت کرتے ہوئے امام محمد بن سعد البصری Rehmatullah Alaihنقل کرتے ہیں:

عن عبدالرحمن الثمالى قال كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یغیر لحیته بماء السدر ویامر بتغییر الشعر مخالفة للاعاجم.54
عبدالرحمن ثمالی Rehmatullah Alaihسے روایت ہے کہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنی داڑھی کا رنگ بیری کے پانی سے بدلتے تھے اور عجمیوں کی مخالفت کے لیے بالوں کا رنگ بدلنے کا حکم دیتے تھے۔

ان تمام روایتوں کا حاصل یہ ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنی داڑھی مبارکہ میں خضاب استعمال فرمایا کرتے تھے۔

روایات میں تطبیق

اب تک کی روایات سے واضح ہوا کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنی داڑھی مبارک پرخضاب لگایا۔لیکن ان مذکورہ روایات کے برعکس بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے خضاب نہیں لگایا ۔اس حوالہ سے ایک روایت ماقبل میں گزری اور اسی طرح کی ایک روایت قتادہ Radi Allah Anhoسے بھی مروی ہے۔چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے خادمِ خاص حضرت انس Radi Allah Anhoسے سوال کیا کہ کیا حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے خضاب استعمال کیا تو آپ نے فرمایا:

لا انما كان شىء فى صدغیه.55
نہیں!آپ کی کنپٹیوں میں کچھ سفیدی تھی۔

بعض اوقات حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے خضاب لگایا اور بعض اوقات خضاب نہیں لگایا حضرت انس Radi Allah Anhoنے ایک حال دیکھ کر اس کی روایت کی اور دوسرے صحابہ Radi Allah Anhumنے دوسرے حال کی روایت بیان کی۔بلکہ امام ترمذیRadi Allah Anho نے خود حضرت انس سے بھی خضاب لگانے کی روایت کی ہے چنانچہ امام ابو عیسیٰ ترمذی Radi Allah Anhoروایت کرتے ہیں:

عن انس قال: رایت شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مخضوبا.56
حضرت انس Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں کہ میں نے رسو ل اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بالوں کو رنگا ہوا دیکھا۔

اسی طرح امام نووی Rehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

مختار یہ ہے کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے بعض اوقات میں بالوں کو رنگا اور اکثر اوقات میں رنگنے کو ترک کردیا سو ہر شخص نے اپنے مشاہدہ کے مطابق بیان کیا اور یہ تاویل محکماً معین ہے۔ حضرت ابن عمر Radi Allah Anhumaسے بالوں کو زرد رنگ کے ساتھ رنگنے کی جوروایت ہے اس کو ترک کرنا ممکن نہیں اور نہ اس کی کوئی تاویل ممکن ہے۔57

حضرت انسRadi Allah Anho کی روایت کا حاصل یہ ہے کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو خضاب لگانے کی احتیاج نہیں تھی اور حضرت عبداﷲ بن عمر Radi Allah Anho اور حضرت ابن عباسRadi Allah Anhuma کی روایات اس کے منافی نہیں ہیں کہ انہوں نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو زردرنگ کا خضاب لگاتے ہوئے دیکھا ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے بعض اوقات اپنے سفید بالوں پر خضاب لگایا اور اکثر اوقات خضاب نہیں لگایا لہٰذا ہر شخص نے اپنے مشاہدہ کے مطابق روایت کیا اور ہر ایک اپنے قول میں صادق ہے۔

متقدمین علماءکرام کی رائے

امام احمد بن حنبل Rehmatullah Alaih بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ نبی اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خضاب لگاتے تھے۔امام محب الدین طبریRehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

قال احمد بن حنبل: انى لارى الشیخ المخضوب فافرح به.وقال لرجل: لم لا تخضب؟ قال: استحى. قال: سبحان للّٰه سنة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ؟.58
امام احمد بن حنبل Rehmatullah Alaihنے فرمایا کہ میں جب کبھی کسی بوڑھےکومہندی لگائےدیکھتاہوں توخوش ہوتاہوں۔انہوں نےایک شخص سےکہا:تم کیوں مہندی نہیں لگاتے؟اس نےکہا:مجھے شرم آتی ہے۔انہوں نےکہا:سبحان اللہ سنت رسول سے! (کیسی شرم)۔

اسی طرح ابن قیم جوزی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

فاحمد اثبت خضاب النبى ومعه جماعة من المحدثین.59
پس امام احمد نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا مہندی لگانا ثابت کیا ہے اور ان کے ساتھ محدثین کی پوری جماعت ہے۔

اسی پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے حافظ ابن کثیر Rehmatullah Alaihروایت کرتے ہیں:

