encyclopedia

وحی سے متعلقہ شبہات کا ازالہ

Published on: 19-Nov-2024

قرآن مجید یعنی وحی الہی پر مختلف اوقات میں مختلف لوگوں نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، یہ شکوک و شبہات زیادہ تر قرآن اور اسلام کے بارے میں عدمِ علم یا غلط فہمیوں کی بنا پر ہیں۔ اس مضمون میں ہم ان اعتراضات کا جائزہ لیں گے اور ان کے جواب پیش کریں گے۔

سب سے بڑا اعتراض جو مستشرقین اور ملحدین کی طرف سے وحی الٰہی پر کیا گیا وہ یہ تھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو (نعوذ بااللہ) مرگی کے دورہ پڑتے تھے اور اس کیفیت میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان مبارک سے کچھ الفاظ نکلا کرتے تھے جن کو مسلمانوں نے وحی الٰہی سمجھ کر قرآن کی صورت میں محفوظ کرلیا۔ اپنی اصل اور اساس کے حساب سے تو یہ نہایت ہی گھٹیا اور بھونڈا اعتراض ہے لیکن ایک مسلمان کو کیونکہ ان باتوں کا جواب معلوم ہونا چاہیے اس لئے یہ عرض ہے کہ سب سے پہلے یہ جانیں کے میڈیکل سائنس کے مطابق یہ مرگی ہے کیا؟ مرگی ایک دماغی بیماری ہے جسے انگریزی میں (Epilepsy) کہا جاتا ہے۔اس مرض میں انسانی دماغ میں متحرک رہنے والی برقی رو وقتی طور پر بے اعتدال ہو جاتی ہے جس کے نتیجہ میں انسان کا پورا جسم بد حواس، بے ترتیب اورمدہوش ہوجا تاہے۔ اس بیماری کی عام علامات میں اچانک سے بے ہوش ہوجانا یا بے ہوشی کی کیفیت کا طاری ہونا،انسانی جسم کا اکڑ جانا، انسانی وجود کو جھٹکے لگنا، اچانک زمین پر گر جانا، عارضی طور پر سانس کا رُک جانا، مریض کے منہ کا ایک طرف ٹیڑھا ہوجانا، مریض کے منہ سے جھاگ کا نکلنا، مریض کی زبان کا دانتوں کے درمیان آکر کٹ جانا، اور مریض کا پیشاب نکل جانا شامل ہیں۔ اس مرض میں بعض مریضوں کو نسبتاً کم شدت کے دورے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے مریض مکمل طور پر اپنا ہوش و حواس نہیں کھوتا لیکن مریض کی کیفیت اور چہرے کے تاثرات ضرور بدل جاتے ہیں۔ اس کے باوجود مریض اس قابل ہوتا ہے کہ بات کرسکے اور سُن سکے مرگی کے دورے میں اگر سختی ہو توسارے وجود پرپسینہ بھی آجاتا ہے۔ مرگی کے مریضوں کو ہوش میں آنے پر کچھ یاد نہیں رہتا کہ انہوں نے کیا کچھ دیکھا، سُنا اورکہا ہوتا ہے۔

اب اگر وحی کی جملہ کیفیات کا تقابل مرگی کی مذکورہ بالا علامات سے کیا جائے تو ان میں کوئی چیز بھی مشترک نظر نہیں آتی۔ مرگی کے دورے کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ تمام باتیں جو اس کے سامنے کہی گئی ہوتی ہیں یا خود اُس نے کی ہوتی ہیں یا جو کچھ اُس کے سامنے پیش آیا ہوتا ہے وہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔اگر کوئی مریض اپنے دوران مرض کی کوئی کہی اور سُنی بات صحیح طور پر دہرادے تو اُس کے مرگی کا دورہ مشکوک ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف وحی کے نزول اور اُس کے بعد کی کیفیت اس کے بالکل برعکس ہے جس میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam وہ تمام قرآنی سورتیں اور آیات جو کبھی مختصر ہوتیں اور کبھی طویل انہیں بالکل صحیح طور پر پہلے خود تلاوت کرتے اورپھر کاتبین وحی کو اُن کا املاء بھی کرواتےتھے۔ وحی الٰہی کے نزول میں اس حوالے سے نہایت منفرد بات یہ ہوا کرتی تھی کہ یہ آیات کسی خاص موقع اور مناسبت سے نازل ہوا کرتی تھیں۔ اِن کے نزول کی وہ ترتیب نہیں ہوتی تھی جس ترتیب پر آج قرآن کریم کی سورتوں کی ترتیب موجود ہے لیکن اُس کے باوجود حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam املاء کرواتے وقت کاتبین کویہ ہدایت بھی فرماتے جاتے تھے کہ کس سورۃ کو کس جگہ اور کس آیت کو کون سی آیات سے پہلے اور بعد میں لکھنا ہے۔ وحی کے نزول کے نتیجہ میں مرتب شدہ قرآن کریم انسان کے لئے ہدایت و رہنمائی کے ایسے کامل مجموعہ کی شکل میں سامنے آیا جس کے اندر دیے گئے احکامات، ہدایات، تعلیمات اور منہیات کی حیثیت ابدی اصولوں اور ضابطوں پر مشتمل ہے۔ یہ کلام عربی فصاحت و بلاغت، زبان و بیان اور عربی ادب و گرامر کا ایسا مرقع ہے جس کی مثل و مثال نہ اس کے نزول کے وقت تھی اور نہ ہی آج تک پیش کی جاسکی ہے۔ لہذا وحی الہی کو مرگی سے تشبیہ دے کر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نبوت و رسالت پر اعتراض کم علمی، ہٹ دھرمی اور الزام تراشی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

