قدیم عرب میں یہ عام دستور تھا کہ جب بھی ان کی ہاں کسی بچے کی ولادت ہوتی تو وہ اس کی بہتر نشوونما کے لیے اس کو دیہی علاقوں میں پرورش کے لیے بھیج دیا کرتے تھے ۔ اس دورا ن ان بچوں کی رضاعت کا بندوبست ان علاقوں میں موجود پیشہ ور خواتین اجرت لے کر فرمایا کرتی تھیں جس سے ایک طرف تو بچوں کی نشوونما دیہاتی علاقوں کی شفاف آب وہوا میں ہوتی اور دوسری طرف ان کی غذا کا بندوبست ان علاقوں میں موجود غریب مگر محبت کرنے والی دایہ اور رضاعی ماؤں کے دودھ پلانے سے ہوتا تھا ۔ عرب کے اسی دستور کے مطابق جب آپ  کی ولادت ہوئی  تو آپ
  کی ولادت ہوئی  تو آپ  کی رضاعت اور پرورش کی ذمہ داری حضرت حلیمہ سعدیہ
 کی رضاعت اور پرورش کی ذمہ داری حضرت حلیمہ سعدیہ  کے سپرد کی گئی جس کو آپ
  کے سپرد کی گئی جس کو آپ  نے نہایت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دیا۔
 نے نہایت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دیا۔
اپنے بچوں کی پُرفضا  ، شفاف اور بہتر آب و ہوا میں پرورش کروانے کے لیے عرب کے شہروں اور صحرائی علاقے کے لوگ اپنے بچوں کو دیہی اور قدرےسرسبز علاقوں میں بھیجا کرتے تھے ۔ 1روسائے عرب اپنے بچوں کو ان بدوی خواتین کے پاس بہتر نشوونما کے لیے  اس لیے چھوڑ دیتے تا کہ وہ دیہاتی آب و ہوا میں پَل کر مضبوط اور صحت مند ہو سکیں ۔  اس کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں رہنے سے جو دوسرا فائدہ ان بچوں کو ہوتا وہ ان کی زبان دانی یعنی ان کے کلام میں فصاحت اور بلاغت  کا ظہور ہونا تھا کیونکہ دیہاتی علاقوں کی زبان دانی ہر قسم کی بیرونی آمیزش سے پاک ہوتی تھی اور اس میں غیر عربی الفاظ کا دخل تقریباً نا پید ہوتا تھا ۔اس لیے اس ماحول میں پلنے والے بچے  عربی زبان بنسبت  دیگر بچوں کے بہتر اور اعلیٰ انداز میں بولا کرتے تھے ۔ 2اس بلاغتِ لسانی اور فصاحتِ کلامی کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے  جس میں سیدنا ابوبکر صدیق  نے آپ
 نے آپ  سے  مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ اللہ کے رسول
 سے  مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ اللہ کے رسول  میں نے آپ
  میں نے آپ  سےبڑھ کر بلیغ اور فصیح کلام کرنے والا کسی کو نہ پایا  تو آپ
 سےبڑھ کر بلیغ اور فصیح کلام کرنے والا کسی کو نہ پایا  تو آپ  نے جواباً ارشاد فرمایا تھا :
 نے جواباً ارشاد فرمایا تھا :
أنا أفصح العرب مید أنى من قريش، ونشأت في بنى سعد بن بكر. 3
کہ میں افصح العرب ہوں اور میں قریش میں سے ہوں اور میری پرورش بنو سعد بن بکر میں ہوئی ہے ۔