قلت ونفى انس للخضاب معارض بما تقدم عن غیره من اثباته والقاعدة المقررة ان الاثبات مقدم على النفى لان المثبت معه زیادة علم لیست عند النافى وھكذا اثبات غیره لزیادة ما ذكر من السبب مقدم لا سیما عن ابن عمر الذین المظنون انه تلقى ذلك عن اخته ام المومنین حفصة فان اطلاعھا اتم من اطلاع انس لانھا ربما انھا فلت راسه الكریم علیه الصلاة والسلام.60
میں کہتا ہوں کہ حضرت انسRadi Allah Anho نے خضاب کی نفی کی ہےجبکہ قبل ازیں جو دوسروں کی احادیث بیان ہوئی ہیں ان میں اس کا اثبات پایا جاتا ہے اور طے شدہ اصول یہ ہے کہ مثبت منفی پر مقدم ہوتا ہے کیونکہ مثبت کے ساتھ اضافہ علم ہوتا ہے جو منفی کے ساتھ نہیں ہوتا۔ اسی طرح دوسروں کے اثبات میں جو اضافی سبب بیان کیا گیا ہےوہ مقدم ہے۔ خصوصا حضرت ابن عمر کے متعلق یہ ظن کیا جاتا ہے کہ آپ نے یہ بات اپنی بہن ام المومنین حضرت حفصہRadi Allah Anha سے معلوم کی ہوگی اور بلاشبہ حضرت حفصہ Radi Allah Anha کی روایت حضرت انسRadi Allah Anho کی روایت سے زیادہ مکمل ہےکیونکہ انہوں نےکبھی حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےبال مبارک سنوارے ہوں گے۔

اسی حوالہ سے امام طحاوی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

قال ابوجعفر: فكان فیما روینا عن ابى رمثة من ھذا ما یخالف ما رویناه فیه عن انس بن مالك ومن اثبت شیئا كان اولى ممن نفاه.61
ابوجعفر طحاویRehmatullah Alaih بیان کرتے ہیں کہ وہ روایات جو ہم نے ابورمثہ سے روایت کی ہیں وہ اس کے خلاف ہیں جو ہم نے انس بن مالک Radi Allah Anhoسے روایت کی ہے (اور قانون یہ ہے) وہ روایت جو کسی چیز کو ثابت کرے وہ اولیٰ ہوتی ہے ان روایات سے جو کسی چیز کی نفی کرے۔

حضرت ابن عمر Radi Allah Anhumaکے فرمان مبارک فانی رایت رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamیصفر لحیتہ سے اظہر من الشمس کی طرح واضح ثبوت مل رہا ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے خضاب لگایا ہے۔ اس لیے کہ حضرت ابن عمرRadi Allah Anhuma خو د بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی داڑھی زردرنگ سے اس لیے رنگتا ہوں کہ میں نے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو زرد رنگ سے داڑھی کو رنگتے ہوئے دیکھا ہے اور اہل علم حضرات پر مخفی نہیں کہ اتباع رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیں حضرت عبداﷲ ابن عمر کا مقام بہت بلند تھا۔اسی کو بیان کرتے ہوئے حافظ ابن کثیرRehmatullah Alaihروایت کرتے ہیں:

عن نافع قال: لو نظرت الى ابن عمر اذا اتبع رسول اللّٰه لقلت ھذا مجنون.62
حضرت نافع Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں کہ جب میں ابن عمر Radi Allah Anhoکی حضور ل Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی اتباع کو دیکھتا تو کہتا کہ یہ مجنون ہے۔

حضور اکرم ﷺکے خضاب کی اشیاء

عموماً رسول مکرم کا خضاب دو چیزوں سے ہوا کرتا تھا،ایک مہندی سے اور دوسری وسمہ سے۔ وسمہ کا معنی ہے کہ نیل کے پتے ۔چنانچہ اس حوالہ سے امام احمدRehmatullah Alaihابو رمثۃ سے روایت نقل کرتے ہیں:

عن ابى رمثة قال: كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یخضب بالحناء والكتم وكان شعره یبلغ كتفیه او منكبیه.63
حضرت ابو رمثہ تمیمیRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں کہ :حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمہندی اور وسمہ سے خضاب لگاتے تھے اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بال مبارک کندھوں تک آتے تھے۔

اسی طرح امام بزار Rehmatullah Alaihروایت کرتے ہیں:

قال ر سول صلى اللّٰه علیه وسلم: احسن ما غیرتم به الشیب الحناء والكتم. قال: كان النبى یختضب بالحناء والكتم.64
رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ارشاد فرمایا: سب سے بہترین چیز جس سے تم سفیدی کو تبدیل کرتے ہو وہ مہندی اور وسمہ ہے۔راوی فرماتے ہیں کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمہندی اور وسمہ سے خضاب فرمایا کرتے تھے۔

اسی طرح امام ا بن ابی شیبہ Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

عن یزید قال: قلت لابى جعفر ھل خضب النبى صلى اللّٰه علیه وسلم؟ قال: قد مس شیئا من الحناء والكتم.65
یزید کہتے ہیں کہ میں نے ابوجعفر سے پوچھا کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamخضاب لگاتےتھے؟ انہوں نے کہا: نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے مہندی اور وسمہ (نیل کےپتوں)کو لگایا تھا۔

امام محمد بن سعد البصری Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

عن ابى جعفر قال: شمط عارضا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فخضبه بحناء وكتم.66
حضرت ابی جعفر Radi Allah Anhoسے روایت ہے کہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دونوں رخساروں کے بال بکھرے ہوئے(سیاہ وسفید ملے جلے) تھے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ان پر مہندی اور کتم(نیل کےپتوں) کا خضاب لگایا۔

