encyclopedia

قلبِ مصطفٰیﷺ

Published on: 30-Nov-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 52، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 756-785)

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا قلبِ انور اﷲ تعالیٰ کی خصوصی تجلیات وانوار اور علوم و معارف کا مرکز ہے۔ سب سے اعلیٰ وحی کے نزول کامحل ومرکز یہی قلب ِانور بنا۔ تمام کائنات کے دلوں سے بہتر، پاکیزہ، نرم ورقیق، وسیع وقوی اور تقویٰ و نظافت کا سرچشمہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہی کا قلب اطہر ہے۔ یہ دل صرف حالت بیداری میں نہیں بلکہ حالت نیند میں بھی بیدار رہتا اور تمام کائنات اسی کے انوار و کمالات سے فیضیاب ہورہی ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قلبِ مطہر کی شان کون بیان کرسکتا ہے جب اس کو چاک کیا گیا تو خود حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:

ففلقھا فیما ارى بلا دم ولا وجع.1
میری آنکھوں کے سامنے میرا سینہ اس طرح چاک کردیا کہ خون نکلا اور نہ ہی مجھے تکلیف ہوئی ۔

فرشتے بھی اس قلب مطہر کے بارے میں کہتے ہیں:

قلبك سلیم ولسانك صادق ونفسك مطمئنة وخلقك قیم.2
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا قلب سلیم ہے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان سچی ہے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا نفس مطمئنہ ہے اورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اخلاق عمدہ ہیں۔

کسی سعادت مند روح پر جب آفتاب حقیقت پر توفگن ہوتا ہے تو اس کی شعائیں شبنم کے قطروں کی طرح اس روح کو اپنے جلوہ گاہ انوارمیں جذب کرلیتی ہیں۔ پھر عقل کا دوسرا رخ جو جانب فوق سے متصل ہے یعنی سر وہ ابھرتا ہے اور اب وہ اس مجرد صرف سے حکایت کرنے لگ جاتا ہے جو ولا عین راء ت ولا اذن سمعت کا مصداق ہے جو زبان ومکان کی حد بندیوں سے بلند و بالاتر ہے۔ قلب اور عقل یہ دونوں جس طرح انبیاءAlaihmus Salamمیں ہوتے ہیں اورانسانوں میں بھی ہوتے ہیں لیکن فرق یہ ہوتا ہے کہ انبیاء Alaihmus Salamمیں قلب اور عقل کو وہ رخ جو روح اور سر کہلاتا ہے اس درجہ بلند اور قوی ہوتا ہے کہ کسی اور انسان میں یہ بات نہیں ہوتی ۔اس بناء پر ان کو عالم فوق سے اتصال ہوتا ہے اور انہیں ایسے ایسے مقامات اور احوال اور مزایا پیش آتے ہیں جو دوسروں کے گمان میں بھی نہیں آسکتے۔

ازروئے قرآن و حدیث اﷲ تعالیٰ کا نبی باوجود بشر ہونے کے بشری صفات میں دوسروں سے ممتاز ہوتا ہے اور اس کو مافوق البشر صفات منجانب اﷲ عطا ہوتی ہیں۔اس لیےاس امر پر ایمان لانا ضروری ہے کہ سیددو عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور دیگر انبیاء Alaihmus Salamاگرچہ حسب ارشاد قرآنی بشر ہیں مگر ان کی استعداد اور ادراک باقی تمام انسانوں سے ممتاز اور بلند ترین ہونے کی وجہ سے ان کے حواس ظاہر یہ میں بھی ممتاز حیثیت موجود ہے۔

یہی وہ عام فطرت انسانی سے مافوق الفطرت باطنی استعداد ہوتی ہے جس کی وجہ سے انبیاء Alaihmus Salamکے حواس عام انسانی حواس سے بہت زیادہ تیز اور ان کا شعور اور ادراک دوسرے لوگوں کے شعور وادراک سے کہیں زیادہ بلند اور اعلیٰ ہوتا ہے۔ اب وہ خدا سے ہمکلام ہوتا ہے، اسطوانہ حنانہ کے گریہ کی آواز سن سکتا ہے، کنکریوں کی تسبیح سے اس کے کان آشنا ہوتے ہیں اور وہ سب کچھ دیکھ اور سن سکتا ہے جو دوسرے لوگ تہ بہ تہ حجابات نظر وسمع کی وجہ سے دیکھ اور سن نہیں سکتے۔

قلب مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بیداری

تمام انبیاء Alaihmus Salamکی یہ خصوصیت منجانب اﷲ ہے کہ ان کی نیند بھی وحی ہے۔ یعنی جو وہ خواب میں دیکھتے ہیں اس کا وہی حکم لیا جاتا ہے جو بیداری میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ہو ۔جیسا کہ سیدنا ابراہیم Alaihis Salamنے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل Alaihis Salamکو ذبح کررہے ہیں تو جب اس کا ذکر اپنے اسی بیٹے حضرت اسماعیلAlaihis Salam سے کیا تو انہوں نے جواب میں یہ عرض کیا :

یاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ ۡسَتَجِدُنِى اِنْ شَاۗءَ اللّٰه مِنَ الصّٰبِرِینَ1023
(اسماعیل علیہ السلام نے) کہا: ابّاجان! وہ کام (فوراً) کر ڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔ اگر اﷲ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ سب انبیاء Alaihmus Salamکی نیند وحی ہےبالخصوص حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نیند۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا دل ہمیشہ بیدار رہا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قرآن عزیز کا نزول آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قلبِ منور پر ہوا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

نَزَّلَه عَلٰى قَلْبِك بِـاِذْنِ اللّٰه 974
اس نے (تو) اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے۔

اس لیےنیند کی حالت میں بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو باہر کی باتوں کا ادراک رہتا تھا ۔جیسا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں فرشتوں کی آمد اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی رسالت کی مثال دینے میں ان کی آپس کی جو بات چیت ہوئی وہ سب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو معلوم رہی۔چنانچہ صحیح حدیث میں مذکور ہےکہ حضرت جابر بن عبداﷲ Radi Allah Anhumaبیان کرتے ہیں:

جائت ملائكة الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وھو نائم فقال بعضھم: انه نائم وقال بعضھم: ان العین نائمة والقلب یقظان فقالوا: ان لصاحبكم ھذا مثلا فاضربوا له مثلا... فقالوا: مثله كمثل رجل بنى دارا وجعل فیھا مادبة وبعث داعیا فمن اجاب الداعى دخل الدار واكل من المادبة ومن لم یجب الداعى دخل الدار ولم یاكل من المادبة فقالوا: اولوھا له یفقھھا... فقالوا: فالدار الجنة والداعى محمد صلى اللّٰه علیه وسلم فمن اطاع محمداً صلى اللّٰه علیه وسلم فقد اطاع اللّٰه ومن عصى محمدا صلى اللّٰه علیه وسلم فقد عصى اللّٰه ومحمد صلى اللّٰه علیه وسلم فرق بین الناس.5
فرشتے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس آئے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس وقت سوئے ہوئے تھے۔ پس بعض فرشتوں نے کہا: یہ سوئے ہوئے ہیں اور بعض فرشتوں نے کہا کہ آنکھ سوئی ہوئی ہےپر دل بیدار ہے۔ پھر انہوں نے کہا: تمہارے اس صاحب کی ایک مثال ہے سو اس کی وہ مثال بیان کرو۔۔۔تو انہوں نے کہا : ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک گھر بنایا اور اس میں ایک دستر خوان رکھا اور کسی دعوت دینے والے کو بھیجا گیا۔ پس جس نے دعوت دینے والے کی دعوت کو قبول کیا وہ گھر میں داخل ہوگیا اور اس نے دستر خوان سے کھانا کھایا۔ جس نے دعوت دینے والے کی دعوت کو قبو ل نہیں کیا تو وہ گھر میں داخل نہیں ہوا اور نہ اس نے دستر خوان سے کھایا۔پھر فرشتوں نے کہا اس مثال کی تاویل بیان کرو تاکہ یہ اس کو سمجھیں۔۔۔توانہوں نے کہا: گھر سے مراد جنت ہے اور دعوت دینے والے محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہیں۔پس جس نے محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اطاعت کی گویااس نے اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کرلی اور جس نے محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نافرمانی کی تو اس نے اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam لوگوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔

اسی طرح اس حوالہ سے حضرت ربیعہ جرشیRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں:

اتى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقیل له :لتنم عینك ولتسمع اذنك ولیعقل قلبك قال: فنامت عیناى وسمعت اذناى وعقل قلبى قال: فقیل لى: سید بنى دارا فصنع مادبة وارسل داعیا فمن اجاب الداعى دخل الدار واكل من المادبة ورضى عنه السید ومن لم یجب الداعى لم یدخل الدار ولم یطعم من المادبة وسخط علیه السید قال: فاللّٰه السید ومحمد الداعى والدار الاسلام والمادبة الجنة.6
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں کوئی فرشتہ آیا اور آپ سے یہ کہا گیا: آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آنکھ تو سوتی رہے گی لیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے کان سنتے رہیں گے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا دل سمجھتا رہے گا ۔تو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا :میری آنکھیں سوجاتی ہیں لیکن میرے کان سنتے رہتے ہیں اور دل سمجھ لیتا ہے۔نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ارشاد فرماتے ہیں: پھر مجھ سے کہا گیاکہ ایک سردار نے گھر بنایا پھر اس میں اس نے دسترخوان سجایا اور ایک دعوت دینے والے کو بھیجا ۔جو شخص اس دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرلے گا وہ اس گھر میں آئے گا اور اس دستر خوان سے کھائے گا اوروہ سردار اس سے راضی ہوگا ۔ جو شخص اس دعوت دینے والے کی بات نہیں مانے گا تووہ اس گھر میں داخل نہیں ہوگا اور اس دستر خوان سے نہیں کھائے گا اور سردار اس سے ناراض ہوگا۔نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ارشاد فرماتے ہیں: اﷲ تعالیٰ وہ سردار ہے اور دعوت دینے والا شخص محمد (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam )ہے۔ وہ گھر اسلام ہے اور وہ دستر خوان جنت ہے۔

جس طرح نیند کے وقت سید دو عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی صرف آنکھ سوتی تھی قوت سماع اور دل بیدار رہتا تھا تو اس سے واضح ہوجاتا ہےکہ نیند سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا۔

نیند میں بھی باوضو

حضرات انبیاء Alaihmus Salamکی بیداری کا عالم یہ ہوتا ہے حالت نیند میں بھی وہ اس بات سے آگاہ رہتے ہیں کہ ان کا وضو قائم ہے یا نہیں؟ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات رسالت مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نیند سے بیدار ہوکر نماز ادا فرماتے تو تجدید وضو نہ کرتے۔چنانچہ حضرت عبداﷲ بن مسعودRadi Allah Anho اس حوالہ سے بیان کرتے ہیں:

ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان ینام مستلقیا حتى ینفخ ثم یقوم فیصلى ولا یتوضا.7
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam چت لیٹ کر سویا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خراٹے لینے لگتے، پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بیدار ہوکر تازہ وضو کیے بغیر ہی نماز پڑھا دیتے۔

اسی طرح اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ Radi Allah Anhaفرماتی ہیں:

كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ینام حتى ینفخ ثم یقوم فیصلى ولا یتوضا.8
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سوتے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگتے، پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بیدار ہوکر تازہ وضو کیے بغیر ہی نماز پڑھا دیتے۔

اسی حوالہ سے بیان کرتے ہوئےامام ابراہیم نخعی تابعی Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم نام فى المسجد حتى نفخ ثم قام فصلى ولم یتوضا كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم تنام عیناہ ولا ینام قلبه.9
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مسجد میں سوئے ہوئے تھے یہاں تک کے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے خراٹے لیے پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بیدار ہوکر کھڑے ہوئے پھر نماز پڑھی اور وضوء نہیں فرمایا۔ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی دونوں آنکھیں مبارک سوئی تھیں آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا دل نہیں سوتا تھا۔

اسی طرح حضرت ابن عباس Radi Allah Anhuma بیان کرتے ہیں :

لما صلى ركعتى الفجر اضطجع حتى نفخ فكنا نقول لعمر:و ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قال: تنام عیناى ولا ینام قلبى.10
جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو لیٹ جاتے یہاں تک کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خراٹے لینے لگتے، راوی بیان کرتے ہیں کہ ہم عمر سے کہتے تھے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ارشاد ہے کہ میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔

اسی حوالہ سے ایک حدیث ِ مبارکہ بیان کرتے ہوئے امام ابن عبدالبر قرطبی مالکیRehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

عن ابى قلابة قال : قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: قیل لى: لتنم عینك ولیعقل قلبك ولتسمع اذنك فنامت عینى وعقل قلبى وسمعت اذنى.11
حضرت ابوقلابہ Radi Allah Anho سے مروی ہے کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمایا : مجھ سے کہا گیا :آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی دونوں آنکھیں محو استراحت رہیں گی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا دل بیدار رہے گا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے کان سماعت کرتے رہیں گے۔ تو میری دونوں (اسی دوران) آنکھیں سوتی ہیں اور دل بیدار رہتا ہے اور میرے دونوں کان (اسی دوران) باتوں کو سنتے ہیں۔

اسی طرح امام محمد بن حسن شیبانی Rehmatullah Alaihنقل فرماتے ہیں:

اخبرنا ابو حنیفة عن حماد عن ابراھیم قال توضا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فخرج الى المسجد فوجد المؤذن قد اذن فوضع جنبه فنام حتى عرف منه النوم وكانت له نومة تعرف كان ینفخ اذا نام ثم قام فصلى بغیر وضوء. قال ابراھیم ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم لیس كغیرہ.قال محمد: وبقول ابراھیم ناخذ بلغنا ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قال :ان عینى تنامان ولا ینام قلبى فالنبى صلى اللّٰه علیه وسلم فى ھذا لیس كغیره فاما من سواه فمن وضع جنبه فنام فقد وجب علیه الوضوء وھو قول ابى حنیفة.
ہمیں امام ابو حنیفہ Rehmatullah Alaihنے خبردی وہ حضرت حمادRehmatullah Alaih سے اور وہ حضرت ابراہیم نخعی Rehmatullah Alaihسے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں :نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے وضو فرمایا اور مسجد کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دیکھا کہ مؤذن اذان کہہ رہا ہے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پہلو کے بل لیٹ کر آرام فرما ہوگئے حتیٰ کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے نیند معلوم ہوتی ۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نیند کا پتہ چل جاتا تھا کیونکہ جب سوجاتے تو خراٹے لیتے تھے۔ (آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے خراٹے ایسے نہ تھے جس سے عموماً لوگوں کو کوفت ہوتی ہے بلکہ بہت آہستہ آہستہ ہوتے) آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پھر اُٹھے اوروضو کئے بغیر نماز پڑھی۔ حضرت ابراہیم نخعیRehmatullah Alaih فرماتے ہیں کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا معاملہ دوسروں کی طرح نہیں تھا۔حضرت اما م محمد Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نخعیRehmatullah Alaihفرماتے ہیں: ہم اسی بات کو اختیار کرتے ہیں ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:"میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا"۔ پس اس مسئلہ میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam دوسروں کی طرح نہیں جب کہ دوسرے لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ جو آدمی پہلو کے بل سوجائے اس پر وضو فرض ہوجاتا ہے۔ امام ابو حنیفہ Rehmatullah Alaihکا بھی یہی قول ہے۔12

اسی طرح امام حمیدی Rehmatullah Alaihروایت کرتے ہیں :

فقال سفیان ھذا للنبى خاصة لان النبى تنام عینه ولا ینام قبله.13
امام سفیان Rehmatullah Alaihنے فرمایا کہ: یہ بات نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا خاصہ ہے کیونکہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آنکھیں سوتی ہیں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا دل مبارک نہیں سوتا۔

حضرت ابو ہریرہ14 اور حسن بصری سے مرسلا اسی طرح مروی ہے۔15اس پر مزید بات کرتے ہوئے امام ابن بطال مالکی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

وفیه دلیل على ان من نام من سائر البشر حتى نفخ لا یصلى حتى یتوضا والنوم انما یجب منه الوضوء اذا خامر القلب و غلب علیه ورسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم لا ینام قلبه فلذلك لم یتوضا.16
اور اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ نوع انسانی میں سے کوئی بھی انسان سوئے یہاں تک کہ وہ خراٹے لینے لگے تو بغیر وضوء کئے نماز نہیں پڑھ سکتا۔ صرف نیند سے اس وقت وضوء کرنا واجب ہوتا ہے جب وہ دل کو ڈھانپ لے اور اس پر غالب آجائے۔ جبکہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا دل نہیں سوتا تھا اسی لیےآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نیند سے بیدار ہونے کے بعد وضوء نہیں فرماتے تھے۔

نیند سے وضوء کا نہ ٹوٹنا صرف نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ مخصوص ہے۔چنانچہ امام ابن عبدالبر قرطبی مالکی Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

وكان صلى اللّٰه علیه وسلم مخصوصا دون سائر امته بان تنام عینه ولا ینام قلبه. صلوات اللّٰه علیه وسلامه.17
اور یہ معاملہ صرف نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ خاص ہے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تمام امت کےبرعکس آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتا اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمتیں اور سلامتی ہو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر ۔

اسی طرح محدث کبیر امام بدر الدین عینی حنفی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

وقال النووى: من خصائصه صلى اللّٰه علیه وسلم انه لا ینتقض وضوء ہ بالنوم مضطجعاً للاحادیث الصحیحة ثم صلى ولم یتوضا وقال: ان عینی تنام ولا ینام قلبى.18
امام نووی Rehmatullah Alaihنے فرمایا :آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ لیٹے ہوئے سونے کے باوجود بھی آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا وضوء نہیں ٹوٹتا تھا صحیح حدیث کی بنا ء پر کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam (بیدار ہونے کے بعد)نماز پڑھتے لیکن وضو نہ فرماتے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا :میری آنکھیں سوتی ہیں پر میرا دل نہیں سوتا۔

امام عبد الرؤف مناوی Rehmatullah Alaihاور دیگر محدثین نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

لان من خصائصه ان وضؤه لا ینقض بالنوم مطلقا لبقاء یقظة قلبه فلو خرج منه حدث لا حس به.19
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے خصائص میں سے ہے کہ نیند سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا قلب انور ہر وقت بیدار رہتا اگر حدث لاحق ہوتا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اسے ضرور محسوس کرلیتے۔

ان سب روایات کو دیکھنے سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بشری خصوصیات میں یہ عظیم خصوصیت بھی ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نیند ناقض وضو نہیں ۔نیند سے نہ ہی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی قوت سماع اور قوت عقل وفہم سلب ہوتی ہے اور نہ کمزور ہوتی ہے۔ جبکہ دوسرے تمام انسانوں کے لیےنیند موت کا بھائی کہلائی جاتی ہے اوراسی سے روضہ اطہر میں بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حیات مبارکہ کو سمجھا جاسکتا ہے۔

نیند میں قلب مبارک کی بیداری میں یہی حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سید دو عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے نیند میں بھی کوئی غیر اولیٰ کام نہیں ہونے دیا جیسا کہ مندرجہ ذیل واقعہ سے ثابت ہے کہ حضرت ابن عمرRadi Allah Anhuma بیان کرتے ہیں :

ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قال :ارانى اتسوك بسواك فجاء نى رجلان احدھما اكبر من الاخر فناولت السواك الاصغر منھما. فقیل لى: كبر فدفعته الى الاكبر منھما.20
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک مسواک کے ساتھ مسواک کررہا ہوں کہ میرے پاس دو آدمی آئے۔ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی عمر کا تھا تو میں نے مسواک چھوٹے کو دے دی تو مجھ سے کہا گیا کہ بڑے کو دیں ۔پس میں نے وہ مسواک ان میں بڑکو دے دی۔

اسی طرح ام المؤمنین عائشہ صدیقہRadi Allah Anha اس روایت کو نقل کرتے ہوئے فرماتی ہیں:

قالت: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یستن وعنده رجلان احدھما اكبر من الاخر فا وحى الیه فى فضل السواك ان اكبر اعط السواك اكبرھما.21
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مسواک کررہے تھے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں دو آدمی موجود تھے جن میں ایک آدمی دوسرے سے بڑا تھا۔ پس آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر مسواک کی فضیلت میں وحی فرمائی گئی اور بڑے آدمی کو مسواک عطا فرمانے کا حکم ہوا۔

امام سیوطیRehmatullah Alaih نے بھی ایک حدیث حضرت عبداﷲ بن کعب Radi Allah Anhoسے روایت کی ہے:

كان اذا استن اعطى السواك الاكبر واذا شرب اعطى الذى عن یمینه.22
جب مسواک فرماتے تو بڑے آدمی کو دیتے تھے اور جب پیتے تو اپنے دائیں جانب والے کو دیتے تھے۔

اسی حوالہ سے روایت کرتے ہوئےحضرت عبداﷲ بن مسعود Radi Allah Anhumaسے منقول ہے کہ وہ فرماتے ہیں:

قال: صلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم العشاء ثم انصرف فأخذ بید عبد اللّٰه بن مسعود حتى خرج به إلى بطحاء مكة فأجلسه ثم خط علیه خطا ثم قال: لا تبرحن خطك فإنه سینتھى إلیك رجال فلا تكلمھم فإنھم لا یكلمونك. قال: ثم مضى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حیث أراد، فبینا أنا جالس فى خطى إذ أتانى رجال كأنھم الزط أشعارھم وأجسامھم لا أرى عورة ولا أرى قشرا وینتھون إلى، لا یجاوزون الخط ثم یصدرون إلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ، حتى إذا كان من آخر اللیل، لكن رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قد جاءنى وأنا جالس، فقال: لقد أرانى منذ اللیلة. ثم دخل على فى خطى فتوسد فخذى فرقد وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم إذا رقد نفخ، فبینا أنا قاعد ورسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم متوسد فخذى إذا أنا برجال علیھم ثیاب بیض اللّٰه أعلم ما بھم من الجمال فانتھوا إلى، فجلس طائفة منھم عند رأس رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وطائفة منھم عند رجلیه ثم قالوا بینھم: ما رأینا عبدا قط أوتى مثل ما أوتى ھذا النبى، إن عینیه تنامان وقلبه یقظان، اضربوا له مثلا مثل سید بنى قصرا ثم جعل مأدبة فدعا الناس إلى طعامه وشرابه، فمن أجابه أكل من طعامه وشرب من شرابه ومن لم یجبه عاقبه أو قال: عذبه ثم ارتفعوا، واستیقظ رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عند ذلك فقال: سمعت ما قال ھؤلاء؟ وھل تدرى من ھؤلاء؟ قلت: اللّٰه ورسوله أعلم. قال: ھم الملائكة، فتدرى ما المثل الذى ضربوا؟ قلت: اللّٰه ورسوله أعلم. قال: المثل الذى ضربوا الرحمن تبارك وتعالى بنى الجنة ودعا إلیھا عباده، فمن أجابه دخل الجنه ومن لم یجبه عاقبه أو عذبه.23
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam عشاء کی نماز پڑھ کرعبداللہ بن مسعودکا ہاتھ پکڑے مسجد سے نکل کر بطحاء مکہ تک تشریف لے گئے اور انہیں بٹھایا ،ان کے اردگرد ایک لکیر کھینچی اور فرمایا: اس لکیر سے باہر نہ نکلنا کیونکہ تمہارے پاس کچھ لوگ آئیں گے تم ان سے بات نہ کرنا وہ بھی تم سے گفتگو نہیں کریں گے۔ پھر حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جہاں چاہا تشریف لے گئے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود فرماتے ہیں:میں اپنے دائرے کے درمیان بیٹھا ہوا تھا کہ کچھ لوگ آئے گویا کہ وہ جاٹ (Nomads خانہ بدوش) ہیں ان کے بال اور بدن بھی ایسے ہی تھے۔ نہ وہ برہنہ معلوم ہوتے اور نہ کپڑے پہنے ہوئے وہ میرے قریب آئے لیکن لکیر سے متجاوز نہ ہوئے۔ پھر وہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف گئے رات آخر ہوگئی تو وہ لوگ نہ آئے بلکہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تشریف لائے تو میں بیٹھا ہوا تھا، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا :میں رات سے نہیں سویا ہوں پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس دائرے میں میرے پاس تشریف لائے اور میرے زانو پر سر مبارک رکھ کر آرام فرما ہوگئے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سوتے میں خراٹے لیا کرتے تھے۔ اسی دوران کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam آرام فرما رہے تھے اور میں بیٹھا ہوا تھا کہ کچھ لوگ آئے انہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے ۔ اﷲ بہتر جانتا ہے کہ وہ کس قدر خوبصورت تھے وہ میری طرف بڑھے ۔ان میں سے ایک گروہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سرمبارک کے پاس بیٹھ گیا اور ایک قدموں میں بیٹھا پھر آپس میں کہنے لگے: ہم نے قطعا کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا جس کو اس نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مثل دیا گیا ہو۔ ان کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل جاگتا ہے۔ ان کی مثال بیان کرو ان کی مثال ایک سردار جیسی ہے جس نے محل بنایا پھر دسترخوان چنا اور لوگوں کو کھانے اور پینے کی طرف بلایا جس نے دعوت قبول کی اس نے اس کے دسترخوان سے کھایا اور پیا اور جس نے دعوت کو قبول نہ کیا اسے اس نے عذاب دیا یہ کہہ کر وہ لوگ چلے گئے اور حضور نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بیدار ہوگئے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: تم نے ان کی گفتگو سنی اور تم جانتے ہو کہ وہ کون تھے؟ میں نے عرض کیا :اﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam زیادہ جانتے ہیں۔ رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:وہ فرشتے ہیں کیا جانتے ہو انہوں نے کیا مثال دی؟ میں نے عرض کیا :اﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam زیادہ جانتے ہیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: انہوں نے یہ مثال دی کہ رحمن نے جنت بناکر بندوں کو اس کی طرف بلایا جس نے دعوت قبول کی جنت میں داخل ہوگا اور جس نے قبول نہ کی اسے عذاب دے گا۔

اس لیےصحابہ کرامRadi Allah Anhum حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو نیند سے نہیں جگایا کرتے تھے کہ کہیں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر وحی نہ آرہی ہو ۔چنانچہ حضرت عمران بن حصینRadi Allah Anho فرماتے ہیں:

وكان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم اذا نام لم یوقظ حتى یكون ھو یستیقظ لانا لا ندرى ما یحدث له فى نومه.24
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جب سوئے ہوتے تھے تو ہم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بیدار نہیں کرتے تھے حتیٰ کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خود بیدار ہوں کیونکہ ہم نہیں جانتے تھے کہ نیند میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر کیا کیفیات طاری ہیں۔

قلبِ بیدار

اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قلب انور کو اسی طرح بیداری عطا فرمائی ہے کہ وہ ہر وقت اور ہر حال میں باری تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے ۔نہ تو اس پر نیند کا غلبہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس پر غفلت طاری ہوسکتی ہے اسی وجہ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا خواب بھی سراپا وحی ہے اور نیند آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے وضو میں خلل واقع نہیں کرتی۔چنانچہ امام بخاریRehmatullah Alaih اور دیگر کئی محدثین روایت کرتے ہیں:

عائشة كیف صلوة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ا فى رمضان ؟قالت: ما كان یزید فى رمضان ولا غیره على احدى عشرة ركعة یصلى اربع ركعات فلا تسال عن حسنھن وطولھن ثم یصلى ثلاثاً. فقلت: یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ا تنام قبل ان توتر؟ قال تنام عینى ولا ینام قلبى.25
اُم المومنین عائشہ صدیقہRadi Allah Anha سے دریافت کیا گیا کہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam رمضان المبارک میں کتنی نماز پڑھا کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا : آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ جب چار رکعتیں پڑھتے تو ان کی خوبی اور طوالت کے بارے میں کچھ نہ پوچھیے۔ پھر چار کعتیں پڑھتے اور ان کی درستی و درازی کی کیا ہی بات ہے (تہجد کی آٹھ رکعت) اس کے بعد تین رکعت (وتر) پڑھتے میں عرض گزار ہوئی: یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! وتر پڑھنے سے پہلے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سوگئے تھے؟ فرمایا : میری آنکھ سوتی ہے لیکن میرا دل نہیں سوتا۔

امام مسلمRehmatullah Alaih26 اورامام احمد بن حنبلRehmatullah Alaih نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔27 ایک اور روایت نقل کرتے ہوئےامام بخاری Rehmatullah Alaihروایت کرتے ہیں:

انس بن مالك یحدثنا عن لیلة اسرى بالنبى صلى اللّٰه علیه وسلم من مسجد الكعبة جآء ثلاثة نفر قبل ان یوحى الیه وھو نآئم فى مسجد الحرام فقال اولھم: ایھم ھو؟ فقال او سطھم: ھو خیرھم. وقال اخرھم: خذوا خیر ھم. فكانت تلك فلم یرھم حتى جآؤا لیلة اخرى فیما یرى قلبه دو النبى صلى اللّٰه علیه وسلم نآئمة عیناه ولا ینام قلبه. وكذلك الانبیاء تنام اعینھم ولا تنام قلوبھم فتوه جبریل ثم عرج به الى السمآء.28
حضرت انس Radi Allah Anhoحضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی معراج کا ذکر فرمارہے تھے جو مسجد حرام سے شروع ہوئی تھی۔ حضرت جبریل Alaihis Salamکے آنے سے پہلے تین افراد (فرشتے) آئے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مسجد حرام کے اندر محو خواب تھے۔ ان میں سے ایک کہنے لگا وہ کون ہیں؟ دوسرے شخص نے کہاکہ وہ ان میں سب سے بہتر ہیں۔تیسرا بولا: ان میں بہتر کو لے لو۔ پھر وہ غائب ہوگئے اور انہیں دیکھا نہیں گیا یہاں تک کہ پھر کسی رات میں پہلے کی طرح نظر آئے ۔حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آنکھیں سورہی تھیں لیکن حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا قلب مبارک نہیں سوتا تھا اور جملہ انبیاء کرام Alaihmus Salamکی آنکھیں سوتی تھیں لیکن دل نہیں سوتا تھا پھر حضرت جبریل آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو لے کر آسمان کی طرف چڑھ گئے۔

ان متذکرہ بالا روایات سے واضح ہوتا ہےکہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا قلب مبارک بحالت نیندبھی بیدار رہتا اور اس کی حکمت یہ تھی کہ کسی بھی وقت نزول وحی ربانی ہوسکتاتھی اور یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرامRadi Allah Anhum کامعمول یہ تھا کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بحالتِ نینداس وجہ سے نہیں جگاتے تھے کہ ممکن ہے کہ وحی ربانی کانزول ہورہا ہو۔یہاں تک کہ نیند میں نظر آنے والے خواب بھی وحی الہیہ کی ہی ایک قسم ہے۔

دلِ مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا نیند کی حالت میں بھی مشاہدِہ حق

ماقبل میں حضرت ام المؤمنین عائشۃ الصدیقۃ Radi Allah Anha کی ایک روایت گزری ہے جس میں ذکر تھا کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam آٹھ رکعات تہجد اور پھر رات کے آخری پہر میں تین وتر ادا فرماتے تھے۔29 اس حدیثِ مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے حضرت ملا علی قاریRehmatullah Alaih اور امام عبد الرؤف مناویRehmatullah Alaih اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

انما فعلت ذلك لانى لا اخشى فوت الوتر وھذا من خصائص الانبیاء علیھم السلام لحیاة قلوبھم واستغراق شھود جمال الحق المطلق.30
میں یہ عمل اس لیے کرتا ہوں کہ مجھے وتروں کی قضا کا اندیشہ نہیں ۔(کیونکہ میرا دل بیدار رہتا ہے) یہ انبیاء Alaihmus Salam کا خاصہ ہے کہ ان کے مبارک دل ہر وقت ہر حال میں بیدار اور جمال حق اﷲ تعالیٰ کے مشاہدہ میں مستغرق رہتے ہیں۔