مذکورہ بالا حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے علماء فرماتے ہیں کہ اہلِ مکّہ کا یہ دستور تھا کہ وہ اپنی اولاد کے کھیل کود اور پرورش کے لیے دیہاتی زمین کا انتخاب کیا کرتے تھے اور ان کا یہ عمل قابلِ تعریف اور لائقِ تقلید تھا ۔ جدید دور میں موجود تعلیم و تربیت کے میدا ن سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی رائے بھی یہی ہے کہ اگر نو مولود بچوں کی تربیت دیہی علاقوں میں کی جائے تو اس کے مثبت اثرات نہ صرف ان کی صحت اور مزاج پر پڑتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی زبان دانی اور قادر الکلامی بھی دیگر بچوں کی نسبت منفرد اور اعلیٰ ہوتی ہے ۔ 4
 کی رضاعی ماؤں کے اسما اور ان کی تعداد
 کی رضاعی ماؤں کے اسما اور ان کی تعدادعرب کے مروجہ دستور کے مطابق بدوی و دیہاتی خواتین مختلف ایام میں شہروں کا رخ کرتیں اور نومولود بچوں کو معمولی اجرت پر اپنے ساتھ اپنے گاؤں اور دیہات لے جایا کرتی تھیں۔ وہ وہاں پر ان بچوں کی رضاعت اور نشوونما کے انتظامات نہایت ہی محبت اور جانفشانی سے فرمایا کرتی تھیں اور جب بچے تقریبا ًدو سال کے ہو جاتے تو وہ ان کو ان کے والدین کے حوالے کر دیتیں جس کے بدلے میں وہ کوئی خاص رقم نہ وصول کرتیں البتہ جو رقم ان کو مل جاتی اس پر قناعت کر کے اپنا گزر اوقات کیا کرتی تھی ۔ 5
جب آپ  کی  ولادت ہوئی تو ابتدائی سات (7)  دنوں تک آپ
 کی  ولادت ہوئی تو ابتدائی سات (7)  دنوں تک آپ  کو آپ
 کو آپ  کی والدہ یعنی حضرت آمنہ
 کی والدہ یعنی حضرت آمنہ نے دودھ پلایا اور ان کے بعد یہ سعادت کئی دیگر خواتین کو حاصل ہوئی جن میں حضرت حلیمہ سعدیہ
 نے دودھ پلایا اور ان کے بعد یہ سعادت کئی دیگر خواتین کو حاصل ہوئی جن میں حضرت حلیمہ سعدیہ  کا اسم مبارک سر ِفہرست ہے۔ جن خواتین نے حضرت حلیمہ سعدیہ
  کا اسم مبارک سر ِفہرست ہے۔ جن خواتین نے حضرت حلیمہ سعدیہ  کے علاوہ آپ
 کے علاوہ آپ کو دودھ پلایا ان میں  حضرت ثویبہ
 کو دودھ پلایا ان میں  حضرت ثویبہ جو کہ ابو لہب کی کنیز تھیں ،خولہ بنت المنذر ، ام ایمن  جن کا نام برکہ بھی آیا ہے ، بنو سلیم سے تعلق رکھنے والی تین خواتین، بنو سعد سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اور  امّ فروہ رضی اللہ عنھنٌ شامل ہیں جن کی کُل تعداد تقریبا ً دس (10)  کے قریب بنتی ہے ۔ مگر سب سے بڑھ کر یہ سعادت حضرت حلیمہ سعدیہ
 جو کہ ابو لہب کی کنیز تھیں ،خولہ بنت المنذر ، ام ایمن  جن کا نام برکہ بھی آیا ہے ، بنو سلیم سے تعلق رکھنے والی تین خواتین، بنو سعد سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اور  امّ فروہ رضی اللہ عنھنٌ شامل ہیں جن کی کُل تعداد تقریبا ً دس (10)  کے قریب بنتی ہے ۔ مگر سب سے بڑھ کر یہ سعادت حضرت حلیمہ سعدیہ  کے حصے میں آئی جنہوں نے تقریبا ً دو سال تک نبی