حضورﷺمہندی کا خضاب بھی لگاتے تھے

اس حوالہ سے امام ترمذیRehmatullah Alaih روایت کرتے ہیں:

ابو رمثة قال: اتیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مع ابن لى فقال: ابنك ھذا؟ فقلت: نعم اشھد به. قال: لایجنى علیك ولا تجنى علیه ورایت الشیب احمر.67
حضرت ابورمثہRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں کہ میں رسو ل اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت میں اپنے بیٹے کو لے کر حاضر ہوا توآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا یہ تمہارا بیٹا ہے؟ میں نے کہا جی میں اس کی گواہی دیتا ہوں ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا یہ تم پر ظلم نہیں کرے گا تم اس پر ظلم نہیں کرو گے۔ میں نے دیکھا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سفید بال مبارک سرخ تھے۔

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےخضاب مبارک لگانے کے متعلق اگرچہ کے روایات میں بظاہرتعارض ہے تاہم اس کی تحقیق و تصحیح کرتے ہوئے ملاعلی قاری Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

وھذه الروایة صریحة فى خضابه صلى اللّٰه علیه وسلم.68
اور یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے خضاب کرنے میں صریح روایت ہے۔

ان مذکورہ روایات سے واضح ہوجاتاہے کہ رسول اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خضاب استعمال فرماتے تھے اور یہ خضاب مہندی اور نیل کے پتوں سے بنتا تھا۔

زرد رنگ کا خضاب بھی لگاتے تھے

عموما رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamان دو چیزوں یعنی مہندی اور نیل کے پتوں کا خضاب استعمال فرماتے تھے۔لیکن ان کے علاوہ بھی رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے دیگر چیز وں کاخضاب استعمال فرمایا ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے امام ابو داؤد Rehmatullah Alaihحضرت ابن عمر Radi Allah Anhumaسے روایت کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں:

عن ابن عمر ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان یلبس النعال السبتیة ویصفر لحیته بالورسوالزعفران وكان ابن عمر یفعل ذلك.69
حضرت ابن عمر Radi Allah Anhuma بیان کرتے ہیں کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبغیر بالوں کے چمڑے کی جوتی پہنتے تھے اور اپنی داڑھی کوورس اور زعفران سے رنگتے تھے۔ حضرت ابن عمر Radi Allah Anhuma بھی ایساہی کرتے تھے۔

اسی حوالہ سے حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمدالطبرانی Rehmatullah Alaih روایت کرتے ہیں:

عن ابن عمر ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان یصفر لحیته.70
حضرت عبداﷲ بن عمر Radi Allah Anhuma رو ایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺاپنی داڑھی کو زرد رنگ لگاتے تھے۔

اسی طرح حافظ ابوبکراحمدبن حسین بیہقی Rehmatullah Alaihکی روایت میں ہے:

عن ابن عمر أنه كان یصفر لحیته بالخلوق ویحدث أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یصفر.71
حضرت ابن عمراپنی داڑھی کوزعفران ملی خوشبوسے رنگتےتھےاوربیان کرتے تھےکہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamداڑھی کو رنگتے تھے۔

اسی طرح حضرت عبید بن جریج Radi Allah Anhoسے نقل کرتے ہوئے امام طحاویRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

عن عبید بن جریج انه قال لعبدللّٰه بن عمر: یا ابا عبدالرحمن رایتك تصبغ بالصفرة فقال: انى رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یصبغ بھا فانا احب ان اصبغ بھا.72
حضرت عبید بن جریجRehmatullah Alaih سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداﷲ بن عمر سے کہا :اے ابو عبدالرحمن میں آپ کو دیکھتا ہوں کہ آپ پیلے رنگ کا خضاب استعمال کرتے ہیں؟ عبداﷲ ابن عمر Radi Allah Anhumaنے کہا: میں نے نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو دیکھا کہ وہ اسی رنگ سے (داڑھی مبارک) کو رنگتے تھے اور مجھے یہی رنگ پسند ہے کہ میں اس سے ( اپنی داڑھی کو)رنگوں۔

ابن عمر سے ہی نقل کرتے ہوئے امام عبدبن حمید Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

عن ابن عمر: أنه كان یستحب الصفرة حتى فى العمامة، وزعم أن النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان یستحب الصفرة.73
حضرت ابن عمر Radi Allah Anhumaسے روایت ہے کہ وہ عمامہ رنگنے کو بھی پسند فرماتے تھے اوراپنےاندازے سےفرماتےکہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبھی اسے محبوب رکھتےتھے۔

حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمدالطبرانی Rehmatullah Alaihروایت کرتے ہیں:

عن عبدللّٰه بن محمد بن عقیل قال :قلت لانس بن مالك: ھل كان شاب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم؟ قال: ما اراه كان فى راسه ولحیته خمس عشرة شعرة بیضاء ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یمسھا بصفرة.74
حضرت عبداﷲ بن عقیلRadi Allah Anho فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک Radi Allah Anhoسے عرض کی :کیا حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجوان تھے؟ حضرت انسRadi Allah Anho نے فرمایا: آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سر مبارک اور داڑھی مبارک میں پندرہ بال سفید تھے اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنی داڑھی مبارک کو زرد رنگ کرتے تھے۔

حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمدالطبرانیRehmatullah Alaih روایت کرتے ہیں:

عن عبید بن جریج انه كان یخضب بصفرة ویخبر ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یخضب بالصفرة.75
عبید بن جریج سےمروی ہے کہ وہ زردرنگ کا خضاب لگاتےتھےاور بیان کرتےکہ بے شک رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamزرد رنگ کا خضاب لگاتے تھے۔

ان مذکورہ بالا روایات سے واضح ہواکہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا خضاب عمومی طور پر مہندی اور وسمہ یعنی نیل کے پتوں سے ہوا کرتاتھا اور ان کے علاوہ زرد رنگ اور ورس کو بھی نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے خضاب کے طور پر استعمال فرمایا ہے۔

مہندی اور وسمہ سے رنگے ہوئے موئے مبارک

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک کو صحابہ کرامRadi Allah Anhum اپنے پاس بطورِ تبرک رکھتے جس کی برکات مسلّم ہیں،جیسا کہ ماقبل میں حضرت ابو ایوب انصاریRadi Allah Anho کےحوالہ سے روایت گزری ہے۔اسی حوالہ سے ایک روایت میں عثمان بن عبد اللہ سے نقل کرتے ہوئے امام ابو یوسف Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

عن عثمان بن عبدللّٰه ابن موھب انه قال اخرجت لنا ام سلمة مشاقة من شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مخضوبة بالحناء والكتم.76
حضرت عبداللہ ابن موھب سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے(ام المومنین) حضرت ام سلمہ Radi Allah Anhaنےمشاقہ (بالوں کاگچھاجوکنگھی کرتےہوئےٹوٹ جاتےہیں)نکالا جس میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بال مبارک تھے جو مہندی اور کتم(نیل) سے رنگے ہوئے تھے۔

اسی طرح امام محمد بن اسحاق بن خذیمہ Rehmatullah Alaihروایت کرتے ہیں:

محمد بن عبد اللّٰه بن زيد، أخبره أن أباه شھد النبى صلى اللّٰه علیه وسلم عند المنحر ھو ورجل من الأنصار فحلق رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم رأسه فى ثوبه فأعطاه، فقسم منه على رجال، وقلم أظفاره، فأعطاه صاحبه قال: فإنه عندنا مخضوب بالحناء والكتم أو بالكتم والحناء.77
حضرت محمد بن عبداﷲ بن زید Radi Allah Anhoفرماتے ہیں کہ ان کے والد قربان گاہ کے پاس نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ساتھ موجود تھے اور وہ ایک انصاری آدمی تھے۔پس رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنےاپناسر اپنے کپڑے میں مونڈا۔ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے وہ بال انہیں عطا کردیے اورانہوں نےان کولوگوں میں تقسیم کردیا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ناخن تراشے اور ایک صحابی کو عطا کردیے۔صحابی فرماتے ہیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بال مہندی اور وسمہ(نیل کےپتوں) یا فرمایا وسمہ اور مہندی کے ساتھ رنگے ہوئے ہمارے پاس موجود ہیں ۔

اسی پر روشنی ڈالتے ہوئےامام حاکم Rehmatullah Alaihروایت کرتے ہیں:

قالوا: فانه عندنا مخضوب بالحناء والكتم. ھذا حدیث صحیح على شرط الشیخین ولم یخرجاه.78
صحابہ کرامRadi Allah Anhum فرماتے ہیں وہ بال اب بھی ہمارے پاس مہندی اور وسمہ(نیل کےپتوں) سے رنگے ہوئے موجود ہیں۔یہ حدیث امام بخاریRehmatullah Alaih اور امام مسلمRehmatullah Alaih کی معیار کے مطابق صحیح ہے مگردونوں نے اسے نقل نہیں کیا۔

اسی حوالہ سے امام مقدسیRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

قال فانه لعندنا مخضوب بالحناء والكتم یعنى شعره.79
راوی نے کہا بلاشبہ ہمارے پاس مہندی اور وسمہ(نیل کےپتوں) سے رنگے ہوئے یعنی نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بال مبارک موجود ہیں۔

امام بخاری Rehmatullah Alaihنے بھی اسی طرح کی ایک روایت حضرت عثمان بن عبد اللہ سے روایت کی ہے۔چنانچہ وہ روایت کرتے ہوئے نقل فرماتےہیں:

عن عثمان بن عبد اللّٰه بن موھب، قال: أرسلنى أھلى إلى أم سلمة زوج النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بقدح من ماء. وقبض إسرائیل ثلاث أصابع من قصة. فیه شعر من شعر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم، وكان إذا أصاب الإنسان عین أو شىء بعث إلیھا مخضبه، فاطلعت فى الجلجل، فرأیت شعرات حمرا.80
عثمان بن عبداللہ بن وہب نے بیان کیا کہ میرے گھر والوں نے مجھےام سلمہ Radi Allah Anhaکے پاس پانی کا ایک پیالہ لے کر بھیجا۔ اسرائیل راوی نے تین انگلیاں بند کر لیں یعنی وہ اتنی چھوٹی پیالی تھی۔ اس پیالی میں بالوں کا ایک گچھا تھا جس میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بالوں میں سے کچھ بال تھے۔ عثمان نے کہا جب کسی شخص کو نظر لگ جاتی یا اور کوئی بیماری ہوتی تو وہ اپنا پانی کا برتن بی بی ام سلمہ Radi Allah Anhaکے پاس بھیج دیتا۔ (وہ اس میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بال ڈبو دیتیں)۔ عثمان نے کہا کہ میں نے نلکی کو دیکھا (جس میں موئے مبارک رکھے ہوئے تھے) تو سرخ سرخ بال دکھائی دیے۔

