(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 51، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 750-754)
اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ جس دور میں جس چیز کا زور ہوتا اسی کے مطابق انبیائے کرام کو معجزہ عطا ہواکرتا تھا۔ حضرت موسیٰ کا زمانہ ساحری کے عروج کا تھا چنانچہ آپ
   کا زمانہ ساحری کے عروج کا تھا چنانچہ آپ کو یدبیضاا ور دیگر معجزات عطا فرمائے گئے۔عرب میں فصاحت و بلاغت کا عروج تھا اسی لیے حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے قلب اطہر اور زبان اقدس کو فصاحت و بلاغت کے تمام لوالزمات وکمالات سے نوازا گیااورآپ
   کو یدبیضاا ور دیگر معجزات عطا فرمائے گئے۔عرب میں فصاحت و بلاغت کا عروج تھا اسی لیے حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے قلب اطہر اور زبان اقدس کو فصاحت و بلاغت کے تمام لوالزمات وکمالات سے نوازا گیااورآپ  کی فطرت میں حظابات کا اعجاز ودیعت کیا گیا ۔آپ
کی فطرت میں حظابات کا اعجاز ودیعت کیا گیا ۔آپ  کا یہ معمول تھا کہ آپ
کا یہ معمول تھا کہ آپ  انداز کلام اور اسلوب خطابت میں ہمیشہ اعتدال و میانہ روی اختیار فرماتے تھے۔ حسب موقع اور بقدر ضرورت گفتگو فرماتے۔ آپ
انداز کلام اور اسلوب خطابت میں ہمیشہ اعتدال و میانہ روی اختیار فرماتے تھے۔ حسب موقع اور بقدر ضرورت گفتگو فرماتے۔ آپ  کے خُطبات اکثر مختصر مگر جامع ہوتے۔چونکہ فصاحت وبلاغت کا تعلق منہ اور آواز سے بنیادی حیثیت کا ہوتا ہے۔اسی وجہ سے آپ
 کے خُطبات اکثر مختصر مگر جامع ہوتے۔چونکہ فصاحت وبلاغت کا تعلق منہ اور آواز سے بنیادی حیثیت کا ہوتا ہے۔اسی وجہ سے آپ کی آواز اور منہ مبارک کوبھی اعجاز وامتیاز بخشاگیا۔
  کی آواز اور منہ مبارک کوبھی اعجاز وامتیاز بخشاگیا۔
حضرات انبیاء کرام کے خصائص میں سے ہے کہ وہ خوبصورت اور خوش آواز ہوتے ہیں لیکن حضور سیدالمرسلین ﷺتمام انبیاء کرام
 کے خصائص میں سے ہے کہ وہ خوبصورت اور خوش آواز ہوتے ہیں لیکن حضور سیدالمرسلین ﷺتمام انبیاء کرام  سے زیادہ خوبرو اور سب سے بڑھ کر خوش گلو ،خوش آواز اور خوش کلام تھے۔خوش آوازی کے ساتھ ساتھ آپ ﷺاس قدر بلند آواز بھی تھے کہ خطبوں میں دور اور نزدیک والے سب یکساں اپنی اپنی جگہ پر آپ
سے زیادہ خوبرو اور سب سے بڑھ کر خوش گلو ،خوش آواز اور خوش کلام تھے۔خوش آوازی کے ساتھ ساتھ آپ ﷺاس قدر بلند آواز بھی تھے کہ خطبوں میں دور اور نزدیک والے سب یکساں اپنی اپنی جگہ پر آپ  کا مقدس کلام سن لیا کرتے تھے۔
کا مقدس کلام سن لیا کرتے تھے۔
حسن ِآوازاللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اﷲ سبحانہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
یزِیدُ فِى الْخَلْقِ مَا یشَاۗءُ11
تخلیق میں جس قدر چاہتا ہے اضافہ (اور توسیع) فرماتا رہتا ہے ۔