قلبِ مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مخزن علوم

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا قلب انور اسرار الٰہیہ کا خزانہ ہونے کے ساتھ ساتھ علوم ومعارف کا ایک بحربے کنار بھی ہے جس میں اولین و آخرین کے علوم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سامنے ایک قطرہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو عطا شدہ علوم کو سوائے اﷲ کے کوئی نہیں جانتا۔چنانچہ حافظ ابوبکر بن عائذ حضرت عبداﷲ بن عباس Radi Allah Anhumaسے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت مبارکہ ہوئی تو جنت کے خازن رضوان نے حاضر ہوکر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے کان میں یہ کلمات کہے:

ابشر یا محمد فما بقى لنبى علم الاوقد اعطیته فانت اكثرھم علما و اشجعھم قلبا.31
اے اﷲ کے حبیب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو مبارک ہو جو علوم اﷲ تعالیٰ نے کسی نبی کو عطا نہیں کیے وہ تمام آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو عطا فرمائے ہیں۔ پس آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam علوم کے لحاظ سے تمام انبیاء میں زیادہ اور قلب کے لحاظ سے سب سے زیادہ بہادر ہیں۔

لہٰذا اُمتیوں کا اس بابت بحث و مباحثہ کرنا کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو کتنا اور کونسا علم دیا گیا تھا اور کیا نہیں دیا گیاتھا انتہائی بے سود اور باعثِ ضیاعِ انوارِ نبوت ہے۔وسعتِ علم نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بیان کرتے ہوئے حضرت ابن عباس Radi Allah Anhuma نقل کرتے ہیں :

ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قال: اتانى ربى عزوجل اللیلة فى احسن صورة احسبه یعنى فى النوم. فقال: یا محمد !ھل تدرى فیم یختصم الملأ الاعلى؟ قال: قلت: لا. قال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: فوضع یدیه بین كتفى حتى وجدت بردھا بین ثدیى او قال: نحرى فعلمت ما فى السموات والارض.32
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا :آج رات کو نیند میں میرا رب عزوجل حسین صورت میں میرے پاس آیا اور فرمایا: اے محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! کیا تم جانتے ہو کہ ملا ءِاعلی کس چیز میں بحث کررہے ہیں؟ حضرت ابن عباس Radi Allah Anhumaکہتے ہیں :آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا :نہیں پھر مزید فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دوکندھوں کے درمیان رکھا حتیٰ کہ میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی اور میں نے ان تمام چیزوں کو جان لیا جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں۔

حضرت عبدالرحمن بن عائش Radi Allah Anho33اورامام عبدالرحمن بن الجوزی Radi Allah Anhoنے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔ 34 اسی طرح امام عبدبن حمید Rehmatullah Alaih روایت کرتے ہیں:

فوضع یدیه بین كتفى حتى وجدت بردھا بین ثدیى او قال: نحرى. فعلمت ما فى السموات والارض.35
پھر اﷲ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دوکندھوں کے درمیان رکھا حتیٰ کہ میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی اور میں نے ان تمام چیزوں کو جان لیا جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں۔

امام ترمذی Rehmatullah Alaihکی روایت میں بھی اسی طرح درج ہے۔36 البتہ محمد بن عیسیٰ ترمذی Rehmatullah Alaihکی روایت میں یہ الفاظ بھی منقول ہوئے ہیں:

فتجلى لى كل شى وعرفت.37
ہرچیز مجھ پر روشن ہوگئی اورمیں نے پہچان لی۔

اسی روایت کو مزید تفصیل کے ساتھ امام جلال الدین سیوطیRehmatullah Alaih ا س طرح لکھتے ہیں:

عن رجل من اصحاب النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قال: خرج علینا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ذات غداة وھو طیب النفس مسفر الوجه فسالناه قال: وما یمنعنى واتانى ربى اللیلة فى احسن صورة. فقال: یا محمد! قلت: لبیك ربى وسعدیك.قال: فیم یختصم الملأ الأعلى؟ قلت: لا ادرى. فوضع یده بین كتفى حتى وجدت بردھا بین ثدیى حتى تجلى لى ما فى السموات وما فى الارض.قال: ثم قرأ ”وكذلك نرى ابراھیم ملكوت السموات والارض ولیكون من الموقنین.“ له طرق وھو مطول.38
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ایک صحابی Radi Allah Anho نے فرمایا کہ: رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ایک دن صبح کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نہایت مسرور تھے اور خوشی سے چہرہ چمک رہا تھا۔ ہم نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے استفسار کیاتو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: مجھے بیان کرنے میں کوئی بات مانع نہیں ہےکہ آج رات میرا رب نہایت حسین صورت میں میرے پاس تشریف لایا اوراس نے پکارا یا محمد( Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam )! میں نے عرض کیا: لبیک و سعدیک اے میرے رب۔فرمایا: ملاء اعلیٰ کس بات میں جھگڑرہے ہیں؟ میں نے عرض کیا: میں نہیں جانتا۔ توحق تعالیٰ نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا یہاں تک کہ اس کی ٹھنڈک اپنے سینہ کے اندر محسوس کی۔ پھرجوکچھ آسمانوں کے درمیان ہے اورجوکچھ زمین میں ہے سب مجھ پر روشن ہوگیا۔ راوی نے کہا : اس کے بعد حضورنبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی۔(اور اسی طرح ہم نے ابراہیم ( Alaihis Salam) کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائباتِ خلق) دکھائیں اور (یہ) اس لیےکہ وہ عین الیقین والوں میں ہوجائے)اس حدیث کی بکثرت سندیں ہیں اور یہ حدیث طویل ہے۔

جلال الدین سیوطی Rehmatullah Alaih نے ایک اور روایت طبرانی کے حوالہ سے بھی نقل کی ہے جس میں کچھ الفاظ کی زیادتی ہے ا ور اس کےبعد بزار کی روایت بھی کی ہے۔چنانچہ وہ نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

فوضع یدہ بین ثدیى فعلمت فى مقامى ذلك ما سالنى عنه عن امر الدنیا و الآخرة.وأخرجه البزار من حدیث ثوبان وفیه فخیل لى مابین السماء والأرض ومن حدیث ابن عمر ولفظه إن صلیت فى مصلاى فضرب على أذنى فجاءنى ربى تبارك وتعالى فى أحسن صورة الحدیث.39
تواللہ تعالی نے اپنا دست قدرت میری چھاتی کے درمیان رکھا تودنیا وآخرت کی ہروہ بات جس کے بارے میں مجھ سے اس نے پوچھی میں نے ان سب کو اپنی جگہ جان لیا۔ بزار Rehmatullah Alaihنے ثوبان کی Radi Allah Anhoحدیث سے روایت کی۔ اس میں ہے کہ آسمان وزمین کے درمیان ہرچیز مجھ پر ظاہر ہوگئی اور حضرت ابن عمر Radi Allah Anhoکی حدیث میں اس طرح ہے کہ میں اپنے مصلے پر نماز پڑھ رہا تھا کہ اچانک میرے کان میں سنسناہٹ ہوئی (اورمیں سوگیا) خواب میں میرا رب تبارک وتعالیٰ احسن صورت میں میرے پاس آیا اورمجھ سے فرمایا اورجو آخر حدیث تک مذکور ہے۔

اس روایت کو مزید تفصیل کے ساتھ نقل کرتے ہوئے حضرت معاذ بن جبل Radi Allah Anhoسے روایت ہے :

احتبس عنا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ذات غداة عن صلاة الصبح حتى كدنا نتراء ى عین الشمس فخرج سریعاً فثوب بالصلاة فصلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وتجوز فى صلاته فلما سلم دعا بصوته قال لنا: على مصافكم كما انتم. ثم انفتل الینا ثم قال: اما انى ساحدثكم ما حبسنى عنكم الغداة:انی قمت من اللیل فتوضات وصلیت ما قدرلى فنعست فى صلاتى حتى استثقلت فاذا انا بربى تبارك وتعالى فى احسن صورة فقال: یا محمد! قلت: لبیك رب. قال: فیم یختصم الملاء الا على؟ قلت: لا ادرى. قالھا ثلاثاً قال: فرأیته وضع كفه بین كتفى حتى وجدت برد انا مله بین ثدیى فتجلى لى كل شى وعرفت.40
ایک مرتبہ صبح کی نماز کے وقت حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کودیر ہوگئی اورہم لوگوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا انتظار اس حد تک کیا کہ قریب تھاکہ آفتاب کے آثار نظر آنے لگے۔ اتنے میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تیزی سے تشریف لائے چنانچہ تکبیر کہی گئی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اختصار سے نماز پڑھائی۔ نماز سے فراغت کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے باآواز بلند فرمایا :جس طرح تم بیٹھے ہو اسی طرح صف بندی کیے ہوئے بیٹھے رہو۔ پھر فرمایا :میں اپنی تاخیر کا واقعہ تم کو سناتاہوں پھرواقعہ سنایا (اورواقعہ یہ ہے)کہ رات کے وقت وضو کرکے جس قدر نماز میرے لیے مقدور تھی میں نے پڑھی پھر مجھے نیند آگئی اورمیں نمازمیں ہی سوگیا۔ یکا یک کیا دیکھتا ہوں کہ میں اپنے رب کے حضور میں ہوں اور میں نے اپنے رب کو (اس کی شان کے لائق) نہایت اچھی شکل میں دیکھا (اورمجھ سے) ارشاد ہوا: اے محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! میں نے عرض کی: لبیک اے میرے پروردگار میں حاضر ہوں۔ فرمایا: آسمان والے کس چیز میں جھگڑرہے ہیں؟ میں نے عرض کی: مجھے معلوم نہیں۔ تین مرتبہ یہی ارشاد ہوا حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam فرماتے ہیں: پھرمیں نے دیکھا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا حتیٰ کہ میں نے اس کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنے سینے کے درمیان محسوس کی پس ہرچیز مجھ پر روشن ہوگئی اورمیں نے ہرچیزکوجان لیا۔

اسی طرح ابن کثیر Rehmatullah Alaihکی روایت میں ہے:

فوضع كفه بین كتفى حتى وجدت برد انامله بین صدرى فتجلى لى كل شى وعرفت.41
پھرمیں نے دیکھا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا حتیٰ کہ میں نے اس کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنے سینے کے درمیان محسوس کی پس ہرچیز مجھ پر روشن ہوگئی اورمیں نے جان لی۔

اس طرح امام جلال الدین سیوطی Rehmatullah Alaihنے اس کو نقل کیا ہے ۔42علی بن سلطان محمد القاری Rehmatullah Alaih اس حدیث مبارکہ کی شرح میں لکھتے ہیں:

فعلمت بسبب وصول ذلك الفیض ما فى السموت والارض یعنى اعلمه اللّٰه ما فیھا من الملائكة والاشجار و غیرھا وھو عبارة عن سعة علمه الذى فتح االلّٰه و قال ابن حجر: اى جمیع الكائنات التى فى السموت بل وما فوقھا كما یستفاد من قصة المعراج والارض ھى بمعنى الجنس و جمیع ما فى الارضین السبع بل وما تحتھا كما افاده اخبار عن الثور والحوت الذى علیھما والارضون.43
اس فیض ربانی کی بدولت میں نے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے جان لیا ۔یعنی اﷲ تعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ان کے اندر پائے جانے والے فرشتوں درختوں اور دیگر چیزوں کا علم عطا فرمادیا۔ یہ حدیث آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اس وسعت علم سے عبارت ہے جو اﷲ تعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو عطا فرمائی ہے۔ امام ابن حجر Rehmatullah Alaihنے فرمایا کہ: حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے آسمانوں کی بلکہ ان سے بھی اوپر کی تمام مخلوقات کو جان لیا جیسا کہ حدیث معراج سے ثابت ہے۔زمین جنس کے معنی میں ہے یعنی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے سات زمینوں کی بلکہ ان سے بھی نیچے کی تمام چیزوں کو جان لیا جیسا کہ احادیث Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بیل اور مچھلی کی خبردی جن پر زمینیں قائم ہیں۔

اس کی شرح میں شیخ عبد الحق محدّث دہلوی Rehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

دانستم ھرچه در آسمانھا و ھر چه در زمینھا بود عبارت ست از حصول تمامه علوم جزئى وكلى واحاطه آں.44
میں نے جان لیا جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں تھا اس حدیث میں تمام علوم جزی وکلی کے حاصل ہونے اور ان کے احاطہ کرنے کا بیان ہے۔

اس وسعتِ علمِ نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ہی بیان کرتے ہوئے امام محمودآلوسیRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

فلم یقبض النبى صلى اللّٰه علیه وسلم حتى علم كل شى یمكن العلم به.45
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا اس وقت تک وصال نہیں ہوا جب تک کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ہر اس چیز کو نہیں جان لیاجس کا علم ممکن تھا۔

یہی وجہ ہے کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ابتدائے خلق سے لے کر انتہائے خلق تک صحابہ کے سامنے بیان فرمایا۔چنانچہ حضرت عمر فاروقRadi Allah Anho فرماتے ہیں:

قام فینا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم مقاماً فاخبرنا عن بدء الخلق حتى دخل اھل الجنة منازلھم و اھل النار منازلھم حفظ ذلك من حفظه ونسیه من نسیه.46
ایک بار سید عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ہم میں کھڑے ہوکر ابتدائے آفرینش سے لے کر جنتیوں کے جنت اور دوزخیوں کے دوزخ جانے تک کاحال ہم سے بیان فرمادیا۔جس نے یاد رکھا سو یادرکھا جس نے بھلادیا سو بھلادیا ۔

اسی طرح حضرت ابوزیدRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں :

صلّٰى بنا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الفجر وصعد المنبر فخطبنا حتى حضرت الظھر فنزل فصلى ثم صعد المنبر فخطبنا حتى غربت الشمس فاخبرنا بما كان وما ھو كائن فاعلمنا احفظنا.47
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ہمیں صبح کی نما ز پڑھائی اور منبر پر رونق افروز ہوئے اور ہمیں خطبہ دیا حتیٰ کہ ظہر کا وقت آگیا۔ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam منبر سے اترے اور ظہر کی نماز پڑھائی اور پھر منبر پر رونق افروز ہوئے اور ہمیں خطبہ دیا حتیٰ کہ عصر کاوقت آگیا ۔پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam منبر سے اترے اور عصر کی نماز پڑھائی پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ہمیں خطبہ دیا حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا۔ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ہمیں جوکچھ ہوچکا اورجوہوگاکی خبریں دیں سو جو ہم میں زیادہ حافظہ والا تھا اس کو ان کا زیادہ علم تھا۔

اس کو کچھ تغیرات کے ساتھ امام جلال الدین سیوطی Rehmatullah Alaih اس طرح روایت کرتے ہیں:

واخرج الشیخان من وجه آخر عنه قال: قام فینا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مقاماً ما ترك فیه شیئا الى قیام الساعة الا ذكره حفظه من حفظه ونسیه من نسیه ، وانه لیكون منه الشى قد كنت نسیته فاراہ فاذكره كما یدخل الرجل وجه الرجل اذا غاب عنه ثم اذا رآه عرفه.48
شیخین نے دوسری سند کے ساتھ حضرت حذیفہ Radi Allah Anhoسے روایت کی کہ ا نہوں نے کہا : رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہمارے درمیان ایک جگہ کھڑے ہوئے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے قیامت تک ہونے والی کسی بات کو نہ چھوڑا مگر یہ کہ اسے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بیان کیا۔ جس نے اسے یاد رکھا اس نے اسے یادرکھا اور جو اسے بھول گیا وہ اسے بھول گیا۔ یقیناً جب کوئی بات ایسی ہوتی ہے جسے میں بھول چکا ہوتا ہوں تو فوراً وہ بات یاد آجاتی ہے جیسے کہ کوئی شخص کسی کے چہرے کو یاد کرلیتا ہے۔ جب وہ اس سے غائب ہوتا ہے پھر جب اس کے سامنے آتا ہے تو وہ اسے پہچان لیتا ہے۔

اس کی تشریح کرتے ہوئےحافظ شہاب الدین احمد ابن حجر عسقلانی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

و دل ذلك على انه اخبر فى المجلس الواحد بجمیع احوال المخلوقات منذ ابتدئت الى ان تفنى الى ان تبعث فشمل ذلك الاخبار عن المبدأ و المعاش والمعاد.49
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ایک ہی مجلس میں تمام مخلوقات کے از ابتداء تا انتہاء دوبارہ اٹھائے جانے تک کے تمام احوال کی خبر عطا فرمادی پس حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا یہ خبر دینا مبداء (پیدائش) معاش (دنیوی زندگی) اور معاد (اخروی زندگی) کوشامل تھا۔

نیز حافظ شہاب الدین احمد ابن حجر عسقلانی Rehmatullah Alaih اسی حوالہ سے مزید لکھتے ہیں:

وفى تیسیر ایراد ذلك فى مجلس واحد من خوارق العادة امر عظیم و یقرب ذلك مع كون معجزاته لامریة فى كثرتھا انه صلى اللّٰه علیه وسلم اعطى جوامع الكلم و مثل ھذا من جھة اخرى ما رواه الترمذى من حدیث عبداللّٰه بن عمرو ابن العاص خرج علینا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم و فى یده كتابان فقال: الذى فى یده الیمنى ھذا الكتاب من رب العالیین فیه اسماء اھل الجنة واسماء آبائھم وقبائلھم ثم اجمل على آخرھم فلا یزاد فیھم ولا ینقص منھم ابدا اثم قال للذى فى شماله مثله فى اھل النار.50
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کاایک ہی مجلس میں روز قیامت تک کے احوال و واقعات کابیان فرمانا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا عظیم معجزہ ہے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی شانِ جوامع الکلم (طویل کلام کو چند جملوں میں بیان کرنا) کا آئینہ دار ہے۔ اوراس کی مثال ایک دوسری جہت سے عبداﷲ بن عمرو بن عاص کی حدیث میں ہے جسے امام ترمذی Rehmatullah Alaihنے روایت کیا ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہمارے پاس تشریف لائے درآنحالکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ہاتھ میں دو کتابیں تھیں۔ دائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا :یہ کتاب رب العالمین کی طرف سے ہے اس میں اہل جنت اور ان کے آباء اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں اور ان پر کبھی بھی نہ کوئی نام زیادہ ہوسکتا ہے اور نہ کوئی نام کم ہوسکتا ہے۔ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں اہل دوزخ کی نسبت اسی کی مثل بیان فرمایا۔

امام بدرالدین عینی حنفی Rehmatullah Alaihاس حدیث مبارکہ کی شرح میں لکھتے ہیں:

وفیه دلالة على انه اخبر فى المجلس الواحد بجمیع احوال المخلوقات من ابتدائھا الى انتھائھا.51
اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ایک ہی نشست میں تمام مخلوقات کے ابتداء سے انتہاء تک تمام احوال کی خبر دے دی۔

اسی کی توضیح کرتے ہوئےامام طیبی Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

اى اخبرنا مبتدئاً من بدء الخلق حتى انتھی الى دخول اھل الجنة الجنة ووضع الماضى موضع المضارع للتحقق المستفاد من قول الصادق الامین ودل ذلك على انه اخبر بجمیع احوال المخلوقات منذ ابتدئت الى ان تفنى الى ان تبعث.52
یعنی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ہمیں مخلوق کی پیدائش سے لے کر لوگوں کے جنت میں داخل ہونے تک کے بارے میں خبر دے دی اور یہاں ماضی مضارع کی جگہ آیا ہے ۔صادق اور امین نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے فرمان گرامی سے حاصل ہونے والے تحقق کی وجہ سے یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے تمام مخلوقات کے تمام احوال از ابتدا تا انتہا اوردوبارہ اٹھائے جانے تک کے بارے میں خبر دے دی۔

ان مذکورہ بالا تمام روایات سے روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے علم کی وسعت بے انتہاء ہے ۔صرف اس کا موازنہ مخلوقات یا معلومات سےکرنا عقلِ انسانی اور بساطِ بشری سے واراء الوراء ہے۔صحابہ کرام اور ائمہ کے اقوال سے اتنی بات تو واضح الثبوت ہے کہ تخلیقا ابتداء تا انتہاء کا علم رسول مکرم ومحتشم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دیدیا گیا ہے اور جس کا اظہار احادیث مبارکہ میں ہووا ہے اور رسول اکرم کی موجود پیشن گوئیاں بھی اس کا واضح اور منہ بولتا ثبوت ہے۔

قلب مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی کشادگی

شرح صدر کے لفظی معنی ہیں کھول دینا اوریہ ہدایت کا آخری مرتبہ ہےکہ اس مرتبے میں تمام حقائقِ ملک وملکوت، لاہوت وجبروت منکشف ہوجاتے ہیں اورزبان اسرارِ غیب کی کنجی اور دل خزانہ ہوجاتا ہے۔چنانچہ اس کے متعلق قرآن مجید فرقان حمید میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

اَلَمْ نَشْرَحْ لَك صَدْرَك153
کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لئے) کشادہ نہیں فرما دیا۔

حضرت ابراہیم بن طہمان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید سےاﷲ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں " اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ " پوچھاتو انہوں نے فرمایا کہ مجھے حدیث بیان کی گئی قتادہ سے کہ انہوں نے حضرت انس Radi Allah Anhoسے روایت کیا :

انه قد شق بطنه یعنى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم من عند صدره الى اسفل بطنه فاستخرج منه قلبه فغسل فى طست من ذھب ثم ملى ایمانا وحكمة ثم اعید مكانه.54
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا سینے سے پیٹ کے نیچے تک چاک کیاگیا۔اس میں سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا دل نکالا گیا پھر سونے کے تھال میں دھوکر اس میں ایمان اور حکمت بھردی گئی اس کے بعد اسے دوبارہ اپنی جگہ پر لگادیا گیا۔