ایک اور روایت میں امام بخاری Rehmatullah Alaihنقل کرتے ہیں:

عن عثمان بن عبد للّٰه بن موھب قال: دخلت على ام سلمة فاخرجت الینا شعراً من شعر النبى مخضبوباً. وقال لنا ابونعیم حدثنا نصیر بن ابى الاشعت عن ابن موھب ان ام سلمة ارته شعر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم احمر.81
عثمان بن عبداللہ بن موہب نے کہا: میں ام سلمہ Radi Allah Anhaکی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ہمیں حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چند بال نکال کر دکھائے جن پر خضاب لگا ہوا تھا۔ ہمیں ابونعیم نےبتایا نصیر بن ابوالاشعث نے ابن موہب سے روایت کی کہ حضرت ام سلمہ Radi Allah Anha نے انہیں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سرخ بال دکھایا۔

حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمدالطبرانی Rehmatullah Alaihروایت کرتے ہیں:

عثمان بن عبد اللّٰه بن موھب، قال: دخلنا على أم سلمة، فأخرجت لنا صرة فیھا شعر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم مخضوب بحناء، فقالت: ھذا من شعر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم.82
عبداللہ بن موھب فرماتے ہیں کہ ہم حضرت امہ سلمہ Radi Allah Anha کی خدمت میں حاضرہوئے تو انہوں نے ایک شیشی نکالی جس میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےمہندی سے رنگے ہوئے بال تھے۔پس آپ Radi Allah Anhoنے فرمایا کہ یہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چند بال ہیں۔

امام حاکم Rehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

عن ابى رمثة قال اتیت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وعلیه بردان اخضران وله شعر قد علاه الشیب وشیبه احمر مخضوب بالحناء.83
حضرت ابو رمثہRadi Allah Anho فرماتے ہیں :میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ نے دو سبز چادریں اوڑھ رکھی تھیں اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چند بال مہندی کے ساتھ خضاب استعمال کرنے کی وجہ سے سرخ تھے۔

یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاری Rehmatullah Alaih اور امام مسلمRehmatullah Alaih نے اسے نقل نہیں کیا۔ سنن نسائی نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے:

اتیت انا وابى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وكان قد لطخ لحیته بالحناء.84
میں اور میرےوالد نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں حاضر ہوئےتوآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنےاپنی داڑھی کومہندی سےرنگاہواتھا۔

علامہ بلاذری Rehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

قال ابو صالح فى حدیثه عن ابن عباس رضى اللّٰه عنهما : رایت وفرة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بھا ردع من حناء. وقال عكرمة فى حدیثه عن ابن عباس :رایت وفرة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وبھا تلوین من الحناء.85
حضرت ابن عباس Radi Allah Anhumaنےفرمایا:میں نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے کانوں کے قریب تک بال دیکھے جو مہندی سے رنگے ہوئے تھے۔

امام ابن ابی شیبہ Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

عن عثمان بن حكیم قال: رأیت عند آل ابى عبیدة بن عبدللّٰه بن زمعة شعرات من شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مصبوغا بالحناء.86
امام عثمان بن حکم Rehmatullah Alaihبیان کرتے ہیں کہ میں نے آل ابوعبیدہ بن عبد اللہ بن زمعہ کے پاس نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے کچھ بال مبارک دیکھے جو مہندی سے رنگے ہوئے تھے۔

محمد بن سعد البصری Rehmatullah Alaih نے بھی اس حدیث کو اسی طرح ذکر کیا ہے۔ 87 اسی حوالہ سے حافظ ابن حجر عسقلانیRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

ابوعقیل قال: انه راى شعرا من شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مصبوغا بالحناء. قال: كنا نخضضه بالماء ونشرب ذلك الماء.88
ابوعقیل نے کہا :انہوں نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بالوں میں سے ایک بال دیکھا جو مہندی سے رنگا ہوا تھا۔ انہوں نے مزید کہا: ہم اس بال کو پانی میں ہلالیاکرتے اور اس پانی کو پی لیا کرتے تھے ۔

ایک اور روایت نقل کرتے ہوئےحافظ ابن حجر عسقلانی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

عن ابى مالك قال: انه رأى شعرا من شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مصبوغا بالحناء ولیس بشدید الحمرة. قال: وكلنا نغلسه بالماء.89
ابن مالک نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بالوں میں سے ایک بال دیکھا جو مہندی سے رنگا ہوا تھا لیکن زیادہ سُرخ نہیں تھا۔مزیدکہا: ہم اسے پانی سے دھوتے تھے۔