مزید یہ کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جب اعلان نبوت فرمایا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر ایمان لانے والوں میں عرب کے نامور حکماء، امراء، شعراء، خطباء، اطبّاء اور جنگی سپہ سالاروں، دانشوروں سمیت یہود و نصاریٰ کے علماء بھی تھے۔ زندگی کے نشیب و فراز سے گہری واقفیت رکھنے والے یہ تجربہ کار لوگ آنکھیں بند کرکے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر ایمان نہیں لائے تھے بلکہ انہوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قول، فعل، عمل، سیرت، کردار، اخلاق، شخصیت اور جسمانی، اعصابی، ذہنی، نفسیاتی اور روحانی صحت و سلامتی میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اپنے سے فائق، بہتر اور مضبوط جان کرآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی سیادت و نبوت کو قبول کیا۔ ان سینکڑوں دانشمند افراد میں سے کبھی کسی کو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ شبہ نہیں ہوا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو خفیف سا بھی جسمانی یا اعصابی مرض لاحق ہے۔ اسی طرح مکہ و عرب کے وہ تمام زعماء جنہیں اپنی فہم و فراست اور عقل و فکر پر ناز تھا اور کسی نہ کسی صورت وہ اپنے آپ کو تمام لوگوں سے برتر سمجھ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو کاہن، کبھی مجنون، کبھی شاعر اور کبھی ساحر قرار دیتے تھے، انہیں بھی کبھی یہ ہمت نہ ہوسکی کہ وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل ہونے والی وحی اور اُس کی مختلف کیفیات کی روشنی میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو مرگی کا مریض قرار دیں۔ حالانکہ عرب میں یہ بیماری اس زمانے کی معروف بیماریوں میں سے ایک تھی اور مریض کے علاج کے لئے مختلف ذرائع اختیار کیے جاتے تھے۔

ڈاکٹر حمید اللہ نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ یہ تمام مرگی کی نشانیاں کسی بھی اعتبار سے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں نہیں پائی جاتی تھیں۔ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہمیشہ ساکت و صامت ہوجاتے تھے نہ کہ ہاتھ پاؤں مارتے تھے۔ ثانیاً وحی کے دوران شروع سے آخر تک اور وحی کے ختم ہوجانے کے بعد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان سے جو آوازیں نکلتیں وہ قابل فہم عبارتیں ہوتیں، یعنی قرآن کی آیتیں جن کو سن کر ہر شخص سمجھ سکتا تھا، یہ نہیں کہ چیخیں ماری جارہی ہوں یا جیسے کہ بیمار بعض اوقات کراہتا ہے اور ایسی آوازیں نکالتا ہے جو سمجھ میں نہیں آسکتیں، ایسا کبھی نہیں ہوا۔1

اسی طرح رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ہاں لڑکے لڑکیوں کی ولادت ہوئی اور لڑکیوں کی اولاد اب تک دنیا میں باقی ہے جن میں اس مرض کے توارث سے تاریخ ساکت ہے۔ لہذا وحی کے نزول اور وہ بھی صرف خاتم النبیین Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل شدہ وحی کو غیر حقیقی قرار دے کر کوئی بیماری سمجھنا، سچ اور حق کا مذاق اُڑانے کے مترادف اورخود ایک بیمار ذہنیت کی علامت ہے کیونکہ پوری انسانی تاریخ میں صرف نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہی تنہا وہ پیغمبر ہیں جنہوں نے اپنے سابقہ تمام انبیاء و رُسل Alaihmus Salam کی نبوت و رسالت اور اُن پر نازل ہونے والی وحی وپیغام الہی اور اُن سے صادر ہونے والے تمام معجزات کی تصدیق اور تصویب فرمائی اور اپنی اُمت کو ان پر ایمان لانے کی تاکید فرمائی ہے۔

کیا جون آف آرک (Joan of Arc) پر بھی وحی اتری تھی؟

جون آف آرک (Joan of Arc) رومن کیتھولک فرقے کی فرانسیسی لڑکی تھی جو حساس اور نیک صفت مشہور تھی۔ جب فرانس پر انگریز وں نے حملہ کیا اور فرانسیسیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تو جون نامی اس لڑکی نے یہ دعوی کیا کہ اسے غیب سے آوازیں محسوس ہوئیں کہ مقرب فرشتے میکائیل Alaihis Salam، مارگریٹ اور کیتھرین اسکندری نے الہام کے ذریعہ اسے چارلس ہفتم کی مدد کرنے اور فرانس کو انگریزوں کے قبضہ سے چھڑانے اور بادشاہ کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ہدایت دی ہے۔ فرانس کے بادشاہ چارلس ہفتم نے اس کے کہے پر اپنی امدادی فوج کو بھیجا جس نے 9 دن محاصرہ کیا اور اس علاقے کو انگریزوں سے چھڑا لیا۔ جون کی سربراہی میں فرانسیسیوں کو مزید فتوحات بھی نصیب ہوئیں جن کے نتیجے میں بالآخر ریمس کے مقام پر چارلس ہفتم کی تاج پوشی ہوئی۔ اس تقریب نے فرانسیسیوں کی ہمتوں کو بلند کردیا۔ جون نے چونکہ انگریزوں کے خلاف اور فرانس کے حق میں جدوجہد کو "خدائی فریضہ" قرار دیا تھا اس لیے اس کو مقدس ہستی سمجھا جانے لگا۔

اس واقعہ یا اس جیسے دوسرے واقعات سے استدلال کرتے ہوئے بعض اہلِ قلم وحی اور الہام کی حقیقت کو خلط ملط کردیتے ہیں۔ اُس کی وجہ یہ کہ وہ مذکورہ بالا واقعہ میں جون نامی لڑکی کو اُس کے کشف، الہام، غیب کی خبروں سے آگاہی، میکائیل Alaihis Salam اور مقدس ارواح کی طرف سے دی جانے والی ہدایات کے دعوؤں کی وجہ سے اسے مقامِ نبوت پر فائز کرکے وحی کا نزول اور وصول عام انسان کے لئے ثابت کرتے ہیں۔ اس حوالے سے اُن کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اس لڑکی کی عزت، عصمت اور بزرگی پوری قوم کے نزدیک ایک مسلمہ حقیقت تھی اوراس لڑکی نے اپنے عمل و کردار اورجدو جہد و قربانی کے ذریعہ اپنی قوم کی بے مثال خدمت کی۔ اس لئے مقام نبوت کےحاملین اور جون کی طرح کے افراد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔

اس پورے واقعہ میں جون نامی لڑکی نے کہیں بھی اپنی نبوت و رسالت کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی اُس لڑکی نے پہلے سے موجود مذہب (عیسائیت) پر عمل پیرا ہونے کے لئے تبلیغ و اصلاح کے ذریعہ اپنی قوم کو راغب کرنے کی کوشش کی۔ اس خاتون نے اپنے کشف و الہام کو کسی نئی شریعت یا مذہب کے لئے بطور حجت و دلیل پیش نہیں کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ نہ تو اُس سے کوئی معجزہ صادر ہوا اور نہ ہی اُس نے کسی معجزے کی بنیاد پر لوگوں کو اپنی ذات پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ اُس نے جس جرأت و بہادری کا جنگ میں مظاہرہ کیا وہ جنگ بھی درحقیقت دین کے احیاء کے نام پر نہیں لڑی گئی۔ وہ خود اپنے کشف و الہام اور خواب کی تعبیر کرنے سے بھی معذور تھی اسی لئے غیب کی خبروں کی توجیہہ اور حقیقت جاننے کے لئے اُس نے عیسائی مذہب کے پادری سے رجوع کیا۔ اُس کا کلام اپنی اُمت کے لئے الہامی اساس کی بنیاد پر کوئی پیغام نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عقل، فکر، شعوراور نظریہ کے اعتبار سے اس منصب کی ہرگز حامل نہ تھی کہ قوم اُس کی دی ہوئی ہدایات کی روشنی میں علمی، عملی، الہامی، اخلاقی اور روحانی طور پر ترقی کرسکے۔ اسے اپنی فوج کی سربراہی بھی اپنے ملک کے بادشاہ کے دربار میں حاضری کے نتیجہ میں حاصل ہوئی تھی نہ کہ وہ اس منصب پر خدا کی طرف سے فائز ہوئی تھی یعنی خلاصہ کے طور پر کہا جائے تو نہ وہ نبیہ تھی، نہ اس نے نبوت و رسالت کا دعوی کیا تھا اور نہ ہی اس کے اس مخصوص الہام کا منصب نبوت و وحی الٰہی سے کوئی واسطہ تھا۔

کیا حضورﷺ نے نبوت کا دعویٰ کسی راہب سے ملاقات کی وجہ سے کیا تھا؟

مغربی اہل قلم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ شام کے شہر بصریٰ میں آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ملاقات بحیرا راہب سے ہوئی تھی جس کا تعلق نسطوری فرقہ سے ہونے کی وجہ سے وہ عیسیٰ Alaihis Salam کی الوہیت، ابنیت اور تثلیث کا منکر تھا۔ اسی لئے اُس کا پختہ ایمان توحید باری تعالیٰ پر تھا۔ مستشرقین کے خیال کے مطابق حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی نبوت کا دعویٰ وحی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس راہب سے ملاقات کی وجہ سے کیا تھا۔ ثانیاً وہ یہ کہتے ہیں کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے تمام عقائدِ اسلام کی تعلیم بھی اُسی بحیرا سے حاصل کی جو علمِ نجوم کا ماہر، حساب دان اور ان کے بقول ایک جادوگر بھی تھا۔ کچھ اہلِ قلم پادری حضرات نے اپنی طرف سے یہ الزام بھی تراشا ہے کہ عیسائی راہب بحیرا ،محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا استاد اور معلّم ہی نہ تھا بلکہ اعلان نبوت کے بعد وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا مصاحبِ خاص بھی کچھ عرصہ رہا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سیرت کی بعض کتابوں میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا اپنے چچا ابوطالب کے ہمراہ شام کے سفر کا ذکر ملتا ہے۔ اس موقع پر بحیرا راہب نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو قریش کے ساتھ اس حال میں دیکھا تھا کہ بادل کا ٹکڑا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سر پر سایہ فگن تھا۔ یہ دیکھ کر اُس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے چچا سے کہا تھا کہ: "یہ لڑکا بہت عظیم ہوگا، اُسے یہودیوں سے بچانا چاہیے"۔ ان روایات کی صحت اور ضعف پر بحث سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر ان تمام روایات کو ایک لمحہ کے لئے صحیح بھی تسلیم کرلیں تب بھی کسی ضعیف سے ضعیف ترین روایت میں بھی یہ بات نہیں ملتی کہ بحیرا نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے براہِ راست یا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قافلہ میں موجود کسی شخص سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی موجودگی میں اپنے عقیدے اور مذہب پر کوئی بات کی ہویا پورے قافلے میں کسی کو بھی اپنے مذہب پر ایمان لانے کی دعوت دی ہو۔ جب عقیدے اور مذہب کے بارے میں کسی قسم کی گفتگو کا ثبوت نہیں ملتا اور نہ ہی تنہائی میں بحیرا کی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے راز و نیاز کے بارے میں کوئی ادنی سا ثبوت دستیاب نہیں ہے، تو محض تخیل کی بنیاد پر طرفین کے مابین تعلیم و تعلّم کا پورا افسانہ گھڑ لینا سوائے ذہنی کج روی اور اخلاقی پستی کے اور کچھ نہیں۔

اس حوالہ سے دوسری بات یہ ہے کہ اگر بحیرا راہب خود اتنا صاحب علم اور صاحب نظر شخص تھا تو خود اس نے الہامی کتاب کے نام سے کوئی کتاب تصنیف کیوں نہ کرلی تھی اور اپنی اس تصنیف کی بنیاد پر ایک نیا دین خود کیوں ایجاد نہیں کرلیا تھا۔ آخر ایسی کیا بات تھی کہ اس راہب نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے پہلے اور بعد میں کسی اور شخص کو وہ سب کچھ سکھانے کی کوشش نہیں کی جواُس نے ایک ہی نشست میں مغربی مصنفین کے دعوؤں کے مطابق حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو سکھا دیا تھا حالانکہ وہ اُس جگہ پر برسوں بلکہ دہائیوں سے مقیم تھا۔ عموماً کلیساؤں کے ساتھ مسیحی دینی تعلیم کے مدرسہ منسلک ہوا کرتے تھے اور جو کچھ مغربی اہل قلم بحیرا راہب کی علمیت اور عظمت کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں تو کم از کم درجہ میں اُس کی حیثیت اگر پوری دنیا ئے مسیحیت کے"شیخ الکل" کی نہ بھی ہو تو تب بھی ملک شام میں وہ عیسائیت کا سب سے بڑا عالم دین ضرور تھا چنانچہ یہ ممکن ہی نہیں کہ جس کلیسا میں بحیثیت مسیحی عالم دین کے وہ مقیم تھا وہاں پر کوئی ایسا مسیحی دینی مدرسہ نہ ہوجہاں دینی تعلیم کے لئے طلبہ بحیرا سے استفادہ نہ کرتے ہوں۔ چنانچہ وہ طلبہ جنہیں بحیرا نے خود یا اپنے مصاحب مسیحی علماء سے تعلیم دلوائی تھی آخر اُن میں سے کوئی ایک بھی ذی استعداد ایسا شخص پیدا کیوں نہ ہوا جس نے مدتیں صرف کرکے باقی ساری چیزیں سیکھ لیں اور جو اصل سیکھنے اور جاننے کی چیزیں اور ضروری علوم تھے وہ بحیرا جیسے استاذ الکل کی صحبت کے باوجود نہیں سیکھ سکا؟ دوسری طرف مغربی مصنفین کے مطابق حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ایک ہی نشست میں بحیرا راہب سے سب کچھ سیکھ لیا تھا حالانکہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا اس کے ساتھ ملاقات کا دورانیہ چند منٹوں پر ہی مشتمل تھا۔ اس دعوی کی وجہ یہ ہے کہ جو جملے اس ملاقات کے دوران بحیرا سے منقول ہیں انہیں اگر نہایت سکون سے گفتگو کرنے والا شخص بھی ادا کرے تو اس کی ادائیگی میں چند منٹ سے زیادہ صرف نہیں ہوتے۔

