حضرت ریحانہ    شمعون بن زید کی صاحبزادی تھیں جن کا  تعلق بنو قریظہ اور ایک قول کے مطابق بنو نضیر قبیلہ سے تھا۔ 12  حضرت محمد
 شمعون بن زید کی صاحبزادی تھیں جن کا  تعلق بنو قریظہ اور ایک قول کے مطابق بنو نضیر قبیلہ سے تھا۔ 12  حضرت محمد  کے نکاح میں آنے  سے پہلے آپ
  کے نکاح میں آنے  سے پہلے آپ   ایک با عمل اور باجمال  یہودی خاتون تھیں اور بنو قریظہ سے تعلق رکھنے والے الحکم نامی شخص  کی منکوحہ تھیں ۔ الحكم آپ
  ایک با عمل اور باجمال  یہودی خاتون تھیں اور بنو قریظہ سے تعلق رکھنے والے الحکم نامی شخص  کی منکوحہ تھیں ۔ الحكم آپ   کے حسن کردار کی وجہ سے آپ  سے بہت محبت اور تعظیم  کرتا تھا۔3آپ
 کے حسن کردار کی وجہ سے آپ  سے بہت محبت اور تعظیم  کرتا تھا۔3آپ   نے اپنی زندگی قبیلہ بنو قریظہ میں ہی بسر کی یہاں تک کہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے نتیجے میں اس قبیلے کو شکست ہوئی اور اس کے مردوں کو قتل کردیا گیا اور بچوں و خواتین کو جنگی اسیر بنا لیا گیا۔ 4
  نے اپنی زندگی قبیلہ بنو قریظہ میں ہی بسر کی یہاں تک کہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے نتیجے میں اس قبیلے کو شکست ہوئی اور اس کے مردوں کو قتل کردیا گیا اور بچوں و خواتین کو جنگی اسیر بنا لیا گیا۔ 4
غزوہ احزاب  میں بنو قریظہ نے حضرت محمد سے کیے ہوئے عہد کو توڑ کر  مسلمانوں کے خلاف دشمنوں   کا ساتھ دیا  لیکن  جب دشمن کی  افواج  پسپا ہوئی تو انہوں نے  بھاگ کر بنو قریظہ کو  اپنے پیچھے تنہا بے یار ومددگا ر جنگ کے نتائج بھگتنے کےلیے چھوڑ دیا۔ اس غزوہ کے اختتام پر اللہ تعالی نے آپ
   سے کیے ہوئے عہد کو توڑ کر  مسلمانوں کے خلاف دشمنوں   کا ساتھ دیا  لیکن  جب دشمن کی  افواج  پسپا ہوئی تو انہوں نے  بھاگ کر بنو قریظہ کو  اپنے پیچھے تنہا بے یار ومددگا ر جنگ کے نتائج بھگتنے کےلیے چھوڑ دیا۔ اس غزوہ کے اختتام پر اللہ تعالی نے آپ  کو حکم دیا   کہ وہ بنو قریظہ  کے خلاف  لڑنے کےلیے نکلیں   چنانچہ آپ
   کو حکم دیا   کہ وہ بنو قریظہ  کے خلاف  لڑنے کےلیے نکلیں   چنانچہ آپ  نے  ان کے قلعوں کا محاصرہ فرمایا۔ 5 کچھ دنوں کے محاصرہ کے بعد جب بنو قریظہ کو اس بات کا یقین ہوگیا  کہ وہ مسلمانوں سے لڑنے کی قوت نہیں رکھتے تو انہوں نے  باہمی مشاورت سے طے کیا کہ وہ مسلمانوں کے سامنے  ہتھیار ڈال دیں  اور آپ
   نے  ان کے قلعوں کا محاصرہ فرمایا۔ 5 کچھ دنوں کے محاصرہ کے بعد جب بنو قریظہ کو اس بات کا یقین ہوگیا  کہ وہ مسلمانوں سے لڑنے کی قوت نہیں رکھتے تو انہوں نے  باہمی مشاورت سے طے کیا کہ وہ مسلمانوں کے سامنے  ہتھیار ڈال دیں  اور آپ  ان کے حق میں جو بھی فیصلہ کریں وہ اسے قبول کرلیں۔ 6
    ان کے حق میں جو بھی فیصلہ کریں وہ اسے قبول کرلیں۔ 6
حضرت محمد  نے بذات خود بنو قریظہ  کو ان کے نقض عہد کی پاداش میں سزا دینے  کا کوئی فیصلہ نہیں کیا بلکہ  فیصلہ کرنے کےلیے  حضرت سعد بن معاذ