اس حوالہ سے امام ابو عیسیٰ ترمذی Rehmatullah Alaihروایت کرتے ہیں:

عن انس قال رایت شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مخضوبا. قال حماد واخبرنى عبدللّٰه بن محمد بن عقیل قال رأیت شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عند انس بن مالك مخضوبا.90
حضرت انس Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں کہ میں نے رسو ل اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بالوں کو رنگا ہوا دیکھا۔حماد نے کہامجھےعبد اللہ بن محمد بن عقیل نےبتایا: کہ میں نےحضرت انس کےپاس رسو ل اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکامہندی میں رنگابال دیکھا۔

حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمدالطبرانی Rehmatullah Alaihروایت کرتے ہیں:

عن عبدللّٰه بن بریدة عن ابیه قال: رایت فى اصداغ النبى ا خضاب الحناء.91
عبد اللہ بن بریدہ اپنےوالدسےروایت کرتے ہیں:میں نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی کنپٹیوں (کےبالوں) کومہندی سے رنگے ہوئے دیکھا۔

امام محمد بن سعد بصریRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

عن عكرمة بن خالد قال: عندى من شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مخضوب مصبوغ فى سكة.92
حضرت عکرمہ بن خالد Rehmatullah Alaihبیان کرتے ہیں کہ میرے پاس رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بال ہیں جو رنگین اور خوشبو دار ہیں۔

ان روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک کو اپنے پاس بطورِ تبرک رکھنا اور اس سے برکت کا خواستگار ہونا صحابہ کرامRadi Allah Anhum کامعمول مبارک تھا۔نہ صرف اتنا بلکہ صحابہ کرامRadi Allah Anhum ا ن بال مبارک کو اپنے پاس رکھتے ، اس کی زیارت سے لوگوں کو مشرف فرماتے،ان بالوں کو غسل بھی دیتے اور اپنے مریضوں کو وہ پانی پلاتے جن میں ان موئے مبارک کو غوطہ دیا جاتا۔لہٰذا یہ تمام کام کوئی نئے کام نہیں ہیں بلکہ اس کی اصل دور رسالت مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں موجودہے اور صحابہ کرام Radi Allah Anhumکے معمولات میں رہے ہیں ۔

ماقبل تمام تفصیلات کاخلاصہ یہ ہوا کہ حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی داڑھی مبارک گھنی اور نور الٰہی کا مرقع تھی ۔صحابہ کرام Radi Allah Anhumنے بیان کیا کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی داڑھی موتیوں کی طرح چمکتی تھی۔ اعتدال کے ساتھ ترتیب سے مزین کیے ہوئے ہوتی تھی ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے اندازمیں نکھارِ شخصیت بدرجہ اولیٰ موجود تھا۔نہ صرف یہ بلکہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی داڑھی مبارک گہری سیاہ تھی جس میں سوائے معدودے چند بال مبارک کے باقی تمام کے تمام بال مانندِ بدلی تھے۔ان روایات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنی داڑھی مبارک کو تراشتے اور سنوارتے بھی تھے اور صحابہ کرام Radi Allah Anhumکا بھی یہی معمول تھا کہ قبضۃ سے زائد داڑھی کو ترشوادیتے تھے۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی داڑھی مبارک کے بال مبارک بھی باعث ِ شفاء ہوتے تھے جن سے صحابہ کرامRadi Allah Anhum اپنے مریضوں کو پانی پلا کر ٹھیک کرتے تھے۔جب داڑھی مبارک کا یہ عالم ہے تو خود سرورِ دو عالمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی شان و عظمت کا اندازہ لگانا انسانی عقل سے وراء الوراء ہے۔اس مقام پر پھر صرف یہ وحیِ ربانی ہی جلوہ گر ہوجاتی ہے کہ رب کائنات نے تمام تر فضائل و عظمتیں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو عطا فرمائیں اور اس کا یوں اعلان فرمایا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر اللہ ربُّ العزّت کا بے پناہ اور سب سے بڑھ کر فضل ہے۔93