مزید یہ کہ اسلام کی وہ تمام تعلیمات جن کے بارے میں مسلمانوں کا پختہ ایمان ہے کہ وہ من جانب اللہ وحی کی صورت میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل ہوئیں لیکن عیسائی انہیں منزّل من اللہ ماننے سے دانستہ انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ عیسائی اور یہودی عقائد و تعلیمات کے بالکل برعکس بلکہ ضد ہیں۔ اب وہ تعلیمات جو عیسائیت اور یہودیت کے خلاف ہوں انہیں یہودیت و عیسائیت سے ماخوذ جاننا اور سمجھنا کیا کسی عیسائی اور یہودی عالم کے لئے ممکن ہے؟ کیا کوئی یہودی اور عیسائی یہ دعوی کر سکتا ہے کہ اسلام کی ساری تعلیمات بھی بحیرا راہب کی تعلیمات اور ہدایات تھیں؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہو تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ موجودہ عیسائی و یہودی تعلیمات تحریف و ترمیم پر مبنی ہیں کیونکہ یہ وہ تعلیمات بالکل نہیں جو اسلام پیش کرتا ہے اور اگر جواب "نہ"میں ہو تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر لگائے جانے والا یہ الزام جھوٹ پر مبنی ہے۔ دلائل، شواہد اور قرآن کی روشنی میں یہ بات بالکل ایک بدیہی حقیقت ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بغیر کسی شک و شبہ کے اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں جنہیں کسی انسان سے کچھ سیکھنے کی ضرورت قطعاً نہیں تھی۔ جو کچھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بحیثیتِ نبی اور رسول کے انسانوں کو سکھایا اور بتایا خواہ وہ وحی متلو یا وحی غیر متلو کی صورت میں ہو اس کی نوعیت، حیثیت، اہمیت اورضرورت انسانوں کے لئے خود اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نبوت ورسالت کو قبول کرنا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، خالقیت، مالکیت، صمدیت اور ربوبیت کو انتہائی خالص ترین شکل میں قبول کرنا ہے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نبوت و رسالت کا انکار کرنا خود رب تعالیٰ کی قدرت و عظمت کا انکار کرنا ہے۔ لہذا وحی الہٰی اور نبوت و رسالت محمدی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے انکار کے لئے اس من گھڑت اعتراض کو دلیل بنانا تجاہل عارفانہ کے سوا کچھ نہیں۔

کیاحضور ﷺ نے ورقہ بن نوفل سے کسب فیض کیا تھا؟

مغربی اہل قلم کے بقول آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ورقہ بن نوفل جو عیسائیت کے بہت بڑے عالم تھے اورحضرت خدیجہRadi Allah Anha کے ساتھ آپ کی رشتے داری بھی تھی، ان سے علمی طور پر اِکتساب ِفیض کر کے ان کی دی ہوئی تعلیمات کو اپنے نام سے پیش کیا تھا۔ یقیناً اسلامی لٹریچر میں ورقہ بن نوفل کو باعثِ احترام شخصیت سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ بزرگ شخصیت ہونے کے ساتھ حضرت خدیجہ Alaihis Salam کے چچا زاد بھائی بھی تھے۔ حضرت خدیجہ Alaihis Salam نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو پہلی وحی کے نزول کے بعد ان کی خدمت میں لے جا کر نزول وحی کا پورا واقعہ بیان فرمایا جس کا ذکر ہم وحی کی ابتداء والے باب میں وحی متلو کے عنوان کے تحت کرچکے ہیں۔ جب ورقہ بن نوفل کو حضرت خدیجہ Radi Allah Anha نے تمام تر تفصیلات سے آگاہ کیا تو آپ گہری سوچ میں چلے گئے اور پھر کہا کہ اگرحضرت جبرائیل Alaihis Salam نے واقعی اپنے قدم زمین پر رکھ دیے ہیں تو انہوں نے یہ کام لوگوں کی اچھائی اور بھلائی کے لیے کیا ہے۔ حضرت جبرائیل Alaihis Salam نبی کے علاوہ کبھی کسی کے لیے زمین پر تشریف نہیں لائے کیونکہ حضرت جبرائیل Alaihis Salam تمام انبیاء Alaihmus Salam کے رفیق ہیں جو اللہ کے حکم سے صرف انبیاء Alaihmus Salam کے پاس ہی پیغام خداوندی لے کر تشریف لایا کرتے تھے۔ پھر انہوں نے کہا کہ میں اس چیز پر یقین رکھتا ہوں جو تم نے عبداللہ کے بیٹے کے متعلق مجھے بتائی ہے لیکن میں ان(حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں اور سننا چاہتا ہوں کہ فرشتے نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے کیا کلام فرمایا ہے کیونکہ مجھے خوف لاحق ہے کہ کہیں یہ جبرائیل Alaihis Salam کے علاوہ کوئی اور نہ ہو کیونکہ بعض اوقات شیاطین بھی اس روپ میں لوگوں کے پاس آکر انہیں گمراہ کرتے ہیں اور نیک انسانوں کو پریشان کرتے ہیں۔