 کے حصے میں آئی جنہوں نے تقریبا ً دو سال تک نبی  کو   دودھ پلایا۔ 6مذکورہ بالا خواتین میں سے تین (3) خواتین کا ذکر  مؤرخین نے بالتفصیل  کیا ہے  جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
 کو   دودھ پلایا۔ 6مذکورہ بالا خواتین میں سے تین (3) خواتین کا ذکر  مؤرخین نے بالتفصیل  کیا ہے  جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

یہ ابو لہب کی کنیز تھیں جن کو آپ  کی ولادت کی خوشخبری دینے کی وجہ سے ابو لہب نے آزاد کر دیا تھا ۔ 7آپ
 کی ولادت کی خوشخبری دینے کی وجہ سے ابو لہب نے آزاد کر دیا تھا ۔ 7آپ ابتدائی مسلمانوں میں سے تھیں اور آپ
 ابتدائی مسلمانوں میں سے تھیں اور آپ  نے مدینہ کی ریاست کے قیام کے بعد باقاعدہ طور پر ہر ماہ ان کے لیے ایک وظیفہ مقرر کر رکھا تھا  جو ان کو پہنچادیا جاتا تھا ۔ 8آپ
 نے مدینہ کی ریاست کے قیام کے بعد باقاعدہ طور پر ہر ماہ ان کے لیے ایک وظیفہ مقرر کر رکھا تھا  جو ان کو پہنچادیا جاتا تھا ۔ 8آپ  کا وصال سات (7)   ہجری میں ہوا۔
 کا وصال سات (7)   ہجری میں ہوا۔

حضرت امّ ایمن  کا اصل نام برکہ تھا  9لیکن آپ
 کا اصل نام برکہ تھا  9لیکن آپ  اپنے اصل نام کے بجائے اپنی کنیت  امّ ایمن سے مشہور تھیں ۔ آپ
اپنے اصل نام کے بجائے اپنی کنیت  امّ ایمن سے مشہور تھیں ۔ آپ اصلاً نبی
 اصلاً نبی  کے والدِ محترم  حضرت عبداللہ
 کے والدِ محترم  حضرت عبداللہ  کی کنیز تھیں جو کہ  وراثتاً آپ
 کی کنیز تھیں جو کہ  وراثتاً آپ  کے حصے میں آئی تھیں۔ آپ
 کے حصے میں آئی تھیں۔ آپ  نے بچپن میں آپ
 نے بچپن میں آپ  کی نہایت محبت اور جانفشانی سے دیکھ بھال فرمائی تھی جس کی وجہ سے آپ
 کی نہایت محبت اور جانفشانی سے دیکھ بھال فرمائی تھی جس کی وجہ سے آپ  اکثر یہ فرمایا کرتے تھے کہ"حضرت آمنہ
  اکثر یہ فرمایا کرتے تھے کہ"حضرت آمنہ  کے بعد یہ میری ماں ہیں"۔ 10جب آپ
 کے بعد یہ میری ماں ہیں"۔ 10جب آپ کا نکاح حضرت خدیجۃ الکبریٰ
 کا نکاح حضرت خدیجۃ الکبریٰ سے ہوا تو آپ
 سے ہوا تو آپ  نے حضرت ام ایمن
 نے حضرت ام ایمن  کو آزاد فرما دیا  ۔  11آپ
 کو آزاد فرما دیا  ۔  11آپ  کا وصال مبارک حضرت عثمان غنی
 کا وصال مبارک حضرت عثمان غنی   کے دور خلافت  میں اس وقت ہوا جب حضرت عمر
  کے دور خلافت  میں اس وقت ہوا جب حضرت عمر  کے وصال کو فقط بیس (20)  روز گزرے تھے۔
 کے وصال کو فقط بیس (20)  روز گزرے تھے۔

جب آپ  کی عمر مبارک فقط آٹھ (8)  روز تھی  اس وقت مکّہ میں کچھ خواتین اس غرض سے داخل ہوئیں  کہ ان کو رضاعت کے لیے کچھ بچے میسّر آ جائیں ۔ حضرت حلیمہ سعدیہ
 کی عمر مبارک فقط آٹھ (8)  روز تھی  اس وقت مکّہ میں کچھ خواتین اس غرض سے داخل ہوئیں  کہ ان کو رضاعت کے لیے کچھ بچے میسّر آ جائیں ۔ حضرت حلیمہ سعدیہ  جن کا تعلق بنو سعد قبیلہ سے تھا وہ بھی ان خواتین میں شامل تھیں لیکن آ پ