  • 1  القرآن، سورۃالاسراء70:17
  • 2  القرآن، سورۃالتین4:95
  • 3  القرآن، سورۃالانفطار7:82
  • 4  القرآن، سورۃیوسف31:12
  • 5  محمدبن سعد البصری،الطبقات الکبرٰی، ج-1، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:138
  • 6  ڈاکٹرمحمدطاہرالقادری، شمائل مصطفی ﷺ ،مطبوعہ: منہاج القرآن پبلیکیشنز، لاہور،پاکستان،2013، ص:137
  • 7  فتی ارشاد احمد قاسمی ، شمائل کبریٰ، ج-5،مطبوعہ:دارالاشاعت ،کراچی، پاکستان، 2003ء، ص:41
  • 8  أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقى، دلائل النبوة، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1408هـ، ص:216
  • 9  أبو عبداللہ محمد بن عبد الله الحاكم النيسابورى، المستدرك على الصحيحين، ج-2، مطبوعہ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1990ء، ص:662
  • 10  ابوبکر محمد بن الحسین الآجری،الشریعۃ، حدیث: 1022، ج-3 ، مطبوعۃ: دار الوطن، الریاض،السعودیۃ،1990ء ، ص: 150
  • 11  ابو بکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوہ(مترجم:محمد اسماعیل الجاروی)،جـ1، مطبوعہ: دارالاشاعت، کراتشی، باکستان، 2009ء، ص:254
  • 12  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:34
  • 13  ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:216
  • 14  عیاض بن موسیٰ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان ،اردن،1407ھ، ص:148
  • 15  عبد الرحمن بن علی الجوزی ، الوفاء باحوال المصطفیٰ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:397
  • 16  ابو القاسم علی بن حسن ابن عساکر، تہذیب دمشق الکبیر، ج-1، مطبوعۃ: دار المیسرۃ، بیروت، لبنان، 1979ھ، ص:321
  • 17  ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1405ھ، ص:218-217
  • 18  ایضًا: ص:217
  • 19  أبو القاسم على بن الحسن ابن عساكر، تاريخ دمشق، ج-3، مطبوعہ: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، دمشق، السوریۃ، 1995ء، ص:269
  • 20  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی، الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:321
  • 21  ابو عیسی محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 2762، ج -4، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:391
  • 22  ایضاً
  • 23  ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:5892، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ مصر، 2003ء، ص:1225
  • 24  ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب النسائی، سنن نسائی، حدیث:3315، ج-3، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص:374
  • 25  ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ، مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث:25481، ج-5، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودیۃ، 1409ھ، ص:225
  • 26  ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:5923، ج- 7، مطبوعۃ: دمشق، السوریۃ، (لیس تاریخ موجود اً)، ص: 164
  • 27  امام احمد رضا خان، فتاوی رضویہ، ج- 22، مطبوعہ: رضا فاؤنڈیشن، لاہور، پاکستان، 1429ھ، ص:596
  • 28  ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ،مصنف ابن ابی شیبہ، ج-8، مطبوعۃ: ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ، کراتشی، باکستان، 1406ھ، ص:379
  • 29  عبد الحق دہلوی،اشعۃ اللمعات، ج-1، مطبوعہ: لکشور، بھارت، (سن اشاعت ندارد)، ص:228
  • 30  امام احمد رضاخان، لمعۃ الضحیٰ فی اعفاء اللحی، مطبوعہ: مکتبہ فیضان مدینہ، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت ندارد) ، ص:45
  • 31  محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري، فيض الباري على صحيح البخاري، ج-4، مطبوعہ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،2005ء، ص:434
  • 32  ابو بکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوۃ(مترجم:محمد اسماعیل الجاروی)، ج-1، مطبوعہ: دارالاشاعت، کراتشی، باکستان، 2009ء، ص:254
  • 33  ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:3545، مطبوعۃ: دارالاسلام للنشروالتوزیغ،الریاض، السعودیہ، 1419ھ، ص: 596
  • 34  علامہ غلام رسول سعیدی ،نعمتہ الباری فی شرح صحیح بخاری ،حدیث:3545، ج-6،مطبوعہ: فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستان،2012ء، ص:610
  • 35  ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3546، مطبوعۃ: دارالاسلام للنشروالتوزیغ، الریاض، السعودیۃ، 1419ھ،ص:596
  • 36  علامہ غلام رسول سعیدی ،نعمتہ الباری فی شرح صحیح بخاری ،حدیث:3546،ج-6،مطبوعہ: فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستان،2012ء، ص:610
  • 37  ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3547، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر، 2003ء، ص:743
  • 38  ایضًا:حدیث: 3550
  • 39  ابو عبداللہ احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث:17219، ج-5، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1994ء، ص:205
  • 40  ابو عبداللہ احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث:18294، ج-5، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1994ء، ص:401
  • 41  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی، الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:334
  • 42  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص:18
  • 43  ابو عیسی محمد بن عیسیٰ الترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 43، مطبوعۃ: دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ء،ص:28
  • 44  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی، الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:336
  • 45  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث :4048، ج-4، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:172
  • 46  احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ، حدیث :2168، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:200
  • 47  مسلم بن الحجاج القشیری، صحيح مسلم، حدیث:6077، مطبوعۃ۔: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000ء، ص:130
  • 48  محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:46، مطبوعۃ: موسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:60
  • 49  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی،الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 438-437
  • 50  ابوبکرعبداﷲ بن محمد بن ابی شیبہ، مصنف ابن ابی شیبہ فی الخضاب بالحناء، حدیث: 25047، ج-5، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد الریاض، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)،ص: 185