حضرت عتبہ بن عبد بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے سوال کیا تھا کہ یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! آپ کے ابتدائی حالات کیا تھے؟تو حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:

كانت حاضنتى من بنى سعد بن بكر فانطلقت انا وابن لھا فى بھم لنا ولم ناخذ معنا زادا فقلت: یا اخى! اذھب فاتنا بزاد من عند امنا فانطلق اخى ومكثت عند البھم فاقبل الى طیران ابیضان كانھما نسران قال احدھما لصاحبه: اھو ھو؟ قال: نعم. فاقبلا یبتدرانى فاخذانى فبطحانى للقفا فشقا بطنى ثم استخرجا قلبى فشقاه فاخرجا منه علقتین سوداوین. فقال احدھما لصاحبه: ائتنى بماء ثلج فغسلا به جوفى. ثم قال: ائتنى بماء برد فغسلا به قلبى. ثم قال: ائتنی بالسكینة فذراھا فى قلبى. ثم قال احدھما لصاحبه: حصه فحاصه وختم علیه بخاتم النبوه.
مجھے بنو سعد بن بکر کی ایک خاتون دودھ پلاتی تھی کہ ایک دن میں اور اس کا بیٹا بکری اور بچوں میں باہر کھیل رہے تھے۔ ہم اپنے ساتھ کھانے پینے کی کوئی چیز ساتھ لے کر نہیں گئے تھے تومیں نے کہا: اے میرے بھائی جان! آپ امی کے پاس جاؤ اور ان سے کوئی چیز لے کر آؤ۔ میرا بھائی چلاگیا اور میں وہیں بکری کے بچوں کے ساتھ ٹھہرگیا اور میں نے دیکھا کہ میری طرف دو سفید پرندے آئے جیسے کہ وہ چیلیں ہیں۔ دونوں میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : کیا یہ وہی ہے؟ دوسرے نے بتایا : ہاں! یہی ہے۔ دونوں جلدی جلدی آگے آئے اور انہوں نے مجھے پکڑ کر سیدھا چت لٹایا اورانہوں نے میرا پیٹ چاک کردیا۔پھر میرا دل نکالا اور اس کو چیر کر اس میں سے انہوں نے دو سیاہ خون کے بستہ(جمےہوئے) ٹکڑے نکالے اور ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا :مجھے برف کا پانی دو۔ انہوں نے اس کے ساتھ میرے پیٹ کو دھویا پھر کہا: ٹھنڈا پانی دوپھر ا س سے انہوں نے میرے دل کو دھویا۔ اس کے بعد اس نے کہا : سکینہ لے آؤ لہٰذا انہوں نے اسے میرے دل میں چھڑک دیا۔ اس کے بعد ایک نے دوسرے سے کہا: اب اس کو سی دو، بند کردوپس اس نے بند کردیااوراس پر نبوت کی مہر لگادی۔

ابو الفضل Rehmatullah Alaihنے بھی اسی طرح روایت کیاہے۔55 شرح صدر کی دولت اتنی بڑی ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اﷲ Alaihis Salamجیسے اولو العزم پیغمبر اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔چنانچہ انکی دعا کو اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں یوں بیان فریا ہے:

قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِى صَدْرِى2556
(موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لیےمیرا سینہ کشادہ فرما دے۔

یعنی انشراح صدر کی دعاخود حضرت موسی Alaihis Salamنے مانگی ۔لیکن قربان سیدنا محمد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے کہ جنہیں رب کریم نے یہ دولت بن مانگے عطا فرمائی۔شیخ ابو علی دقاقRehmatullah Alaih"حبیب" اور "کلیم" کے شرح صدر پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:

كان موسى مریداً وكان نبینا صلى اللّٰه علیه وسلم مرادا.57
حضرت موسیٰ Alaihis Salam مرید تھے(کہ انہوں نے عرض کی "رب اشرح لی صدری" )ہمارے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مراد تھے(کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے فرمایا گیاکہ اے محبوب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کیا ہم نے آ پ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سینہ کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے نہیں کھول دیا)۔

شرح و شقِ صدر

کتب ِ سیر واحادیث میں شق صدر کی تعدادچار مرتبہ مذکور ہوئی ہےجو بالترتیب درجِ ذیل ہے:

پہلی بار اس وقت جب رسول مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam زمانہ طفولیت میں تھے۔58دوسری بار اس وقت جب نبی مکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam دس سال کی عمر مبارک میں پہنچے۔ 59تیسری بار شقِ صدر زمانہ بعثت کے وقت ہوا60اور چوتھی بار معراج کے سفر سے پہلےوقوع پذیر ہوا۔61

شقِ صدر کی ابتداء

زمانہ طفولیت میں جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرت حلیمہRadi Allah Anha کی پرورش میں تھے اس وقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عمر مبارک چار سال تھی (عمر کے بارے میں اور بھی اقوال ہیں)۔اس کا مختصراً قصہ یہ ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنے رضاعی بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرانے جنگل گئے تھے کہ اچانک آپ کا رضاعی بھائی عبداﷲ دوڑتا ہوا حضرت حلیمہRadi Allah Anhuma کے پاس آیا اور کہا کہ میرے قریشی بھائی کو دو سفید پوش آدمیوں نے لٹاکر ان کا شکم مبارک چاک کردیا ہے اور میں ان کو اسی حال میں چھوڑ کر آیا ہوں ۔یہ سنتے ہی حضرت حلیمہ Radi Allah Anhaاور ان کے شوہر جنگل کو دوڑے اور دیکھا کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بیٹھے ہیں اور رنگ مبارک متغیر ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے دریافت کیا کہ کیا واقعہ ہوا؟ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بتلادیا، حضرت حلیمہ سعدیہRadi Allah Anha آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو لے کر گھر واپس آگئیں۔ان فرشتوں نے شق صدر کے وقت یہ عمل کئے تھے:

  1. آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے شکم مبارک کو چارک کرکے قلب مطہر کو نکالا۔
  2. قلبِ مطہر کو چاک کرکے اس میں سے ایک یا دوٹکڑے جمے ہوئے خون کو نکالااور کہا کہ یہ شیطان کا حصہ ہے۔
  3. آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دل مطہر کو سونے کے طشت میں رکھ کر آبِ زم زم سے دھویا۔
  4. قلب مطہر کو اپنی جگہ سینہ اقدس میں رکھ کر ٹانکے لگائے ۔
  5. آخر میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دونوں شانوں کے درمیان ایک مہر لگادی۔چنانچہ اسی حوالہ سے حضرت انس Radi Allah Anhoروایت کرتے ہیں:
ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اتاہ جبریل وھو یلعب مع الغلمان فاخذه فصرعه فشق عن قلبه فاستخرج القلب فاستخرج منه علقة قال: ھذا حظ الشیطان منك ثم غسله فى طست من ذھب بماء زم زم ثم لامه ثم اعاده فى مكانه وجاء الغلمان یسعون الى امه یعنى ظئره فقالوا: ان محمداً قد قتل فاستقبلوه وھو منتقع اللون قال انس وقد كنت ارى اثر ذلك المخیط فى صدره.62
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس حضرت جبریل آئے اورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ۔ انہوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو پکڑکر زمین پر لٹایا ،قلب انور شق کیا ،دل باہر نکال کراسے شق کیا اوراس سے لوتھڑا باہر نکال کر کہا: یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسم اطہر میں سے شیطان کا حصہ تھا۔ پھر قلبِ انور کو سونے کے طشت میں آبِ زم زم سے دھویا پھر اسے سی دیا اور اسے اپنی جگہ لوٹا دیا ۔بچے دوڑ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی رضاعی امی کے پاس گئے انہوں نے کہا: محمد عربی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو شہید کردیا گیا ہے۔ جب وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس آئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا رنگ متغیر تھا۔حضرت انسRadi Allah Anho فرماتے ہیں: میں سیئےہوئے کے اثرات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سینہ اقدس پر دیکھتاتھا۔

دوسری مرتبہ شق صدر

اس حوالہ سے حضرت اُبی بن کعبRadi Allah Anho فرماتے ہیں:

ان اباھریرة كان جریا على ان یسال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عن اشیاء لا یساله عنھا غیره فقال: یا رسول اللّٰه! ما اول مارایت فى امر النبوة؟ فاستوى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم جالسا وقال: لقد سالت ابا ھریرة انى لفى صحراء ابن عشر سنین واشھر واذا بكلام فوق راسى واذا رجل یقول لرجل: اھو ھو؟ قال: نعم. فاستقبلانى بوجوہ لم ارھا لخلق قط وارواح لم اجدھا من خلق قط وثیاب لم ارھا على احد قط فاقبلا الى یمشیان حتى اخذ كل واحد منھما بعضدى لا اجد لاحدھما مساً. فقال احدھما لصاحبه: اضجعه. فاضجعانى بلا قصر ولا ھصر وقال احدھما لصاحبه: افلق صدره. فھوى احدھما الى صدرى ففلقھا فیما ارى بلا دم ولا وجع فقال له: اخرج الغل والحسد. فاخرج شیئا كھیئة العلقة ثم نبذھا فطرحھا فقال له: ادخل الرافة والرحمة. فاذا مثل الذى اخرج یشبه الفضة ثم ھز ابھام رجلى الیمنى فقال: اغد واسلم. فرجعت بھا اغدو رقة على الصغیر ورحمة للكبیر.63
حضرت ابوہریرہ Radi Allah Anhoاس حوالے سے بڑے جری تھے کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے ایسے ایسے سوالات پوچھ لیتے تھے جو دوسرے لوگ نہیں پوچھ سکتے تھے ۔چنانچہ ایک مرتبہ انہو ں نے یہ سوال پوچھا : یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! امر نبوت کے حوالے سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے سب سے پہلے کیا دیکھا تھا؟ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam یہ سوال سن کر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا: ابوہریرہ ! تم نے اچھا سوال پوچھا۔ میں دس سال چند ماہ کا تھا کہ ایک صحرا میں پھر رہا تھا کہ اچانک مجھے اپنے سر کے اوپر سے کسی کی باتوں کی آواز آئی ۔میں نے اوپر دیکھا تو ایک آدمی دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ یہ وہی ہے؟ اس نے جواب دیا ہاں۔ چنانچہ وہ دونوں ایسے چہروں کے ساتھ میرے سامنے آئے جو میں نے اب تک کسی مخلوق کے نہیں دیکھے تھے۔ ان میں سے ایسی مہک آرہی تھی جو میں نے اب تک کسی مخلوق سے نہیں سونگھی تھی اور انہوں نے ایسے کپڑے پہن رکھے تھے جو کبھی کسی کے جسم پر نہ دیکھے تھے۔وہ دونوں چلتے ہوئے میرے پاس آئے اور ان میں سے ہر ایک نے مجھے ایک ایک بازو سے پکڑ لیا لیکن مجھے اس سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔ پھر ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : اسے لٹادو۔ چنانچہ ان دونوں نے مجھے بغیر کسی کھینچا تانی اور تکلیف کے لٹادیا۔پھر ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : ان کا سینہ چاک کردو۔چنانچہ اس نے میری آنکھوں کے سامنے میرا سینہ اس طرح چاک کردیا کہ خون نکلا اور نہ ہی مجھے تکلیف ہوئی پھر پہلے نے دوسرے سے کہا : اس میں سے کینہ اور حسد نکال دو چنانچہ اس نے خون کے جمے ہوئے ٹکڑے کی طرح کوئی چیز نکال کر پھینک دی۔پھر اس نے دوسرے سے کہا : اس میں نرمی اور مہربانی ڈال دو۔ چنانچہ چاندی جیسی کوئی چیز لائی گئی (اور میرے سینے میں انڈیل دی گئی) ۔پھر اس نے میرے دائیں پاؤں کے انگوٹھے کو ہلاکر کہا جاؤ اور سلامت رہوچنانچہ میں اس کیفیت کے ساتھ واپس آیا کہ چھوٹوں کے لیےنرم دل اور بڑوں کے لیےرحم دل تھا۔