 جن کا تعلق بنو سعد قبیلہ سے تھا وہ بھی ان خواتین میں شامل تھیں لیکن آ پ  کی خوشں بختی  یہ تھی کہ آپ
 کی خوشں بختی  یہ تھی کہ آپ کی کفالت اور رضاعت کا تاج  آپ
 کی کفالت اور رضاعت کا تاج  آپ  کے سرِ مبارک پر سجایا گیا۔ 12آپ
کے سرِ مبارک پر سجایا گیا۔ 12آپ  کا قبیلہ بنو سعد، قبیلہ ہوازن کی ایک شاخ تھا  جس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے عمر ابن رضا کہالہ بیان کرتے ہیں :
 کا قبیلہ بنو سعد، قبیلہ ہوازن کی ایک شاخ تھا  جس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے عمر ابن رضا کہالہ بیان کرتے ہیں :
بطن من هوازن، من قيس بن عيلان، من العدنانية، وهم: بنو سعد بن بكر بن هوازن بن منصور بن عكرمة بن خصفة بن قيس بن عيلان. من أوديتهم: قرن الحبال، وهو واد يجيء من السراة. ومن مياههم: تقتد. وهم أصحاب غنم. وشهر ناس منهم يوم جبلة. وهم حضنة النبي صلى الله تعالى عليه وسلم. وبعث بنو سعد سنة 9 هـ ضمام بن ثعلبة وافدا الى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم، ليجيب……13
قبیلہ ہوازن جس کا تعلق قبیلہ عدنان سے تھا وہ قیس ابن عیلان کی اولاد میں سے تھے ۔ ان کا شجرہ نسب بنو سعد بن بكر بن ہوازن بن منصور بن عكرمہ بن خصفہ بن قيس بن عيلان ہے ۔ وہ سِرات سے آنے والے پہاڑی سلسلوں کے درمیان موجود وادی کے رہائشی تھے ۔ وہ جس چشمے سے پانی پیتے تھے اس کا نام" تقتد" تھا ۔ یہ لوگ ( پیشہ کے اعتبار سے ) چرواہےتھے ۔ یہ لوگ یومِ جبلہ سے اپنے تعلق کی وجہ سے مشہور ہوئے اور یہی وہ قبیلہ ہے جس میں آپنے پرورش پائی ۔ نو (9) ہجری میں بنو سعد قبیلہ کا ایک وفد ضمام بن ثعلبۃکی سربراہی میں آپ
سے ملنے کے لیے آیا جس نے آپ
کے دست مبارک پر دین اسلام کو قبول کیا ۔۔۔
جب حضرت عبدالمطلب کی ملاقات حضرت حلیمہ سعدیہ   سے ہوئی تو آپ نے  ان کے نام  اور خاندان سے متعلق تفصیلات کو ان سے طلب فرمایا ۔  جب  آپ   نے حضرت عبدالمطلب کو اپنا نام بتایا اور اپنے قبیلے بنو سعد کا تعرف پیش فرمایا تو حضرت عبدالمطلب مسکرا دیئے اور ارشادفرمایا : بہت خوب! سعادت اورحلم ( جمع ہوگئے ) ، یہ دونوں وہ عظیم صفات ہیں جو اپنے اندر  ہر خیر کو سمیٹے ہو ئے ہیں ۔ 14اس کے بعد ہی حضرت عبدالمطلب نے یہ فیصلہ فرمادیا کہ آپ  کو رضاعت اور پرورش کے لیے حضرت حلیمہ سعدیہ
 کو رضاعت اور پرورش کے لیے حضرت حلیمہ سعدیہ کے حوالے کر دیا جائے ۔ آپ
 کے حوالے کر دیا جائے ۔ آپ نے حضرت عبدالمطلب کی اس خواہش کو قبول فرمالیا اور آپ
 نے حضرت عبدالمطلب کی اس خواہش کو قبول فرمالیا اور آپ  کو لینے کے لیے حجرہ مبارک میں داخل ہو گئیں جہاں آپ
 کو لینے کے لیے حجرہ مبارک میں داخل ہو گئیں جہاں آپ  سفید دودھیا اونی لباس میں ملبوس تھے اور آپ