  • 51  ابو الحسن علی بن ابی بکر الہیثمی، مجمع الزوائد، ج-5، مطبوعۃ: مکتبۃ القدسی، القاہرۃ،مصر، 1414ھ، ص:162
  • 52  ایضًا: ص:161
  • 53  ایضًا:ص:162
  • 54  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی،الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1410ھ، ص:338
  • 55  ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:3550، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر، 2003ء، ص:743
  • 56  محمد بن عیسیٰ ترمذی،الشمائل المحمدیۃ، حدیث:48، مطبوعۃ: موسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:62
  • 57  یحییٰ بن شرف الدین نووی، شرح مسلم، ج -2، مطبوعہ: نور محمد اصح المطابع کراتشی، باکستان، ،(لیس التاریخ موجودًا) ، ص:259
  • 58  محب الدین ابوجعفر احمد بن عبد اﷲ الطبری، غایۃ الاحکام فی احادیث الاحکام، حدیث:1228، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :495
  • 59  محمد بن ابی بکر الدمشقی الشہیر بابن قیم الجوزیہ، زادالمعاد، ج -4، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:367
  • 60  ابو الفداء اسماعیل بن عمر نب کثیر الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-6، مطبوعۃ: مکتبۃ المعارف، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:22
  • 61  ابوجعفراحمدبن محمدالطحاوی، شرح مشکل الآثا، حدیث:3118 ، ج -8، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:195
  • 62  ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی،جامع المسانید والسنن، ج-28، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:7623
  • 63  ابو عبد اللہ احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث:17043، ج-5، مطبوعۃ:دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1994ء، ص: 169
  • 64  احمد بن عمر وبن عبد الخالق عتیکی بزار، مسند البزار، حدیث: 2777، ج -7 ، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ،السعودیۃ، ص:206
  • 65  ابوبکرعبداﷲ بن محمد بن ابی شیبہ،مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث:5060، ج-8، مطبوعۃ: ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ، کراتشی، باکستان ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 246
  • 66  محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ج -1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:437
  • 67  محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:45، مطبوعۃ: موسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:60
  • 68  نور الدین بن سلطان القاری،جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج -1، مطبوعۃ: ادارہ تالیفات اشرفیۃ، ملتان، باکستان، (لیس التاریخ موجودًا) ، ص:119
  • 69  سلیمان بن اشعث، سنن ابی داؤد، حدیث :4210 ،ج -4 ، مطبوعہ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1430ھ، ص:86
  • 70  سلیمان بن احمدالطبرانی، طبرانی الاوسط، حدیث:2070، ج -2، مطبوعۃ: دارالحرمین، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:310
  • 71  ابوبکراحمدبن الحسین البیہقی، شعب الایمان، حدیث :5985، ج-8، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1423ھ، ص:394
  • 72  ابوجعفراحمدبن محمدالطحاوی، شرح مشکل الآثار، ج-9 ، مطبوعۃ: بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:310
  • 73  عبدبن حمید بن نصرابو محمد الکسی، مسند عبد بن حمید، حدیث:840، مطبوعۃ: مکتبۃ السنۃ ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:265
  • 74  سلیمان بن احمد الطبرانی، المعجم الاوسط، حدیث:5259، ج-5، مطبوعۃ: دارالحرمین، القاھرۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:261
  • 75  سلیمان بن احمد الطبرانی، مسند الشامیین، حدیث: 326 ، ج -1، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1984ء، ص:187
  • 76  ابو یوسف یعوب بن ابراہیم،کتاب الآثار لامام ابو یوسف، حدیث:1033، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :232-233
  • 77  محمد بن اسحاق بن خزیمہ نیشابوری، صحیح ابن خزیمہ، حدیث: 2931، ج-4، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:300
  • 78  ابوعبداﷲ محمد بن عبداﷲالحاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، حدیث :1744، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ ،بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:648
  • 79  ابو عبداﷲ محمد بن عبدالواحد الحنبلی المقدسی،الاحادیث المختارۃ، حدیث:354، ج -9، مطبوعۃ: مکتبۃ النھضۃ الحدیثۃ، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:358
  • 80  ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:5892، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ،1419ھ، ص:1037
  • 81  ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:5897-5898، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر،2003ء، ص:1225
  • 82  سلیمان بن احمد الطبرانی، المعجم الکبیر، حدیث :764 ، ج-23 ،مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل،عراق، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:332
  • 83  ابو عبداﷲ محمد بن عبداللہ الحاکم نیشا بوری،المستدرک علی الصحیحین، حدیث:4203، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:664
  • 84  ابو عبد الرحمٰن احمد بن شعیب نسائی، سنن النسائی، حدیث:5084، ج-8، مطبوعۃ: مکتب المطبوعات الاسلامیۃ، حلب، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:140
  • 85  احمد بن یحییٰ بن جابر بلاذری، جمل من انساب الاشراف، حديث:857، ج-1، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1996ء، ص:396
  • 86  ابوبکرعبداﷲ بن محمد بن ابی شیبۃ، مصنف ابن ابی شیبۃ، حدیث:25014، ج -5، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد الریاض، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:183
  • 87  محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دارصادر، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:437
  • 88  حافظ شہاب الدین احمد ابن حجر عسقلانی، المطالب العالیۃبزوائد المسانید الثمانیۃ، حدیث :2208، ج -2، مطبوعۃ: دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:276
  • 89  ایضًا:حدیث :2209
  • 90  محمد بن عیسیٰ ترمذی،الشمائل المحمدیۃ، حدیث:48، مطبوعۃ:موسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:62
  • 91  سلیمان بن احمد الطبرانی،المعجم الاوسط، حدیث:7743، ج -7، مطبوعۃ: دارالحرمین القاھرۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:366
  • 92  محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبریٰ، ج -1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:437
  • 93  القرآن، سورۃ النساء113:4

Powered by Netsol Online