تیسری بار شقِ صدر

اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہRadi Allah Anha فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ نے ایک مہینہ اعتکاف بیٹھنے کی نذر مانی۔ اتفاق سے وہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا تو ایک دن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam باہر نکلے اورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت جبریل Alaihis Salamکو دیکھا کہ ان کا ایک پر مشرق کی طرف اور دوسرا مغرب کی سمت تھا۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:انہوں نے مجھ سے کلام کیا حتیٰ کہ میں ان سے مانوس ہوگیا پھر انہوں نے میرے ساتھ وعدہ کیا۔میں وعدہ کے مطابق آیا مگر وہ کچھ دیر سے آئے تو میں واپس آناہی چاہتا تھا کہ میں نے انہیں اور حضرت میکائیلAlaihis Salam کو دیکھ لیا کہ انہوں نے افق کو گھیر رکھا تھا ۔حضرت جبریلAlaihis Salam نیچے اترے اور حضر ت میکائیلAlaihis Salam آسمان اور زمین کے مابین تھے ۔ آگے روایت میں مذکور ہے:

فاخذنى جبریل فالقانى لحلاوة القفا ثم شق عن قلبى فاستخرجه ثم استخرج منه ما شاء اللّٰه ان یستخرج ثم غسله فى طست من ماء زمزم ثم أعاده مكانه ختم فى ظھرى حتى وجدت مس الخاتم فى قلبى.64
حضرت جبریلAlaihis Salam نے مجھے پکڑا اورمجھے گُدّی کے بل زمین پر لٹایا۔ میرا دل انور شق کیا پھر اس سے وہ کچھ نکالا جو کچھ رب تعالیٰ نے چاہا۔ پھر اسے سونے کے طشت میں آبِِ زم زم سے دھویا پھر اسی جگہ لوٹادیا۔پھر میری کمر پر مہر نبوت لگائی حتیٰ کہ میں نے مہر نبوت کو اپنے دل میں محسوس کیا۔

چوتھی بار شق صدر معراج کے موقع پر

اس حوالہ سےحضرت انسRadi Allah Anho حضرت ابوذر غفار ی Radi Allah Anhoسے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:

فرج عن سقف بیتى وانا بمكة فنزل جبریل ففرج صدرى ثم غسله بماء زمزم ثم جاء بطست من ذھب ممتلى ء حكمة وایمانا فافرغه فى صدرى ثم اطبقه ثم اخذ بیدى فعرج بى الى السماء الدنیا.65
میرے گھر کی چھت میں شگاف کیا گیا اور میں اس وقت مکہ میں تھا۔ پھر حضرت جبریل نازل ہوئے اور میرے سینہ کو شق کیا پھر انہوں نے اس کو زم زم کے پاس سے دھویا۔ پھر وہ سونے کا طشت لے کر آئےجو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا پھر اس کو میرے سینہ میں انڈیل دیا اور سینہ کو بند کردیا ۔پھر میراہاتھ پکڑکرمجھے آسمان دنیا کی طرف چڑھایا۔

شق صدر کے بارے میں جتنی روایات ہیں جن میں قلب مطہر کے نکالنے کا تذکرہ ہے انہیں کسی تعرض کے بغیر ہی تسلیم کرنا ضروری ہے ۔انہیں حقیقت سے پھیرنا درست نہیں کیونکہ رب تعالیٰ میں یہ قدرت ہے اس میں سے کچھ بھی محال نہیں ۔ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام Radi Allah Anhumآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سینہ اقدس میں سوئی کے نشانات دیکھا کرتے تھے۔علامہ ابن منیر Rehmatullah Alaihنے کہا ہے کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا شق صدر ہوا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس پر صبر کیا ۔یہ عمل اس عمل کی جنس سے ہے جس میں حضرت اسماعیل Alaihis Salamکو آزمایا گیا بلکہ اس سے جلیل تر اور مشکل تر ہے ۔کیونکہ وہ معاریض تھیں یہ حقیقت ہے۔ شق صدر بھی بار بار ہوااور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam یتیم تھے، معصوم بچپن میں تھے اوراپنے اہل خانہ سے دور تھے۔66

ایک اعتراض اور اس کا جواب

امام سبکیRehmatullah Alaih سے سوال کیا گیا کہ وہ سیاہ لوتھڑا کیا تھا جو آپ کے قلب مطہر سے شق صدر کے وقت نکالا گیا۔ نیز فرشتے کے اس قول کا مفہوم کیا ہے یہ آپ میں سے شیطان کا حصہ تھا ؟توانہوں نے جواب دیا کہ یہ لوتھڑا بشر کے قلوب میں رب تعالیٰ پیدا فرماتا ہے۔ اسی میں ہی ابلیس وسوسہ سازی کرتا ہے اسے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے ختم کردیا گیا۔ اب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں ایسی جگہ نہ تھی جس میں شیطان کچھ وسوسہ کرسکتا ۔حدیث پاک کا یہی مفہوم ہے ورنہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسم اطہر میں شیطان کا کوئی حصہ نہ تھا فرشتے نے جو کچھ پھینکا تھا وہ ایسا امر تھا جو بشری جبلات میں شامل تھا۔

امام سبکی Rehmatullah Alaih سے پوچھا گیا رب تعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مبارک ذات میں یہ لوتھڑا پیدا کیوں کیا تھا؟ کیا ممکن نہ تھا کہ رب تعالیٰ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اس کے بغیر ہی تخلیق فرمادیتا؟ انہوں نے فرمایا یہ انسانی اجزاء میں سے تھا۔اس کی تخلیق انسانی تخلیق کی تکمیل کے لیے تھی اوراس کی تخلیق ضروری تھی لیکن کرامت ربانیہ کی وجہ سے اسے اتار کر پھینک دیا گیا ۔بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر رب تعالیٰ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اس کے بغیر تخلیق فرماتا تو لوگوں کو اس کی حقیقیت سے آگاہی نہ ہوسکتی۔رب تعالیٰ نے حضرت جبریل کے ہاتھوں اسے عیاں کیا تاکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے باطن کا کمال متحقق ہوسکے جیسے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ظاہر کا کمال عیاں تھا۔67

شق صدر کی حکمت و اھمیت

مذکورہ بالا روایت سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا شق صدر کسی شیطانی حصہ کو ختم کرنے کے لیے یا علیحدہ کرنےکےلیے کیا گیا تھا۔کیونکہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سید الانبیاء Alaihmus Salam ہیں اور انبیاء کرام Alaihmus Salam کی حالت تو یہ ہے کہ انہیں بیداری کے وقت تو بہت دور کی بات نیند کے دوران بھی شیطان کچھ نہیں کرسکتاکہ ہر نبی Alaihmus Salam احتلام سے محفوظ ہوتا ہی اسی وجہ سے ہے کہ شیطان کا ان پر کوئی بس نہیں ہوتا۔اسی حوالہ سے حضرت عبداﷲ بن عباس Radi Allah Anhuma فرماتے ہیں:

ما احتلم نبى قط انما الاحتلام من الشیطان.68
"کسی نبی کو احتلام نہیں ہوا کیونکہ احتلام شیطان کی طرف سے ہے۔"

تو جب جماعتِ انبیاء کرامAlaihmus Salamکا یہ عالم ہے تو سید المرسلین اور خاتم الانبیاء Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا عالم اس سے کئی گنا بلند و بالا ہے۔البتہ شق صدر تعظیم وتوقیر کے لیے ہو اتھا۔چنانچہ شیخ ابی حمزۃ Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں کہ شق صدر اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا دل مطہر کو دھونا یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے تعظیم کے لیے تھا۔اسی حوالہ سےرب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَمَنْ یعَظِّمْ شَعَاۗیرَ اللّٰه فَاِنَّھا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ3269
اور جو شخص اﷲ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات، احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اﷲ یا اﷲ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقوٰی میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقوٰی نصیب ہوگیا ہو)۔

اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے امام یوسف صالحی Rehmatullah Alaihتحریر فرماتے ہیں:

فكان الغسل له صلى اللّٰه علیه وسلم من ھذا القبیل واشارة لامته بالفعل بتعظیم الشعائر كما نص علیه القول.70
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سینہ اقدس کا دھونا اسی قبیل سے تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی امت کے لیے یہ بالفعل اشارۃ تھا کہ وہ شعائر اﷲ کی تعظیم کرے جس طرح کہ انہیں بالقول حکم دیا گیا تھا۔

قلب مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam او ر قوّت بصارت و سماعت

اسی حوالہ سے مزید روشنی ڈالتے ہوئے امام دارمی Rehmatullah Alaihروایت کرتے ہیں کہ حضرت جبریلAlaihis Salam نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پیٹ مبارک کو چیر دیا پھر حضرت جبریلAlaihis Salam نے فرمایا:

قلب وكیع فیه اذنان سمیعتان وعینان بصیرتان محمد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم المقفى الحاشر خلقك قیم ولسانك صادق ونفسك مطمئنة. قال ابو محمد: وكیع یعنى شدید.71
یہ بہت شدید( عمدہ) دل ہے ۔اس میں دو کان ہیں جو سن لیتے ہیں اوردو آنکھیں ہیں جو دیکھ لیتی ہیں۔ حضرت محمد رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اﷲ کے رسول ہیں۔ یہ سب سے آخر میں تشریف لائے ہیں اور یہی حشر کرنے والے ہیں (اے محمدSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ) آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اخلاق عالی ہیں۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان سچی ہے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا نفس مطمئن ہے۔