 سفید دودھیا اونی لباس میں ملبوس تھے اور آپ  کے نیچے ریشمی سبز چادر موجود تھی جس میں سے بھینی بھینی مشک کی خوشبو آ رہی تھی ۔ جب حضرت حلیمہ سعدیہ
 کے نیچے ریشمی سبز چادر موجود تھی جس میں سے بھینی بھینی مشک کی خوشبو آ رہی تھی ۔ جب حضرت حلیمہ سعدیہ  نے سوتے ہوئے اس معصوم ، خوبصورت اور نہایت ہی متبرک بچے کو دیکھا  تو یکدم آ پ
 نے سوتے ہوئے اس معصوم ، خوبصورت اور نہایت ہی متبرک بچے کو دیکھا  تو یکدم آ پ کے دل میں یہ چاہت پیدا ہوئی کہ آپ
 کے دل میں یہ چاہت پیدا ہوئی کہ آپ  بڑھ کر اس بچے کو چوم لیں لیکن آپ
 بڑھ کر اس بچے کو چوم لیں لیکن آپ  اس معصوم بچے کی نیند کو خراب نہیں کرنا چاہتی تھیں اس لیے آپ
 اس معصوم بچے کی نیند کو خراب نہیں کرنا چاہتی تھیں اس لیے آپ  نے چومنے سے گریز فرمایا لیکن  آپ حضور
نے چومنے سے گریز فرمایا لیکن  آپ حضور کو چھوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ جب آپ
 کو چھوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ جب آپ نے اپنی انگلی سے آپ
 نے اپنی انگلی سے آپ  کو چھوا تو آپ
 کو چھوا تو آپ  نے اپنی آنکھیں مبارک کھول دیں اور حضرت حلیمہ سعدیہ
 نے اپنی آنکھیں مبارک کھول دیں اور حضرت حلیمہ سعدیہ  کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے ۔ آپ
 کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے ۔ آپ  نے جب آپ
 نے جب آپ  کی اس دلکش مسکراہٹ کو دیکھا تو آپ
 کی اس دلکش مسکراہٹ کو دیکھا تو آپ سے رہا نہ گیا اور آپ   نے یکدم بڑھ کر اس معصوم بچے کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔ اس کے بعد وہ اس با برکت بچے کو لے کر اپنے شوہر کے پاس چلی گئیں ۔ 15
 سے رہا نہ گیا اور آپ   نے یکدم بڑھ کر اس معصوم بچے کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔ اس کے بعد وہ اس با برکت بچے کو لے کر اپنے شوہر کے پاس چلی گئیں ۔ 15
ان دنوں حضرت حلیمہ  کے سینے میں اپنے ایک بیٹے کے لئے  بھی دودھ موجود نہیں تھا اورنہ ہی آپ
 کے سینے میں اپنے ایک بیٹے کے لئے  بھی دودھ موجود نہیں تھا اورنہ ہی آپ کے پاس موجود جانوروں کے تھنوں میں اتنا دودھ دستیاب تھا جو اس بچے کی رضاعت کے لیے کافی ہو سکے  لیکن جب آپ
کے پاس موجود جانوروں کے تھنوں میں اتنا دودھ دستیاب تھا جو اس بچے کی رضاعت کے لیے کافی ہو سکے  لیکن جب آپ  نے رضاعت کے لیے آپ
 نے رضاعت کے لیے آپ  کو گود لیا توآپ
 کو گود لیا توآپ  کے  وجود  مبارک میں اتنا  دودھ  بھرگیا جو کہ نا صرف رسول اللہ
 کے  وجود  مبارک میں اتنا  دودھ  بھرگیا جو کہ نا صرف رسول اللہ  کی رضاعت کے  لیے کافی ہوتا تھا بلکہ آپ