پس حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرتِ خدیجہ Radi Allah Anha کے کہنے پر ورقہ بن نوفل کے پاس تشریف لے گئے جنہوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے اس واقعہ کے متعلق اور حضرت جبرائیل Alaihis Salam سے ملاقات کے احوال دریافت کئے۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انہیں تفصیل سے سب کچھ بتایا اور ساتھ ہی حضرت جبرائیل Alaihis Salam اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو وحی لے کر آئے تھے اس کے متعلق آگاہ فرمایا اس کے ساتھ ساتھ حضرت جبرائیل Alaihis Salam کے آسمان پر ظاہر ہونے اور حضور کو رسول کہ کر پکارنے کے متعلق بھی بتایا۔ یہ سب سن کر ورقہ بن نوفل نے کہا: میں حلفیہ کہتا ہوں کہ وہ حضرت جبرائیل Alaihis Salam ہی تھے اور یہ الفاظ اللہ کی جانب سے نازل ہوئے ہیں۔ اللہ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حکم دیا ہے کہ لوگوں کو اس کے احکامات پہنچائیں۔ یہ معاملہ پیغمبری کا ہے اور اگر میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اعلانِ نبوت تک زندہ رہا تو میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا مکمل ساتھ دوں گا۔ اس واقعہ کی بنیاد پر مستشرقین، حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پہ الزام عائد کرتے ہیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےاس وقت کے عرب عیسائی عالم، ورقہ بن نوفل سے اکتساب فیض کیا ہے۔

اس حوالہ سے پہلی بات تویہ کہ رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam آغاز وحی سے قبل ورقہ بن نوفل اور ان کی مذہبی حیثیت کے بارے میں بے شک جانتے ہوں گے لیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ان کے پاس جا کر تسلسل سے ملاقاتیں کرنا یا ان سے کسی بھی قسم کے کلام کی سماعت کرنا پورے سیرتی ادب، کتب حدیث اور کتب تاریخ میں کہیں بھی مذکور نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ ورقہ بن نوفل نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو عیسائی عقائد و تعلیمات کے بارے میں آگاہی دی یا دینے کی کوشش کی تو یہ سوائے افسانے کے کچھ نہیں کیونکہ اگر ورقہ بن نوفل نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو مسیحیت کے بارے میں کوئی تعلیم کسی موقع پر دی ہوتی تو خود ورقہ بن نوفل اپنی بھتیجی حضرت خدیجہ Radi Allah Anha سے اس کا تذکرہ اپنی زندگی میں کسی نہ کسی موقع پر ضرور کرتے ورنہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اعلان نبوت کے موقع پر کم از اکم یہ ضرور ارشاد فرماتے کہ آج آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جس بات کا دعوی کررہے ہیں یہ تو وہی ہے جو میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو سکھاتا رہا ہوں۔ اسی طرح لاکھوں احادیث کے ذخیرے میں یا پھر تاریخ عرب قبل از اسلام پر لکھی گئی سینکڑوں تاریخی کتب میں کہیں نہ کہیں اس بات کا حوالہ ضرور ملتا کہ ورقہ بن نوفل نے عیسائیت کی عظمت، ضرورت اور اہمیت پر کوئی خطبہ دیا تھا یا خود آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کسی موقع پر لوگوں کو جمع کرکے عیسائیت کے عقائد و تعلیمات کے حوالے سے خطابت و شاعری فرمائی ہو۔ ہمیں پورے عرب کے تاریخی ومذہبی لٹریچر میں ایسی کوئی بات اشاروں اور کنایوں تک میں نہیں ملتی جو اس دعوی کےلیے دلیل بن سکے۔

اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تاریخ کا ہمیشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ شاگرد چاہے کتنا ہی لائق و فائق اور بڑا انسان کیوں نہ بن جائے لیکن استاد کے لئے اس کی حیثیت ہمیشہ چھوٹوں کی سی رہتی ہے کوئی بھی استاد اپنے آپ کو کسی بڑے انسان کے معلّمی کے منصب سے معزول کرنے پر تیار نہیں ہوتا بلکہ وہ اساتذہ جو کسی بھی وجہ سے اپنے فن میں باکمال یا نامور نہ ہوسکے وہ کسی ایسے شاگرد کا سہارا ڈھونڈنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں جسے اللہ تعالی نے کوئی عظمت عطا کردی ہو۔ ایسے کسی شاگرد کو اگر کسی استاد نے ایک دن بھی پڑھایا ہو تو یہ بات بتانے میں وہ فخر محسوس کرتا ہے کہ یہ بڑا انسان اس کا شاگرد رہا ہے لہذا ورقہ بن نوفل کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ وہ خود حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے معلّم ہونے کا دعویٰ کر بیٹھتے اور اگر وہ ایسا کوئی دعویٰ کرتےتو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس کو کسی بھی طور پر نہیں جھٹلاتے کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا پورے عرب میں تعارف ہی الصَّادق (نہایت سچے) الامین (نہایت امانت دار) کا تھا۔ دوست اور دشمن نے اسلام سے قبل وبعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر مختلف قسم کی الزام تراشیاں کرنے کی نہایت منظم اور بھرپور کوششیں کیں لیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بدترین دشمن نے بھی کبھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے وصفِ صداقت و امانت کو خلاف واقع اور خلاف حقیقت نہیں سمجھا۔

وحی الہی پر ذاتی ذہنی اختراع ہونےکا الزام

مغربی مستشرقین بسا اوقات حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل ہونے والی وحی کو نفسیاتی وحی کہہ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر ایمان لانے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے وحی الٰہی اور کلام ِربّانی کے نام سے پیش کیا ہے وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ذات پر ماحول کے اثرات، حالات کا جبر اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کےنفسیاتی و ذہنی رجحانات کا نتیجہ تھا۔ اس لیے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی وحی آسمان سے نازل شدہ نہیں تھی بلکہ وہ خود آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی جستجوئے فکر و نظر اور دل و دماغ میں برپا اس وقت کی سماجی کشمکش کا نتیجہ تھی جس کی وجہ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ذاتی خواہش یہ ہوگئی تھی کہ وہ وحی الٰہی کو وصول کرنے کا دعویٰ کرکے اپنی نبوت کا اعلان کریں۔ ان لوگوں کا مزید دعویٰ یہ ہے کہ حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی غیر معمولی ذہانت اور فراست سے معلوم کرلیا تھا کہ عربوں میں پھیلا ہوا شرک وبت پرستی، جنگ و جدال اورقتل و قتال وغیرہ اعمالِ قبیحہ ہیں۔ اسی وجہ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے غار حرا کی تنہائی میں خالقِ کائنات کی طرف متوجہ ہو کر اپنی فکر اور نورِ بصیرت میں اضافہ کیا۔ اس بصیرت نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کواس بات پرمجبور کردیا کہ وہ اپنی نبوت و رسالت اور وحی کا اعلان فرمائیں۔