امام زہری  اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
 اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
قوله: تعالى یزید فى الخلق مایشاء قال: الصوت الحسن.2
اس سے مراد خوبصورت آواز ہے۔
آپ نہایت ہی خوش آواز تھے اورآپ  کی مبارک آواز نہایت ہی حسین تھی ۔جوشخص بھی ایک دفعہ آپ
کی مبارک آواز نہایت ہی حسین تھی ۔جوشخص بھی ایک دفعہ آپ  کی آوازسن لیتاتھاتمام زندگی خواہش کرتاکہ کاش میرے کان میں پھروہ حسین آوازسنائی دے۔اس سے بڑھ کرکسی کی آواز کاحسن کیا ہوسکتاہےکہ دشمن بھی اسے سُن کر لذت پاتاتھا۔صحابہ کرام
کی آوازسن لیتاتھاتمام زندگی خواہش کرتاکہ کاش میرے کان میں پھروہ حسین آوازسنائی دے۔اس سے بڑھ کرکسی کی آواز کاحسن کیا ہوسکتاہےکہ دشمن بھی اسے سُن کر لذت پاتاتھا۔صحابہ کرام جہاں آپ
 جہاں آپ کی ہراداکے شیدائی تھے وہاں آپ
  کی ہراداکے شیدائی تھے وہاں آپ  کی آوازکے بھی گرویدہ تھے۔3آپ
 کی آوازکے بھی گرویدہ تھے۔3آپ  کی آواز بڑی شیریں اور دل لبھادینے والی تھی۔4
کی آواز بڑی شیریں اور دل لبھادینے والی تھی۔4
آپ خوش آواز ہونے کے ساتھ ساتھ بلندآوازبھی تھے۔جہاں تک آپ
  خوش آواز ہونے کے ساتھ ساتھ بلندآوازبھی تھے۔جہاں تک آپ  کی آواز پہنچتی کسی اور کی آوازنہ پہنچ پاتی۔صحابہ کرام
کی آواز پہنچتی کسی اور کی آوازنہ پہنچ پاتی۔صحابہ کرام   کے اجتماع میں جس طرح آپ
کے اجتماع میں جس طرح آپ کی آواز مبارک کو آگےموجود اشخاص سنتے تھےتو اسی طرح پیچھے موجود اشخاص بھی سنا کرتے تھے۔
 کی آواز مبارک کو آگےموجود اشخاص سنتے تھےتو اسی طرح پیچھے موجود اشخاص بھی سنا کرتے تھے۔
رسول اکرم  کے حسن الصوت ہونے کو بیان کرتے ہوئے حضرت قتادہ
کے حسن الصوت ہونے کو بیان کرتے ہوئے حضرت قتادہ    نے فرمایا:
نے فرمایا:
ما بعث للّٰه نبیا قط الا بعثه حسن الوجه حسن الصوت، حتى بعث نبیكم صلى اللّٰه علیه وسلم فبعثه حسن الوجه وحسن الصوت.5
آپنے فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی مبعوث فرمایا اس کی آواز اور چہرہ خوبصورت تھا، حتیٰ کہ تمہارے نبی کریم
کو مبعوث فرمایا ۔پس تمہارےنبی کوخوبصورت چہرے اورخوبصورت آواز والابناکربھیجا۔
امام عبد الرحمن بن جوزی اس حدیث کو اس طرح ذکر فرماتے ہیں:
اس حدیث کو اس طرح ذکر فرماتے ہیں:
عن قتادة قال: ما بعث اللّٰه نبیا إلا حسَنَ الصَّوت، وكان نبیكم حسن الوجه حسن الصوت.6
حضرت قتادہمروی ہےکہ اﷲ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی مبعوث فرمایا وہ خوش آوازتھا،جبکہ تمہارے نبی
خوبصورت اورخوش آوازتھے۔7
امام یوسف بن اسماعیل نبہانی لکھتے ہیں کہ حضرت علی
لکھتے ہیں کہ حضرت علی    فرماتے ہیں:
فرماتے ہیں:
ما بعث للّٰه تعالى نبیا قط الا بعثه صبیح الوجه كریم الحسب حسن الصوت، ان نبیكم كان صبیح الوجه كریم الحسب حسن الصوت.8