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا شرح صدر گویا وسعت علمی کے لیے اور ہدایت کے اعلی ترین مقام و مرتبہ پر فائز کرنےکےلیے چار بار معرضِ وجود میں آیا۔جس میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قلبِ اطہر کو بھی چیرا گیا اور اسے مزید مزکی و مصفی کیا گیا۔

انسان جو نوع مخلوقات میں سب سے مکرم و محتشم مخلوق مانی جاتی ہے تو اس کی وجہ فقط اس کی عقل ہے۔جس میں جتنی زیادہ عقل ہوتی ہے وہ معاشرہ میں اتنا ہی اونچا مقام کا حامل ہوتا ہے۔لیکن عقلِ انسانی کی بھی کچھ حدود ہیں جن سے باہر نکل کر وہ بھی کلی طور پر ناقابل التفات ہو کر رہ جاتی ہے۔اس مقام کی جن گتھیوں اور مشکلات کے آگے عقلِ انسانی ہار مان کر بے بس وبےکس ہوجاتی ہے تو ان گتھیوں کے سلجھانےکے لیے وحیِ ربانی کا در ہوتا ہے اور یہ وحی ربانی انسانی رہنمائی کے لیے اور مشکل سے مشکل ترین گتھیوں کے لیے ایک حل نہیں بلکہ ہزارہا حل پیش کرتی ہے۔جن اشخاص پر یہ وحی ربانی اتاری جاتی ہے وہ باقی افرادِ انسانی میں سے بے حدو بے حساب ممتاز و مشرف ہوتے ہیں کہ جن کے خَلق سے لیکر خُلق تک ،دنیا میں آنے سے لیکر واپس جانے تک،خلوت سے جلوت تک،زندگی گزارنے سے زندگیاں گزروانے تک کے ہر ہر معاملہ میں نوعِ انسانی کے لیے اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کے خزانوں کےانبار موجود ہوتے ہیں۔جب اس جماعت اولوالعزم کا یہ کمال ہے تواس جماعت ِ حاملینِ وحیِ ربانی کے سالار ،ان واصلین ِ احکامِ ربانی کے سرداراوران نجات دہندگانِ عالم کے امام حضور اشرفِ کائنات احمدمختار سیدنا محمد رسو ل اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے خَلق اور خُلق کا اندازہ انسانی عقل و خردو دانش سے بعید از بعید تر ہے۔اسی طرح صاحبِ لولاک Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قلبِ مبارک و مصفی ومزکی کی وسعتِ علمی،بیداریِ قلبی اور شرحِ صدری بھی اعلی و ارفع وامجد و اعظم ہے۔ مذکورہ بالا صفحات میں صرف چند چیزوں کی طرف اس حوالہ سے توجہ دلائی گئ ہے ورنہ اس کابیان کرنا اورتحریر کرنا تو بہت دور کی بات ہے صرف سمجھنا ہی وراءِ عقلِ انسانی ہے۔


  • 1  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 21261، ج -35، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، 2001ء، ص:180- 182
  • 2  عبد الرحمن بن ابی بکر جلال الدین السیوطی، خصائص الکبریٰ ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، (لیس التاریخ موجودًا)ْ ص:111
  • 3  القرآن، سورۃالصافات37: 102
  • 4  القرآن،سورۃ البقرۃ 02 : 97
  • 5  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث:7281، ج -9، مطبوعۃ: دمشق، (لیس التاریخ موجودًا) ، ص:93
  • 6  عبداﷲ بن عبد الرحمن دارمی، سنن الدارمی، حدیث: 11، ج-1، مطبوعۃ: دار المغنی للنشر والتوزیع ، مکۃ، السعودیۃ، 2000ء، ص:160
  • 7  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد ، حدیث: 4051، ج-7، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001 ء، ص:142
  • 8  عبداﷲ بن محمد بن ابی شیبہ ،مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث: 1409، ج- 1، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض ، السعودیۃ، 1409ھ، ص:123
  • 9  ایضاً
  • 10  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 1914، ج- 1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1994ء، ص:364
  • 11  یوسف بن عبداﷲ بن محمد ابن عبدالبر قرطبی مالکی ،التمھید لما فی الموطأ من المعانی والمسانید (مسند سعید بن ابی سعید المقبری)، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ بیروت ،الطبعۃ الاولیٰ، 1999ء، ص:407
  • 12  ابو عبداللہ محمد بن الحسن الشیبانی، الاثار، حدیث: 165، ج-1 ، مطبوعۃ: دار السلام للطباعۃ والنشر والتوزیع ، القاہرۃ، مصر، 1413ھ، ص :434
  • 13  الحافظ الکبیر ابی بکر عبداﷲ بن الزبیر الحمیدی ،مسند الحمیدی، حدیث: 473، ج -1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، 1988ء، ص:223
  • 14  ابو بکر محمد بن اسحاق بن خزیمہ نیسابوری ،صحیح ابن خزیمہ، حدیث: 48 ،مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1979ء، ص :29-30
  • 15  عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، جامع الاحادیث، حدیث: 10621، ج-4، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، لبنان، 1994ء،ص:129
  • 16  علی بن خلف بن عبد الملک ابن بطال مالکی ،شرح ابن بطال علی صحیح البخاری ، ج- 1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت ،لبنان، 2003ء، ص:224
  • 17  یوسف بن عبداﷲ بن محمد ابن عبدالبر قرطبی ، مسند سعید بن ابی سعید المقبری، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت ، لبنان، 1999ء، ص:408
  • 18  محمود بدر الدین عینی حنفی، البنایۃ شرح الہدایۃ، ج- 1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2000ء، ص:284
  • 19  عبد الرؤ ف بن تاج العارفین مناوی، حاشیۃجمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج-2، مطبوعۃ: مصطفی البابی، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:74
  • 20  محمد بن اسماعیل بخاری ،صحیح البخاری ، حدیث :243 ، ج- 1، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت، لبنان، 1987ء، ص:96
  • 21  ابو داؤد سلیمان بن الاشعث السجستانی، سنن ابی داؤد ، حدیث: 50، ج -1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000ء، ص:28
  • 22  عبد الرحمن بن ابی بکر جلال الدین سیوطی :الجامع الصغیر فی احادیث البشیر النذیر، حدیث: 6569، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، 2006ء، ص:408
  • 23  محمد بن عیسیٰ ترمذی، سنن الترمذی ، حدیث : 2861،مطبوعۃ:دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000ء، ص:763
  • 24  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، ج- 1، حدیث: 344،مطبوعۃ: دمشق، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 76
  • 25  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، ج- 3، رقم الحدیث: 3376، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت، لبنان، 1987ء، ص:1308
  • 26  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، ج -1، حدیث: 738، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:509
  • 27  احمد بن حنبل شیبانی، مسند احمد، حدیث: 23553، ج -7، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1994ء، ص:55
  • 28  محمد بن اسماعیل بخاری ،صحیح البخاری، حدیث: 3377، ج- 3، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت ، لبنان،1987ء، ص:1308
  • 29  ایضاً
  • 30  نور الدین علی بن سلطان القاری ، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج-2، مطبوعۃ: مصطفی البابی، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:74
  • 31  عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:84
  • 32  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث :3484، ج- 1، مطبوعۃ: مؤسسۃ قرطبۃ، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 368
  • 33  عبداﷲ بن عبدالرحمن دارمی ،سنن الدارمی ، حدیث: 2155، ج-2، مطبوعۃ:نشر السنہ، ملتان، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص:51
  • 34  ابو الفرج عبدالرحمن بن الجوزی، العلل المتناھیۃ، حدیث-11، ج-1 ،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:31
  • 35  عبد بن حمید الکسی، مسند عبد بن حمید، حدیث: 682، ج -1، مطبوعۃ: مکتبۃ السنۃ ،القاھرۃ، القاہرۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:228
  • 36  محمد بن عیسیٰ ترمذی، سنن الترمذی، حدیث :3244، ج- 5، مطبوعۃ دارالفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:159
  • 37  ایضا، ص:160
  • 38  عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، خصائص الکبری، ج -2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :147-148
  • 39  ایضًا، ص :147-148
  • 40  محمد بن عیسیٰ ترمذی، جامع سنن الترمذی، حدیث: 3235، ج- 5، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:369-368
  • 41  ابوالفداء اسماعیل بن عمربن کثیر الدمشقی ،تفسیرابن کثیر، ج -4، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:44
  • 42  عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، الدرالمنثور فی التفسیر الماثور، ج -5، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:597
  • 43  علی بن سلطان محمد القاری،مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ج-2، مطبوعہ: مکتبہ امدادیہ ،ملتان، پاکستان،(سن اشاعت ندارد)، ص:210
  • 44  شیخ عبد الحق محدث دہلوی، اشعۃ اللمعات فارسی ، ج -1، مطبوعہ: مکتبہ حقانیہ ، پشاور،پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص:357
  • 45  شہاب الدین محمود آلوسی، روح المعانی، ج- 15، مطبوعۃ: داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:154
  • 46  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3192، ج- 4، مطبوعۃ: دمشق، 1422ھ، ص:106
  • 47  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث:2892، ج-4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:2217
  • 48  عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، خصائص الکبری، ج- 2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:184
  • 49  حافظ شہاب الدین احمد ابن حجر عسقلانی ،فتح الباری شرح صحیح بخاری، ج- 6، مطبوعۃ:دارالنشر الکتب الاسلامیہ لاہور،پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص: 291
  • 50  ایضًا
  • 51  محمود بدر الدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج-15،مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا) ص:110
  • 52  علی بن سلطان محمد القاری ، مرقاہ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، ج-11، مطبوعۃ: مکتبہ امدادیہ ،ملتان، پاکستان، (سن اشاعت نداررد)، ص: 4
  • 53  القرآن،سورۃ الم نشرح 94: 01
  • 54  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی ، دلائل النبوۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص :06-07
  • 55  ایضًا، ص : 07-08
  • 56  القرآن، سورۃ طحہ20: 25
  • 57  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء ، ص:59
  • 58  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث: 261، ج- 1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:147
  • 59  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، ج- 35،رقم الحدیث: 21261،مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، 2001ء، ص:180-182
  • 60  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء، ص:61-62
  • 61  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 349، ج-1،مطبوعۃ: دمشق، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:78
  • 62  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث: 261، ج- 1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:147
  • 63  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 21261، ج- 35، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :180-183
  • 64  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:61-62
  • 65  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 349، ج-1،مطبوعۃ: دمشق، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:78
  • 66  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد، ج- 2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:64
  • 67  ایضًا، ص:65
  • 68  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط، حدیث :8062، ج-8،مطبوعۃ: دار الحرمین ،القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:9
  • 69  القرآن، سورۃ الحج 22: 32
  • 70  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:66
  • 71  عبداﷲ بن عبد الرحمن دارمی، سنن الدارمی، حدیث: 54، ج- 1، مطبوعۃ: دار المغنی للنشر والتوزیع، المکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، 2000ء، ص :199-200

Powered by Netsol Online