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی سیرت طیبہ خواہ مسلمانوں کی تحریروں سے اس کا مطالعہ کیا جائے یاغیر مسلم مُنصف مزاج اہل قلم کی تحریروں سے اس کو پڑھا جائے، ان سب میں ایک بات قدرِ مشترک ہے جس کا تمام اہل قلم اعتراف کرتے ہیں کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی ذاتی زندگی میں صادق و امین تھے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے زندگی بھر کسی پرکوئی جھوٹا الزام نہیں لگایا اور نہ ہی کسی بھی معاملہ میں جھوٹ بولنے کی کوشش کی چنانچہ وہ شخص جس کا سرے سے مزاج اور فطرت ہی دروغ گوئی اور الزام تراشی کی لعنت سے پاک اور صاف رہا ہو وہ آخر اللہ تعالی پر جھوٹ کیوں باندھنے کی کوشش کرے گا کہ وہ جو کچھ جانتا ہے یا دین و ہدایت کے نام سے انسانوں کو پیش کررہا ہے وہ وحی الٰہی یا ہدایت ِربّانی ہے۔ اللہ تعالی کے علم میں یہ بات یقینا ً موجود تھی کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب تحقیق کے نام پر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نبوت و رسالت پر الزام تراشی کی جائے گی اوراسے مختلف حیلوں اور بہانوں سے غلط ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جائے گا چنانچہ اللہ تعالی نے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نبوت و رسالت اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل ہونے والی وحی کو خود اپنی جانب سے نازل کردہ قرار دے کر اس الزام تراشی یا غلط فہمی کو دو ٹوک انداز میں دور کردیا ہے۔ چنانچہ وحی کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَذَا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ 492
یہ (بیان ان) غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، اس سے قبل نہ آپ انہیں جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم، پس آپ صبر کریں۔ بیشک بہتر انجام پرہیزگاروں ہی کے لئے ہے۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ 1023
(اے حبیبِ مکرّم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam!) یہ (قصّہ) غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم آپ کی طرف وحی فرما رہے ہیں، اور آپ (کوئی) ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ (برادرانِ یوسف) اپنی سازشی تدبیر پر جمع ہورہے تھے اور وہ مکر و فریب کررہے تھے۔
ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ 444
(اے محبوبSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam!) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیں، حالانکہ آپ (اس وقت) ان کے پاس نہ تھے جب وہ (قرعہ اندازی کے طور پر) اپنے قلم پھینک رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم (Alaihas Salam) کی کفالت کرے گا اور نہ آپ اس وقت ان کے پاس تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔

اب ہم مستشرقین کے اصل اعتراض کی طرف آتے ہیں جس کا لب لباب یہ ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خود مُصلح اور پیغمبر بننے کے انتظار میں تھے (نعوذ باللّٰہ من ذلک)۔ یہ وہ بے بنیاد الزام ہے جس کی کوئی ٹھوس علمی یا تاریخی حیثیت نہیں ہے کیونکہ علم و تاریخ کے کسی بھی مستند ذریعہ سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کبھی نبوت و رسالت کے حصول کی تمنا یا جستجو خود کی ہو کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ضرور بالضرور اس کا اظہار یا تذکرہ اپنے گھر یا حلقہ احباب میں کرتے۔ اسی لیے رب تعالی نے ارشاد فرمایا:

وَمَا كُنْتَ تَرْجُو أَنْ يُلْقَى إِلَيْكَ الْكِتَابُ إِلَّا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ...865
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بالکل یہ امید نہ تھی کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف کتاب (وحی) بھیجی جائے گی مگر یہ سب تمہارے پروردگار کی مہربانی سے ہوا ...

یعنی خدا تعالی نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر یہ کتاب نازل فرما کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر اور پوری انسانیت پر اپنی رحمت کاملہ کا ثبوت دیا ہے۔ اس رحمت (وحی کے اترنے) میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ذاتی چاہت اور خواہش کا کوئی ادنیٰ عمل دخل کار فرما نہیں ہے اورنہ ہی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اِس کی کوئی توقع اور آرزو رہی تھی۔ جس طرح کسی بھی شخص کو اس بات کا حق حاصل نہیں کہ وہ بغیر دلیل اور ثبوت کے کسی عام انسان پر الزام تراشی کرے اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر ایک ایسی شخصیت جس کی صداقت و امانت پر ارب ہا ارب انسان متفق ہیں اور پوری دنیا ان کی دیانت و امانت کی آج تک گواہ ہے، صرف دو تین افراد کھڑے ہوکر ایسے صادق وامین شخصیت کے دامن کو الزام تراشی کے ذریعہ داغدار کرنے کی کوشش کریں تو ایسے افراد دنیا کے ہر نظامِ قانون و عدل میں قابل مؤاخذہ اور لائق گِرفت ہوا کرتے ہیں۔

رہی یہ بات کہ حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو عطاءکی جانے والی نبوت و رسالت اور وحی الٰہی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ذاتی چاہت اور خواہش کی بنیاد پر حقیقی وحی کے بجائے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اپنے ذہن کی اختراع تھی تو اس حوالہ سے یہ بات ہر شخص کے پیش نظر رہنی چاہیےکہ غارِ حرا میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر پہلی وحی کے نزول کے فوری بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر جو ہیبت اور خوف کی طبعی و بشری کیفیت طاری ہوئی وہ کسی منتظرِ وحی شخص کی کیفیت ہرگز نہیں ہوسکتی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اگر خود وحی کے منتظر ہوتے تو یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس اتنا شاندار موقع تھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam دوڑ کر اپنی قوم کے پاس پہنچ جاتے اور انہیں آگاہ کرتے کہ میں برسوں سے جس غیر معمولی واقعہ کا منتظر تھا وہ مجھے برسوں کی ریاضت اور محنت کے بعد بالآخر حاصل ہوگیا ہے۔ لہذا آپ سب مجھے فوراً اللہ کا پیغمبر مان کر مجھ پر ایمان لے آئیں، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوا بلکہ وحی کے آغاز کے بعد کچھ عرصے تک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے خاندان یا اہل مکہ میں سے کسی کو نہ تو کوئی سورت سنائی اور نہ ہی انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زوجہ محترمہ اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قریب رہنے والے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے وہ ساتھی جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کرلیا تھا اس حوالہ سے کوئی نہ کوئی بات یا روایت ضرور بیان کرتے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اعلانِ نبوت سے قبل و بعد کے حالات و واقعات پر ہزاروں روایات بیان کی ہیں۔ لہذا ان معتبر اور محترم شخصیات کی اس حوالہ سے خاموشی اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ تحقیق کے نام پر چند غیر مسلم اہل قلم کی طرف سے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل شدہ وحی الٰہی کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ذہن کی اختراع بنا کر پیش کرنے کے لیے پھیلائے گئے بیانات نہ صرف غلط ہیں بلکہ جھوٹ کا پلندہ ہیں۔