اللہ تعالیٰ نے جوبھی نبی بھیجاوہ خوبصورت،اعلی نسب اوراچھی آوازوالاتھا۔اسی لیےتمہارےنبی ﷺبھی خوبرو،عالی نسب اورخوش آوازتھے۔9
اسی طرح حضرت براء    سے روایت ہے :
سے روایت ہے :
قرأ النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فى العشاء والتین والزیتون فلم اسمع احسن صوتا ولا احسن صلاة منه.10
حضور نبی کریمنے نماز عشاء میں سورۂ "والتین" کی تلاوت فرمائی۔ میں نے اس سے زیادہ حسین نہ آواز سنی نہ کبھی ایسی حسین نماز پڑھی۔
امام ابی عبداللہ بن اسماعیل بخاری  صحیح البخاری نےبھی اس حدیث کو اسی طرح ذکر فرمایا ہے۔ 11
صحیح البخاری نےبھی اس حدیث کو اسی طرح ذکر فرمایا ہے۔ 11
اسی بات کو بیان کرتے ہوئے حضرت انس  سے مروی ہے:
   سے مروی ہے:
كان نبیكم احسنھم وجھا واحسنھم صوتاً.12
چہرےاورآواز کےاعتبارسےتمہارے نبی تمام انبیاءسے حسین تھے۔
بسااوقات آپ  تلاوت فرماتے تو آپ
تلاوت فرماتے تو آپ  کی آواز گھروں میں سنی جاتی حتیٰ کہ پردہ نشین خواتین بھی اپنے اپنے گھروں میں آپ
کی آواز گھروں میں سنی جاتی حتیٰ کہ پردہ نشین خواتین بھی اپنے اپنے گھروں میں آپ  کی آوازکوسنتی تھیں۔چنانچہ حضرت اُم ہانی
کی آوازکوسنتی تھیں۔چنانچہ حضرت اُم ہانی    بیان کرتی ہیں:
بیان کرتی ہیں:
كنت اسمع قراة النبى صلى اللّٰه علیه وسلم باللیل واناعلى عریشى.13
رات کو جب آپتلاوت فرماتے تو میں اپنے گھر میں بستر پر سناکرتی تھی۔
 کالہجہ مبارک
کالہجہ مبارکرحمت ِ دو عالم  کا لہجہ نہایت ہی مسحور کن تھا۔یہی وہ حسین لہجہ تھا جس کی وجہ سے آپ
کا لہجہ نہایت ہی مسحور کن تھا۔یہی وہ حسین لہجہ تھا جس کی وجہ سے آپ  کے دشمن بھی قائل ہوکر گرویدہ ہوجاتے۔صحابہ کرام
کے دشمن بھی قائل ہوکر گرویدہ ہوجاتے۔صحابہ کرام نے صرف آپ
  نے صرف آپ  کے آواز کے حسن کو ہی بیان نہیں کیا بلکہ لہجہ کے بارے میں بھی تصریح کی ہے۔ آپ
کے آواز کے حسن کو ہی بیان نہیں کیا بلکہ لہجہ کے بارے میں بھی تصریح کی ہے۔ آپ  کا لہجہ تمام مخلوق سے بڑھ کر خوبصورت اور حسین تھا۔چانچہ حضرت جبیر بن مطعم
کا لہجہ تمام مخلوق سے بڑھ کر خوبصورت اور حسین تھا۔چانچہ حضرت جبیر بن مطعم    سے مروی ہے:
سے مروی ہے:
كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم حسن النغمة.14
حضورکالب ولہجہ نہایت حسین تھا۔
 کی آواز کی طاقت
کی آواز کی طاقتبعض لوگوں کی آواز باریک ہوتی ہے جو شخصیت کے لیے موزوں نہیں ہوتی اور دنیابھرمیں بھی اچھی نہیں سمجھی جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ  کی آواز کو اس عیب سےمحفوظ پیدا فرمایا تھا۔ آپ کی آواز میں اعتدال کے ساتھ قوت اور دبدبہ پایا جاتا تھا۔ چنانچہ حضرت ام معبد
کی آواز کو اس عیب سےمحفوظ پیدا فرمایا تھا۔ آپ کی آواز میں اعتدال کے ساتھ قوت اور دبدبہ پایا جاتا تھا۔ چنانچہ حضرت ام معبد نے اس کیفیت کو بھی یوں بیان فرمایا ہے:
   نے اس کیفیت کو بھی یوں بیان فرمایا ہے:
كان فى صوته صحل.15
آپکی آواز میں قوت اور دبدبہ تھا۔
حافظ ابنِ کثیر لفظ  صحل  کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
   لفظ  صحل  کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
وفى صوته صحل وھو بحة یسیرة وھى احلى فى الصوت من ان یكون حادّاقال ابو عبید وبالصحل یوصف الظباء قال ومن روى فى صوته صھل فقد غلط فان ذلك لایكون الا فى الخلیل ولا یكون فى الانسان.16
آواز میں معمولی سابھاری پن، یہ آواز کی خوبصورتی ہےجس میں اس کا اعتدال کے ساتھ بھاری ہوناہےنہ کہ تیز۔ بقول امام ابو عبید: لفظ " صحل" کے ساتھ ہرن کی آواز کی صفت بیان کی جاتی ہے۔ بعض لوگوں نے اسے (ھا) کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ درست نہیں کیونکہ یہ کیفیت حیوانات میں ہوتی ہے۔ انسان میں نہیں۔ لہٰذا یہ"حا " کے ساتھ ہی درست ہے۔
اسی طرح آواز کی اس صفت کو بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ جمعہ کے روز آپ
  بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ جمعہ کے روز آپ   منبر پاک پر خطبہ ارشاد فرمارہے تھےتواچانک آپ
منبر پاک پر خطبہ ارشاد فرمارہے تھےتواچانک آپ   نے لوگوں کو بیٹھنے کا حکم دیا:
نے لوگوں کو بیٹھنے کا حکم دیا:
فسمعه عبداللّٰه بن رواحه وھوفى بنى غنم فجلس فى مكانه.17
پس عبداللہ بن رواحہ قبیلہ بنی غنم میں تھے ۔وہاں آپکی آواز سنی اور وہیں بیٹھ گئے۔
مذکوہر بالا کلام سے واضح ہوجاتا ہے کہ آپ   سب سے زیادہ فصیح اللسان، و اضح البیان اورمختصرالکلام تھے۔ آپ
سب سے زیادہ فصیح اللسان، و اضح البیان اورمختصرالکلام تھے۔ آپ   کے الفاظ سب سے زیادہ وزنی اور معانی بھی سب سے زیادہ صحیح ہوتے۔ آپ
کے الفاظ سب سے زیادہ وزنی اور معانی بھی سب سے زیادہ صحیح ہوتے۔ آپ   کا کلام ِ بلیغ،بلاغت کی تمام شرائط کا مجموعہ تھا۔ آپ
کا کلام ِ بلیغ،بلاغت کی تمام شرائط کا مجموعہ تھا۔ آپ   نے نہ تو کسی سے بلاغت سیکھی اور نہ اہل بلاغت سے آپ
نے نہ تو کسی سے بلاغت سیکھی اور نہ اہل بلاغت سے آپ  کا کبھی میل جول رہا۔ آپ
  کا کبھی میل جول رہا۔ آپ   کی بلاغت وہی ہے جو آپ
کی بلاغت وہی ہے جو آپ   کی جبلت اور فطرت کا تقاضا تھا۔حضور
کی جبلت اور فطرت کا تقاضا تھا۔حضور  کی آواز مبارک حسن کا اعلی ٰ امتیاز تھی اوراس آواز ِمبارکہ کا کمال یہ تھا کہ جب بھی کوئی اس کوسنتاتو کبھی تلاوت میں یا کبھی  ذکرِ الٰہی میں سنتا یعنی سرورِ کائنات
کی آواز مبارک حسن کا اعلی ٰ امتیاز تھی اوراس آواز ِمبارکہ کا کمال یہ تھا کہ جب بھی کوئی اس کوسنتاتو کبھی تلاوت میں یا کبھی  ذکرِ الٰہی میں سنتا یعنی سرورِ کائنات   کی آواز مبارکہ مختلف انداز سے رب ِ کائنات کی اعلی تخلیق کی وضاحت کرتی  اور گواہی دیتی تھی۔
کی آواز مبارکہ مختلف انداز سے رب ِ کائنات کی اعلی تخلیق کی وضاحت کرتی  اور گواہی دیتی تھی۔