   نے بذات خود بنو قریظہ  کو ان کے نقض عہد کی پاداش میں سزا دینے  کا کوئی فیصلہ نہیں کیا بلکہ  فیصلہ کرنے کےلیے  حضرت سعد بن معاذ  کا انتخاب فرمایا جو اسلام لانے سے قبل  بنو قریظہ کے  اچھے دوست اور حلیف رہے تھے۔تمام افراد بشمول بنو قریظہ کے لوگوں نے  اس بات کو بخوشی قبول کیا  کہ حضرت سعد بن معاذ
  کا انتخاب فرمایا جو اسلام لانے سے قبل  بنو قریظہ کے  اچھے دوست اور حلیف رہے تھے۔تمام افراد بشمول بنو قریظہ کے لوگوں نے  اس بات کو بخوشی قبول کیا  کہ حضرت سعد بن معاذ     ان کے بارے میں  فیصلہ  کریں۔حضرت سعد بن معاذ
  ان کے بارے میں  فیصلہ  کریں۔حضرت سعد بن معاذ    جیسے ہی بنوقریظہ کے قلعہ  پر پہنچے  تو بنو قریظہ نے باہر آکر ان کے سامنے  اپنے ہتھیار ڈال دیے۔ اس کے بعد حضرت سعد
  جیسے ہی بنوقریظہ کے قلعہ  پر پہنچے  تو بنو قریظہ نے باہر آکر ان کے سامنے  اپنے ہتھیار ڈال دیے۔ اس کے بعد حضرت سعد    نے  بنو قریظہ سے متعلق فیصلہ فرمایا   کہ وہ تمام لوگ جو مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شامل تھے انہیں قتل کر دیا جائے، ان کا مال ومتاع مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے اور ان کی خواتین اور بچوں کو جنگی قیدی بنا دیا جائے۔ 7   اس پر آپ
  نے  بنو قریظہ سے متعلق فیصلہ فرمایا   کہ وہ تمام لوگ جو مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شامل تھے انہیں قتل کر دیا جائے، ان کا مال ومتاع مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے اور ان کی خواتین اور بچوں کو جنگی قیدی بنا دیا جائے۔ 7   اس پر آپ  نے ارشاد فرمایا  :
   نے ارشاد فرمایا  :
لقد حكمت فيهم بحكم اللّٰه. 8
(اے سعد!): تم نے یہ فیصلہ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق کیا ہے ۔
حضرت ریحانہ بنت شمعون    بھی  بنو قریظہ کے  جنگی قیدیوں  میں سے ایک تھیں۔حضرت محمد
  بھی  بنو قریظہ کے  جنگی قیدیوں  میں سے ایک تھیں۔حضرت محمد  نے  آپ
   نے  آپ   کا انتخاب اپنے حصہ میں آنے والے جنگی قیدی کے طور پر فرمایا۔ 11  آپ
  کا انتخاب اپنے حصہ میں آنے والے جنگی قیدی کے طور پر فرمایا۔ 11  آپ نے حضرت ریحانہ بنت شمعون
   نے حضرت ریحانہ بنت شمعون    کو ان کے دین کے حوالہ سے  کچھ  اختیارات   بھی دیے  10جس کےنتیجہ میں  کچھ روایات  کے مطابق  انہوں نے  فوری طور پر اسلام قبول کرلیا  جبکہ  دیگر روایات کے مطابق  آپ
  کو ان کے دین کے حوالہ سے  کچھ  اختیارات   بھی دیے  10جس کےنتیجہ میں  کچھ روایات  کے مطابق  انہوں نے  فوری طور پر اسلام قبول کرلیا  جبکہ  دیگر روایات کے مطابق  آپ   شروع میں  اپنے مذہب یہودیت پر قائم رہیں لیکن بعد میں   اسلام لے آئیں ۔ 11
  شروع میں  اپنے مذہب یہودیت پر قائم رہیں لیکن بعد میں   اسلام لے آئیں ۔ 11
 کا حضرت محمد
  کا حضرت محمد  کے ساتھ تعلق
     کے ساتھ تعلقحضرت ریحانہ بنت شمعون   اورحضرت محمد