کیا وحی حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تصنیفی کاوش ہے؟

بعض مستشرقین نے اپنا پورا زور اس بات پر لگایا ہے کہ وہ اس بات کو کسی طور ثابت کرسکیں کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل ہونے والی وحی الہی حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ذاتی تخلیقی و تصنیفی کاوش ہے جومنزل من اللہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں جارج سیل (George Sale) نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر یہ الزام عائد کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس وحی کی تصنیف میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کچھ لوگوں سے مدد لی ہے۔ 6

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل ہونے والی وحی کے حوالے سے یہ نہایت عجیب و غریب قسم کا اعتراض ہے کیونکہ جارج سیل کا دعوی ہے کہ وحی الہی منزّل من اللہ نہیں ہے بلکہ خود نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تصنیف اور تخلیق ہے۔ اس اعتراض کے ثبوت کے لئے اُن کے پاس کوئی ٹھوس تاریخی اور علمی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ صرف ان کا ظن اور تخمینہ ہے کہ جو کچھ وحی الہی کے نام پر قرآن کریم کی صورت میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے پیش کیا ہے اس کے لئے اُنہوں نے اپنے دور کے کچھ اہلِ علم کی مدد بالواسطہ یا بلا واسطہ حاصل کر رکھی تھی لیکن اُن کے اس دعوی کے تارو پود اُس وقت بکھر کر رہ جاتے ہیں جب وہ خود اس بات کا اعتراف کرلیتے ہیں کہ یہ اعتراض تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ہم عصر غیر مسلم مخالفین بھی پوری کوشش کے باوجود ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

جس طرح مستشرقین وحی الٰہی کا انکار کرکے اس کو انسانی کلام ثابت کرنے کے لئے لایعنی اورلغو باتیں اور دعوے کرتے رہے ہیں، کفارِ مکہ و عرب بھی وحی کے حوالے سے تقریباً ساڑے چودہ سو برس قبل اس طرح کے کھوکھلے اور بے بنیاد دعوے کیا کرتے تھے۔ ان دعوؤں اور الزامات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں ذکر فرما کر متلاشیانِ حق کے لئے قیامت تک اس طور پر محفوظ کردیا ہے کہ اب یا آئندہ کوئی اس طرح کے کسی دعوے کی جرأت اور کوشش کرے تو یہ مخالفینِ حق کی طرف سے طالبین حق کے لئے کوئی نئی اور انہونی کوشش نہیں ہوگی، بلکہ اپنے پیش رو منکرین حق کے جھوٹے دعوؤں کی دوبارہ نئے الفاظ اور زبان و بیان کے ساتھ دوہرائی ہوگی۔ جیسا کہ درج ذیل آیات مقدسہ میں اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے پورے منظر نامہ اور کفار کے لگائے گئے الزامات کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُبِينٌ 1037
اور بیشک ہم جانتےہیں کہ وہ (کفار و مشرکین) کہتے ہیں کہ انہیں یہ (قرآن) محض کوئی آدمی ہی سکھاتا ہے، جس شخص کی طرف وہ بات کو حق سے ہٹاتے ہوئے منسوب کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے جبکہ یہ قرآن واضح و روشن عربی زبان (میں) ہے۔

دوسرے مقام پر کفار کے بے بنیاد اعتراض کو رد کرتے ہوئے فرمایا:

وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا 58
اور (یہ کافر) کہتے ہیں کہ (یہ قرآن) اگلوں کے افسانے ہیں جن کو اس شخص نے لکھوا رکھا ہے پھر وہ (افسانے) اسے صبح و شام پڑھ کر سنائے جاتے ہیں (تاکہ انہیں یاد کرکے آگے سنا سکے)۔

مذکورہ بالا آیات میں کفار مکہ کے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پروحی الٰہی کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کا تقابل آج کے دور کے مستشرقین کے الزامات سے کیا جائے تو لگتا ہے کہ جس طرح مکہ و عرب کے منکرینِ وحی و رسالت نے ہر معاملہ میں بے بس اور لاجواب ہوکر الزام تراشی اور بہتان بازی کو اپنا وطیرہ بنالیا تھا بالکل اُسی طرح اس دور کے مستشرقین کے پاس وحی الٰہی اور رسالت محمدی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی صداقت کے انکار کے لئے علمی، عملی، تاریخی، عقلی، فکری، نظریاتی اور اخلاقی دلیل نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ وہ منکرینِ اہلِ مکہ و عرب کی طرح صرف جھوٹ اور الزام تراشی کی بنیاد پر اپنی نام نہاد علمی و تحقیقی عمارت قائم کرنا چاہتے ہیں۔