  کی رضاعت کے  لیے کافی ہوتا تھا بلکہ آپ  کے رضاعی بھائی کے لیے بھی کافی و شافی ہو جایا کرتا تھا۔اس کے علاوہ وہ جانور اور مویشی جن کے تھن سوکھ گئے تھے، آپ
 کے رضاعی بھائی کے لیے بھی کافی و شافی ہو جایا کرتا تھا۔اس کے علاوہ وہ جانور اور مویشی جن کے تھن سوکھ گئے تھے، آپ کی آمد مبارکہ کے ساتھ ہی وہ نہ صر ف صحت مند و توانا ہوگئے بلکہ ان کے تھن بھی دودھ سے بھر گئے تھے ۔ آپ
 کی آمد مبارکہ کے ساتھ ہی وہ نہ صر ف صحت مند و توانا ہوگئے بلکہ ان کے تھن بھی دودھ سے بھر گئے تھے ۔ آپ کی ان خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت حلیمہ سعدیہ   فرمایا کرتی تھیں کہ جب  وہ آپ
 کی ان خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت حلیمہ سعدیہ   فرمایا کرتی تھیں کہ جب  وہ آپ  کو دودھ پلاتیں تو آپ
 کو دودھ پلاتیں تو آپ  کو اپنی دائیں  طرف  پیش فرماتیں جس سے آپ
 کو اپنی دائیں  طرف  پیش فرماتیں جس سے آپ دودھ نوش فرمایا کرتے تھے مگر جب وہ آپ
 دودھ نوش فرمایا کرتے تھے مگر جب وہ آپ کو  اپنی بائیں جانب  سے دودھ پلانے کی کوشش کرتیں تو آپ
 کو  اپنی بائیں جانب  سے دودھ پلانے کی کوشش کرتیں تو آپ اپنا رخِ مبارک پھیر لیا کرتے تھے   کیونکہ اس پستان سے آپ
 اپنا رخِ مبارک پھیر لیا کرتے تھے   کیونکہ اس پستان سے آپ  کے رضاعی بھائی دودھ پیا کرتے تھے اور یہ بات عدل کے خلاف تھی کہ آپ
 کے رضاعی بھائی دودھ پیا کرتے تھے اور یہ بات عدل کے خلاف تھی کہ آپ  ان کے حصے سے دودھ پئیں۔ 16
 ان کے حصے سے دودھ پئیں۔ 16
حضرت حلیمہ سعدیہ  نے تقریبا ً چوبیس (24)  ماہ کا طویل عرصہ آپ
 نے تقریبا ً چوبیس (24)  ماہ کا طویل عرصہ آپ  کی رضاعت و کفالت فرمائی 17یہاں تک کہ آپ
 کی رضاعت و کفالت فرمائی 17یہاں تک کہ آپ  کی مکّہ واپسی کا وقت آن پہنچا ۔ جب آپ
 کی مکّہ واپسی کا وقت آن پہنچا ۔ جب آپ  حضور
  حضور  کو لے کر حضرت آمنہ
 کو لے کر حضرت آمنہ  کے پاس پہنچیں توفرطِ محبت سے اس قدر روئیِں کہ حضرت آمنہ
 کے پاس پہنچیں توفرطِ محبت سے اس قدر روئیِں کہ حضرت آمنہ  مجبور ہو گئیں کہ وہ مزید کچھ عرصہ کے لیے آپ
 مجبور ہو گئیں کہ وہ مزید کچھ عرصہ کے لیے آپ  کو حضرت حلیمہ سعدیہ
 کو حضرت حلیمہ سعدیہ  کے پاس  رہنے دیں۔  آپ
 کے پاس  رہنے دیں۔  آپ  نے مزیدکچھ عرصہ تک آپ
نے مزیدکچھ عرصہ تک آپ  کی نشوونما فرمائی اور پھر واقعۂِ  شق الصدر کے بعد  بلآخر خوف سے مجبور ہوکر آپ
 کی نشوونما فرمائی اور پھر واقعۂِ  شق الصدر کے بعد  بلآخر خوف سے مجبور ہوکر آپ  کو ان کی والدہ ماجدہ کے حوالے فرماد یا۔  18آپ
 کو ان کی والدہ ماجدہ کے حوالے فرماد یا۔  18آپ  کا وصال نو (9)  ہجری میں ہوا اور آپ
  کا وصال نو (9)  ہجری میں ہوا اور آپ کی قبر مبارک جنت البقیع میں موجود ہے۔ 19
 کی قبر مبارک جنت البقیع میں موجود ہے۔ 19