  اورحضرت محمد  کے تعلق کےحوالے سےکتب سیرت میں دو قسم کی آراء موجود ہیں۔ ابن ہشام
     کے تعلق کےحوالے سےکتب سیرت میں دو قسم کی آراء موجود ہیں۔ ابن ہشام  کے مطابق ریحانہ بنت شمعون
  کے مطابق ریحانہ بنت شمعون    رسول اللہ
  رسول اللہ  کے ہاں  بحیثیت باندی کے تھیں اور  جب ان کا  انتقال ہوا تو وہ آپ
   کے ہاں  بحیثیت باندی کے تھیں اور  جب ان کا  انتقال ہوا تو وہ آپ کی ملکیت میں  ہی تھیں۔رسول اللہ
   کی ملکیت میں  ہی تھیں۔رسول اللہ  نے انہیں پیشکش فرمائی تھی کہ وہ  آپ
   نے انہیں پیشکش فرمائی تھی کہ وہ  آپ   سے نکاح  کر کے آزاد عورتوں کی طرح پردہ کریں لیکن  آپ
    سے نکاح  کر کے آزاد عورتوں کی طرح پردہ کریں لیکن  آپ    نے اس سے انکار فرما دیا تھا اور آپ
  نے اس سے انکار فرما دیا تھا اور آپ  کی غلامی میں رہنے کو ترجیح دی تھی۔ 12جبکہ امام واقدی
   کی غلامی میں رہنے کو ترجیح دی تھی۔ 12جبکہ امام واقدی   کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت ریحانہ بنت شمعون
  کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت ریحانہ بنت شمعون    رسول اللہ
  رسول اللہ  کی ابتداً باندی ضرورتھیں لیکن آپ
   کی ابتداً باندی ضرورتھیں لیکن آپ  نے  انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح  فرمالیا تھا۔ 13 بلاذری،  14ابن کثیر، 15ابن حجر عسقلانی،16 یوسف الصالحی17   اور ابن سعد
   نے  انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح  فرمالیا تھا۔ 13 بلاذری،  14ابن کثیر، 15ابن حجر عسقلانی،16 یوسف الصالحی17   اور ابن سعد  واقدی
واقدی کے بیان کی تصدیق کرتے ہیں  البتہ بلاذری  یہاں اس بات کا اضافہ کرتے ہیں  کہ آپ
 کے بیان کی تصدیق کرتے ہیں  البتہ بلاذری  یہاں اس بات کا اضافہ کرتے ہیں  کہ آپ  نے  حضرت ریحانہ
   نے  حضرت ریحانہ   کا مہر  اُن  کی آزادی  یا دیگر ازواج کی مثل مقرر فرمایا تھا  18  جبکہ یوسف الصالحی بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ریحانہ
  کا مہر  اُن  کی آزادی  یا دیگر ازواج کی مثل مقرر فرمایا تھا  18  جبکہ یوسف الصالحی بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ریحانہ    کا مہر  12 اوقیہ چاندی تھا   19اور یہی رائے  زیادہ تر سیرت نگاروں کی نظر میں معتبر ہے ۔
  کا مہر  12 اوقیہ چاندی تھا   19اور یہی رائے  زیادہ تر سیرت نگاروں کی نظر میں معتبر ہے ۔
حضرت ریحانہ  بنت شمعون کا وصال  حضرت محمد
    کا وصال  حضرت محمد  کی حیات طیبہ میں20  حجۃ الوداع کے بعد 21 سن  10 ہجری میں ہوا 22 اور آپ  کو  جنت البقیع میں 23ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ
   کی حیات طیبہ میں20  حجۃ الوداع کے بعد 21 سن  10 ہجری میں ہوا 22 اور آپ  کو  جنت البقیع میں 23ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ    کے برابر میں  سپرد خاک کیا گیا ۔
 کے برابر میں  سپرد خاک کیا گیا ۔