مخالفین کے یہ دعوے کہ حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے خود قرآن تصنیف کیا اس حوالہ سے بھی غلط ہیں کیونکہ سب سے پہلےحضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی زندگی کے ابتدائی 40 سالوں میں کبھی کوئی تحریری مواد پیش نہیں کیا تھا، جبکہ قرآن کا زبان اور ادبی معیار عربی زبان کے بڑے شعراء اور ادباء کو بھی حیران کردیتا تھا۔ دوم، قرآن کے مختلف مقامات پر نازل ہونے کے باوجود اس کی آیات میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا، جو انسانی تصنیف میں ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ مکہ و عرب کے بڑے بڑے زبان دانوں نے اس کا اعتراف یا تو ایمان لاکر کیا ورنہ وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بے جا مخالفت اور عداوت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دست بردار ہوگئے۔ البتہ جن لوگوں کی قسمت میں ایمان لانا مقدر نہیں تھا تو انہوں نے عاجز آکر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر مستشرقین کی طرح یہ الزام لگا ڈالا کہ یہ کلام حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو کوئی ماہرِ زبان اور شناسائے لسان عرب خاموشی اور تنہائی میں سکھا کر چلا جاتا ہے۔ جب اُن سے پوچھا جاتا کہ آخر وہ کون سا ایسا شخص ہے جو اتنا بامعنی، فصیح و بلیغ، جامع و کامل اور بے مثال و لاجواب کلام حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو سکھاتا ہے تو کوئی جواب دیتا کہ وہ بلعام لوہار ہے اور کوئی کہتا کہ وہ بنی مغیرہ کا غلام یعیش ہے۔ اسی طرح کوئی کسی اور کو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا معلّم بتاتا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ جن جن لوگوں کو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا معلّم ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تووہ سب کے سب عجمی تھے اور اُن میں سے کسی کی بھی مادری زبان عربی نہ تھی اور مزید لطف کی بات یہ ہے کہ وہ افراد جنہیں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا معلّم ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی وہ تمام یکے بعد دیگرے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دست اقدس پر بیعت فرما کر حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے۔

کیا قرآن تورات وانجیل سے ماخوذ ہے؟

مستشرقین یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل ہونے والی وحی الٰہی اللہ کا نازل کردہ سچا کلام نہیں ہے بلکہ تورات، انجیل اور یہودیت و عیسائیت کی تعلیمات سے ماخوذ ہے۔ قرآن کریم میں بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں تورات، زبور اور انجیل کی تصدیق کا ذکر ہے کیونکہ جس طرح قرآن کریم اللہ تعالی کی طرف سے ہے، اسی طرح یہ کتب مقدسہ بھی من جانب اللہ ہی تھیں اور ان کا بنیادی پیغام بھی ایک ہی تھا۔ اسی لئے آج کے عہد نامہ قدیم و جدید جو کہ تورات و انجیل کی مسخ شدہ صورتیں ہیں، ان کے اندر ایسے معانی و مفہوم پائے جاتے ہیں جو قرآن کریم میں بھی موجود ہیں لیکن ایسا مواد قلیل ہے۔ ثانیا اگرحضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل شدہ وحی الہی تورات و انجیل سے اخذ شدہ ہوتیں تو لامحالہ عیسائیت کی بنیادی تعلیمات مثلاً تثلیث، کفارہِ گناہ، مصلوبیت مسیح اور نجات، اسلامی عقائد و تعلیمات کی بالکل ضد نہ ہوتیں بلکہ قرآن کی تعلیمات کے مطابق ہوتیں حالانکہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل ہونے والی وحی الہٰی ان عیسائی عقائد و تعلیمات کے علی الاطلاق بطلان پر مشتمل ہے۔ ثالثاً، جس طرح قرآن کریم میں زندگی کے ہر پہلو یعنی معاشرت، معیشت، سیاست، تعلیم وغیرہ کے لئے کامل تعلیمات و ہدایات کے اصول دیے گئے ہیں جبکہ عیسائیوں اور یہودیوں کے بقول تورات اور انجیل میں اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے، نتیجہ کے طور پر اگر کوئی بات ان کی کتب مقدسہ میں موجود ہی نہیں تو قرآن کریم ان کتب سے اخذ کی ہوئی کتاب کیسے ہوسکتی ہے؟ جو نظریہ جہاد کا قرآن کریم میں موجود ہے کیا اس کی ہلکی سی بھی نظیر تورات و انجیل میں موجود ہے؟ جب ایسا نہیں ہے تو یہ ایک واضح بات ہے کہ قرآن کریم نہ ہی تورات سے ماخوذ ہے نہ انجیل سے۔

مستشرقین کے مذکورہ بالا اعتراضات کے جواب میں خود ان پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اگر نبیِ بر حق نہیں ہیں اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل ہونے والی وحی اگرحق تعالیٰ کی طرف سے منزّل نہیں تھی تو نجران کے عیسائی علماء کا وفد جو مدینہ طیبہ میں مناظرے کے لئے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس آیا تھا وہ خود لاجواب ہوکر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عائد کردہ شرائط منظور کرکے خاموشی کے ساتھ واپس نجران کیوں لوٹ کر گیا؟ وہ کیوں رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اپنے اور اپنے مذہب کی حقانیت پر قائل نہ کرسکے؟ اسی طرح مدینہ منورہ اور اُس کے مضافاتی علاقوں مثلاً خیبر وغیرہ میں مقیم انتہائی چرب زبان، چالاک اور دھوکہ باز یہودی جنہیں خدا کے منظورِ نظر اور پسندیدہ ترین قوم ہونے کے زعم کے ساتھ ساتھ اپنی علمیت، قابلیت، صلاحیت اور لیاقت پر بے حد اعتماد تھا، وہ کئی بار اپنی بھر پور تیاریوں اور کوششوں کے باوجود نہ حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کولاجواب کرسکے، نہ قرآن کے مقابلہ میں تورات کی عظمت و برتری کو ثابت کرسکے اور نہ اپنے اس دعویٰ کو برحق ثابت کرسکے کہ وہ دنیا کی تمام دوسری اقوام کے مقابلے میں اب بھی خدا کی پسندیدہ قوم ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مستشرقین کا یہ دعوی محض ایک بے دلیل دعوی ہی ہے جو ان کی باطنی بدنیتی پر مبنی ہے ورنہ جمیع حقائق اس طرف ہی اشارہ کررہے ہیں کہ جو کچھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے قرآن پاک کی صورت میں بیان کیا وہ سب کا سب منزّل من اللہ تھا جس میں یہود و نصاری کا تعاون ہونا تو دور کی بات خود حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا اپنا کہا ہوا ایک حرف بھی شامل نہیں ہے۔


  • 1  ڈاکٹر حمیداللہ ،خطبات بہاولپور،ادارہ تحقیقات اسلامی ،اسلام آباد ،پاکستان،ص: 164
  • 2  القرآن، سورۃ ھود 49:11
  • 3  القرآن، سورۃ یوسف 102:12
  • 4  القرآن، سورۃ آل عمران 44:03
  • 5  القرآن، سورہ القصص86:28
  • 6  George Sale (1892), The Koran, Frederick Warne & Co., London, U.K. Pg. 48.
  • 7  القرآن، سورۃالنحل 16: 103
  • 8  القرآن، سورۃ الفرقان 25 :5

Powered by Netsol Online